بیوی پر ہلکا تشدد
شاید کہ یہ تحریر اس کا کچھ ازالہ کر سکے۔ دراصل معاشرے میں گھر کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے
بڑی معذرت کے ساتھ اور بصدِ احترام جذبات کے ساتھ تحریراً عرض بخدمت اسلامی نظریاتی کونسل کے جید علماء اور دانشوران سے ہے کہ معاشرے میں موجود سماجی الجھنوں اور گھمبیر گتھیوں کو سلجھانے کے لیے قوانین و اصول کی اسلامی تشریحات پیش کرنے کا طریقہ شاہانہ عوام کے نیم دینی دماغوں پر کوڑے برسانے اور اسلام کی تضحیک اڑوانے کے مترادف ہے۔
اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ کسی اہم فیصلے کو پیش کرنے سے قبل ملک میں پائی جانے والی ہر قسم کی نفسیات کو مطمئن کرنے کے لیے انسانی نفسیاتی اصولوں اور تحقیقی بنیادوں پر ایک خاص موقع محل پیدا کیا جائے۔ تشریحات کو پیش کرتے وقت صرف رسمی زبانی جمع کلامی کرتے ہوئے اتنا کہہ دینا یا فیصلے کا بیان جاری کر دینا کہ عورت پر ہلکا تشدد جائز ہے، نہ صرف غیر دماغی پن بلکہ پیشکاری کے فن میں بودے پن کی علامت بھی ہے۔
ایک ایسی قوم جس کے لیے مذہب کھیل تماشوں، میلوں ٹھیلوں، جلسے جلوسوں اور مزاروں کے گرد گھومتا ہو اور جس کی نئی نسل کی فکر میں گزشتہ چند عشروں سے اسلام کو انتہاپسندی، بے راہ روی، دہشت گردی اور تاریک خیالی کی صورت میں گھول دیا گیا ہو اور جہاں اپنے ظن میں خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ، روشن خیال لوگ اپنی روشن آراء کے نام پر ایسے دینی فیصلوں کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوں، وہاں اسلامی تشریحات کو پیش کرنے سے قبل عوام الناس میں اس کی اثر پذیری کے لیے بھی کام کرنے کی ذمے داری اسلامی نظریاتی کونسل کے ذمے داروں کے سر عائد ہوتی ہے۔
آخر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ہر فیصلے کے بعد خواتین سمیت ملک بھر کے مختلف طبقات میں بے چینی اور شور مچ جاتا ہے؟ یہ بات قابل فہم ہونے کے باوجود سمجھ سے بالاتر نظر آتی اور محسوس ہوتی ہے۔ اگر کونسل کے ان فیصلوں کے ساتھ قرآنی احکامات اور صحیح احادیث رسولؐ کے اقوال کو بطور دلیل ایک دستاویز یا مسودے کی حالت میں تحریری، ڈیجیٹل اور اخباری صورتوں میں بھی پیش کیا جائے تو جو کج بحثی فیصلے کو سامنے لانے کے بعد کسی بھی طبقے کی طرف سے پیدا کی جاتی ہے، اس کا باآسانی تدارک کیا جا سکتا ہے یا کم از کم اس کو غیر موثر کر دینے کا سامان پیشگی دستیاب ہو سکتا ہے۔ بیوی کی بطور اصلاح ہلکی مار پیٹ کو کس طرح تشدد کا رنگ دے کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے اور یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ اس عمل کو خود رسولؐ نے ناپسند فرمایا تھا۔ نہ کونسل نے اس حقیقت کو پیش کرنے کی زحمت کی اور نہ ہی میڈیا نے اسلام کے زریں اصولوں اور اس کے حقائق کو جاننے کی کبھی جستجو کی ہے۔
شاید کہ یہ تحریر اس کا کچھ ازالہ کر سکے۔ دراصل معاشرے میں گھر کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے، جس میں افراد کے درمیان خوشگوار تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے کیوں کہ اس کا اثر نہ صرف معاشرے پر ہوتا ہے بلکہ ملک کی ترقی پر بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے گھر کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر خصوصی توجہ دی ہے اور ہر ایک کا دائرہ کار متعین کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی اپنے دائرہ کار سے نکل کر یا اسی میں رہتے ہوئے بالواسطہ یا بلاواسطہ دوسرے کے دائرہ کار میں دخل دیتا ہے یا اسے متاثر کرتا ہے تو یہیں سے 'گھریلو تشدد' کی ابتدا ہوتی ہے۔
اگرچہ قرآن کریم میں بعض حالات میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس میں بھی پہلے سمجھانے، پھر نفسیاتی طریقے سے متنبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی اصلاح نہ کرے تو تب کہیں جا کر صرف ضرورت بھر ہی مارنے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم اس کے باوجود اس اجازت کو بھی ناپسندیدہ کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ سورۃ نساء کی آیت چونتیس کا ترجمہ بتاتا ہے: ''پس جو صالح (نیک) عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار (فرماں بردار) ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اﷲ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے نہ تلاش کرو، یقین رکھو کہ اوپر اﷲ تعالی موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے''۔
اسلام نے گھریلو تشدد کا راستہ بند کر دیا ہے۔ دراصل جب کسی کی بیوی جائز معاملات میں اس کی فرمانبرداری نہ کرے، اس کے دینی تفویض کردہ حقوق ادا نہ کرے اور خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی نہ گزارے تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کے ترتیب وار تین طریقے بتائے ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے، اس کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کیے ہوئے ہے تو سمجھا بجھا کر صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہو گیا، عورت ہمیشہ کے لیے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے بیوی کا بستر اپنے سے علیحدہ کر دے اور اس سے علیحدہ سوئے۔
یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہو گئی تو جھگڑا یہیں ختم ہو گیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو تیسرے درجے میں خاوند کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو۔ مگر اس کے باوجود اس تیسرے درجے کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، اس لیے اس درجے پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہو گیا، صلح صفائی ہو گئی، تعلقات بحال ہو گئے، تب بھی مقصد حاصل ہو گیا۔ خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔
ایک آخری بات۔ الہامی فیصلے انسانی نسل، رنگ، عقل، جدت و قدامت، توجیہات و منطق سے بالاتر ہوتے ہیں۔ انسانی قوت بالواسطہ یا بلاواسطہ ان فیصلوں کو بروقت یا وقت سے پہلے احاطہ عقل یا اظہار میں لانے سے ہمیشہ سے معذور ہے۔ الہامی اصولوں میں خالص اﷲ ہی کا طریقہ اور ہر چیز سے اعلیٰ اور بالاتر قدرت ہی کارفرما ہے۔ تاریخ سے آج تک اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور عطاء عقل کی بنیاد پر ہی انسان انھیں سمجھنے اور اس کی تشریح کے قابل ہوا ہے۔ انھیں سمجھنے اور ان کی تشریحات پیش کرنا اہل علم و اہل حدیث علماء ہی کا کام ہے، تاہم قرآن و حدیث کا علم کسی مخصوص طبقے کی میراث نہیں، اس تک رسائی ہر اس فرد کے لیے آسان ہے جو اس کی جستجو کرے اور نہ ہی یہ کسی دینوی علوم یا خاص صنف کے پیشہ وران کو زیب دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی خالص الہامی تشریح کو محض اپنی دینوی آراء کی بنیاد پر رد کرے یا اس پر کلام کرے۔
اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ کسی اہم فیصلے کو پیش کرنے سے قبل ملک میں پائی جانے والی ہر قسم کی نفسیات کو مطمئن کرنے کے لیے انسانی نفسیاتی اصولوں اور تحقیقی بنیادوں پر ایک خاص موقع محل پیدا کیا جائے۔ تشریحات کو پیش کرتے وقت صرف رسمی زبانی جمع کلامی کرتے ہوئے اتنا کہہ دینا یا فیصلے کا بیان جاری کر دینا کہ عورت پر ہلکا تشدد جائز ہے، نہ صرف غیر دماغی پن بلکہ پیشکاری کے فن میں بودے پن کی علامت بھی ہے۔
ایک ایسی قوم جس کے لیے مذہب کھیل تماشوں، میلوں ٹھیلوں، جلسے جلوسوں اور مزاروں کے گرد گھومتا ہو اور جس کی نئی نسل کی فکر میں گزشتہ چند عشروں سے اسلام کو انتہاپسندی، بے راہ روی، دہشت گردی اور تاریک خیالی کی صورت میں گھول دیا گیا ہو اور جہاں اپنے ظن میں خود کو اعلیٰ تعلیم یافتہ، روشن خیال لوگ اپنی روشن آراء کے نام پر ایسے دینی فیصلوں کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوں، وہاں اسلامی تشریحات کو پیش کرنے سے قبل عوام الناس میں اس کی اثر پذیری کے لیے بھی کام کرنے کی ذمے داری اسلامی نظریاتی کونسل کے ذمے داروں کے سر عائد ہوتی ہے۔
آخر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ہر فیصلے کے بعد خواتین سمیت ملک بھر کے مختلف طبقات میں بے چینی اور شور مچ جاتا ہے؟ یہ بات قابل فہم ہونے کے باوجود سمجھ سے بالاتر نظر آتی اور محسوس ہوتی ہے۔ اگر کونسل کے ان فیصلوں کے ساتھ قرآنی احکامات اور صحیح احادیث رسولؐ کے اقوال کو بطور دلیل ایک دستاویز یا مسودے کی حالت میں تحریری، ڈیجیٹل اور اخباری صورتوں میں بھی پیش کیا جائے تو جو کج بحثی فیصلے کو سامنے لانے کے بعد کسی بھی طبقے کی طرف سے پیدا کی جاتی ہے، اس کا باآسانی تدارک کیا جا سکتا ہے یا کم از کم اس کو غیر موثر کر دینے کا سامان پیشگی دستیاب ہو سکتا ہے۔ بیوی کی بطور اصلاح ہلکی مار پیٹ کو کس طرح تشدد کا رنگ دے کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے اور یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ اس عمل کو خود رسولؐ نے ناپسند فرمایا تھا۔ نہ کونسل نے اس حقیقت کو پیش کرنے کی زحمت کی اور نہ ہی میڈیا نے اسلام کے زریں اصولوں اور اس کے حقائق کو جاننے کی کبھی جستجو کی ہے۔
شاید کہ یہ تحریر اس کا کچھ ازالہ کر سکے۔ دراصل معاشرے میں گھر کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے، جس میں افراد کے درمیان خوشگوار تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے کیوں کہ اس کا اثر نہ صرف معاشرے پر ہوتا ہے بلکہ ملک کی ترقی پر بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے گھر کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر خصوصی توجہ دی ہے اور ہر ایک کا دائرہ کار متعین کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی اپنے دائرہ کار سے نکل کر یا اسی میں رہتے ہوئے بالواسطہ یا بلاواسطہ دوسرے کے دائرہ کار میں دخل دیتا ہے یا اسے متاثر کرتا ہے تو یہیں سے 'گھریلو تشدد' کی ابتدا ہوتی ہے۔
اگرچہ قرآن کریم میں بعض حالات میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس میں بھی پہلے سمجھانے، پھر نفسیاتی طریقے سے متنبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی اصلاح نہ کرے تو تب کہیں جا کر صرف ضرورت بھر ہی مارنے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم اس کے باوجود اس اجازت کو بھی ناپسندیدہ کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ سورۃ نساء کی آیت چونتیس کا ترجمہ بتاتا ہے: ''پس جو صالح (نیک) عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار (فرماں بردار) ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اﷲ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے نہ تلاش کرو، یقین رکھو کہ اوپر اﷲ تعالی موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے''۔
اسلام نے گھریلو تشدد کا راستہ بند کر دیا ہے۔ دراصل جب کسی کی بیوی جائز معاملات میں اس کی فرمانبرداری نہ کرے، اس کے دینی تفویض کردہ حقوق ادا نہ کرے اور خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی نہ گزارے تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کے ترتیب وار تین طریقے بتائے ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے، اس کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کیے ہوئے ہے تو سمجھا بجھا کر صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہو گیا، عورت ہمیشہ کے لیے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے بیوی کا بستر اپنے سے علیحدہ کر دے اور اس سے علیحدہ سوئے۔
یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہو گئی تو جھگڑا یہیں ختم ہو گیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو تیسرے درجے میں خاوند کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو۔ مگر اس کے باوجود اس تیسرے درجے کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، اس لیے اس درجے پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہو گیا، صلح صفائی ہو گئی، تعلقات بحال ہو گئے، تب بھی مقصد حاصل ہو گیا۔ خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔
ایک آخری بات۔ الہامی فیصلے انسانی نسل، رنگ، عقل، جدت و قدامت، توجیہات و منطق سے بالاتر ہوتے ہیں۔ انسانی قوت بالواسطہ یا بلاواسطہ ان فیصلوں کو بروقت یا وقت سے پہلے احاطہ عقل یا اظہار میں لانے سے ہمیشہ سے معذور ہے۔ الہامی اصولوں میں خالص اﷲ ہی کا طریقہ اور ہر چیز سے اعلیٰ اور بالاتر قدرت ہی کارفرما ہے۔ تاریخ سے آج تک اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور عطاء عقل کی بنیاد پر ہی انسان انھیں سمجھنے اور اس کی تشریح کے قابل ہوا ہے۔ انھیں سمجھنے اور ان کی تشریحات پیش کرنا اہل علم و اہل حدیث علماء ہی کا کام ہے، تاہم قرآن و حدیث کا علم کسی مخصوص طبقے کی میراث نہیں، اس تک رسائی ہر اس فرد کے لیے آسان ہے جو اس کی جستجو کرے اور نہ ہی یہ کسی دینوی علوم یا خاص صنف کے پیشہ وران کو زیب دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی خالص الہامی تشریح کو محض اپنی دینوی آراء کی بنیاد پر رد کرے یا اس پر کلام کرے۔