طالبان کے نئے امیر۔۔۔ملا ہبت اﷲ

غیرعسکری پس منظر رکھنے والے نئے طالبان سربراہ کی پالیسی جنگ ہوگی یا مذاکرات؟


آصف زیدی June 05, 2016
افغانستان میں امن عمل کا انحصار ان کے فیصلوں پر ہے ۔ فوٹو : فائل

گذشتہ مئی کے تقریباً آخری دنوں میں بلوچستان کے علاقے نوشکی میں امریکی ڈرون حملے میں ایک گاڑی تباہ ہوئی اور اُس میں سوار 2 افراد ہلاک ہوگئے۔

ڈرون حملے میں دو تین افراد کی ہلاکت کی خبر میڈیا کے لیے کوئی بڑی خبر نہیں بنتی، لیکن یہ واقعہ دنیا بھر کے لیے بریکنگ نیوز بن گیا، کیوںکہ اس ڈرون حملے میں مارا جانے والا ایک شخص کوئی اور نہیں افغان طالبان کا سربراہ مُلا اختر منصور تھا۔ اس واقعے نے پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی، وائٹ ہاؤس سے لے کر اسلام آباد میں موجود حکومت پاکستان، کابل اور ایران تک، تمام متعلقہ ملکوں کے حکام نے اپنے اپنے لحاظ سے اس واقعے کو بیان کیا۔

ہماری حکومت نے بھی پہلے ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق یا تردید سے انکار کیا، پھر ایک دو روز بعد باقاعدہ طور پر اس بات کی تصدیق کردی گئی کہ ڈرون حملے میں مارا جانے والا مُلا اختر منصور ہی تھا، جو ولی محمد کے نام سے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنواکر اندرون ملک و بیرون ملک آجارہا تھا۔ حملے میں مارا جانے والا دوسرا شخص کرائے پر لی گئی کار کا ڈرائیور تھا۔

افغان طالبان نے بھی واقعے کے فوری بعد ایک دو دن کی خاموشی اختیار کی، لیکن پھر مُلااختر منصور کے ہلاک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنا نیا سربراہ بھی منتخب کرلیا۔ اب افغان طالبان کی سربراہی ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو ملی ہے ۔ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کا نام اس سے پہلے شاید ہی کسی نے سُنا ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ ملا ہبت اللہ مذہبی اسکالر ہیں اور افغان طالبان کی جانب سے جاری کیے گئے فتوے وہی تیار کرتے تھے۔ طالبان کے عدالتی نظام میں ہبت اللہ کا نام بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ وہ کافی عرصے تک طالبان کا عدالتی نظام سنبھالتے رہے ہیں۔ ''ہبت اللہ'' کا مطلب ''اللہ کا تحفہ '' ہے۔

ملا ہبت اللہ کا تعلق نورزئی قبیلے سے ہے ، اور اپنے پیشرو مُلا اختر منصور اور مُلا عمر کی طرح وہ افغان صوبے قندھار کے رہنے والے ہیں، جب کہ کوئٹہ میں بھی اُن کا آنا جانا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے مُلا عمر کے کافی قریب رہے ہیں، جس کی وجہ سے افغان طالبان میں اُن کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ ملا عمر کے انتقال کے بعد بھی افغان طالبان کے سربراہ کے لیے ہبت اللہ اخونزادہ کا نام سامنے آیا تھا، لیکن اس وقت مُلا منصور کو سربراہ اور ہبت اللہ کو نائب بنایا گیا تھا۔

اگر افغان طالبان کے سابق لیڈروں کے حالات زندگی اور سربراہی کے انداز کو دیکھا جائے تو جنگ و جدال اور مسلح جدوجہد سے بھرپور نظر آتا ہے، لیکن ملا ہبت اللہ اخونزادہ کی پہچان میدان جنگ میں لڑنے والے جنگ جو کی نہیں ہے، بل کہ انھیں افغان طالبان کے حلقوں میں ایک مذہبی و علمی شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

دوسری طرف افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہبت اللہ اخونزادہ کا انتخاب شوریٰ کے طویل اجلاس اور بحث ومباحثے کے بعد کیا گیا۔ یہ انتخاب اس لیے بھی ممکن ہوا کیوںکہ ہبت اللہ کو ایک روحانی لیڈر کے طور پر افغان طالبان میں بہت احترام دیا جاتا ہے اور انھوں نے پاکستان اور افغانستان میں کئی سال درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہے، جس کی وجہ سے ان کے شاگردوں اور بات ماننے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اُن کی باتوں اور ان کی جانب سے جاری کیے گئے فتووں کو افغان طالبان کے حلقوں میں کلیدی اہمیت حاصل ہے اور وہ چاہیں تو طالبان کے ایک بڑے حلقے سے اپنی بات منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق گوکہ ہبت اللہ اخونزادہ نے اپنا زیادہ وقت علمی میدان مین صرف کیا لیکن جب 1994 میں مُلا عمر نے طالبان کے قیام کا اعلان کیا تو اس موقع پر ہبت اللہ اخونزادہ ملا عمر کے ساتھ تھے۔

اگر سینیارٹی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مُلا عبدالغنی برادر کے بعد ہبت اللہ ہی افغان طالبان کے راہ نماؤں میں سب سے سنیئر ہیں۔ ہبت اللہ اخونزادہ کو افغان طالبان نے اپنا سربراہ بنالیا ہے جب کہ سراج الدین حقانی اور مُلا عمر کے صاحبزادے مُلا یعقوب کو اُن کے نائب کی ذمے داریاں دی گئی ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح انتخاب کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حقانی فوجی امور کو دیکھیں گے اور ملا یعقوب کے ذمے سیاسی میدان ہوگا جب کہ ہبت اللہ اخونزادہ ان کی سرپرستی کریں گے اور اُن کی حیثیت علامتی ہوگی، کیوںکہ وہ افغان طالبان کے سابق سربراہوں کی طرح عسکری میدان میں زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔

ملا ہبت اللہ کے سربراہی سنبھالتے ہی ان کا ایک بیان سامنے آیا کہ عسکری کارروائیاں جاری رہیں گی اور مذاکرات نہیں ہوں گے۔ تاہم طالبان نے فوری طور پر اس بیان کی تردید کردی تھی اور کہا تھا کہ ابھی ملا ہبت اللہ نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

تقریباً 55 سالہ ہبت اللہ اخونزادہ کا افغان طالبان کے سربراہ کی حیثیت سے انتخاب عالمی سیاسی صورت حال میں بھی اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ مسلح جدوجہد پر مبنی پالیسی اختیار کرتے ہیں یا مفاہمتی عمل کی جانب بڑھتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ہبت اللہ کے القاعدہ سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال اور وہاں امریکی اتحادیوں کی موجودگی میں ہبت اللہ اخونزادہ کا ہر قدم اہمیت اور توجہ کا حامل ہوگا۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مُلا منصور کی ہلاکت کے بعد جب ملا ہبت اللہ کو سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو افغان طالبان کے ایک بڑے حلقے نے اس کی مخالفت کی تھی، کیوںکہ ہبت اللہ اخونزادہ کی پہچان ایک مذہبی شخصیت کی ہے جنگ جو کی نہیں، لیکن اطلاعات کے مطابق ہبت اللہ کے مخالف دھڑے نے اس یقین دہانی کے بعد اُن کے حق میں ووٹ دیا کہ وہ سابق سربراہ ملا منصور کی ہلاکت کا بدلہ لیں گے۔

اس معاملے پر کافی غوروخوض اور بحث کے بعد ہبت اللہ کو سربراہ کی حیثیت سے منتخب کرلیا گیا اور طالبان نے اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ جن لوگوں نے ہبت اللہ کے انتخاب کی مخالفت کی تھی وہ اُن کی سربراہی میں کیسے اور کب تک کام کریں گے، قبائل کی تاریخ میں ایک سربراہ کا انتخاب مشکل نہیں لیکن اس کا آزادی کے ساتھ کام کرنا اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیوںکہ بہت سے دھڑوں کی مختلف معاملات پر اپنی اپنی رائے ہوتی ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

دوسری طرف ملا اختر منصور کی ہلاکت اب بھی ایک معما بنی ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ دنوں میں ملا ہبت اللہ کے حوالے سے امریکا کیا پالیسی اختیار کرتا ہے۔ امریکا نے ابتدائی طور پر ملا ہبت اللہ کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ کابل میں اشرف غنی کی حکومت کے اپنے مفادات اور مقاصد ہیں، امریکا کی سربراہی میں اتحادی فوج افغانستان میں مصروف ہے، ایسے میں افغان طالبان کے نئے سربراہ کا کردار بہت اہم ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو پھر سے جنگ کی جانب لے جائیں گے یا مذاکرات کی میز پر آکر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جائے گی؟

مُلا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے ایک دو روز بعد ہی افغانستان میں عدالتی عملے کی ایک گاڑی کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا، جس میں کم ازکم 10 افراد ہلاک اور 30 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی کو بعض حلقوں نے مُلا اختر منصور کی ہلاکت کا ردعمل قرار دیا تھا۔ مستقبل میں بھی ایسی پُرتشدد کارروائیوں کا خدشہ برقرار ہے۔

کسی بھی وقت کوئی واقعہ مذاکراتی فضا کو ملیامیٹ کرسکتا ہے جیسے ملا اختر منصور کی ہلاکت سے ہوا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ فریقین معاملات کو واقعی سلجھانا چاہتے ہیں یا صرف وقت گزاری ہورہی ہے۔ دوسری طرف افغان طالبان کے حلقے بھی اس کوشش میں ہیں کہ اُن عناصر کا پتا چلایا جائے جنھوں نے مُلا منصور کی نقل و حرکت کا راز افشا کیا۔ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ ملا منصور کے خلاف کارروائی میں کسی اندر کے آدمی کی مخبری کا ہاتھ ہے۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ افغان طالبان ہوں یا تحریک طالبان پاکستان، دونوں تنظیموں کے متعدد لیڈروں کو امریکی حملوں میں مارا جاچکا ہے۔ تحریک طالبان کے لیڈر بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود مارے جاچکے ہیں، جب کہ مُلا فضل اللہ افغانستان ہی میں کہیں روپوش ہے۔ جہاں افغان طالبان کو سب سے زیادہ نقصان ڈرون حملوں نے پہنچایا ہے وہیں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاک فوج کی کارروائیوں نے قبائلی علاقوں میں چھپے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ایسی صورت حال میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگ جوؤں کی بڑی تعداد نے افغانستان کا رخ کرلیا ہے اور قوی امکان ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ مل کر کام کررہے ہوں۔

افغان طالبان اور تحریک طالبان دونوں کو امریکی رویوں اور پالیسیوں پر شدید اختلافات ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہبت اللہ کی سمجھ بوجھ، دور اندیشی اور معاملہ فہمی کا اصل امتحان شروع ہوگیا ہے کہ وہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے ہیں یا جارحانہ پالیسی کا انتخاب کرتے ہیں۔

ایک اور اہم مرحلہ افغان مہاجرین کی پاکستان سے واپسی اور اپنے علاقوں میں آبادکاری ہے، کابل حکومت اس حوالے سے کتنی مخلص ہے اُس کا اندازہ تو کچھ دنوں میں ہوجائے گا، لیکن افغان طالبان کو بھی افغان مہاجرین کے حوالے سے اپنا موقف کُھل کر پیش کرنا چاہیے، کیوںکہ افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیکیوریٹی ہے۔ اگر وہاں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوجائے تو افغان مہاجرین کو جانے میں پریشانی نہیں ہوگی۔

دنیا بھر میں سیاسی تجزیہ نگار اس وقت ملا ہبت اللہ کے حوالے سے مختلف پیش گوئیاں کررہے ہیں، بہت سے نکات پر بحث کی جارہی ہے۔ اُن نکات میں سے کچھ یہ ہیں:

(i) کیا ہبت اللہ اخونزادہ مُلا اختر منصور کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کریں گے؟

(ii) ایک مذہبی و علمی شخصیت ہونے کے ناتے ہبت اللہ کی زندگی جنگ و جدال سے دور ہی گزری ہے، کیا اب وہ اپنی نئی ذمے داری کے ساتھ افغان طالبان کو میدان جنگ سے بُلاکر مذاکراتی میز پر بٹھاسکیں گے؟

(iii) ہبت اللہ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے، کیا وہ اپنے شاگردوں کو پُر امن ماحول فراہم کرنے میں کام یاب ہوں گے۔

(iv) افغان طالبان میں بہت سے گروپ ایسے ہیں جو امریکا، افغان حکومت اور اتحادیوں سے مذاکرات کے بجائے مسلح جدوجہد ہی کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں، کیا ہبت اللہ انھیں پُرتشدد کارروائیوں سے روک پائیں گے؟

(v) عالمی سطح پر ہبت اللہ امن کا ساتھ دیں گے یا جنگ کا؟

یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات سیاسی تجزیہ نگاروں کے ذہنوں میں ہیں جن کے جواب آئندہ دنوں میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ہبت اللہ اخونزادہ نے امن کا راستہ اختیار کیا، معاملات اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے طے کیا، کچھ اپنی باتیں منوائیں ، کچھ دوسروں کی مانیں اور اس کے نتیجے میں افغان عوام کو ایک پُرامن ماحول میسر آگیا تو یہ اُن کی بہت بڑی کام یابی قرار پائے گی لیکن اس کے لیے ہبت اللہ کو عسکری، سیاسی، سفارتی، مذہبی تمام محاذوں پر انتہائی دوراندیشی، بردباری اور مصلحت کے ساتھ قدم بڑھانا ہوگا۔ ساری دنیا ہبت اللہ کے اقدامات کی منتظر ہے جس کے لیے انھیں سب سے پہلے اپنے حلقوں کا بھرپور اعتماد حاصل کرنا ہوگا تاکہ فیصلہ سازی میں کوئی پریشانی یا رکاوٹ نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔