سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں چوتھی قسط

پنٹا سنان بیچ پررش بہت ہوتا ہےبالکل کراچی کی مانند لیکن یہ آلودہ نہیں کیونکہ یہاں لوگ سمندرکوگھرکی مانند صاف رکھتےہیں

لنکاوی چونکہ جزیرہ ہے اس لئے سی فوڈ یہاں کے مینیو کا لازمی جزو ہے، پھر ان کے سی فوڈ پکانے کا طریقہ مختلف ہے جس سے ایک مخصوص بو پیدا ہوتی ہے۔ فوٹو:فائل

کواہ میں ہوٹل:

ہمارا ہوٹل کواہ (kuah) میں گرینڈ کانٹی نینٹل ہوٹل کے ساتھ ہی واقع تھا جو ایئرپورٹ سے آنے والی مین جلان پیدانگ روڈ پر واقع ہے۔ کواہ لنکاوی جزائر کا مرکزی شہر ہے۔ کواہ جیٹی سے ارد گرد کے قریبی جزائر پر جانے کے لئے بحری ٹرانسپورٹ دستیاب ہوتی ہے۔ لنکاوی، کیدھا اسٹیٹ کا حصہ ہے جو تھائی لینڈ کے باڈر سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لنکاوی سے تھائی لینڈ کے جزیرے پھکٹ کے لئے ہوائی سروس دستیاب ہوتی ہے، لنکاوی کی آبادی 65 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ لنکاوی اور اس کے ساتھ 99 چھوٹے چھوٹے جزائر کا رقبہ تقریباََ 10 ہزار ہیکٹر ہے۔

ذکر ہو رہا تھا کواہ کا جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ علاقہ چند سڑکوں پر مشتمل ہے جو ہوٹلوں اور شاپنگ سے زیادہ بزنس کمپلیکسوں کا گڑھ ہے۔ ہم جب ہوٹل میں آئے تھے تو اس وقت کافی وقت تھا کہ ہم لنکاوی کے ایک علاقے کا انتخاب کرکے اس کی سیر کرسکتے تھے، لیکن خواتین کا کہنا تھا کہ سفر چاہے طویل ہو یا مختصر تھکا دیتا ہے۔ اس لئے لباس تبدیل کرنا اور ہار سنگھار کرکے فریش نظر آنا ان کا حق ہے۔ ان کے اس نکتہ سے اتفاق کرکے ہم نے بھی مصروفیت ڈھونڈ لی اور کرسی کھڑکی کے قریب کرکے بیٹھ گئے جس سے باہر جلان پیدانگ روڈ کا ٹریفک بھی نظر آنے لگا اور دور دور تک ہمارے ہوٹل کے سامنے والی دکانیں اور ان کے پیچھے سرسبز پہاڑی سلسلہ تھا، یہ منظر آنکھوں کو بہت بھلا لگ رہا تھا۔

ایک اور بات جو ہم سب نے محسوس کی وہ یہ کہ ہوٹل میں داخل ہوں تو ایک خاص قسم کی بُو کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن لفٹ میں داخل ہوکر جب اوپر کمروں کی جانب جائیں تو اس بُو کا نام و نشاں بھی نہیں رہتا۔ ہم نے غور کیا تو پتہ چلا کہ سی فوڈ جہاں جہاں بھی تیار کیا جاتا ہے وہاں ایسی ہی بُو پائی جاتی ہے۔ جن ہوٹلوں میں ڈائنگ ہال فرنٹ پر نہیں ہیں وہاں یہ بو نہیں پائی جاتی۔ لنکاوی چونکہ جزیرہ ہے اس لئے سی فوڈ یہاں کے مینیو کا لازمی جزو ہے، پھر ان کے سی فوڈ پکانے کا طریقہ مختلف ہے کہ یہ بُو پیدا ہوتی ہے۔

بُو کا جو احساس ہمارے اندر بس گیا تھا اسے باہر کے خوش کن منظر نے اڑا دیا تھا۔ سامنے کی دکانوں کے درمیاں سے راستے اوپر کی جانب جا رہے تھے جہاں پہاڑی سلسلے پر دور دور کوئی مکان نظر آ رہے تھے اور یہ راستے یا پگڈنڈیاں انہی کی جانب جا رہے تھے۔ یہاں کے مقامی باشندوں کے نقش ونگار انگریز، تھائی اور جاپانی کا مکسچر محسوس ہوتے ہیں۔ لنکاوی میں تقریباََ سو، سوا سو سال پہلے یہ علاقہ برطانیہ کی کالونی تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مختصر عرصے کے لئے یہ علاقہ تھائی لینڈ کے زیر اثر بھی رہا تھا جب جاپان نے اس علاقے پر قبضہ کیا۔ ان قوموں کے کھانوں اور ثقافت کے اثرات اب بھی اس علاقے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔


اب آپ اٹھیں گے بھی یا یہیں بیٹھے بیٹھے لنکاوی دیکھتے رہیں گے؟ آپ کی وجہ سے ہم بھی اب تک کہیں نہیں نکل سکے، ہم کب سے تیار بیٹھے ہیں، بیگم کی یہ بات سن کر ہم نے کچھ کہنے کا سوچا تھا کہ نظر سامنے پڑ گئی جہاں بیٹا عدیل کچھ کہنے کے بجائے مسکرائے جا رہا تھا۔ ہم نے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکے، کہ نا کہنے میں ہی عافیت تھی۔ باہر نکلے تو احساس ہوا کہ خواتین نے کافی وقت لے لیا تھا فریش ہونے میں۔ عدیل کہنے لگا، آج تو پھر یوں کرتے ہیں کچھ تو یوں ہی لنکاوی گھومتے ہیں اور پھر کسی بیچ پر ہو آتے ہیں۔ بیچ پر سورج غروب ہونے کا منظر بہت ہی بھلا لگتا ہے، بیچ کے اردگرد کسی ہوٹل سے کھانا کھا لیں گے۔ عدیل نے گاڑی مین جلان پیدانگ روڈ پردوڑا دی۔ عدیل کا خیال تھا کہ اسی روڈ پر چلتے چلتے ہم کسی نا کسی بیچ پر پہنچ جائیں گے۔ آج صرف تھوڑی دیر بیچ پر ہوکر آتے ہیں پھر کل پلان بنا کر لنکاوی کی قابل دید چیزیں دیکھیں گے۔

پھر یوں ہوا کہ یونہی چلتے چلتے اور سڑکوں پر لگے بورڈ پڑھتے پڑھتے ہم جا پہنچے پنٹا سنان بیچ پر۔ یہ بھی ایک خوبصورت بیچ ہے لیکن یہاں رش بہت ہوتا ہے بالکل کراچی کی مانند، تاہم یہ بیچ کراچی کے ساحل کی مانند آلودہ نہیں ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ یہاں لوگ سمندر کو اپنے گھر کی مانند صاف رکھتے ہیں اور ہمارے ہاں شاید ساحل سمندر خود کچرا اگلتا ہے کیونکہ کراچی کے شہری یا پاکستان بھر سے جو بھی ساحل سمندر پر جاتا ہے وہ تسلیم نہیں کرتا کہ اس نے اشیائے خوردونوش استعمال کے بعد کچرا سمندر میں پھینکا ہے۔

خیر ہم ذکر کر رہے تھے کہ لنکاوی کے ساحل کی طرف جانے والی سڑک پر دونوں جانب ہوٹل موجود ہیں، ساحل سمندر پر چند گھڑیاں گزار کر ہم واپس آگئے۔ پہلے خیال تھا کہ سمندر کے نزدیک کسی ہوٹل پر کھانا کھائیں گے لیکن اسے ملتوی کرتے ہوئے ہم اپنے ہوٹل پہنچے، خواتین کو کمرے میں پہنچایا اور ریسٹورنٹ سے کھانا لینے چلے گئے، بیٹا عدیل میرے ساتھ تھا کہ اسے ان ہوٹلوں سے زیادہ شناسائی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story