قدرتی وسائل سے بنائیں نیا پاکستان

ہمیں مغرب کا ’’بایو ویلی‘‘ کا تصوراپنانا ہوگا


شبینہ فراز June 05, 2016
ہمیں مغرب کا ’’بایو ویلی‘‘ کا تصوراپنانا ہوگا فوٹو : فائل

مغرب میں '' بایو ویلی'' کے تصور پر کام جاری ہے۔ یعنی فطرت کے قریب رہتے ہوئے ماحول کو نقصان پہنچائے بغیرقدرتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا۔ یہ کام ہمارے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔ ہم بھی اپنے نظام میں موجود وسائل سے فائدہ اٹھاکر اپنی معیشت کو ترقی کی راہ پر گام زن کرسکتے ہیں۔ تھوڑی سی کوشش سے ہم اپنی تقدیر خود لکھ سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے پاکستان میں کیا کام ہوسکتا ہے؟

گذشتہ کچھ دہائیوں میں ''سبز انقلاب'' کی بدولت دنیا کے غذائی پیداوار کے نظام میں خاصی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ''سبز انقلاب'' سے نہری آب پاشی والے علاقوں کے کسانوں کو خاصا فائدہ بھی ہوا ہے، لیکن کچھ نچلے طبقے کے کاشت کار اس فائدے سے محروم ہی رہے ہیں۔ خصوصاً پاکستان میں نہری نظام اور چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت دنیا کے دیگر ممالک مثلا مصر، ترکی اور ایران وغیرہ سے کم ہے۔ اس صلاحیت میں اضافے کی غرض سے فصلوں کے لیے معیاری بیجوں کا استعمال، کھیتوں میں آب پاشی کے جدید اور کم خرچ طریقے مثلاً فوارہ اورقطرہ آب پاشی وغیرہ سے پانی کا ضیاع کم کیا جاسکتا ہے۔ روزگار کے نئے مواقع سے بھی زراعت اور خصوصا پانی پر دباؤ کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طر ح چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ ، مقامی افراد کے شراکتی منصوبوں سے پانی کی مقدار میں اضافہ اور ساتھ ہی حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کے لیے بھی ماحول بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

پچھلی چند دہائیوں کے دوران کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات کے استعمال، آب پاشی کی وسعت اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام اور چند نئی اقسام کے پودوں وغیرہ کو عام کرنے کی کوششوں کے لیے اس سبز انقلاب میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکمت عملی کی بدولت پچھلے پچاس سال کے دوران غذائی پیداوار میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں فاقہ کشی کا خاتمہ ہوگیا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سبز انقلاب دنیا کے کئی ممالک میں غربت کے خاتمے میں کام یاب نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ سبز انقلاب کی ٹیکنالوجی اب دنیا کی غذائی پیداوار میں اہمیت کی حامل رہے گی، لیکن یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اس سبز انقلاب کی وجہ سے عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوا ہے، غربت کا پھیلاؤاور بھی بڑھ گیا ہے اور اس ٹیکنالوجی نے ماحولیاتی تنزلی میں بھی اضافہ کردیا ہے۔

اس جدید کاشت کاری کے منفی اثرات میں غذائی اجناس کا تحفظ اور ماحولیاتی تنزلی یا ماحول پر منفی اثرات لوگوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی علاقوں، خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں مصنوعی یا کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات کے استعمال کے بغیر پیدا کی جانے والی غذائی اشیا زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ ایسی اشیا کی مانگ میں خصوصاً یورپ، شمالی امریکا اور چند ایشیائی ممالک میں بھی اضافہ ہورہا ہے جو کیمیائی کھاد کے بغیر قدرتی یا گوبر کی کھاد کی مدد سے پیدا کی جاتی ہیں۔ 1998 اور 2002 کے درمیان آرگینک طریقوں سے (یعنی قدرتی کھاد وغیرہ کے استعمال سے) پیدا کی جانے والی غذائی اجناس کی شرح 17.7 فی صد تھی۔ 2004 میں ایسی اشیا کی مالیت 27.8 ملین (یعنی دو کروڑ اٹھتر لاکھ) ڈالر ہوگئی۔ ایسی اجناس کی سب سے زیادہ مانگ یورپ اور شمالی امریکا میں ہے اور ان ممالک کے بعد برازیل اور مشرق وسطیٰ کا نمبر آتا ہے۔

ہمارے ہاں دیسی یا گوبر کی کھاد وافر مقدار میں دست یاب ہے، جس کے استعمال کے ذریعے کاشت کاری کے فوائد کے حصول اور ماحول کی بہتری کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماحولیاتی نظام سے متعلق تحقیقات، معلومات اور ٹیکنالوجی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے واقف ہوسکیں۔ کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات کے استعمال کو مکمل طور پر ترک کرکے زراعت میں گوبر کی دیسی یا قدرتی کھاد کے استعمال کو عام کرنے کے لیے ایسے پیشہ ور ماہرین زراعت کی ضرورت ہوگی جو مقامی آبادیوں اور لوگوں کو نئے کاشت کاری اور کاروباری طریقوں سے روشناس کرائیں، تاکہ مقامی طور پر غذائی اشیا کی پیداوار میں اضافے، ایک مختلف اور لچک دار نظام، زراعت کے قیام اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ تحقیقی نتائج اور تربیتی توسیع کے ذمے دار خود بھی مقامی حالات سے پوری طرح واقف ہوں۔اس کے علاوہ ان کاموں کے لیے چھوٹے پیمانے پر سرمائے کی فراہمی بھی بہت ضروری ہے۔

انسانیت کی بھلائی اور معاشی ترقی کے لیے بہتر ماحولیاتی نظام ضروری ہے اور حیاتیاتی تنوع ایک بہتر ماحولیاتی نظام کی بنیاد ہے۔ حیاتیاتی تنوع اور بہتر ماحولیاتی نظام معاشی ترقی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں، لیکن چوںکہ ماحولیاتی نظام کے تحت آنے والی بہت سی خدمات کی خریدوفروخت بازاروں میں نہیں ہوتی۔ اس لیے دیگر تجارتی اشیا کی طرح ان کی قیمت کا تعین ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی سچائی بھی سامنے نہیں آتی، اور اگر منڈیوں کو ان کے حال پر (آزاد) چھوڑ دیا جائے تو نہ تو صحیح ماحولیاتی حقیقت عیاں ہوگی اور نہ ہی افراد اور اداروں، حتیٰ کہ حکومت تک کو تحفظ پسندانہ ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع کی مفید انداز میں استعمال کرنے کے لیے مناسب ترغیبات حاصل ہو سکیں گی۔

1992 میں ریو (Rio) میں منعقدہ کانفرنس میں اقوام متحدہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حیاتیاتی تنوع کو تحفظ دینے اور نقصانات کو 2010ء تک مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں پر کام کیا جائے۔ حیاتیاتی تنوع کا کنوینشن (کنوینشن آف بائیو لاجیکل ڈائیورسٹی) جسے CBD کہا جاتا ہے، ریو کے تین کنوینشنوں میں سے ایک ہے۔اس کنوینشن کو ایک انتہائی متوازن اور قانونی بین الاقوامی معاہدہ قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے تحت تمام شریک قوتوں کو حیاتیاتی تنوع کی بقا یا تحفظ، قدرتی وسائل کے تحفظ پسندانہ استعمال اور حاصل شدہ فوائد کو مساوی طور پر تقسیم کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔

حالیہ چند سالوں میں قدرتی یا دیسی یا گوبر کی کھاد یا آرگینک طریقوں سے پیدا کی جانے والی اجناس کی برآمد میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ 1995 میں ایسی غذائی اجناس کی کُل برآمدی مالیت تین لاکھ ڈالر تھی جو 1999 میں پندرہ ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ ڈالر ہوگئی اور 2002 میں اس کی مالیت بڑھ کر پچاس ملین یا پانچ کروڑ ڈالر ہوگئی۔ آج کے زمانے میں دنیا میں خوراک کی کُل پیداوار ضرورت سے زیادہ ہے، لیکن خوراک کی فراہمی کے ساتھ اس کی مناسب حفاظت کا کوئی نظام موجود نہیں۔گھریلو سطح پر خوراک کی حفاظت غربت کی وجہ سے سب سے بڑی رکاوٹ لگتی ہے اور غربت کا خاتمہ ایک پیچیدہ ترقیاتی معاملہ ہے۔

اس وقت پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے اور کیمیائی کھاد کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔گھریلوکھاد کی مدد سے کاشت کاری پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بے انتہا فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس ذریعۂ کاشت میں ہمیں افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے ملک میں وافر مقدار میں اور نسبتاً بہت ارزاں ہے۔ نیز یہ کہ تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ ترقی پزیر ممالک میں روایتی کھیتی باڑی سے آرگینک (Organic) فارمنگ (دیسی یا قدرتی کھاد کی مدد سے کی جانے والی کاشت) میں منتقلی بہت آسان ہے۔

دنیا بھر میں آرگینک فارمنگ (دیسی یاگھریلو یا قدرتی کھاد کی مدد) سے حاصل ہونے والی پیداوار میں سال بہ سال اضافہ ہورہا ہے۔ 1995 میں ایسی پیداوار کی برآمدی لاگت (یا برآمد) صرف تین لاکھ ڈالر تھی جو 1999 میں بڑھ کر پندرہ ملین (یعنی دیڑھ کروڑ) ڈالر اور 2002ء میں پچاس ملین (گویا پانچ کروڑ) ڈالر ہوگئی۔ ترقی پزیر دنیا کی ستر فی صد سے زائد آبادی کا انحصار اب بھی ادویات کے متبادل نظام پر ہے۔ یعنی وہ ترقی پزیر معاشرے میں مقبول عام ادویات کے بجائے دیگر ذرائع اور متبادل ادویات کو پسند کرتے اور انہیں استعمال کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اہم وسیلہ ہمارے ادویاتی پودے ہیں جن کی عالمی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ مختلف امراض کے لیے تیار کی جانے والی ادویات میں استعمال ہونے والے پودوں کے سلسلے میں پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارا ملک ادویات میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں اور پودوں کے آٹھ بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ اس صنعت یا کاروبار کو وسعت دینے کے لیے مختلف سطحوں پر دوسروں کے ساتھ معاونت اور شراکت داری کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں باہمی معاونت کی بنیاد پر علاقائی اور بین الاقوامی اتحاد قائم کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر وسائل کے تحفظ پسندانہ استعمال کے فوائد معاشرے کے لوگوں کی شرکت اور معاونت سے بہ خوبی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

اس اہم مقصد کے لیے غیرسرکاری اداروں اور تنظیموں کو بھی دیسی کھاد یا آرگینک فارمنگ کی مقبولیت کے لیے کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔ ایک صحیح اور بامعنی معاونت اور شراکت سے ماحولیاتی اور حیاتیاتی تنوع کی نگہ داشت اور تحفظ کے مقاصد زیادہ آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس کے ذریعے ادویات میں استعمال ہونے والے پودوں وغیرہ کی بطور خام مال بین الاقوامی تجارت میں بھی خاطر خواہ فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن ان تمام مقاصد کے حصول کی خاطر سرکاری پالیسیوں پر بامقصد عمل درآمد اور برآمد کنندگان کو مناسب ترغیبات دینے کی ضرورت ہے۔ تھوڑی سی کوشش سے یہ وہ صنعت ثابت ہوسکتی ہے جس میں ہمارے بے روزگار نوجوان ہزاروں کی تعداد میں روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔

ان شعبوں میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کو استعمال کر کے دیسی یا قدرتی (گوبر کی) کھاد کے استعمال سے گھریلو اور نباتاتی (یا جڑی بوٹیوں ) پودوں سے تیارکردہ اشیا کو دنیا بھر میں متعارف اور مقبول کراکے پاکستان کی معیشت کو بہت وسعت دی جاسکے گی۔ اس سے پاکستان کی سبز معیشت کو بھی وسعت دینے میں مدد ملے گی۔ ان اقدامات کے ذریعے قدرتی وسائل اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ پسندانہ اور محتاط استعمال کے علاوہ سبز معیشت کی ترقی اور غربت کے خاتمے یا کمی اورملک کی بے پناہ اقتصادی صلاحیتوں کو آزاد چھوڑ کر معاشرے کو اپنی غذائی ضروریات کے حصول اور کاشت کے نظام یا طریقوں کو ترقی دینے اور اپنی پیداوار کے ذریعے دولت کمانے میں مدد ملے گی۔

اس وقت دنیا بھرکی نظریںہمالیائی خطے کے ممالک اوران کے آبی وسائل پر مرکوز ہیں۔ یہ خطہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے کئی اہم ترین دریا اسی خطے کی پگھلتی برف سے رواں دواں رہتے ہیں۔ اس خطے کے دریائی علاقوں کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان، افغانستان،بنگلادیش، بھوٹان، انڈیا، چین اور نیپال شامل ہیں۔

دنیا کی 21 فی صد آبادی ان ہی ملکوں میں آباد ہے۔ یہی خطہ دیگر جنوبی ایشیائی دریاؤں کے ساتھ ساتھ دو بڑے دریایعنی عظیم دریائے سندھ اور برہم پترا کا منبع بھی ہے۔ ہمالیہ سے پھوٹتے پانی کے یہ سرچشمے یعنی برہم پترا، گنگا، سندھ، میگھنا 1.5بلین یعنی ڈیڑھ ارب لوگوں کی زندگیوںکو رواں دواں رکھتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اس خطے کے لوگ اور حکومتیں مشترکہ طور پر ایسے اقدامات کریں جن سے اس علاقے کے آبی وسائل مزید منظم ہوں اور زیریں علاقوں میں رہنے والے بھی اس سے مستفید ہوں، شاید یہی بقا کا راستہ ہوگا۔

یہ امر مسلم ہے کہ پانی نہ صرف حیاتیاتی نمو کے لیے ایک جزو لازم ہے بل کہ ماحول کو متناسب اور متوازن رکھنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ صوبہ بلوچستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے آبی ذخائر کا جس بے دردی سے ضیاع کیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ نتیجتاً اس صوبے میں پانی کی کم یابی نہایت سنگین مسئلہ بن گئی ہے۔ نہ صرف یہ بل کہ پانی کی قلت ماحول پر اس خطرناک طریقے سے اثرانداز ہو رہی کہ خطرہ ہے کہ اگر کوئی سدباب نہ کیا گیا تو شاید اس صوبے کے بیشتر علاقے انسانی و حیوانی زندگی کے لیے موزوں نہ رہیں گے۔

آج سے تقریباً تیس سال قبل سبز انقلاب کا نعرہ لگایا گیا اور اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے جس بے دردی سے ماحولیاتی عناصر بالخصوص پانی کے ذخائر کو استعمال کیا گیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بلوچستان کے مختلف اضلاع ماحولیاتی بدحالی کا شکار ہیں اور اس صوبے کے لوگ اپنے پانی کے ذخیروں، جن میں ان کی آنے والی نسلوں کا بھی حصہ تھا، خرچ کر بیٹھے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آبی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے صورت حال بہت حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس منظرنامے میںصرف پانی کی کمی ہی نہی بل کہ اس کا تحفظ بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔آبی وسائل محدود ہیں، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کے بہتر انتظام کے لیے ملک کا انڈس بیسن اریگیشن سسٹم موجود ہے جو ملک کا قابل قدر اثاثہ ہے۔ دنیا کے بڑے نہری نظامو ںمیں سے ایک دریائے سندھ کا نہری نظام وفاق کے ماتحت ہے۔ یہ نہری نظام ملکی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اس نظام کے ڈھانچے کی مالی قدر 300 ارب ڈالر ٹھیرتی ہے، جب کہ معیشت میں اس کا حصہ 18 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 21 فی صد ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں