عالمی حدت بڑھنے سے موسمی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ماہرین

گرمی کی لہریں دوبارہ متوقع ہیں،پروفیسرطارق مسعود،شجرکاری ماحولیاتی اورموسمی تبدیلیوں سے بچاؤکا واحد حل ہے، پروفیسرمعظم


Staff Reporter June 05, 2016
مقامی پودوں سے شجرکاری کی جائے، غیر مقامی پودے ایکو سسٹم کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ڈاکٹر ظفر شمس اور ماہرین کا سیمینار سے خطاب۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) اور شدیدگرمی کی بڑھتی لہروں سے ماحول کا قدرتی توازن بگڑنے کا شدید خطرہ ہے۔

ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر طارق مسعود علی خان نے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر سیمینار ''شجرکاری کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے بچاؤ'' سے خطاب میں کیا انھوں نے مزید کہا کہ آنے والے مہینوں میں شہر میں گرمی کی شدید لہریں دوبارہ متوقع ہیں اور اس ضمن میں عوام کی آگہی کے لیے اس طرز کے سیمینار ناگزیر ہیں اس موقع پر شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان نے کہا کہ شجرکاری ماحول کو آلودگی سے بچانے میں اہم کردار اداکرتی ہے اور موجودہ تناظر میں شدید گرمی کی لہر سے بچاؤ کے لیے شجرکاری ہی واحد راستہ ہے۔

عالمی حدت کی وجہ سے خطرناک موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں جس کے نتیجے میں آندھی، طوفان ،سیلاب اور خشک سالی کی وجہ سے پوری دنیا باالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک متاثر ہو رہے ہیں شجرکاری ان تمام منفی اور خطرناک ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ کراچی شہر بھر میں شجرکاری مہمات میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔

اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ شدید گرمی کی لہر سے سالانہ اموات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے جس کے سدباب کے لیے دوررس اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے ڈاکٹر ظفراقبال شمس نے ایکوسسٹم اور بائیوڈائیورسٹی کے بارے میں گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مقامی پودوں سے ہی شجرکاری ممکن بنائی جائے کیونکہ غیر مقامی اور غیر ملکی پودے ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچارہے ہیں ڈاکٹر وقاراحمد نے کراچی میں بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہر قائد میں گرمی کی شدید لہروں کی آمد کی ایک بڑی وجہ شہر میں تعمیرات اور مینجمنٹ میں منصوبہ بندی کی کمی ہے، اس موقع پر سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے عمران صابر، محکمہ موسمیات کے سردارصابر اور محمود عالم خالد نے بھی خطاب کیا۔

ماحولیات کا عالمی دن ہر سال 5جون کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے 100سے زائد ممالک میں منایا جا تا ہے، جس کا مقصد موسمی اثرات اور اس سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کرنا ہے،اسی دن سال1972 میں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی کانفرنس برائے انسانی ماحولیات ہوئی اگلے سال 1973 میں پہلی بار اس دن کو بطور عالمی یوم ماحولیات منایا گیاجس کے تحت آج تک اس دن کے حوالے سے دنیا کے بیشتر ممالک میںتقریبات،واک اور سیمینارز کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے حکومتی اور غیرسرکاری ادارے سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔

اس سال اقوام متحدہ نے اس دن کا موضوع جنگلی حیات کا تحفظ رکھا ہے،اس موضوع کے انتخاب کا مقصد جانوروں کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور ان جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرنا ہے جن کی نسل ختم ہونے کا خدشہ ہے، جن میں ہاتھی ،گینڈا، چیتا، وہیل مچھلی اور کچھوے وغیرہ شامل ہیں،ماہرین ماحولیات کے مطابق پاکستان میں نایاب جانوروں کا غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ نایاب جنگلی حیات کی نسل کشی کی اہم وجوہات میں شامل ہیں، معدوم ہوتے جانوروں ،نادر و نایاب

عالمی یوم ماحولیات کے حوالے سے کراچی میں بھی سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے جانب سے ہونے والے خصوصی پروگراموں میں ماہرین ماحولیات نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی میں دن بہ دن اضافہ کی روک تھام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں سرفہرست شجر کاری مہم ہے،ماہرین ماحولیات کے مطابق کراچی کا شمار آلودگی سے متاثر شہروں میں کیا جانے لگاہے، کراچی جو کہ دو کڑور سے زائد آبادی والے شہر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے دو چار ہے جس کی اہم وجوہات میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی پرندوں کا شکار پاکستان میں تمام تر قانونی و عدالتی پابندیوں کے باوجود سارا سال جاری رہتا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان میں نایاب کالے دھبے والے کچھوؤں کی غیر قانونی بین الاقوامی تجارت میں گزشتہ 5سال کے دوران اضافہ ہوگیا ہے، زیادہ تر کچھوؤں کی تجارت جنوبی ایشیا (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) سے ہوتی ہے جہاں ان جانوروں کو جمع کر کے ''ہول سیل'' پر تھائی لینڈ بجھوادیا جاتا ہے،کالے دھبے والے کچھوے آئی یو سی این کی لال فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان کی ہر سطح پر بین الاقوامی تجارت غیر قانونی اور کنونشن کی خلاف ورزی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں کچھوؤں کی تجارت جاری ہے،سال 2015 میں کراچی کے علاقے ایکسپریس وے اور سی ویو سے میٹھے پانی کے کچھووں کی نایاب اقسام بڑی تعداد میں پائی گئیں ہیں۔ شامل ہے۔

ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں صرف 60 لاکھ درخت موجود ہیں جبکہ آبادی کے لحاظ سے ماحولیات کے اثر سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈیڑھ کروڑ مزید درختوں کی ضرورت ہے، ماہرین ماحولیات کے مطابق کسی بھی شہر کے 25 فیصد رقبے پر درخت ہونے ضروری ہیں مگر شہر کراچی میں جتنی فضائی آلودگی ہے اس لحاظ سے 25 فیصد رقبہ بھی ناکافی ہے، دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں کچڑے کا بدترین نظام بھی فضا کو آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے جس کی وجہ سے ناصرف مخلتف بیماریاں پھیل رہی ہیں ہیں،عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کراچی کی فضا کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہیں کیئے گئے تو کراچی میں بھی فضائی آلودگی کے سبب اموات کا گراف مزید بڑھ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں