میڈیا اور اخلاقیات

سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ ٹی وی چینلز پر ایسے اشتہارات دکھائے جا رہے ہیں


Muhammad Saeed Arain June 03, 2016

سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ ٹی وی چینلز پر ایسے اشتہارات دکھائے جا رہے ہیں جو کوئی شریف گھرانہ ایک جگہ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ اس موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی ٹی وی چینلز پر چلنے والے بعض پروگراموں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے پروگراموں کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے جو اگر حکومت طے نہیں کرسکتی تو قابل اعتراض پروگراموں کی حد اور ضابطہ کار بھی سپریم کورٹ کو واضح کرنا پڑے گا۔

پیمرا نے فاضل جج کے ریمارکس سے چند روز قبل ماہ رمضان کے احترام کا فیصلہ کیا اور چینلز پر چلنے والے ڈراموں، اشتہارات اور فیشن شوز پر توجہ دیتے ہوئے چیئرمین پیمرا نے مختلف چینلز پر چلنے والے جرائم کی کہانیوں پر مشتمل ڈراموں کا ایکشن لیا اور ماہ رمضان کے احترام کے لیے جرائم کی ڈرامائی تشکیل کو ٹیلی کاسٹ کیے جانے والے پروگرامز پر فوقیت دی اور ٹی وی چینلز کو رمضان کے دوران ایسے پروگرام نشر کرنے سے روک دیا ہے اور حکم پر عمل نہ کرنے پر کارروائی کی بھی ہدایت کر دی ہے جب کہ رمضان شوز کے لیے کچھ نہیں کہا گیا۔

سپریم کورٹ میں بھی پیمرا کی کارکردگی پر اظہار تشویش ہوا ہے اور پیمرا کو کچھ ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ پیمرا کے وکیل نے بھی اس موقع پر عدلیہ کی شکایت کی کہ پیمرا ایکشن لے کر کسی چینل کے خلاف جرمانہ عائد کرتا ہے تو وہ چینل عدلیہ سے حکم امتناعی لے آتا ہے اور پیمرا کو مزید کارروائی روکنا پڑتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک پاکستان میں کسی نے ٹی وی چینلز کے ایسے پروگراموں پر توجہ نہیں دی تھی جو چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے دی ہے، جو بنیادی طور پر صحافی ہیں۔

ملک ابھی تک کسی ایسے چینلز سے بھی محفوظ ہے جس کے تمام پروگرام جرائم سے متعلق ہوتے ہوں مگر ٹی وی چینلز پر چند سال قبل مختلف جرائم خاص طور پر اغوا، اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں، چوریوں، دولت ہتھیانے کے لیے ہونے والے قتل، پسند کی شادی کے لیے گھر سے فرار اور پھر ایسا کرنے والوں کے انجام ایک کے بدلے کئی کئی قتل، دشمنیاں پیدا ہو جانے، مختلف وجوہات کے باعث ہونے والی قتل کی وارداتوں کے سراغ لگائے جانے ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے دیگر چینلز نے بھی یہ سلسلے شروع کر دیے۔

ایسے ڈراموں میں قتل کیے جانے کے منفرد طریقے بھی منظر عام پر لائے جاتے ہیں اور اب ڈراموں میں ٹی وی پر وہ کچھ بھی دکھایا جا رہا ہے جو ماضی میں فلموں میں بھی نہیں دکھایا جاتا تھا۔ جرائم کی ڈرامائی تشکیل میں پولیس افسروں کی اچھائی کم اور برائیاں زیادہ دکھائی جا رہی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے اور پولیس کا کردار شرمناک ہے۔

ٹی وی کی عام خبروں میں بھی اب یہ دکھایا جا رہا ہے کہ کس طرح ایک نوجوان بھائی اپنی جوان بہن کو محض اس بنیاد پر قتل کر دیتا ہے کہ وہ کسی سے موبائل پر بات کر رہی تھی اور اس نے بھائی کے پوچھنے پر نہ بتایا تو بھائی نے چھری سے شدید زخمی کر کے زمین پر تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود موبائل پر مصروف رہا۔ قتل کر کے مقتولین کی شناخت چھپانے کے لیے لاشوں کو جلا دینے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں اور قتل کی واردات کو حادثہ یا اتفاق ظاہر کرنے کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔

عید بقر عید کے موقع پر ہر قسم کے پلاسٹک سے بنے ہوئے ہتھیاروں کی فروخت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور عید کے موقع پر چھوٹے بڑے بچوں کے ہاتھوں میں یہ کھلونا نما ہتھیار اب عام نظر آتے ہیں اور اصلی نظر آنے والے ان ہتھیاروں کو دکھا کر ڈکیتی کی وارداتیں بھی ہونے لگی ہیں اور پکڑے جانے پر مذاق قرار دے دی جاتی ہیں۔ ٹی وی چینلز پر جرائم کے واقعات کی جو ڈرامائی تشکیل ہوتی ہے اس میں شایقین کی دلچسپی بڑھانے کے لیے مرچ مسالہ بھی بڑھایا جاتا ہے اور کہیں سو فیصد سچائی نہیں دکھائی جاتی اور واقعات کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

بھارت میں کئی عشروں پہلے جرائم سے متعلق رسالے شایع ہوا کرتے تھے اور بعد میں بھارت کا ڈرامہ سی آئی ڈی بھی پاکستان میں دیکھا جانے لگا، جس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے متاثر ہو کر چینلوں پر جرائم کے واقعات اور طریقوں کے پروگرام بڑھ گئے ہیں، جن سے آج کے نوجوان اور بچے متاثر ہو رہے ہیں اور ان کی ایسے پروگراموں میں دلچسپی بڑھ گئی ہے جس سے ان کی سوچ بھی منفی ہوتی جا رہی ہے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ کرائم اسٹوریز سے متاثر ہو کر بعض جگہوں پر ڈراموں میں دکھائی جانے والی ریہرسل بھی کی گئی، بعض نوجوان قانون کی گرفت میں بھی آ چکے ہیں مگر نوجوانوں میں ایڈونچر اور اخلاقی جرائم بہت تیزی سے بڑھے ہیں جس کی اہم وجہ موبائل اور ٹی وی پروگرام ہیں۔ ان پروگراموں میں جرم کرنے کے بعد ملزم کے قانون سے بچنے کے طریقے بھی نمایاں کیے جاتے ہیں جس کی تقلید انجام کی پروا کیے بغیر کی جاتی ہے۔

جنسی زیادتی کیس چند سال قبل کم ہی ہوتے تھے مگر اب ہر طرف سے زیادتیوں کی خبریں بڑھ رہی ہیں اور پنجاب کے بعض علاقوں سے تو ناقابل یقین حد تک شرمناک خبریں منظر عام پر آئی ہیں اور ملزم گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر یہ خبریں نمایاں جگہ پا رہی ہیں اور پھر ملزموں کے فیصلے جلد نہیں ہو رہے یا اگر برسوں میں ہوتے بھی ہیں تو وہ چھوٹ جاتے ہیں یا انھیں ملنے والی سزائیں عبرتناک نہیں ہوتیں، جن سے دوسروں کو سبق حاصل ہو سکے اور ان معمولی سزاؤں کی چینلوں پر تشہیر بھی نہیں ہوتی اور نہ صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں سخت سزائیں دلانے میں مخلص ہیں کہ کڑی سے کڑی سزا کے لیے قانون ہی بنا دیں تا کہ لوگوں میں خوف پیدا ہو ۔

پیمرا نے یکم رمضان المبارک سے جرائم کی ڈرامائی تشکیل والے پروگرام نشر کرنے پر پابندی لگا دی ہے اور تمثیل نگاری پر مبنی پروگرام روک دیے ہیں اور ٹی وی چینلز پر جرائم کی ڈرامائی تشکیل کے پروگراموں کے علاوہ خودکشی اور زیادتی کے مناظر، زیادتی کا شکار افراد کے انٹرویو اور تصاویر دکھانے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے جو صرف رمضان میں ایک ماہ کے لیے ہو گی اور باقی 11 ماہ ٹی وی چینل یہ سب دکھانے کے لیے آزاد ہوں گے

۔ پیمرا کے اس فیصلے کو خوش آیند اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پابندی صرف رمضان المبارک کے لیے ہے جب کہ ایسے پروگراموں پر مستقل پابندی کی اشد ضرورت ہے، جو پروگرام سرکاری ٹی وی پر ممنوع ہیں وہ نجی چینلز کے لیے بھی ممنوع ہونے چاہئیں اور محض ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں ایسے پروگراموں پر پابندی ضروری ہے جس سے جرائم میں مسلسل اضافہ اور نئی نسل بگڑ رہی ہے۔ پیمرا کی عدلیہ سے متعلق شکایات پر بھی سپریم کورٹ کو توجہ دینی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ فحاشی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پیمرا نے اپنی نئی ہدایات میں بھی فحاشی پر توجہ نہیں دی جس کے باعث خرابیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں