ہماری لاغر خارجہ پالیسی کا شاخسانہ

آخر ایسے لوگ ہماری سرزمین پر کیونکر موجود ہوتے ہیں جن کے تعاقب میں ڈرونز آتے ہیں۔


شاہد سردار June 05, 2016

Time To Put The Squeez On Pakistan

یہ ہے نیو یارک ٹائمز کے اداریے کا حالیہ عنوان یعنی ''پاکستان کو نچوڑنے کا وقت'' اخبار لکھتا ہے کہ ''پاکستان دہری چال چل رہا ہے اور عرصہ دراز سے امریکا کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ نائن الیون کو گزرے پندرہ برس ہو گئے لیکن افغانستان میں جاری جنگ تھمنے کو نہیں آ رہی، جس کا ذمے دار پاکستان ہے۔ اس دوغلے اور خطرناک شریک کار نے 32 بلین ڈالر کی خطیر رقم کھانے کے باوجود امریکا اور افغانستان کے لیے کچھ نہیں کیا۔''

اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا ''عدم اعتماد'' کشیدگی کی حدوں کو چھو رہا ہے اور اب امریکا نے ڈرون حملوں کا دائرہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا سے بڑھا کر بلوچستان تک پھیلا دیا ہے اور یہ پنجاب اور سندھ تک بھی پہنچ سکتا ہے، امریکا نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی پہلی بار نہیں کی کیونکہ وہ ایک طاقتور ملک ہے اور طاقت کا کوئی اصول، قانون اور ضابطہ نہیں ہوتا۔ امریکا کے پاکستان میں ڈرون حملے سے زیادہ ملا اختر منصور کی پاکستان میں موجودگی بڑا مسئلہ ہے۔

آخر ایسے لوگ ہماری سرزمین پر کیونکر موجود ہوتے ہیں جن کے تعاقب میں ڈرونز آتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی پہلے وہ لوگ کرتے ہیں جو دنیا کو مطلوب ہوتے ہیں مگر ہمارے پاس محفوظ رہ رہے ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو صرف امریکا ہی نہیں بلکہ پاکستان خود بھی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے آخر اس نے پچھلے 30 برسوں سے اپنی سرزمین کو غیر ملکی لڑائی کا میدان کیوں بنایا ہوا ہے؟ اُسامہ بن لادن، ملا عمر اور خالد شیخ سے لے کر ملا منصور تک پاکستانی سرزمین پر پائے گئے جب کہ وہ پاکستانی شہری نہیں تھے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پوری دنیا آج ہمارے ملک کو طالبان کا پاکستان کہہ رہی ہے۔ عالمی برادری پہلے ہی پاکستان کے کردار پر انگلی اٹھا رہی تھی اب بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر برملا کہا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کے لیے پاکستان محفوظ ترین جگہ ہے۔ کون نہیں جانتا؟ کسے نہیں معلوم کہ ہمارے اپنے ملکی حالات خود ہمارے لیے سازگار اور موافق نہیں ہیں۔ امریکا اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی قربت ایسے میں پاکستان کے لیے مسائل کے بلند و بالا پہاڑ کھڑے کر سکتی ہے، لیکن ہم اندرون ملک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے میں مصروف ہیں۔

آج ہمارا کوئی ایک بھی ہمسایہ ملک ایسا نہیں ہے جس سے ہمارے مثالی تعلقات ہوں اور وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو۔ یہ ایک برہنہ سچائی ہے کہ پاکستان کی لاغر اور ناتواں خارجہ پالیسی ہماری ہی ریاست کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے، پہلے ہماری خارجہ پالیسی تلور کی محتاج تھی اور آج اسٹیبلشمنٹ کی۔ ہماری غلامانہ خارجہ پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج خلیجی ممالک پاکستان نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان بالکل اکیلا ہو گیاہے۔

چار پڑوسی ممالک میں سے تین ایک طرف ہیں اور ہم ایک طرف۔اب رہ جاتا ہے صرف چین تو ہمیں اس خوش فہمی میں بھی زیادہ دیر نہیں رہنا چاہیے کیونکہ چین دنیا کے حالات و واقعات اور اپنے مفاد کو سب سے پہلے دیکھتا ہے ویسے بھی کمزور، بے بس اور لاچار پڑوسی سے سبھی دور بھاگتے ہیں، افغانستان کبھی وہ ملک تھا جس کے شہری خود کو پاکستان کے شہری کے طور پر متعارف کرانا فخر سمجھتے تھے لیکن جنرل ضیاالحق کی ناقص حکمت عملی سے آج پاکستان کے ہاتھوں سے افغانستان مکمل طور پر جا چکا ہے۔

افغانستان جیسے چھوٹے ملک میں بھارت کے ڈیڑھ درجن سے زائد سفارت خانے تمام حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں، آج بھارت کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا آج پوری دنیا ایران سے بہتر تعلقات کے خواب دیکھ رہی ہے لیکن ہم نے اس سے تعلقات خراب کر لیے ہیں۔ شاید ہم بھول چکے ہیں کہ ایران وہ واحد ملک تھا جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا مگر آج وہ ایران ہے جو افغانستان اور بھارت کے ساتھ ہم سے علیحدہ کھڑا ہے وجہ صرف ہماری کمزور خارجہ پالیسی ہے۔ پہلے پاکستان نے روس کے بھارت کی طرف جھکاؤ کو دیکھتے ہوئے امریکا سے تعلقات استوار کیے لیکن پھر 68 سال گزر گئے اس تعلق کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا وہ پاکستان کو نچوڑنے کے در پے ہے اور آج امریکا کا سب سے بڑا اور اہم ترین دوست بھارت ہے۔

ہماری سرزمین پر افغان طالبان کے امیر ملا منصور کا امریکی میزائل سے لقمہ اجل بن جانا آج کی دنیا کا بہت بڑا واقعہ ہے اور افغانستان ہی کی وجہ سے پاکستان ایک بند گلی میں پھنستا جا رہا ہے اور یہ سب غیروں کی شرارتوں اور اپنوں کی حماقتوں کی وجہ سے ہو رہا ہے اور آ نے والے دنوں میں پاکستان کے لیے داخلی و خارجی محاذ پر مشکلات بڑھنے والی ہیں اور اس سارے کھیل میں پاکستان کو بدنامی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔ بہر کیف اب پوری دنیا کو یہ باور کر لینا چاہیے کہ جس طرح اسامہ بن لادن، ملا عمر اور خالد شیخ کی اموات سے افغان مسئلہ حل نہیں ہوا اسی طرح ملا منصور کی موت بھی افغانستان میں امن کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔

پاکستان چین امریکا اور افغان حکومتوں کی کوششوں سے افغانستان کے لیے جس مفاہمتی عمل کا آغاز ہوا تھا ملا منصور کی موت اس کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے اور اس معاملے کا سب سے سنگین پہلو ہمارے ملک پاکستان سے متعلق ہے جو پہلے سے بگڑتے ہوئے پاک امریکا تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔ امریکا ایک طرف افغانستان میں مفاہمتی عمل کے لیے پاکستان سے فعال کردار کی توقع رکھتا ہے تو دوسری طرف اس کی سرزمین پر ڈرون حملے کر کے خود ہی اس عمل میں رکاوٹ بھی ڈال رہا ہے، امریکا کی یہ دوغلی پالیسی اس خطے کے امن کے لیے کسی طرح سودمند نہیں۔

یہ ایک مسلّم امر ہے کہ پاکستان نے افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے کی بہت بڑی سزا بھگتی ہے اس کے ساٹھ ہزار شہری اور فوجی افغانستان سے آنے والی دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہو گئے اربوں ڈالر مالی نقصان بھی اسے اٹھانا پڑا۔ کسی ملک کی سالمیت یا خود مختاری پر اس سے بڑا حملہ اور کیا ہو گا کہ کوئی دوسرا ملک جب چاہے اس کی سرحدوں میں گھس کر اس کے تقدس کو پامال کر کے چلا جائے۔

ہمارا مسئلہ صرف غربت اور پسماندگی نہیں اصل مسئلہ غلامانہ ذہنیت اور خوف سے نکلنے کا ہے، ایران دہائیوں تک امریکی دشمنی کا نشانہ بنا رہا اور اکیلا سپر پاور کے سامنے ڈٹا رہا لیکن ہم ایٹمی قوت ہو کر بھی چند ہفتے امریکی ناراضگی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے کیا ہماری وزارت دفاع، وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور بالخصوص عسکری حلقوں میں کوئی بھی ایسا میکنزم موجود نہیں جو جرأت اور دلائل دونوں سے امریکا کو سمجھائے کہ خطے میں پاکستان کو کمزور اور بے وقعت کر کے اسے کچھ نہیں ملے گا۔

ہمارے ملک کے پالیسی سازوں کو اب تو عقل کے ناخن لیتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ امریکا کی دوستی صرف اس کے اپنے مفادات کی دوستی ہوتی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے امریکا بین الاقوامی جمہوری روایات، دوستانہ تعلقات، اخلاقی اقدار سبھی کچھ اپنے پاؤں تلے روند دیتا ہے، امریکا کے ساتھ ہمارے مراسم کی پوری تاریخ اس نشیب و فراز کا شکار رہی ہے اگر واقعی ہم زندہ اور پایندہ قوم ہیں اور اگر ایک باعزت اور غیرت مند قوم کی حیثیت سے ہمارے لیے ہماری خود مختاری پہلی ترجیح ہے تو پھر ہمارے قائدین قوم سے جو قربانی مانگیں گے وہ دے گی لیکن خود قائدین کو بھی اپنی قوم سے وعدہ کرنا ہو گا بلکہ اب وعدوں سے کام چلنے والا نہیں اب پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے لیے کسی عملی اقدام کی ضرورت ناگزیر ہو چکی ہے لیکن موجودہ حالات کچھ اور ہی بتا رہے ہیں کیونکہ ہماری نگاہوں کے سامنے جمہوریت کی کمزور سی کشتی نا اہل اور ناکارہ ملاحوں کے ہاتھ طوفانی لہروں کی زد میں ہے اور گہرے پانیوں کے دوش پر ملاح اپنی اپنی جائیدادوں کی فکر اور سوچ میں غرق ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں