امریکا…ایک تاثر
1967ء میں بیت المقدس پر قبضہ ہوا اور یہ اس وقت کی بڑی طاقتوں کی مدد سے ہی ہوا۔
NEW DELHI:
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے ہماری ایک عزیزہ جو امریکا میں مقیم ہیں اپنے صاحبزادے کی شادی کے سلسلے میں پاکستان آئی ہوئی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ شادی کچھ سال بعد کرنا تھی لیکن چونکہ امریکا میں انتخابات ہونے والے ہیں اور اگر ری پبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ آ گئے تو نجانے کیا نئی ترمیمات امریکی مسلمانوں کے لیے بنائی جائیں ان کے رویے تو ابھی سے ظاہر ہیں۔ کہیں زیادہ مشکلات میں نہ گِھر جائیں اس لیے ابھی سے ہی شادی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ خیر سے وہ تو چلی گئیں لیکن ایک واضح سوال ان کے رویے نے ثابت کر دیا جو امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کے عمومی رویے کو ظاہر کر گیا۔ آیا ری پبلکن پارٹی امریکا میں اور اس سے باہر بسنے والے مسلمانوں کے لیے اسی سخت رویے میں مبتلا رہے گی۔ کیا واقعی نئے انتخابات امریکا اور دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے کوئی اچھا پیغام لے کر آئیں گے؟
اگر جائزہ لیا جائے تو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہونے والے بڑے بڑے حادثات و واقعات میں امریکا کی طاقت نظر آتی ہے۔ یہ طاقت 1933ء سے ابھرتی نظر آتی ہے اور دوسری جنگ عظیم تک دو عالمی جنگوں میں اس کا کردار واضح نظر آتا ہے امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے دو معروف صدر فرینکلن روز ویلٹ اور ہیری ٹرومین اس تمام عرصے میں اقوام متحدہ کے قیام اور عالمی جنگوں کے حوالوں سے یادگار ابواب تحریر کر گئے۔ دنیا نے دیکھا کہ بدترین جنگی تباہ کاریاں رونما ہوئیں۔ جاپان میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم ان بدترین فیصلوں میں شامل تھے جس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے پرتشدد جذبات کو جنگ میں انتہائی بلندیوں پر لے جا کر انسانیت کی تاریخ پر بدنما لیبل چسپاں کر دیا تھا آج بھی ان دونوں شہروں میں اس بدترین دن کی یاد میں مرنے والوں کے لیے پھول چڑھائے جاتے ہیں۔
ری پبلکن پارٹی کے ایک اور صدر آئزن ہاور نے بھی اپنا نام انسانیت کی بلندی میں کچھ اس طرح رقم کیا کہ آج بھی گزشتہ سے پیوستہ آنکھیں نیر بہا رہی ہیں۔ 1953ء سے 1961ء کے آٹھ برسوں میں تیل وہ مقصد تھا جس پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی پشت پناہی کی گئی۔ اسے جدید اسلحہ فراہم کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ کے علاوہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے نوآزاد ممالک میں جس طرح سے جمہوری اقدار کو کچلا گیا اور فوجی آمریت کا راستہ ہموار کیا گیا یہ ان کے تئیں یقیناً بہت عظیم کام ہو گا جس کا پھل پانچ نسلیں کھاتی رہیں۔
آئزن ہاور کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی برسر اقتدار آئی یہ دورانیہ تھا 1961ء سے 1969ء کا جس میں صدر جان کینیڈی اپنی پرکشش شخصیت کے ساتھ بہت سے عزائم لے کر میدان میں اترے تھے لیکن اسی دور میں ویت نام میں امریکا کی فوجیں اتریں اور ایک خوفناک جنگ کا آغاز ہوا۔ ویت نام کی جنگ کی تباہ کاریاں اور تشدد آج بھی انسانی روح کو لرزا دیتے ہیں۔ اسی دوران امریکا میں نسلی حوالے سے مارٹن لوتھر کا نام سنا گیا۔ ایک ہی ملک میں بسنے والوں کے درمیان اتنا فرق یہ سیاہ فام لوگوں کی آزادیٔ حقوق کے حوالے سے اتنا مقبول ہوا کہ اس نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا 1968ء میں مارٹن لوتھر کا قتل ہو گیا جس نے حقوق کی آزادی کے حوالے سے اتنی تباہی مچائی کہ بعد میں حکمرانوں کو جو سفید رنگت کے غرور میں اکڑے بیٹھے تھے ہار ماننا ہی پڑی۔
1967ء میں بیت المقدس پر قبضہ ہوا اور یہ اس وقت کی بڑی طاقتوں کی مدد سے ہی ہوا۔ مصر، شام، اردن کے علاقوں پر اسرائیل قابض ہوا۔ یہ حکمت عملی مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کی گئی تا کہ اس جارحانہ اقدام سے اسرائیل کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل ہو۔ اسی دوران ایک چھوٹی سی طاقت کے ٹولے کو اسرائیل کا نام دیا گیا جسے پشت پناہی حاصل تھی۔ 1969ء سے 1974ء تک ری پبلکن پارٹی کو کرسی نصیب ہوئی۔ رچرڈ نکسن نے وہی کیا جو ان سے پہلے صدر آئزن ہاور نے بیج ڈالے تھے۔
برازیل، پیرو، چلی، ارجنٹائن، کولمبیا، وینزویلا اور بولیویا اور وسطی امریکا، میکسیکو، پنامہ اور نکارا گوا میں تباہ کاریاں مچائیں، اگر یادداشت پر زور دیں تو 71ء میں ہونے والا عظیم سانحہ جو پاکستان میں گزرا تھا اس میں اور اس سے پہلے 65ء کی جنگ میں ہم کامیاب ہو کر بھی کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے کیا پاکستان بھی اسرائیل کی طرح بھارت کے حصوں پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیوں؟ اس کے بعد صدر بش منظر عام پر نظر آتے ہیں جن کے دور میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے 1990ء میں امریکی نیو ورلڈ آرڈر بھی سامنے آتا ہے جس نے ایک اچھے مصنف کی طرح تمام اچھی صفات لکھ تو ڈالیں لیکن اس کے مطابق کن کن ممالک کو چھری تلے رکھا گیا اس سے کون واقف نہیں اس کے بعد 9/11 کا واقعہ اور امریکی طاقت کا جن نظر آتا ہے۔ افغانستان، پاکستان اور امریکا ایک ایسی تکون ابھرتی ہے جس میں پلہ صرف امریکا کا بھاری رہتا ہے۔
ہم سب ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس سخت بیان سے خائف ہیں جس نے ان کے اندرونی جذبات کو کھل کر مسلمانوں کے خلاف ظاہر کر دیا ہے۔ لیکن کیا ان کے اس بیان کے بعد یہ اثر تقویت حاصل کر سکتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی امریکی اور دنیا کے مسلمانوں اور دوسری اقوام کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے کیا باراک اوباما کے دور حکومت میں صرف امن کی فاختائیں چہچہاتی رہیں، جب اوباما صدارتی کرسی پر براجمان ہوئے تھے تو خیال تھا کہ چونکہ ان کے والد مرحوم مسلمان تھے لہٰذا شاید ان کے اندر کچھ اسلامی جراثیم ان میں نرم رویے کو تقویت دیں گے لیکن ایسا کچھ نظر تو نہ آیا۔
امریکی حکمرانوں نے ماضی میں بھی اپنے اعلیٰ کارناموں سے واضح کر دیا تھا کہ وہ دنیا کے لیے کس قدر مخلص ہیں اور آیندہ بھی ان کی اس مخلصی اور انسان دوستی پر شبہ نہ کیجیے گا کہ اس کرسی پر جو بھی بیٹھتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اسی طرح کی وسل بجا ہی دیتا ہے جیسا کہ ماضی میں دنیا اس قسم کی سیٹیاں سننے کی عادی ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو بھی کسی بھی حکومت پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے عملی اقدامات اور شعور کی بدولت آگے بڑھنا چاہیے اور پہلے اپنا دامن صاف رکھیے پھر کسی کے دامن کی دھول چیک کیجیے تا کہ نسل در نسل ہم اچھی قوم میں تبدیل ہو سکیں۔