لندن انسداد کرپشن سربراہ کانفرنس 2016
جس کے ذریعے کرپشن کرنیوالوں کی نشاندہی کی جائے اور وہ رقم ضبط کر کے اصل ملک کو واپس کی جائے
12مئی 2016 کو لندن میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں 40 ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہوں سمیت اہم کاروباری لیڈرز نے بھی شرکت کی اس کانفرنس کو کرپشن کے خلاف سب سے بڑا مظاہرہ اور سیاسی عزم کا اظہار قرار دیا گیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ''مجھے آج واضح طور پر یہ محسوس ہوا ہے کہ کرپشن کے خلاف صرف لفاظی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کے پیچھے حقیقی سیاسی عزم بھی کارفرما ہے۔
اگر آپ کو یہ علم نہیں کہ کس کی ملکیت کیا ہے تب آپ لوگوں کو غریب ملکوں کی دولت لوٹنے سے نہیں روک سکتے جس کو خفیہ طور پر چرا کر امیر ملکوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ جو لوگ کرپشن میں ملوث ہیں انھیں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملنی چاہیے''۔ صرف زبانی جمع خرچ سے ٹیکس چوروں کو نہیں روکا جا سکتا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ غیرقانونی دولت کو چھپانے کے لیے برطانیہ اور اس کے حواری ممالک سے زیادہ آسان جگہ اور کہیں نہیں۔ لندن کانفرنس کے بعد جاری کیے جانے والے اعلامیہ میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) قائم کرنے پر زور دیا گیا۔
جس کے ذریعے کرپشن کرنیوالوں کی نشاندہی کی جائے اور وہ رقم ضبط کر کے اصل ملک کو واپس کی جائے۔ اس مقصد کی خاطر ''گلوبل فورم فار ایسٹ ریکوری'' یعنی اثاثہ برآمد کرنے کا ایک عالمی فورم تشکیل دیا جائے جس میں حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے باہم اشتراک کے ساتھ کام کریں نیز مختلف ممالک کے مابین تعاون کو مضبوط بنایا جائے بالخصوص جن ممالک کے اثاثے خورد برد کیے جاتے ہیں اور جہاں ان کوچھپایا جاتا ہے ان دونوں کو مل کر اس روش کا تدارک کرنا چاہیے یہ دونوں ممالک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کر کے فوری طور پر اصل ممالک کو واپس کریں۔اب 40 سے زیادہ ممالک نے یہ طے کر لیا ہے کہ -1سرحدوں کے ماورا کرپشن کرنیوالوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کریں گے -2 ٹیکس کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور اس کی رپورٹ معمول کے مطابق دی جائے۔
جن ممالک کو ٹیکس چھپانے کی جنت قرار دیا جاتا ہے انھیں اس حوالے سے سخت قوانین کا اطلاق کرنا ہو گا کیونکہ کرپشن کی بنیادی جڑ انھی ممالک میں ہوتی ہے۔ ان ممالک کو شفافیت پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے بصورت دیگر ٹیکس چرانے والوں کو بآسانی اپنی غیرقانونی رقوم کو چھپانے کا موقع ملتا رہے گا۔اگر تمام ممالک کے مابین معلومات کے تبادلے کا بہتر نظام قائم ہو جائے اور جن ممالک سے رقوم خورد برد کی جاتی ہیں اگر ان کے ٹیکس رجسٹریشن نمبر حاصل ہو سکیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کرپٹ افراد کو گرفتار کر کے سزا دینا آسان ہو جائے گا۔
اس قانون کو ابھی تک کھلے عام برطانیہ کے ورجن آئی لینڈز ( VI) اور کراؤن ڈیپنڈیسیز اینڈ اوور سیز ٹیریٹریز (سی ڈی او ٹی) میں نہیں کیا جا سکتا تآنکہ اس مقصد کے لیے اور زیادہ زور نہ لگایا جائے کیونکہ ان علاقوں میں کرپشن کی رقوم کو خفیہ طور پر رکھا جاتا ہے۔ پاناما لیکس میں جو انکشافات کیے گئے ہیں وہ صرف ان 2 فیصد آف شور کمپنیوں کے ہیں جن کو پاناما میں رجسٹر کروایا گیا۔
باقی کی98 فیصد کمپنیاں بغیر کسی مداخلت کے یہی کاروبار جاری رکھیں گی۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ امریکا کو ایسی مشکوک رقوم کا انکشاف کر کے مثال قائم کرنی چاہیے۔ کیری کا کہنا تھا کہ کرپشن، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بھی دنیا کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے کیونکہ یہ کرپشن ہی ہے جو ملکوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ ایک حالیہ اقتصادی سروے میں ظاہر کیا گیا ہے کہ سرمایہ داری نظام جو کہ کرپشن کا بنیادی ذمے دار ہے دنیا بھر میں انحطاط کا شکار ہے سوائے پاکستان کے جہاں اس میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے کرپٹ لوگ سوٹ کیسوں میں دولت بھر کے لندن لے جاتے ہیں یا بحری کشتیوں کے ذریعے دوبئی پہنچا دیتے ہیں۔ وہ روانگی اور آمد کے موقعے پر امیگریشن اور کسٹم حکام کی نظر سے اس طرح سے بچتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سرکاری افسران بھی ان کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ اب کسی کرپٹ شخص کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملے گی تو کیا وہ ان لوگوں کو بھی روک لیں گے جن کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ میں ان کا جائز کاروبار ہے۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم کے دعوے پر کتنا عمل ہوتا ہے کیونکہ محض زبانی جمع خرچ سے قتل و غارت' کرپشن یا منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو نہیں روکا جا سکتا۔
برطانیہ کے ممتاز اخبار گارڈین نے ایک چوٹی کے اسٹیٹ ایجنٹ کا بیان نقل کیا ہے کہ ''اگر قانونی ضابطوں پر حقیقی طور پر سختی سے عمل درآمد شروع ہو گیا تو برطانیہ میں دولت جمع کرانے والے یہاں سے اپنی دولت کہیں اور لے جائیں گے۔'' یہاں دولت جمع کرانے والوں میں دنیا بھر کے ارب پتی اور کھرب پتی لوگ شامل ہیں۔ انھی کی دولت پر اس ملک کی معیشت بھی زبردست ترقی کر رہی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے ملکہ برطانیہ سے سرگوشی میں جو بات کی تھی اسے مائیکرو فون کے ذریعے ریکارڈ کر لیا گیا۔
انھوں نے کہا تھا ''بعض انتہائی کرپٹ ممالک کے لیڈرز برطانیہ میں آ رہے ہیں ان میں نائیجیریا اور افغانستان کے لیڈر بھی شامل ہیں جو دنیا بھر میں سب سے کرپٹ لیڈر ہیں'' برطانوی وزیراعظم کی اس بات پر برطانیہ کے نامور صحافی ان کے پیچھے پڑ گئے جن میں روبرٹو ساویانو بھی شامل ہیں جس نے ایک عشرے سے زیادہ اطالوی مافیا کی مجرمانہ سرگرمیوں کا انکشاف کیا تھا اور جو اب برطانیہ میں پولیس کی حفاظت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ برطانیہ دنیا کا سب سے زیادہ کرپٹ ملک ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو کیمرون نے پاکستان کے لیڈروں کو 2015 کی لندن سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت کیوں نہیں دی تھی جب کہ پاکستان کا کرپشن میں دنیا کے 167ممالک میں 117 واں نمبر ہے؟
اگر آپ کو یہ علم نہیں کہ کس کی ملکیت کیا ہے تب آپ لوگوں کو غریب ملکوں کی دولت لوٹنے سے نہیں روک سکتے جس کو خفیہ طور پر چرا کر امیر ملکوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ جو لوگ کرپشن میں ملوث ہیں انھیں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملنی چاہیے''۔ صرف زبانی جمع خرچ سے ٹیکس چوروں کو نہیں روکا جا سکتا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ غیرقانونی دولت کو چھپانے کے لیے برطانیہ اور اس کے حواری ممالک سے زیادہ آسان جگہ اور کہیں نہیں۔ لندن کانفرنس کے بعد جاری کیے جانے والے اعلامیہ میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) قائم کرنے پر زور دیا گیا۔
جس کے ذریعے کرپشن کرنیوالوں کی نشاندہی کی جائے اور وہ رقم ضبط کر کے اصل ملک کو واپس کی جائے۔ اس مقصد کی خاطر ''گلوبل فورم فار ایسٹ ریکوری'' یعنی اثاثہ برآمد کرنے کا ایک عالمی فورم تشکیل دیا جائے جس میں حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے باہم اشتراک کے ساتھ کام کریں نیز مختلف ممالک کے مابین تعاون کو مضبوط بنایا جائے بالخصوص جن ممالک کے اثاثے خورد برد کیے جاتے ہیں اور جہاں ان کوچھپایا جاتا ہے ان دونوں کو مل کر اس روش کا تدارک کرنا چاہیے یہ دونوں ممالک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کر کے فوری طور پر اصل ممالک کو واپس کریں۔اب 40 سے زیادہ ممالک نے یہ طے کر لیا ہے کہ -1سرحدوں کے ماورا کرپشن کرنیوالوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کریں گے -2 ٹیکس کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور اس کی رپورٹ معمول کے مطابق دی جائے۔
جن ممالک کو ٹیکس چھپانے کی جنت قرار دیا جاتا ہے انھیں اس حوالے سے سخت قوانین کا اطلاق کرنا ہو گا کیونکہ کرپشن کی بنیادی جڑ انھی ممالک میں ہوتی ہے۔ ان ممالک کو شفافیت پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے بصورت دیگر ٹیکس چرانے والوں کو بآسانی اپنی غیرقانونی رقوم کو چھپانے کا موقع ملتا رہے گا۔اگر تمام ممالک کے مابین معلومات کے تبادلے کا بہتر نظام قائم ہو جائے اور جن ممالک سے رقوم خورد برد کی جاتی ہیں اگر ان کے ٹیکس رجسٹریشن نمبر حاصل ہو سکیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کرپٹ افراد کو گرفتار کر کے سزا دینا آسان ہو جائے گا۔
اس قانون کو ابھی تک کھلے عام برطانیہ کے ورجن آئی لینڈز ( VI) اور کراؤن ڈیپنڈیسیز اینڈ اوور سیز ٹیریٹریز (سی ڈی او ٹی) میں نہیں کیا جا سکتا تآنکہ اس مقصد کے لیے اور زیادہ زور نہ لگایا جائے کیونکہ ان علاقوں میں کرپشن کی رقوم کو خفیہ طور پر رکھا جاتا ہے۔ پاناما لیکس میں جو انکشافات کیے گئے ہیں وہ صرف ان 2 فیصد آف شور کمپنیوں کے ہیں جن کو پاناما میں رجسٹر کروایا گیا۔
باقی کی98 فیصد کمپنیاں بغیر کسی مداخلت کے یہی کاروبار جاری رکھیں گی۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ امریکا کو ایسی مشکوک رقوم کا انکشاف کر کے مثال قائم کرنی چاہیے۔ کیری کا کہنا تھا کہ کرپشن، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بھی دنیا کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے کیونکہ یہ کرپشن ہی ہے جو ملکوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ ایک حالیہ اقتصادی سروے میں ظاہر کیا گیا ہے کہ سرمایہ داری نظام جو کہ کرپشن کا بنیادی ذمے دار ہے دنیا بھر میں انحطاط کا شکار ہے سوائے پاکستان کے جہاں اس میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے کرپٹ لوگ سوٹ کیسوں میں دولت بھر کے لندن لے جاتے ہیں یا بحری کشتیوں کے ذریعے دوبئی پہنچا دیتے ہیں۔ وہ روانگی اور آمد کے موقعے پر امیگریشن اور کسٹم حکام کی نظر سے اس طرح سے بچتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سرکاری افسران بھی ان کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ اب کسی کرپٹ شخص کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملے گی تو کیا وہ ان لوگوں کو بھی روک لیں گے جن کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ میں ان کا جائز کاروبار ہے۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم کے دعوے پر کتنا عمل ہوتا ہے کیونکہ محض زبانی جمع خرچ سے قتل و غارت' کرپشن یا منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو نہیں روکا جا سکتا۔
برطانیہ کے ممتاز اخبار گارڈین نے ایک چوٹی کے اسٹیٹ ایجنٹ کا بیان نقل کیا ہے کہ ''اگر قانونی ضابطوں پر حقیقی طور پر سختی سے عمل درآمد شروع ہو گیا تو برطانیہ میں دولت جمع کرانے والے یہاں سے اپنی دولت کہیں اور لے جائیں گے۔'' یہاں دولت جمع کرانے والوں میں دنیا بھر کے ارب پتی اور کھرب پتی لوگ شامل ہیں۔ انھی کی دولت پر اس ملک کی معیشت بھی زبردست ترقی کر رہی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے ملکہ برطانیہ سے سرگوشی میں جو بات کی تھی اسے مائیکرو فون کے ذریعے ریکارڈ کر لیا گیا۔
انھوں نے کہا تھا ''بعض انتہائی کرپٹ ممالک کے لیڈرز برطانیہ میں آ رہے ہیں ان میں نائیجیریا اور افغانستان کے لیڈر بھی شامل ہیں جو دنیا بھر میں سب سے کرپٹ لیڈر ہیں'' برطانوی وزیراعظم کی اس بات پر برطانیہ کے نامور صحافی ان کے پیچھے پڑ گئے جن میں روبرٹو ساویانو بھی شامل ہیں جس نے ایک عشرے سے زیادہ اطالوی مافیا کی مجرمانہ سرگرمیوں کا انکشاف کیا تھا اور جو اب برطانیہ میں پولیس کی حفاظت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ برطانیہ دنیا کا سب سے زیادہ کرپٹ ملک ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو کیمرون نے پاکستان کے لیڈروں کو 2015 کی لندن سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت کیوں نہیں دی تھی جب کہ پاکستان کا کرپشن میں دنیا کے 167ممالک میں 117 واں نمبر ہے؟