رسمی بجٹ مہنگائی کا طوفان عوام کی کمرتوڑنے والا ہے

پاناما لیکس اسکینڈل کے بعد ملک بھر میں توقع کی جارہی تھی کہ حکومت عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے گی


پاناما لیکس اسکینڈل کے بعد ملک بھر میں توقع کی جارہی تھی کہ حکومت عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے گی:فوٹو: فائل

KARACHI: بجٹ روایت سے زیادہ ایک ناگزیر رسم ہے، اس رسم کا مقصد عوام کو وہ اذیت دینا ہے، جو ایک سیاسی حکومت عام حالات میں نہیں دے سکتی۔

سالانہ میزانیے کا مقصد بدترین حالات میں بھی عام شہری کو کم سے کم مشکل میں ڈالنا ہونا چاہیے۔ جمہوریت کی دعوے دار حکومت کے لیے عوام کا مفاد اولیں ترجیح ہوتا ہے، اس کے بعد اس کے اپنے اخراجات، پھر اس کا تاجر طبقہ اور باقی سب بعد کی باتیں ہیں۔ یہاں سب سے پہلے چھری تلے عام شہری کو رکھا جاتا ہے۔

ہمارے ایک ماہرِ اقتصادیات وزیراعظم نے Trickle Down Economics کی تھیوری متعارف کرائی تھی۔ یہ تھیوری سیدھی سبھاؤ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے گھڑی گئی ہے۔ اس کی تشریح یہ ہوتی ہے کہ گلاس لب ریز ہونے کے بعد چھلکنے لگتا ہے، بس یہ 'چھلکاؤ' ہی عوام کی تقدیر قرار پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شاہ اور اس کے مصاحبین کھانا کھا چکیں تو باقی جو دستر خوان پر بچا کھچا رہ جائے، اس پر ٹوٹ پڑیے، اہل فارس اسے ''پس خوردہ'' کہتے ہیں۔ شوکت عزیز میں کم سے کم اتنی اخلاقی جرأت تو تھی (ہرچند جاہلانہ)، کہ انہوں نے اس تھیوری کا برملا اعلان کیا لیکن سیاست باز اتنی اخلاقی جرأت کا یارا نہیں رکھتا۔ وہ عوام دوستی کا جامہ اوڑھے غیر اعلانیہ طور پر عوام (دراصل رعایا) کو پس خوردہ کھلاتا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ دادطلب بھی ہوتا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کسانوں پر سب کچھ لٹا دیا ہے۔ اس پر وہ اپوزیشن سے داد کے خواہاں تھے۔ گزشتہ بجٹ کے موقع پر انہوں نے جو جو نویدیں سنائی تھیں، اس بار بھی ان کے ہمزاد الفاظ استعمال کیے ۔ پچھلی بار کے اکثر دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ زراعت ہی کو لے لیجے، اس شعبے کی شرح نمو منفی 0.19 رہی حال آں کہ اس کا ہدف 3.9 مقرر کیا گیا تھا۔ اس بار زراعت پر، کہ ہمارے ملک کی معیشت میں اس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی بتائی جاتی ہے، کچھ زیادہ ہی مہربانی دکھائی جا رہی ہے۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ دہقاں (بقولِ اقبال 'قبر کا اگلا ہوا مردہ') نہال ہوجائے گا لیکن تجربہ کہتا ہے کہ حالت زیادہ پتلی نہ ہوئی تو یہ ہی رہے گی ہاں زمیں دار خوب پھلے گا اور شاید اسی لیے اسحٰق ڈار صاحب، قریشی صاحب سے داد خواہ تھے۔

یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس بجٹ میں کوئی انقلابی نوعیت کی پالیسی نہیں، بہت سے معاملات میں وہی سٹیٹس کو موجود ہے، روٹین کے اعلانات، دل خوش کن وعدے، اعداد وشمار کی جادوگری، اصطلاحات کے گورکھ دھندے۔ نئے مالی سال کے بجٹ کے خدوخال وہی پرانے ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج اور وسیع ہوتی نظر آ رہی ہے۔ کون دلوائے گا مزدور کو چودہ ہزار روپے، یہاں تو دو دو ایم اے کرنے والے دس دس ہزار روپے کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔ یوریا کھاد چار سو اور ڈی اے پی کھاد کی بوری تین سو روپے سستی کی جارہی ہے، صنعتوں کے لیے دو ہزار سے زیادہ مشینوں پر کسٹم ڈیوٹی تین فی صد کرنے کی تجویز ہے لیکن کیا اس سے غربت میں کمی، دیوانے کا خواب ہی ہے، ختم ہونے کا تو ذکر ہی کیا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ تین سال میں معیشت کو درپیش خطرات ٹل چکے ہیں، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے اور اکنامک انڈی کیٹر ہماری معاشی کاکردگی کے عکاس ہیں۔ معاشی ترقی کی بحالی سے منہگائی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا۔ کون یقین کرے گا کہ منہگائی نہیں بڑھی (جانے وہی، جس کے لگی ہوئے)۔ فرمایا کہ شرح سود 40 سال کی کم ترین سطح یعنی 5.75 فی صد پر آ گئی ہے، برآمدات 32.7 ارب ڈالر رہیں۔ روپے کی قدر کئی سال سے مستحکم سطح پر موجود ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر21 ارب 60 کروڑ کی ریکارڈ سطح پر ہیں۔ اب کیا کہیے کہ کپڑے کی صنعت سے وابستگان کو تو ایف بی آر قابلِ واپسی رقوم کی ادائیاں اس لیے نہیں کر رہا کہ سرکاری خزانہ دباؤ کی زد پر ہے اور آٹھ ماہ سے ٹال مٹول جاری ہے۔ ایکٹ میں ترمیم کر کے وفاق کے قرضوں کا نیا ہدف مقرر کیا جا رہا ہے۔ ملک کے مجموعی قرضوں کو 60 فی صد تک لایا جاچکا اور آئندہ پندرہ سال میں مجموعی قرضوں کو 50 فی صد تک لایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جاری اخراجات کا حجم 3400 ارب روپے ہے۔ نئے مالی سال میں 1360 ارب روپے قرض اور سود کی نذر ہو جائیں گے۔ ان کو پورا کرنے کے لیے وفاق 3621 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہونے کی توقع کر رہا ہے۔

توانائی منصوبے

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ وہ حکومت میں آئے تو انہیں توانائی کے شدید بحران کا سامنا تھا ''ہم نے بہتر اقدامات سے لوڈشیڈنگ کی صورت حال بہتر بنائی'' کتنا سچ ہے؟ اب کہا جا رہا ہے کہ مارچ 2018 تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کردی جائے گی، کون اس پر اعتبار کرے۔ اس بار اس شعبے کے لیے380 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ یہ باتیں وہ اس پہلے بھی کر چکے رہے ہیں، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

ترقیاتی منصوبے

آئندہ مالی سال کے لیے ایک ہزار چھ سو پچہتر ارب روپے کا جو ترقیاتی بجٹ پیش کیا گیا ہے، اُس میں وفاق کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 800 ارب اور باقی ملک کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 875 ارب روپے ہے۔ کہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری تاریخی منصوبہ ہے، جو خطوں کو ملائے گی، اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ منصوبے پر 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔ گوادر کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لاہور کراچی موٹروے سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ بجٹ میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے کے لیے 260 ارب مختص کئے گئے۔ ترقیاتی بجٹ میں سب سے بڑا حصہ 188 ارب روپے این ایچ اے کو ملے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے 125 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں ریلوے کے لئے 41 ارب روپے مختص کیے گئے۔ پورٹس اینڈ شپنگ کے لیے بھی 12 ارب 80 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ اب مآل دیکھنے کے لیے سال بھر کا انتظار تو لازم ہو ہی گیا۔

سرکاری ملازمین

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں خیر سے دس فی صد اضافہ تو کرہی دیا گیا، مزدور کی کم ازکم اجرت تیرہ ہزار سے چودہ ہزار روپے کر دی گئی ہے، سرحد پر تعینات اہل کاروں کے لیے بھی خصوصی الاؤنس کا اعلان کیا گیا ہے لیکن تنخواہوں میں اس اضافے کو 2013-14 کی ایڈہاک ریلیف سے مشروط کر دیا گیا، جو اب بنیادی تنخواہ کا حصہ ہوگا، مکمل فائدے کے لیے ریٹائرمنٹ کا انتظار کیجیے۔

ریٹائرڈ ملازمین

وفاقی ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی دس فی صداضافہ کیا گیا ہے۔ 85 سال سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے پنشن میں پچیس فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ بتایے پچاسی برس کے پنشنر ہوں گے کتنے اور مزید جیئیں گے کتنے؟۔

زرعی پیکج

اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر سن کر ایسے لگ رہا تھا کہ یہ بجٹ کاشت کاروں کے لیے ہے۔ انہوں نے معیاری بیج کی فراہمی کو حکومت کی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ نئے بجٹ میں یوریا کھاد چار سو روپے سستی کی گئی ہے۔ زرعی آلات پر ڈیوٹی 5 فی صد سے کم کر کے دو فی صد کر دی گئی۔ زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ ٹیوب ویل کے لیے بجلی کا یونٹ 8 روپے کے بجائے 5 روپے 35 پیسے کا ہو گیا۔ وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ کاشتکاروں کے لیے تاریخ کا سب عمدہ پیکج ہے، جس سے کسانوں کے مسائل کم ہوں گے اور زراعت ترقی کرے گی۔ ڈیری لائیو اسٹاک اور پولٹری کی درآمدات کے لیے کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی جا رہی ہے (کسے فائدہ پہنچایا جا رہا ہے؟) جب کہ فش فیڈ کے لیے کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد کی جا رہی ہے۔ مچھلی اور جھینگے کی خوراک پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی اور مچھلی کی پونگ کی درآمد پر بھی کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔

اسٹیشنری اور بچے

کاغذ پر حاصل زیرو ریٹنگ کی سہولت واپس لے کر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، جس سے کتابوں کاپیوں اور دیگر متعلقہ ساماں مہنگا ہو جائے گا، یوں تعلیم دوست ہونے کا ثبوت مہیا کیا جا رہا ہے۔ بچوں (کے والدین) پر یہ ہی ظلم نہیں کیا رہا بلکہ شیرخواروں کے دودھ بھی مہنگے کیے جارہے ہیں، ان کے پیمپروں کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ اب کیا کریں، بچے پیدا نہ کریں؟۔

سیمنٹ

سیمنٹ پر پر عائد فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی کی شرح بڑھا کر دس فیصد کی جارہی ہے، اس سے سیمنٹ کی ایک بوری کی قیمت میں پچاس روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ عام آدمی کے لیے مکان بنانا پہلے کون سا آسان تھا، اس پر یہ بھی سہی۔

ماہرین نے تنخواہوں میں اضافے کو معمولی قرار دیا ہے اور غربت میں کمی کے دعووں کو بڑھک کہا ہے۔ بہت سے ماہرین نے چند دنوں میں منہگائی کی طوفانی لہر کی پیشین گوئی کی ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں ناکامی اور اس میں مزید بہتری کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جانے چاہیں تھے۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی سمت اور موڈ اس بجٹ سے ظاہر ہو رہا ہے۔

پرچون فروش اور پراڈکٹس

اس بجٹ میں ایکسائز ڈیوٹی، پرچون فروش کی سطح پر نافذ کی گئی ہے۔ ظاہر ہے وہ یہ بوجھ عام آدمی پر ڈال کر اس کی کمر، جو پہلے ہی خمیدہ ہے، ٹوڑ ہی تو ڈالے گا۔ تو کیا ہوگا، خود کشیاں ہوںگی، جرائم بڑھیں گے، مجموعی سماجی رویہ مشتعل رہے گا۔ بجٹ میں بزنس ہاؤسز کو چھیڑنے کے بجائے ان کی پراڈکٹ کونشانہ بنایا گیا ہے، جس کا اثر لامحالہ نچلے اور متوسط طبقے پر پڑے گا۔ دوسرے حیران کن طور پر سیلز ٹیکس سمیت کئی وصولیاں بجلی کے بلوں کے ذریعے کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔

ٹیکس مشینری

اب اللہ جانے یہ ٹیکس مشینری کس مرض کی دوا بنے گی، ایف بی آر اپنے ہونے کا جواز کیا بنائے گی؟۔ شہروں میں رہنے والی مڈل کلاس کی اکثریت نجی شعبے میں ملازمت کرنے پر مجبور ہے، وہ کم سے کم اجرت والی کیٹیگری میں بھی نہیں آتے، ان سفید پوشوں کے حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ان کی زیادہ دلچسپی یہ ہے کہ یوٹیلیٹی بلز میں کمی ہو یا روز مرہ استعمال کی اشیا، جیسے آٹا، گھی، چینی ، دالوں، سبزیوں وغیرہ کی قیمتیں کم ہوں۔ ان کے لیے اس ریلیف پیکیج میں کچھ نہیں۔

ڈرے ہوئے عوام

عوام بجٹ کی آمد سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ آئندہ نئے ٹیکس لگیںگے، ان کا اور ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ منہگائی کے ڈر سے عوام سہمے ہوئے ہیں۔ وہ ہندسے نہیں کھا سکتے، روٹی مانگتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں بھی بے روزگاری میں اضافہ ہواہے اور مسلسل ہورہا ہے کیونکہ آج تک کوئی بھی حکومت بجٹ کے موقع پر پیداوار، افراط زر اور خسارے کے چکر سے باہر نہیں نکل سکی۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جب اسمبلی ہال میں اپنی بجٹ تقریر شروع کی اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندا پیش کیا تو یوں لگ رہا تھا کہ یہ بجٹ عام آدمی کے بجائے اُن لوگوں کے لیے ہے جو اِن اعداد و شمار کو جانتے ہیں۔ ابھی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ مصاحبوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر شور مچا دیاکہ پاکستان کی تاریخ کا بہترین بجٹ پیش کیاگیا ہے لیکن ماہرین نے اِس بجٹ کے بارے میں جو فوری ردعمل ظاہر کیا تھا ، اُس کے مطابق یہ بجٹ عوام کے لیے مہنگائی کا ایک ہولناک تحفہ لا چکا ہے اور کچھ ہی دنوں میں اِس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔

رواں مالی سال کا بجٹ 3جون کو پیش ہوا اور ابھی اِس کے اثرات جون کے بعدآئیں گے لیکن 7 جون کو رمضان المبارک شروع ہو رہا ہے، رمضان کی آمد سے پہلے ہی پاکستان میں جس طرح منہگائی کا طوفان آتا ہے،اُس میں یہ ہوا کہ وہ بجٹ تقریر کے فوراً بعد ظاہر ہوگیا۔ تاجر اور دکان دار حضرات ابی سے کہنے لگے ہیں کہ بجٹ کی وجہ سے فلاں شئے منہگی ہو چکی ہے حالانکہ ابھی گزشتہ مالی سال کے ختم ہونے میں ستائیس دن باقی ہیں۔

ادویات

بجٹ سے چند روز قبل ملک بھر میں ادویات ساز کمپنیوں نے مختلف ادویات کی قیمتوں میں تقریباً 65 فی صد تک اضافہ کیا تھا، جو اب مزید بڑھے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اب یہ اضافہ 80 سے 90 فی صد تک جائے گا۔ اسی طرح اونٹ کے منہ میں زیرے کی مثال اِس بجٹ سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔ بجٹ میں کم سے کم اُجرت پانے والے کی ماہانہ تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کرکے اُن کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے جو دعوے کیے گئے، وہ بھی ماہرین کے مطابق دعوے ہی ہیںکیوں کہ آنے والے منہگائی کے طوفان میں یہ ایک ہزار روپے کا اضافہ سفاکانہ مذاق ہی ہے۔

آسان شکار

پاکستان میں سیلولر فون اور موبائل فون کی صنعت نے جس تیزی سے ترقی کی اور وہ مسلسل کئی سال سے ٹیکسوں کی زد پر ہے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اُن ہی چیزوں پر ٹیکس لگا کر خزانہ بھرنے کا سوچتی ہے، جو آسانی سے قابومیں آ سکتی ہوں۔ نئے ٹیکس دہندگان کو کیسے ڈھونڈنا ہے، اس مشکل کام کے نزدیک حکومت نہیں جاتی۔ پاکستان میں ٹیکس کی زد پر آنے والے نئے اور پرانے مگرآسان شکار غریب ہی ہوتے ہیں۔ اب حکومت نے موبائل فون ری چارج کے ساتھ نئے ہینڈ سیٹ خریدنے پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے اور موبائل فونز کی مختلف اقسام کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی شرح کو دوگنا کر دیا ہے حالاں کہ لوگ توقع کر رہے تھے کہ پاکستان میں تھری جی ٹیکنالوجی آنے سے روزگار میں اضافہ ہو گا۔ اِس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والوں پر بھی چودہ فی صد ٹیکس عائد ہو چکا ہے، جو مال اکٹھا کرنے کا سب سے آسان نسخہ ہے۔

پاناما لیکس اسکینڈل کے بعد ملک بھر میں توقع کی جارہی تھی کہ حکومت عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے گی لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ حکومت جان گئی کہ پاناما انکشافات اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تو انہوں نے بجٹ میں خاصا رد و بدل کردیا۔ اطلاعات یہ تھیں کہ رواں سال حکومت ایک ایسا انقلابی بجٹ پیش کرے گی کہ پاناما لیکس کی بنیاد پر حکومت کے خلاف بنی مشتعل فضا چھٹ جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں