بھلے پکوڑیوں سے آگے

بدقسمتی سے صدرِ پاکستان کا مصرف اب اتنا رہ گیا ہے کہ انکی پتلون، ٹائی کی کھلی اڑا کر بات بھلے پکوڑیوں پر ختم کردی جائے

صدرِ پاکستان کے خطاب کو سنجیدگی سے لیا جائے تو انہوں نے پارلیمان کوصحیح راہ دکھائی ہے اب اس کے بعد کا کام ریاست کے اس اہم ترین ستون نے سر انجام دینا ہے۔

سیانے کہہ گئے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح تمام گول اور پوپلی چیزیں بھلے پکوڑیاں نہیں ہوتیں! پاکستان کا صدرِ مملکت گو کہ ریاست کا آئینی سربراہ اور وفاق میں اتحاد کی علامت ہے لیکن یہ اوصاف اور محدود اختیارات رکھنے کے باوجود نوجوانانِ پاکستان انہیں کسی بھی قسم کی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتے۔ جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جو قصے سن کر یا دیکھ کر یہ پود پلی بڑھی ہے اُن میں صدرِ پاکستان 582B کی ننگی تیز دو دھاری تلوار ہاتھ میں تھامے اونچی شاہانہ کرسی پر براجمان ہیں جبکہ سامنے تپتے میدان میں ناتواں، کمزور، بیساکھیوں پر کھڑی، غیر جمہوری ماحول میں ملکی مسائل سے نبرد آزما ہوتی حکومت اپنے تیئں تمام شراکت داروں کے ذوق کی تسکین کے لئے رقصاں ہے۔ صدر ایسا بلوان کہ اِدھر حکومت کی کوئی حرکت ناگوار گزری، اُدھر کرسی چھوڑی، اس کو ایڑھ لگائی اور حکومت کی گردن اڑا کر نئے انتخابات کا ڈنکا پیٹ ڈالا۔

آج سوشل میڈیا کے غیر سنجیدہ مگر انتہائی پراثر دور میں صدرِ پاکستان کا مصرف پاکستانی عوام خصوصاً سوشل میڈیا مجاہدین کے لئے محض اتنا رہ گیا ہے کہ صدر کی تصاویر کو مضحکہ خیز جملوں سے بھر کر ان کی پتلون، ٹائی اور وضع قطع کی کِھلی اُڑا کر بات بھلے پکوڑیوں پر ختم کردی جائے۔ اس بات کو سمجھے بغیر کہ آج کا صدرِ پاکستان نہ ہی ڈکٹیٹر کی قوت رکھتا ہے اور نہ ہی 582B کی تلوار! ریاست کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے ہر پارلیمانی سال کے آغاز میں پارلیمان کو قومی پالیسیوں سے متعلق سمت دکھانا اس عہدے کی اہم آئینی ذمہ داری ہے جسے سنجیدگی سے برتنا چاہیے۔ صدرِ پاکستان نے اپنے حالیہ خطاب میں دو اہم ترین نکات کی جانب پارلیمان کی توجہ ضرور مبذول کرائی ہے۔ ایک معیشت کی بحالی کے حوالے سے سیاسی اتفاقِ رائے اور اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل جبکہ دوسرا دہشت گردی و شدت پسندی کے خلاف ایک نئے قومی بیانیے کی تشکیل!

سپاہِ سالار پاکستان کے مطابق پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ 99 فیصد تک ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے جس کی بنیادی وجوہ آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان ہی نظر آتیں ہے۔ سپاہ سالار کا دعوی سر آنکھوں پر کیونکہ بلاشبہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ضرور ہوئی ہے! لہذا اعداد و شمار کی بحث میں الجھے بغیر سوال یہ ہے کہ بقایا 1 فیصد بچی کھچی دہشت گردی کا سدِباب کیونکر ممکن ہوگا؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی مخصوص وقت میں دہشت گردی کے واقعات میں 100 فیصد تک کمی بھی ہوجانا اس ناسور کے مکمل خاتمے کی دلیل شمار کی جاسکتی ہے؟ جسم کے سرطان زدہ حصے کے علاج کا طریقہ یہ ہے کہ سرطان زدہ حصے کو کاٹ کر الگ کردیا جائے یا اس حصے میں پیدا ہوتے سرطان زدہ خلیوں کو تابکاری کے ذریعے فوری ختم کیا جائے اور تابکاری کے بعد بچے کھچے بیمار خلیوں کو پھیلنے سے روکنے کے لئے کیموتھراپی کا استعمال کیا جائے۔ اس تیز رفتار لیکن تکلیف دہ تابکاری عمل اور کیمو تھراپی کے باوجود سرطان زدہ خلیے جسم سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے۔

مزید براں یہ مروج طریقہ علاج سرطانی خلیوں کے ساتھ ساتھ جسم کے صحت مند خلیے بھی تباہ کردیتا ہے جس سے جسم کی قوتِ مدافعت کافی کم ہوجاتی ہے۔ لہذا جسم کے اندر ایسا ماحول پیدا کرنا پڑتا ہے جو دورانِ علاج مکمل ختم ہوچکے سرطانی خلیوں کے دوبارہ پیدا ہونے اور پنپنے کے لئے سازگار نہ ہو اور قوتِ مدافعت کو تقویت بخشے، بصورتِ دیگر سرطان لوٹ آنے کا امکان بہت زیادہ رہتا ہے۔ اس صورت میں سرطانی خلیے کمزور قوتِ مدافعت کے فطری ردِعمل کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بچا کچھا سرطان، چاہے 1 فیصد بھی ہو، بڑھ کر بھرپور قوت سے حملہ آور ہوتا ہے اور جسم پر ایک بار پھر حاوی ہوجاتا ہے۔ سرطان لوٹ کر آئے تو اسے قابو کرنا ہرگز آسان نہیں رہتا کیونکہ جسم بار بار تابکاری اثرات کی مار کھانے کی سکت نہیں رکھتا ہے۔

جمہوری نظام کا تسلسل، معاشی استحکام اور شدت پسندی کے خلاف غیر مبہم، شفاف و مفصل قومی بیانیے کی تشکیل معاشرے میں ایسا سازگار ماحول پیدا کرنے کے لئے بنیادی اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں جو دہشت گردی کے سرطان کو بھرپور قوت سے مسلنے کے بعد مستقل و طویل مدتی بنیادوں پر قابو کرنے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہو۔ ان اجزاء میں بھی ریاست کے رگ و پے میں سرائیت کرچکے قومی بیانیے کے اثرات کے برخلاف ایک ایسے نئے اور مربوط قومی بیانیے کی تشکیل بلاشبہ زیادہ مشکل عمل ہے جو ریاست کے مفادات کو گروہی مفادات سے علیحدہ یا قطع تعلق کرسکے۔

ادارے وسیع تر ریاستی مفادات کے پیروکار ہوں نہ کہ ریاست گروہی مفادات کی محافظ بن بیٹھے جس طور 80ء کی دہائی میں تشکیل پائے قومی بیانیے نے نہ صرف شدت پسندی و عدم برداشت و دہشت گردی کی بنیاد رکھی بلکہ معاشرتی، سیاسی اور سماجی ریشے کو تار تار کردیا۔ اسی قومی بیانیے کے اثرات کے تحت ریاست گروہی مفادات کے تحفظ سے ایک قدم آگے بڑھ کر شخصی مفادات اور نظریات کی امین ٹھہری اور شہریوں کی جانب اپنے فرائض سرانجام دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔


فی الوقت جمہوری نظام موجود ہے جس کے تسلسل سے چلتے رہنے کی امید رکھی جا سکتی ہے، معیشت کی بنیاد پر سیاست کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، اب اس کے بعد شدت پسندی کے خلاف ایک ایسا قومی بیانیہ تشکیل دینا وقت کی ضرورت ہے جو ماضی کی سنگین غلطیوں کو گلوریفائی کرنے کے بجائے اس کے مضر ترین اثرات پر روشنی ڈالے اور اٹھائے گئے نقصانات کی نشاندہی کرے۔ ایک ایسا قومی بیانیہ درکار ہے

  • جو ریاست کی جانب سے مذہب یا مسلک کی بنیاد پر کسی شخص کے لئے کوئی رعایت پیدا نہ کرے

  • جو ریاست کی شہریت کی اساس پر اکثریت اور اقلیت کی تفریق ختم کرے

  • جو گروہوں اور شخصیات کے مفادات کو کسی خاطرمیں نہ لاتا ہو

  • ایسا غیر معمولی قومی بیانیہ جو امن، بھائی چارے، مساوات، برداشت اور پاکستانیت کے جذبے کو فروغ دے۔

  • جو مذہب اور ریاستی امور کے درمیاں واضح لکیر کھینچ ڈالے، ریاست کے لئے اپنی سرحدوں کی حدود سے باہر عدم مداخلت کی پالیسی کا پرچار کرے

  • وہ قومی بیانیہ جو شدت پسندی کے خلاف زیرو ٹالیرنس کا استعارہ ہو


اِس لیے ذاتی رائے میں صدرِ پاکستان کے خطاب کو سنجیدگی سے لیا جائے تو انہوں نے پارلیمان کوصحیح راہ دکھائی ہے اب اس کے بعد کا کام ریاست کے اس اہم ترین ستون نے سر انجام دینا ہے۔

[poll id="1134"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story