محمد علی باکسر
اس وقت میرے سامنے وہ منظر اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ روشن ہوگیا ہے
اس وقت میرے سامنے وہ منظر اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ روشن ہوگیا ہے جس میں، میں نے لاہور کے ایک پنچ ستارہ ہوٹل میں عظیم باکسر محمد علی سے ہاتھ ملایا تھا۔ اتفاق سے جس عزیز اور پیارے دوست دلدار پرویز بھٹی کی معرفت یہ سرسری ملاقات ممکن ہوسکی تھی اس کو بھی اب رزق خاک ہوئے 22 برس ہو چلے ہیں۔ محمد علی بلاشبہ ہمارے عہد کے ان چند عظیم ترین لوگوں میں سے تھا جن پر یہ مصرعہ پوری طرح سے لاگو ہوتا ہے کہ ''ہائے یہ لوگ بھی مرجائیں گے۔''
گزشتہ چند برسوں میں مغربی دنیا میں قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے لیکن بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز کے برسوں میں یہ واقعی ایک ''واقعہ'' ہوا کرتا تھا، سو جب یہ خبر ملی کہ کاسس کلے(Cassius Clay) نامی ایک نوجوان سیاہ فام باکسر نے عالمی مقابلہ جیتنے کے بعد قبول اسلام کا اعلان کردیا ہے جس پر اس کے ملک امریکا میں شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور یہ کہ اس لڑکے کی ''زبان اور ہاتھ پاؤں'' دونوں کی پھرتی قابل دید و شنید ہے۔
اس کے بعد سے اس کے باکسنگ کیریئر کے اختتام تک شائد ہی میں نے اس کی کوئی فائٹ مس کی ہو کہ اس بلیک اینڈ وائٹ زمانے میں بھی یوٹیوب اور انٹرنیٹ کی عدم موجودگی کے باوجود ڈھونڈنے والوں کو ایسی چیزیں کسی نہ کسی طرح سے مل ہی جاتی تھیں جب کہ پی ٹی وی بھی ان مقابلوں کی ریکارڈنگ اپنے قومی نشریاتی رابطے پر دکھایا کرتا تھا۔ غالباً جارج فورمین سے ہونے والا تاریخ ساز مقابلہ وہ پہلا میچ تھا جسے پی ٹی وی سے براہ راست دکھایا گیا تھا اور ہوا بھی یہ غالباً کسی افریقی ملک میں تھا۔
قبول اسلام کے بعد اور اسی کے تسلسل میں دوسرا دھماکا محمد علی نے اس وقت کیا جب اس نے ویت نام کی جنگ میں جبری بھرتی سے انکار کردیا جس کی پاداش میں اسے اپنے تمام اعزازات سمیت رزق کے دیگر ذرایع سے بھی محروم ہونا پڑا۔ باکسنگ کے کھیل میں اپنی غیر معمولی بلکہ بے مثال کارکردگی اور صلاحیت کے باعث وہ ایک سیلبریٹی اور دنیا بھر کے لوگوں کی آنکھوں کا تارا تو بن ہی چکا تھا مگر اس کی اس اصول پسندی نے ان لوگوں کو بھی اس کا گرویدہ بنادیا جنھیں رجحان ساز لوگ کہا جاتا ہے اور وہ کھیل کے میدان سے ابھرنے والی پہلی ایسی شخصیت بن گیا جس سے ہاتھ ملانا کسی بڑے سے بڑے آدمی کے لیے بھی ایک عزت کی بات ٹھہری، جب کہ کھیلوں سے دلچسپی نہ رکھنے والے لوگ بھی اس کا نام عزت اور محبت سے لیتے تھے۔
سونی لسٹن، فلائیڈ پیٹرسن، جوفریزر، جارج فورمین اور کین نارٹن سمیت اس نے اپنے زمانے کے ہر ہیوی ویٹ باکسر کو شکست دی۔ اپنے طویل کیریئر کے اختتامی دنوں میں اسے کل ملا کر تین دفعہ باکسنگ رنگ سے بغیر ٹرافی اٹھائے باہر آنا پڑا لیکن غور کیا جائے تو اس وقت نہ صرف وہ ہیوی ویٹ باکسرز کی عمومی ریٹائرمنٹ کی عمر سے گزرچکا تھا بلکہ مختلف مقابلوں میں لگنے والی اندرونی چوٹوں کی وجہ سے اس کا سر بھی بری طرح سے مجروح اور متاثر ہوچکا تھا جس کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ اس کے فوراً بعد وہ پارکنسن کے مرض کا شکار ہوگیا اور باکسنگ کو جاری رکھنا تو کیا اسے چلنے پھرنے میں بھی دقت محسوس ہونے لگی۔
اس کے حواس سست اور بے قابو ہونے لگے اور زبان (وہ زبان جو اس کے آہنی مکوں سے بھی زیادہ تیز اور پر اثر تھی) بھی لڑکھڑانے لگی مجھے جب اس سے ملاقات کا واحد موقع ملا تو وہ اسی کیفیت میں تھا اور غالباً کسی چیریٹی مہم کے لیے پاکستان کا دورہ کررہا تھا اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تو تھی مگر آنکھیں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ وہ جیسے کسی اور ہی دنیا میں گم تھا۔ بعد میں ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' کے مصداق اس کی حالت بگڑتی چلی گئی اور اب وہ کئی برسوں سے بہت کم کیمرے یا پبلک کے سامنے آتا تھا۔
اسے ملینیئم کے عظیم ترین کھلاڑی کا اعزاز بھی دیا گیا مگر یہ خبر بھی اس کی ہلتی ہوئی گردن کے اس رعشے کو کم نہ کرسکی جو پارکنسن جیسے موذی مرض کا وہ ناپسندیدہ تحفہ تھا جس نے اس عظیم اور تاریخ ساز انسان کو ایک اعتبار سے جیتے جی مار دیا تھا کہ اس کی پہچان تو اس کا پارے کی طرح مچلتا ہوا جسم اور آرے کی طرح کاٹتی ہوئی وہ زبان ہی تھی جو اس کے ہر مخالف کو رنگ میں اترنے سے پہلے اپنے حصار میں لے لیتی تھی۔
محمد علی، اس کی ذات، کارناموں اور یادوں سے متعلق اتنی باتیں ہیں کہ انھیں ایک ضخیم کتاب میں سمیٹنا بھی مشکل ہے۔ اگرچہ اس کی وفات کی خبر ناگہانی اور غیر متوقع نہیں کہ اس مرض کی جس اسٹیج پر وہ کئی برس سے زندہ تھا وہ اپنی جگہ پر اس کی غیر معمولی قوت مدافعت اور جوش ایمانی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ کہنا بنتا ہے کہ کاسس کلے سے محمد علی اور چیمپئن سے دم آخر تک کی منزلیں جس طرح سے اس نے سر کی ہیں یہ کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا تھا۔
گزشتہ چند برسوں میں مغربی دنیا میں قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے لیکن بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز کے برسوں میں یہ واقعی ایک ''واقعہ'' ہوا کرتا تھا، سو جب یہ خبر ملی کہ کاسس کلے(Cassius Clay) نامی ایک نوجوان سیاہ فام باکسر نے عالمی مقابلہ جیتنے کے بعد قبول اسلام کا اعلان کردیا ہے جس پر اس کے ملک امریکا میں شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور یہ کہ اس لڑکے کی ''زبان اور ہاتھ پاؤں'' دونوں کی پھرتی قابل دید و شنید ہے۔
اس کے بعد سے اس کے باکسنگ کیریئر کے اختتام تک شائد ہی میں نے اس کی کوئی فائٹ مس کی ہو کہ اس بلیک اینڈ وائٹ زمانے میں بھی یوٹیوب اور انٹرنیٹ کی عدم موجودگی کے باوجود ڈھونڈنے والوں کو ایسی چیزیں کسی نہ کسی طرح سے مل ہی جاتی تھیں جب کہ پی ٹی وی بھی ان مقابلوں کی ریکارڈنگ اپنے قومی نشریاتی رابطے پر دکھایا کرتا تھا۔ غالباً جارج فورمین سے ہونے والا تاریخ ساز مقابلہ وہ پہلا میچ تھا جسے پی ٹی وی سے براہ راست دکھایا گیا تھا اور ہوا بھی یہ غالباً کسی افریقی ملک میں تھا۔
قبول اسلام کے بعد اور اسی کے تسلسل میں دوسرا دھماکا محمد علی نے اس وقت کیا جب اس نے ویت نام کی جنگ میں جبری بھرتی سے انکار کردیا جس کی پاداش میں اسے اپنے تمام اعزازات سمیت رزق کے دیگر ذرایع سے بھی محروم ہونا پڑا۔ باکسنگ کے کھیل میں اپنی غیر معمولی بلکہ بے مثال کارکردگی اور صلاحیت کے باعث وہ ایک سیلبریٹی اور دنیا بھر کے لوگوں کی آنکھوں کا تارا تو بن ہی چکا تھا مگر اس کی اس اصول پسندی نے ان لوگوں کو بھی اس کا گرویدہ بنادیا جنھیں رجحان ساز لوگ کہا جاتا ہے اور وہ کھیل کے میدان سے ابھرنے والی پہلی ایسی شخصیت بن گیا جس سے ہاتھ ملانا کسی بڑے سے بڑے آدمی کے لیے بھی ایک عزت کی بات ٹھہری، جب کہ کھیلوں سے دلچسپی نہ رکھنے والے لوگ بھی اس کا نام عزت اور محبت سے لیتے تھے۔
سونی لسٹن، فلائیڈ پیٹرسن، جوفریزر، جارج فورمین اور کین نارٹن سمیت اس نے اپنے زمانے کے ہر ہیوی ویٹ باکسر کو شکست دی۔ اپنے طویل کیریئر کے اختتامی دنوں میں اسے کل ملا کر تین دفعہ باکسنگ رنگ سے بغیر ٹرافی اٹھائے باہر آنا پڑا لیکن غور کیا جائے تو اس وقت نہ صرف وہ ہیوی ویٹ باکسرز کی عمومی ریٹائرمنٹ کی عمر سے گزرچکا تھا بلکہ مختلف مقابلوں میں لگنے والی اندرونی چوٹوں کی وجہ سے اس کا سر بھی بری طرح سے مجروح اور متاثر ہوچکا تھا جس کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ اس کے فوراً بعد وہ پارکنسن کے مرض کا شکار ہوگیا اور باکسنگ کو جاری رکھنا تو کیا اسے چلنے پھرنے میں بھی دقت محسوس ہونے لگی۔
اس کے حواس سست اور بے قابو ہونے لگے اور زبان (وہ زبان جو اس کے آہنی مکوں سے بھی زیادہ تیز اور پر اثر تھی) بھی لڑکھڑانے لگی مجھے جب اس سے ملاقات کا واحد موقع ملا تو وہ اسی کیفیت میں تھا اور غالباً کسی چیریٹی مہم کے لیے پاکستان کا دورہ کررہا تھا اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تو تھی مگر آنکھیں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ وہ جیسے کسی اور ہی دنیا میں گم تھا۔ بعد میں ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' کے مصداق اس کی حالت بگڑتی چلی گئی اور اب وہ کئی برسوں سے بہت کم کیمرے یا پبلک کے سامنے آتا تھا۔
اسے ملینیئم کے عظیم ترین کھلاڑی کا اعزاز بھی دیا گیا مگر یہ خبر بھی اس کی ہلتی ہوئی گردن کے اس رعشے کو کم نہ کرسکی جو پارکنسن جیسے موذی مرض کا وہ ناپسندیدہ تحفہ تھا جس نے اس عظیم اور تاریخ ساز انسان کو ایک اعتبار سے جیتے جی مار دیا تھا کہ اس کی پہچان تو اس کا پارے کی طرح مچلتا ہوا جسم اور آرے کی طرح کاٹتی ہوئی وہ زبان ہی تھی جو اس کے ہر مخالف کو رنگ میں اترنے سے پہلے اپنے حصار میں لے لیتی تھی۔
محمد علی، اس کی ذات، کارناموں اور یادوں سے متعلق اتنی باتیں ہیں کہ انھیں ایک ضخیم کتاب میں سمیٹنا بھی مشکل ہے۔ اگرچہ اس کی وفات کی خبر ناگہانی اور غیر متوقع نہیں کہ اس مرض کی جس اسٹیج پر وہ کئی برس سے زندہ تھا وہ اپنی جگہ پر اس کی غیر معمولی قوت مدافعت اور جوش ایمانی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ کہنا بنتا ہے کہ کاسس کلے سے محمد علی اور چیمپئن سے دم آخر تک کی منزلیں جس طرح سے اس نے سر کی ہیں یہ کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا تھا۔