اسلام حکامِ ریاست سے کیا تقاضا کرتا ہے
سادگی،دیانت داری اور حب ِقانون سے متصف زرّیں اسلامی واقعات کا تابناک احوال
MIRAMSHAH:
یہ حسنِ اتفاق ہی ہے کہ پانامہ لیکس نے ایک انسانی معاشرے کی دو بدترین برائیاں ''رشوت خوری'' اور ''ٹیکس چوری' ' نمایاں کر دیں۔
ایک اسلامی معاشرے میں یہ خرابیاں پائی جائیں،تو وہ کمزور ی ِایمان کی علامت ہیں۔بہ حیثیت مسلمان ہمیں دیکھنا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے ان برائیوں کا کیونکر سدباب فرمایا۔ ان عظیم ترین ہستیوں کا اسوہِ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی اسوہ حسنہ ترک کرنے سے ہم پستی کی گہرائیوں میں جاگرے۔اخلاقیات کا دامن چھوڑنے سے بے ایمانی یا کرپشن ہمارے ہاں چلن بن چکی۔
زکوٰۃ کلکٹر کا ماجرا
جب مدینہ منورہ میں اسلامی سلطنت قائم ہو گئی' تو نبی کریم ؐ نے مختلف محلوں میں زکوٰۃ کلکٹر مقرر فرمائے۔ امرا اور ذی اثر افراد سے زکوٰۃ وصول کرنا انہی کلکٹروں کی ذمے د اری تھا۔ انہی میں قبیلہ ازد سے تعلق رکھنے والا ابن لتبیہ بھی شامل تھا۔ایک دن ابن لتبیہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور بولا ''یہ زکوٰۃ تو مجھے غریب مسلمانوں میں تقسیم کرنے واسطے ملی ہے۔ جبکہ یہ زکوٰۃ مجھے تحفۃ دی گئی اور یہ میری ہے۔''
یہ جملے سن کرنبی کریم ﷺ بہت خفا ہوئے ۔ آپؐ نے مسلمانوں کو جمع فرما کر ان سے فرمایا: ''اے لوگو! میں نے ایک آدمی کو زکوۃ وصول کرنے پر لگایا ۔ اب وہ کہتا ہے کہ یہ زکوٰۃ اسے بطور تحفہ وصول ہوئی۔ وہ ذرا اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھ جائے اور دیکھے کہ تب اسے تحائف ملتے ہیں یا نہیں۔ ا للہ کی قسم! جس نے (رشوت خوری کرتے ہوئے) ایک چیز بھی لی' تو وہ یوم حشر اس کی پیٹھ پر سوار ہو گی اور (اللہ کی قسم) میں تب ڈکارتے اونٹ ' ڈکارتی گائے اور منمناتی بھیڑ کو ہرگز نہیں پہچانوں گا۔'' یہ کہہ کر آپؐ نے اپنے بازو مبارک اتنے بلند کیے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔
تب آپ نے دو مرتبہ فرمایا''اے اللہ! کیا میں نے آپ کے احکامات (لوگوں تک) پہنچا دیئے؟'' (صحیح بخاری اور مسلم شریف)یہ حدیث عیاں کرتی ہے کہ کوئی مسلمان کسی سرکاری عہدے پر فائز ہو جائے تو وہ اپنے طاقتور عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہرگز کسی سے تحفہ قبول نہ کرے ... رشوت لینا تو دور کی بات ہے ۔وجہ یہی ہے کہ تحفہ بھی رشوت کی ایک قسم ہے۔ اس لیے خلفائے راشدین کے دور میں رواج تھا کہ خلیفہ یا کسی والی کو کہیں سے تحائف موصول ہوتے تو بیت المال میں جمع کرا دیئے جاتے۔
رشوت خوری اورقرآن و سنت
پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں سرکاری اہل کار رشوت خوری چھپانے کے لیے بہت اہتمام کرتے اور اپنے گناہ چھپا کر خوش ہوتے ہیں۔ مگر انہیں خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ گناہ گاروں کے پل پل سے واقف ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہیٰ:''فمن یعمل مثقال ذرہ خیرًا یرہ... ومن یعمل مثقال ذرہ شرًا یرہ۔(99۔7اور 8) ۔ترجمہ: اور جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا... اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی' وہ اسے دیکھ لے گا۔''
دین اسلام میں حرام خوری سے بچنے، انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی پر نہایت زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی آیات قرآنی اور احادیث ملتی ہیں۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے : ''اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (بطور رشوت) حاکموں کے پاس پہنچاؤ(تاکہ ان کی حمایت سے) تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (یہ بات) تم بھی جانتے ہو۔(2- 188)احادیث کی رو سے رشوت خوری گناہ کبیرہ ہے۔ نبی کریم ؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے' دونوں جہنم میں جائیں گے۔ ایک حدیث ہے' حضور نبی اکرم ؐ نے فرمایا ''آدم کی اولاد پانچ سوالات کے جوابات دے کر ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ سکے گی... یہ کہ اس نے اپنی زندگی کیونکر گزاری' اپنی نوجوانی کیسے بسر کی' اپنی د ولت کیونکر کمائی ' اپنی دولت کیسے خرچ کی اور اپنا علم کیونکر کام میں لایا۔(ترمذی)
اسلام میں انسان کی اخلاقیات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گلی میں چلنے اور مصافحے سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک کے آداب و احکامات قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ ان کی پاس داری ہی ایک مسلمان کو دیانت دار و قانون پسند بناتی ہے جب کہ رو گردانی اسے مثل حیوان بنا ڈالتی ہے۔اسلامی معاشرے میں اخلاقیات کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایئے کہ ایک مسلمان کا اخلاق سدھارنے کی ذمہ داری حکمران کو تفویض کی گئی ۔ صحیح بخاری میں ہے' نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''حکمران کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ وہ ان کی اخلاقی و مادی حالت سدھارنے کے لیے ایمان داری سے اقدامات نہیں کرتا' تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ پائے گا۔''اسی طرح سرکاری اہل کاروں کو انتباہ دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں : ''جسے انتظامیہ میں کوئی عہدہ ملا' اور اس نے سوئی یا اس سے چھوٹی شے بھی (ناجائز طور پر) ہتھیا لی ' تو روزِ حشر اسے وہ چیز اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنا ہو گی ۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سادگی
خلفائے راشدین کی حیات مبارکہ آشکار کرتی ہے کہ وہ سادگی و متانت کے عظیم پیکر تھے۔ ایک وسیع و عریض سلطنت کا طاقتور حکمران ہونے کے باوجود آسائشات دنیا سے انہیں کوئی رغبت نہ تھی۔ رشوت خوری تو انہیں چھو کر بھی نہیں گزری ۔ مشہور عالم دین' امام سیوطی ؒ نے اپنی کتاب ''تاریخ خلفا'' میں خلفائے راشدین کی سادگی کے کئی واقعات قلمبند کیے ہیں۔جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفۃ المسلمین بن گئے' تو اگلے دن انہوں نے حسب معمول کپڑے کا تھان لیا ا ور بازار کی طرف چلے تاکہ روزی روٹی کما سکیں۔ راہ میں حضرت عمر فاروقؓ مل گئے۔ انہوں نے دریافت فرمایا ''آپ کہاں جا رہے ہیں؟''
''مال فروخت کرنے بازار جا رہا ہوں۔'' خلیفۃ اول گویا ہوئے۔ حضرت عمر فاروؓق کہنے لگے ''اب آپ تجارت نہیں کر سکتے۔ آپ کو مسلمانوں کے ا مور کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔''
''مگر میں اپنے اہل خانہ کے نان نفقے کا بندوست کیسے کروں گا؟'' حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پوچھا۔
خلیفہ دوم سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انہوں نے خلیفہ اول کو ساتھ لیا اور بیت المال کے ناظم' حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ یوں بیت المال سے خلیفۃ اول کے لیے روزینہ مقرر ہو گیا جو دیگر مہاجر صحابہ سے کم تھا اور نہ زیادہ !اس روز ینے کو سلطنت عرب کے طاقتور خلیفہ سے بہ رضا و رغبت قبول فرمایا۔ یہ ہے دین اسلام میں حکمرانی کا انداز اور معیار جس پر آج کوئی مسلم حکمران پورا نہیں اترتا۔ ان حکمرانوں نے تو شاہ خرچی اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار کے الاماشاء اللہ ریکارڈ بنا رکھے ہیں۔
جب خلیفہ اول کا وقتِ وصال قریب آیا، تو انہوں نے اپنی دختر، حضرت عائشہ صدؓیقہ کو بلایا اور کہا ''بیٹی! میرے پاس ایک اونٹ ہے جس کا دودھ پینے میں کام آتا ہے۔ ایک پیالہ جس میں کھانا تیار ہوتا ہے اور چند جوڑے جو میرے پہننے کے کام آتے ہیں۔ مسلمانوں پر حکمرانی کرتے ہوئے یہ چیزیں میرے استعمال میں رہیں۔ میری موت کے بعد انہیں عمرؓ کو بھجوا دینا۔''
جب حضرت ابکربو صدیقؓ وفات پاگئے، تو بموجب فرمان ان کی درج بالا اشیاء خلیفہ دوم، حضرت عمر فاروؓق کو بھجوادی گئیں۔ جب یہ چیزیں ملیں، تو ان کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ تبھی حضرت عمرؓ نے فرمایا ''بہ حیثیت حکمران حضرت ابوبکر صدیقؓ دیانت داری کی ایسی مثال قائم کرگئے کہ آنے والے حکمرانوں میں سے شاید ہی کوئی ان کے نقش قدم پر چل سکے۔ ابوبکرؓ! آپ تو آنے والوں پر نہایت بھاری بار رکھ گئے۔''
خلیفہ دوم کے سنہرے واقعات
حضرت عمر فاروقؓ کی دیانت داری بھی ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ کرپشن کے معاملے میں وہ کسی قسم کی رو رعایت کے روادار نہ تھے۔ ایک بار مدینہ منورہ سے فوج عراق کی سمت روانہ ہوئی۔ لشکر میں خلیفہ دوم کے دو صاحب زادے، عبداللہ اور عبیداللہ بھی شامل تھے۔جب یہ فوج عراق پہنچی، تو وہاں کے گورنر، ابو موسی الشعریؓ نے خلیفہ دوم کے صاحب زادوں کی خوشنودی کی خاطر انہیں کہا ''میں خلیفہ محترم کو کچھ رقم بھجوانا چاہتا ہوں۔ آپ ایسا کیجیے کہ اس رقم سے عراق سے سامان خریدیئے اور مدینہ پہنچ کر فروخت کردیں۔ اصل زربیت المال میں جمع کرائیے اور منافع خود رکھ لیجیے گا۔''
صاحب زادوں نے اس مشورے پر عمل کیا جس میں بظاہر کوئی قباحت نہ تھی۔ مگر حضرت عمر فاروقؓ کو یہ معاملہ معلوم ہوا، تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ خلیفہ دوم نے اس عمل کو بے ایمانی کی ایک قسم قرار دیا اور بیٹوں سے پوچھا ''کیا ابو موسیٰ اشعریؓ نے فوج کے بقیہ فوجیوںکو بھی رقم دی تھی؟''بیٹوں نے نفی میں سر ہلایا۔ تب خلیفہ دوم نے ان سے اصل زر کے علاوہ منافع بھی وصول کیا اور بیت المال میں جمع کرادیا۔
حضرت عمر فاروقؓ معمولی سرکاری اہل کار سے لیکر گورنروں تک، سبھی پر کڑی نگاہ رکھتے ۔ ان کے مخبر اور جاسوس انہیں ہر سرکاری افسر کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے۔ خلیفہ دوم کو معلوم رہتا کہ کون گورنر رعایا سے تحفے تحائف وصول کررہا ہے اور کون اپنی طاقت اور عہدے سے فائدہ اٹھاکر رشوت خور بن چکا۔ حضرت عمرؓ کرپٹ سرکاری اہل کاروں کی جائیدادیں ضبط کرلیتے تھے اور ان کی خوب بے عزتی کرتے۔
خلیفہ دوم نے عوام الناس تک عدل و انصاف کے ثمر پہنچانے کی خاطر خصوصی انتظام کیے۔جب خلیفہ منتخب ہوئے، تو لوگوں کے سامنے اپنی پہلی تقریر میں فرمایا ''اے لوگو! اللہ کی قسم، تم لوگوں میں سب سے زیادہ طاقتور دراصل وہ لاچار و بے کس ہے جس کے حقوق میں اسے دلوا کر دم لوں گا۔ اور تم لوگوںمیں سب سے لاچار دراصل وہ طاقتور ہے جس کے ظلم و ناانصافی کا قلع قمع کرکے میں دم لوں گا۔''
ایک بار گورنر مصر، حضرت عمرو بن العاصؓ نے گھڑ دوڑ کا اہتمام کیا۔ اس میں گورنر کے صاحب زادے، محمد بن عمرؓ بھی شریک تھے۔ گھڑ دوڑ میں ایک قبطی (عیسائی) نے محمد کو ہرا دیا۔ شکست پر محمد اتنے براوختہ ہوئے کہ قبطی کو کوڑا دے مارا اور کہا ''ایک معزز کو ہرانے کا مزہ چکھو۔''
وہ قبطی نوجوان مدینہ منورہ پہنچا اور خلیفہ دوم کو سارا واقعہ سنایا۔ حضرت عمرؓ نے تحقیق کرائی، توقبطی کی بات سچ ثابت ہوئی۔ خلیفہ دوم نے فوراً مصر ایلچی بھجوا کر گورنر اور ان کے بیٹے کو طلب کرلیا۔جب گورنر مصر سے ملاقات ہوئی، تو خلیفہ دوم نے تاریخ ساز جملہ ادا فرمایا ''اے عمرو! تمہیں یہ حق کس نے دیا کہ ان لوگوں کو غلام بنالو جنہیں ان کی ماؤں نے آزاد جنا ہے۔''
بعدازاں حضرت عمر فاروقؓ نے قبطی کو کوڑا دیا اور کہا کہ اس سے گورنر مصر کے بیٹے کو ضرب لگاؤ۔ قبطی نے ایسا ہی کیا اور یوں خلیفہ دوم نے انصاف کا تقاضا پورا کر ڈالا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عمل نے ثابت کردیا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کسی طاقتور یا امیر کو کمزور یا غریب پر کسی طور برتری حاصل نہیں۔ اس واقعے میں آج کے مسلم حکمرانوں کے لیے نہایت زریّں سبق پوشیدہ ہے۔
محکمہ مظالم کا قیام
سرکاری محکموں کو رشوت کی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لیے عباسی خلیفہ، المنصور (دور حکومت:754ء تا 775ء) نے اپنے عہد میں ایک خصوصی محکمے، ''محکمہ مظالم'' کی بنیاد رکھی۔ اس محکمے کے قاضیوں (ججوں) کی واحد ذمے داری یہ تھی کہ وہ کرپٹ سرکاری افسروں کے خلاف اقدامات کریں۔ عوام الناس کو کسی سرکاری افسر سے شکایت ہوتی، تو وہ اسی محکمہ مظالم کے قاضی سے رجوع کرتا۔محکمہ مظالم کا چیف جسٹس بہت بااختیار اور طاقتور تھا۔ وہ خلیفہ وقت سمیت کسی بھی سرکاری افسر کو اپنی عدالت میں طلب کرسکتا تھا اور کسی سرکاری افسر کی مجال نہ تھی کہ وہ حکم عدولی کرتا۔ تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب حکمران عام شہریوں کی طرح قاضی کے سامنے پیش ہوئے اور فرماں برداری سے ان کا فیصلہ قبول کیا۔
قبل ازیں بتایا گیا، اپنے اجداد کا اسوۂ حسنہ ترک کرنے پر مسلمان زوال پذیر ہوچکے۔ اگر ہم نے اخلاقیات کا دامن نہ تھاما اور کرپشن کی دلدل میں پھنسے رہے، تو یہ زوال مسلمانوں کا مقدر بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی قرآن پاک میں اسلامیوں کو متنبہ کرچکے:'' خدا اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود نہیں بدل لے۔ '' (13-11)
یہ حسنِ اتفاق ہی ہے کہ پانامہ لیکس نے ایک انسانی معاشرے کی دو بدترین برائیاں ''رشوت خوری'' اور ''ٹیکس چوری' ' نمایاں کر دیں۔
ایک اسلامی معاشرے میں یہ خرابیاں پائی جائیں،تو وہ کمزور ی ِایمان کی علامت ہیں۔بہ حیثیت مسلمان ہمیں دیکھنا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے ان برائیوں کا کیونکر سدباب فرمایا۔ ان عظیم ترین ہستیوں کا اسوہِ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی اسوہ حسنہ ترک کرنے سے ہم پستی کی گہرائیوں میں جاگرے۔اخلاقیات کا دامن چھوڑنے سے بے ایمانی یا کرپشن ہمارے ہاں چلن بن چکی۔
زکوٰۃ کلکٹر کا ماجرا
جب مدینہ منورہ میں اسلامی سلطنت قائم ہو گئی' تو نبی کریم ؐ نے مختلف محلوں میں زکوٰۃ کلکٹر مقرر فرمائے۔ امرا اور ذی اثر افراد سے زکوٰۃ وصول کرنا انہی کلکٹروں کی ذمے د اری تھا۔ انہی میں قبیلہ ازد سے تعلق رکھنے والا ابن لتبیہ بھی شامل تھا۔ایک دن ابن لتبیہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور بولا ''یہ زکوٰۃ تو مجھے غریب مسلمانوں میں تقسیم کرنے واسطے ملی ہے۔ جبکہ یہ زکوٰۃ مجھے تحفۃ دی گئی اور یہ میری ہے۔''
یہ جملے سن کرنبی کریم ﷺ بہت خفا ہوئے ۔ آپؐ نے مسلمانوں کو جمع فرما کر ان سے فرمایا: ''اے لوگو! میں نے ایک آدمی کو زکوۃ وصول کرنے پر لگایا ۔ اب وہ کہتا ہے کہ یہ زکوٰۃ اسے بطور تحفہ وصول ہوئی۔ وہ ذرا اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھ جائے اور دیکھے کہ تب اسے تحائف ملتے ہیں یا نہیں۔ ا للہ کی قسم! جس نے (رشوت خوری کرتے ہوئے) ایک چیز بھی لی' تو وہ یوم حشر اس کی پیٹھ پر سوار ہو گی اور (اللہ کی قسم) میں تب ڈکارتے اونٹ ' ڈکارتی گائے اور منمناتی بھیڑ کو ہرگز نہیں پہچانوں گا۔'' یہ کہہ کر آپؐ نے اپنے بازو مبارک اتنے بلند کیے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔
تب آپ نے دو مرتبہ فرمایا''اے اللہ! کیا میں نے آپ کے احکامات (لوگوں تک) پہنچا دیئے؟'' (صحیح بخاری اور مسلم شریف)یہ حدیث عیاں کرتی ہے کہ کوئی مسلمان کسی سرکاری عہدے پر فائز ہو جائے تو وہ اپنے طاقتور عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہرگز کسی سے تحفہ قبول نہ کرے ... رشوت لینا تو دور کی بات ہے ۔وجہ یہی ہے کہ تحفہ بھی رشوت کی ایک قسم ہے۔ اس لیے خلفائے راشدین کے دور میں رواج تھا کہ خلیفہ یا کسی والی کو کہیں سے تحائف موصول ہوتے تو بیت المال میں جمع کرا دیئے جاتے۔
رشوت خوری اورقرآن و سنت
پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں سرکاری اہل کار رشوت خوری چھپانے کے لیے بہت اہتمام کرتے اور اپنے گناہ چھپا کر خوش ہوتے ہیں۔ مگر انہیں خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ گناہ گاروں کے پل پل سے واقف ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہیٰ:''فمن یعمل مثقال ذرہ خیرًا یرہ... ومن یعمل مثقال ذرہ شرًا یرہ۔(99۔7اور 8) ۔ترجمہ: اور جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا... اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی' وہ اسے دیکھ لے گا۔''
دین اسلام میں حرام خوری سے بچنے، انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی پر نہایت زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی آیات قرآنی اور احادیث ملتی ہیں۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے : ''اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (بطور رشوت) حاکموں کے پاس پہنچاؤ(تاکہ ان کی حمایت سے) تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (یہ بات) تم بھی جانتے ہو۔(2- 188)احادیث کی رو سے رشوت خوری گناہ کبیرہ ہے۔ نبی کریم ؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے' دونوں جہنم میں جائیں گے۔ ایک حدیث ہے' حضور نبی اکرم ؐ نے فرمایا ''آدم کی اولاد پانچ سوالات کے جوابات دے کر ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ سکے گی... یہ کہ اس نے اپنی زندگی کیونکر گزاری' اپنی نوجوانی کیسے بسر کی' اپنی د ولت کیونکر کمائی ' اپنی دولت کیسے خرچ کی اور اپنا علم کیونکر کام میں لایا۔(ترمذی)
اسلام میں انسان کی اخلاقیات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گلی میں چلنے اور مصافحے سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک کے آداب و احکامات قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ ان کی پاس داری ہی ایک مسلمان کو دیانت دار و قانون پسند بناتی ہے جب کہ رو گردانی اسے مثل حیوان بنا ڈالتی ہے۔اسلامی معاشرے میں اخلاقیات کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایئے کہ ایک مسلمان کا اخلاق سدھارنے کی ذمہ داری حکمران کو تفویض کی گئی ۔ صحیح بخاری میں ہے' نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''حکمران کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ وہ ان کی اخلاقی و مادی حالت سدھارنے کے لیے ایمان داری سے اقدامات نہیں کرتا' تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ پائے گا۔''اسی طرح سرکاری اہل کاروں کو انتباہ دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں : ''جسے انتظامیہ میں کوئی عہدہ ملا' اور اس نے سوئی یا اس سے چھوٹی شے بھی (ناجائز طور پر) ہتھیا لی ' تو روزِ حشر اسے وہ چیز اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنا ہو گی ۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سادگی
خلفائے راشدین کی حیات مبارکہ آشکار کرتی ہے کہ وہ سادگی و متانت کے عظیم پیکر تھے۔ ایک وسیع و عریض سلطنت کا طاقتور حکمران ہونے کے باوجود آسائشات دنیا سے انہیں کوئی رغبت نہ تھی۔ رشوت خوری تو انہیں چھو کر بھی نہیں گزری ۔ مشہور عالم دین' امام سیوطی ؒ نے اپنی کتاب ''تاریخ خلفا'' میں خلفائے راشدین کی سادگی کے کئی واقعات قلمبند کیے ہیں۔جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفۃ المسلمین بن گئے' تو اگلے دن انہوں نے حسب معمول کپڑے کا تھان لیا ا ور بازار کی طرف چلے تاکہ روزی روٹی کما سکیں۔ راہ میں حضرت عمر فاروقؓ مل گئے۔ انہوں نے دریافت فرمایا ''آپ کہاں جا رہے ہیں؟''
''مال فروخت کرنے بازار جا رہا ہوں۔'' خلیفۃ اول گویا ہوئے۔ حضرت عمر فاروؓق کہنے لگے ''اب آپ تجارت نہیں کر سکتے۔ آپ کو مسلمانوں کے ا مور کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔''
''مگر میں اپنے اہل خانہ کے نان نفقے کا بندوست کیسے کروں گا؟'' حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پوچھا۔
خلیفہ دوم سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انہوں نے خلیفہ اول کو ساتھ لیا اور بیت المال کے ناظم' حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ یوں بیت المال سے خلیفۃ اول کے لیے روزینہ مقرر ہو گیا جو دیگر مہاجر صحابہ سے کم تھا اور نہ زیادہ !اس روز ینے کو سلطنت عرب کے طاقتور خلیفہ سے بہ رضا و رغبت قبول فرمایا۔ یہ ہے دین اسلام میں حکمرانی کا انداز اور معیار جس پر آج کوئی مسلم حکمران پورا نہیں اترتا۔ ان حکمرانوں نے تو شاہ خرچی اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار کے الاماشاء اللہ ریکارڈ بنا رکھے ہیں۔
جب خلیفہ اول کا وقتِ وصال قریب آیا، تو انہوں نے اپنی دختر، حضرت عائشہ صدؓیقہ کو بلایا اور کہا ''بیٹی! میرے پاس ایک اونٹ ہے جس کا دودھ پینے میں کام آتا ہے۔ ایک پیالہ جس میں کھانا تیار ہوتا ہے اور چند جوڑے جو میرے پہننے کے کام آتے ہیں۔ مسلمانوں پر حکمرانی کرتے ہوئے یہ چیزیں میرے استعمال میں رہیں۔ میری موت کے بعد انہیں عمرؓ کو بھجوا دینا۔''
جب حضرت ابکربو صدیقؓ وفات پاگئے، تو بموجب فرمان ان کی درج بالا اشیاء خلیفہ دوم، حضرت عمر فاروؓق کو بھجوادی گئیں۔ جب یہ چیزیں ملیں، تو ان کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ تبھی حضرت عمرؓ نے فرمایا ''بہ حیثیت حکمران حضرت ابوبکر صدیقؓ دیانت داری کی ایسی مثال قائم کرگئے کہ آنے والے حکمرانوں میں سے شاید ہی کوئی ان کے نقش قدم پر چل سکے۔ ابوبکرؓ! آپ تو آنے والوں پر نہایت بھاری بار رکھ گئے۔''
خلیفہ دوم کے سنہرے واقعات
حضرت عمر فاروقؓ کی دیانت داری بھی ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ کرپشن کے معاملے میں وہ کسی قسم کی رو رعایت کے روادار نہ تھے۔ ایک بار مدینہ منورہ سے فوج عراق کی سمت روانہ ہوئی۔ لشکر میں خلیفہ دوم کے دو صاحب زادے، عبداللہ اور عبیداللہ بھی شامل تھے۔جب یہ فوج عراق پہنچی، تو وہاں کے گورنر، ابو موسی الشعریؓ نے خلیفہ دوم کے صاحب زادوں کی خوشنودی کی خاطر انہیں کہا ''میں خلیفہ محترم کو کچھ رقم بھجوانا چاہتا ہوں۔ آپ ایسا کیجیے کہ اس رقم سے عراق سے سامان خریدیئے اور مدینہ پہنچ کر فروخت کردیں۔ اصل زربیت المال میں جمع کرائیے اور منافع خود رکھ لیجیے گا۔''
صاحب زادوں نے اس مشورے پر عمل کیا جس میں بظاہر کوئی قباحت نہ تھی۔ مگر حضرت عمر فاروقؓ کو یہ معاملہ معلوم ہوا، تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ خلیفہ دوم نے اس عمل کو بے ایمانی کی ایک قسم قرار دیا اور بیٹوں سے پوچھا ''کیا ابو موسیٰ اشعریؓ نے فوج کے بقیہ فوجیوںکو بھی رقم دی تھی؟''بیٹوں نے نفی میں سر ہلایا۔ تب خلیفہ دوم نے ان سے اصل زر کے علاوہ منافع بھی وصول کیا اور بیت المال میں جمع کرادیا۔
حضرت عمر فاروقؓ معمولی سرکاری اہل کار سے لیکر گورنروں تک، سبھی پر کڑی نگاہ رکھتے ۔ ان کے مخبر اور جاسوس انہیں ہر سرکاری افسر کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے۔ خلیفہ دوم کو معلوم رہتا کہ کون گورنر رعایا سے تحفے تحائف وصول کررہا ہے اور کون اپنی طاقت اور عہدے سے فائدہ اٹھاکر رشوت خور بن چکا۔ حضرت عمرؓ کرپٹ سرکاری اہل کاروں کی جائیدادیں ضبط کرلیتے تھے اور ان کی خوب بے عزتی کرتے۔
خلیفہ دوم نے عوام الناس تک عدل و انصاف کے ثمر پہنچانے کی خاطر خصوصی انتظام کیے۔جب خلیفہ منتخب ہوئے، تو لوگوں کے سامنے اپنی پہلی تقریر میں فرمایا ''اے لوگو! اللہ کی قسم، تم لوگوں میں سب سے زیادہ طاقتور دراصل وہ لاچار و بے کس ہے جس کے حقوق میں اسے دلوا کر دم لوں گا۔ اور تم لوگوںمیں سب سے لاچار دراصل وہ طاقتور ہے جس کے ظلم و ناانصافی کا قلع قمع کرکے میں دم لوں گا۔''
ایک بار گورنر مصر، حضرت عمرو بن العاصؓ نے گھڑ دوڑ کا اہتمام کیا۔ اس میں گورنر کے صاحب زادے، محمد بن عمرؓ بھی شریک تھے۔ گھڑ دوڑ میں ایک قبطی (عیسائی) نے محمد کو ہرا دیا۔ شکست پر محمد اتنے براوختہ ہوئے کہ قبطی کو کوڑا دے مارا اور کہا ''ایک معزز کو ہرانے کا مزہ چکھو۔''
وہ قبطی نوجوان مدینہ منورہ پہنچا اور خلیفہ دوم کو سارا واقعہ سنایا۔ حضرت عمرؓ نے تحقیق کرائی، توقبطی کی بات سچ ثابت ہوئی۔ خلیفہ دوم نے فوراً مصر ایلچی بھجوا کر گورنر اور ان کے بیٹے کو طلب کرلیا۔جب گورنر مصر سے ملاقات ہوئی، تو خلیفہ دوم نے تاریخ ساز جملہ ادا فرمایا ''اے عمرو! تمہیں یہ حق کس نے دیا کہ ان لوگوں کو غلام بنالو جنہیں ان کی ماؤں نے آزاد جنا ہے۔''
بعدازاں حضرت عمر فاروقؓ نے قبطی کو کوڑا دیا اور کہا کہ اس سے گورنر مصر کے بیٹے کو ضرب لگاؤ۔ قبطی نے ایسا ہی کیا اور یوں خلیفہ دوم نے انصاف کا تقاضا پورا کر ڈالا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عمل نے ثابت کردیا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کسی طاقتور یا امیر کو کمزور یا غریب پر کسی طور برتری حاصل نہیں۔ اس واقعے میں آج کے مسلم حکمرانوں کے لیے نہایت زریّں سبق پوشیدہ ہے۔
محکمہ مظالم کا قیام
سرکاری محکموں کو رشوت کی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لیے عباسی خلیفہ، المنصور (دور حکومت:754ء تا 775ء) نے اپنے عہد میں ایک خصوصی محکمے، ''محکمہ مظالم'' کی بنیاد رکھی۔ اس محکمے کے قاضیوں (ججوں) کی واحد ذمے داری یہ تھی کہ وہ کرپٹ سرکاری افسروں کے خلاف اقدامات کریں۔ عوام الناس کو کسی سرکاری افسر سے شکایت ہوتی، تو وہ اسی محکمہ مظالم کے قاضی سے رجوع کرتا۔محکمہ مظالم کا چیف جسٹس بہت بااختیار اور طاقتور تھا۔ وہ خلیفہ وقت سمیت کسی بھی سرکاری افسر کو اپنی عدالت میں طلب کرسکتا تھا اور کسی سرکاری افسر کی مجال نہ تھی کہ وہ حکم عدولی کرتا۔ تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب حکمران عام شہریوں کی طرح قاضی کے سامنے پیش ہوئے اور فرماں برداری سے ان کا فیصلہ قبول کیا۔
قبل ازیں بتایا گیا، اپنے اجداد کا اسوۂ حسنہ ترک کرنے پر مسلمان زوال پذیر ہوچکے۔ اگر ہم نے اخلاقیات کا دامن نہ تھاما اور کرپشن کی دلدل میں پھنسے رہے، تو یہ زوال مسلمانوں کا مقدر بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی قرآن پاک میں اسلامیوں کو متنبہ کرچکے:'' خدا اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود نہیں بدل لے۔ '' (13-11)