بچپن میں کرکٹر بننا چاہتا تھا
شاہد علی خان 92ء میں چیمپیئنز ٹرافی اور اولمپکس میں بہترین گول کیپر قرار پائے۔
نامعلوم کی دھند میں نہاں اتفاقات، کیا فقط اِس لیے ظاہر ہوتے ہیں کہ اپنی اچھوتی اہلیت سے لاعلم انسان، اپنے مقصدِ زیست سے آگاہ ہوجائے؟
شاہد علی خان کی کہانی اِس سوال کا جواب اثبات میں دیتی ہے کہ یہ واقعات کی روایتی ترتیب توڑ کر جنم لینے والا پُراسرار اتفاق ہی تھا، جو ایک کرکٹر کو ہاکی کی بہ ظاہر اجنبی، پر حقیقتاً مانوس دنیا میں لے آیا۔ آگے کی کہانی تحیر کی لپیٹ میں ہے!
یہ امر حیران کن ہے کہ ہاکی سے ناتا جوڑنے کے فقط ایک ہی برس بعد وہ نیشنل جونیر ٹیم کا حصہ بن گئے۔ 80ء تا 85ء جونیر ٹیم کی نمایندگی کرتے ہوئے اُنھوں نے دو سو سے زاید مقابلوں میں شرکت کی۔ 82ء اور 85ء کا جونیر ورلڈ کپ کھیلا۔ آخر الذکر مقابلے میں وہ کپتان تھے۔
81ء تا 94ء وہ قومی ہاکی ٹیم کا حصہ رہے۔ 215 میچز میں پاکستان کی نمایندگی کرنے والے شاہد علی خان نے اپنے شان دار کیریر میں تین ایشیا کپ کھیلے، اور تینوں بار فاتح کی حیثیت سے میدان سے باہر آئے۔ دو ایشین گیمز میں قومی ٹیم کا حصہ رہے۔ دونوں ہی بار کام یابی نے پاکستان کے قدم چومے۔ دو اولمپکس کھیلے۔
ایک میں طلائی تمغہ اپنے نام کیا، ایک میں کانسی کے تمغے کے حق دار ٹھہرے۔ دو ورلڈ کپ مقابلوں میں اترے۔ ایک بار پاکستان نے ٹرافی اٹھائی، ایک بار دوسری پوزیشن حاصل کی۔ دس چیمپیئنز ٹرافی کے مقابلوں میں گول پوسٹ کی حفاظت کی۔ اِن برسوں میں ٹیم سے اندر، باہر ہونے کا سلسلہ بھی جارہا، لیکن کبھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔ ہر بار بھرپورقوت کے ساتھ پلٹے، اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔
گوکہ نیشنل جونیر ٹیم کی کپتانی کا تجربہ رکھتے تھے، لیکن قومی ٹیم کی کپتانی کے لیے، تمام تر تجربے کے باوجود کبھی اُن کی صلاحیتیں زیرغور نہیں آئیں۔ فقط نائب کپتان کے عہدے تک محدود رکھا گیا، جس کا سبب اُن کے بہ قول، اقربا پروری اور اپنوں کو نوازنے کی پالیسی تھی، لیکن اُنھوں نے کبھی اِس معاملے کو دردِ سر نہیں بنایا۔
کوچنگ کیریر کا آغاز 97ء میں ہوا۔ کچھ وقت جونیر ٹیم کی تربیت کرتے بیتا۔ 98ء میں گول کیپر کوچ کی حیثیت سے قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ بعد میں مختلف مواقع پر یہ ذمے داری نبھائی۔ 2005 میں ملایشیا چلے گئے۔ اگلے تین برس وہاں کوچنگ کی۔ 2009 میں قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہوگئے، دو برس ذمے داریاں نبھائیں۔ پھر گول کیپر کوچ کا عہدہ سنبھالا، 2012 لندن اولمپکس تک اِس حیثیت میں مصروف رہے۔
83ء میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں ''پلیئر آف دی ٹورنامینٹ'' کا ایوارڈ اپنے نام کرنا اُن کا بڑا کارنامہ تھا کہ وہ پہلا موقع تھا، جب کسی گول کیپر کو مذکورہ ٹورنامینٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہو۔ 84ء اولمپکس میں بھی اُنھیں، ایک بین الاقوامی سروے کے بعد بہترین گول کیپر قرار دیا گیا۔ 92ء کا سال زندگی میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ وہ چیمپیئنز ٹرافی اور اولمپکس میں بہترین گول کیپر قرار پائے۔ ساتھ ہی حکومت پاکستان نے اُنھیں پرائیڈ آف پرفارمینس سے نوازا۔ خود کو خوش قسمت قرار دیتے ہیں کہ اُنھیں زندگی ہی میں یہ ایوارڈ مل گیا۔ دُکھ ہے کہ کئی باصلاحیت کھلاڑی اِس سے محروم رہے۔ اِس ضمن منور الزماں کا خصوصی طور پر ذکرکرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ سفر کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ حبیب بینک اور کسٹمز سے کھیلنے کے بعد وہ 81 میں پی آئی اے کا حصہ بن گئے۔ اِس وقت اِسی ادارے میں مینیجر ہاکی کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔
حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ آفریدی قبیلے کے اِس سپوت نے 26 دسمبر 1964 کو کراچی میں مقیم، مشکور علی خان کے گھر آنکھ کھولی۔ پاک بحریہ سے منسلک اُن کے والد کا تعلق قائم گنج سے تھا۔ والدہ آگرے سے تھیں۔ آٹھ بھائی، تین بہنوں میں شاہد نویں ہیں۔ یادیں بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیںِ، چُوں کہ والدہ معلمہ تھیں، اِس لیے پڑھائی کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ غلطیوں پر سزا دینے کی ذمے داری بھی اُن ہی کے کاندھوں پر تھی۔ والد بھی سخت مزاج آدمی تھے، اُنھیں قطعی پسند نہیں تھا کہ اولاد کھیل کود میں وقت ضایع کرے۔ بڑے بھائیوں نے ہمیشہ چُھپ کر میدانوں کا رخ کیا، البتہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے اُنھیں تھوڑی بہت چُھوٹ مل جاتی تھی۔
گنتی اوسط درجے کے طلبا میں ہوتی تھی۔ پاکستان نیوی اسکول سے 79ء میں میٹرک کرنے کے بعد اُنھوں نے ڈی جے کالج کا رخ کیا۔ اُن ہی دنوں ہاکی کے میدانوں میں قدم رکھا، جس کے بعد تعلیمی سلسلہ تقریباً معطل ہوگیا۔ کئی برس بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے گریجویشن کیا۔
بھائیوں کی دیکھا دیکھی جب شاہد نے کرکٹ کھیلنی شروع کی، تو آل رائونڈر کا کردار چُنا۔ کلب کرکٹ کھیلی۔ زون کی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں شرکت کی۔ اُن دنوں ہاکی میں قطعی دل چسپی نہیں تھی، حتیٰ کہ میچز بھی نہیں دیکھتے تھے۔ پھر 78-79 میں جنم لینے والے اتفاقات یک دم اُنھیں ہاکی کی جانب لے آئے۔ اُن کی خداداد صلاحیتوں نے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر دیں۔ اپنی قابلیت سے آگاہی خود اُن کے لیے بھی حیرت انگیز تجربہ رہا۔ بعد کے مراحل تیزی سے طے کیے۔ وائی ایم سی کا حصہ بن گئے، جہاں صلاحیتیں نکھارنے کا موقع ملا۔ کراچی اے ٹیم سے جُڑنے کے بعد بھی سولہ سالہ شاہد نے شایقین ہاکی کو حیران کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
پھر نیشنل جونیر ٹیم کے ٹرائلز میں خود کو ثابت کیا، اور قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ لوگ اندازہ ہی نہیں لگا سکے کہ شاہد کرکٹ کو خیرباد کہہ چکا ہے، اب ہاکی اُس کا مستقبل ہے۔ کہتے ہیں،''نیشنل جونیر ٹیم میں سلیکٹ ہونے کے بعد جب والد صاحب کو یہ خوش خبری سنائی، تو اُنھوں نے پوچھا کہ ٹیم کہاں جارہی ہے؟ میں نے جواب دیا، پاکستانی ٹیم ہالینڈ، جرمنی، اسپین اور مصر کا دورہ کرے گی۔ اُنھوں نے حیرت سے سوال کیا، اِن ممالک میں کرکٹ کہاں کھیلی جاتی ہے؟ یعنی گھر میں کسی کو نہیں پتا تھا کہ اب میں ہاکی کھیل رہا ہوں!''
یورپ کا دورہ یادگار رہا۔ ٹور کے اختتام تک جونیر ٹیم کے پانچ کھلاڑی قومی ٹیم کے لیے منتخب ہوچکے تھے، جن میں شاہد بھی شامل تھے۔ کیمپ کراچی میں لگا، جہاں اُن کی کارکردگی متاثر کن رہی، لیکن بدقسمتی سے ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔ وہ کرب ناک لمحات تھے۔ منزل کے قریب پہنچ کر لگا کہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ خیر،81ء میں ملک کی نمایندگی کرنے کا خواب پورا ہوا۔ پہلا میچ زمباوے کے خلاف کھیلا۔ پھر سنگاپور کا دورہ کیا۔
82ء میں ممبئی میں ہونے والے ورلڈ کپ میں کے آخری تین میچز میں اُنھیں میدان میں اتارا گیا۔ بتاتے ہیں، اُن کی ناتجربہ کاری کو بنیاد بنا کر بریگیڈیر عاطف کے اِس فیصلے کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے پولینڈ کے خلاف میدان میں اترتے سمے خاصا دبائو تھا، لیکن مقابلہ شروع ہونے کے بعد اعتماد، دبائو پر غالب آگیا۔ سیمی فائنل میں ہالینڈ کے حملوں کا کام یابی سے سامنا کیا۔ آخری میچ میں جرمنی کے خلاف آہنی دیوار بن گئے۔ وہ مقابلہ پاکستان نے تین کے مقابلے میں ایک گول سے جیت لیا۔
اگلا ٹورنامینٹ دہلی میں ہونے والا ایشین گیمز تھا، جہاں پاکستان نے ہندوستان کو شکست دے کر تاریخی فتح اپنے نام کی۔ لاس اینجلس اولمپکس کی کسوٹی پر بھی کھرے اترے، پاکستان نے جرمنی کو شکست دے کر گولڈ میڈل جیتا۔ اِس نقطۂ نگاہ سے وہ ''گرینڈ سلیم ہولڈر'' ہیں کہ ترتیب وار منعقد ہونے والے ورلڈ کپ، ایشین گیمز اور اولمپکس مقابلوں کی فاتح ٹیم کا حصہ رہے۔
آنے والے برسوں میں کئی بین الاقوامی مقابلوں میں اُنھوں نے پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فیڈریشن اور کھلاڑیوں کے درمیان جنم لینے والے اختلافات کی وجہ سے چند بڑے ٹورنامینٹس سے دُور بھی رہے۔ اِس دوران ان کی کمی شدت سے محسوس کی گئی، 86ء ورلڈ کپ اور 88ء اولمپکس میں ٹیم فتح اپنے نام کرنے میں ناکام رہی۔ 89ء میں واپسی ہوئی، جس کی بعد ایک بار پھر فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُس برس پاکستان نے ایشیا کپ جیتا، برلن چیمپیئنز ٹرافی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پھر 90ء ورلڈ کپ میں فائنل تک رسائی حاصل کی، چین میں ہونے والے ایشیا کپ میں جھنڈے گاڑے۔
93ء کی چیمپیئنز ٹرافی کے بعد اُن کی انگلی زخمی ہوگئی تھی۔ یہ انجری ٹیم سے دُور لے گئی۔ وہ واپسی کے آرزومند تھے، لیکن 94ء ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتح نے صورت حال بدل دی، فیڈریشن نے سینئرز کو ٹیم میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، یوں اُن کا انٹرنیشنل کیریر، بڑے ہی عجیب انداز میں اختتام پذیر ہوگیا۔ ہاں، چھے برس بعد، 98ء میں جب پی آئی اے کی طرف سے کھیلتے ہوئے وہ نیشنل چیمپیئن شپ کے بہترین گول کیپر قرار پائے، اُنھیں ٹرائلز کے لیے ''کال'' آئی تھی۔ اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، اُنھوں نے انکار کر دیا۔
82ء ورلڈ کپ میں ہالینڈ کے خلاف سیمی فائنل مقابلے میں اترنا، اپنے من پسند کھلاڑی، ٹیز کروزے کا اسٹوک روکنا، زندگی کے یادگار ترین لمحات تھے۔ اُس مقابلے کو وہ اپنے کیریر کا ''ٹرننگ پوائنٹ'' قرار دیتے ہیں۔ بارسلونا اولمپکس کے فائنل میں جرمنی کے ہاتھوں شکست سے دُکھ بھری یادیں وابستہ ہیں، جہاں فتح چند قدم دُور تھی، لیکن پَلوں میں منظر بدل گیا۔
ہاکی کی دنیا میں لیجنڈ تصور کیے جانے والے شاہد بچپن میں کرکٹر بننا چاہتے تھے، مگر آج اوائل عمری کی اُس خواہش کے پورے نہ ہونے کا غم نہیں۔ کہتے ہیں، اگر وہ کرکٹ کھیل رہے ہوتے، تو شاید وہ عروج نہیں ملتا، جو ہاکی کے وسیلے نصیب ہوا۔ ''ہاکی نے ہر وہ شے دی، جس کی انسان تمنا کر سکتا ہے۔ عزت دی، شہرت دی، دنیا کا بہترین گول کیپر کہلایا۔ ہاں، کرکٹ آج بھی شوق سے دیکھتا ہوں، کھیلتا بھی ہوں۔''
کیا ہاکی کا کھیل دم توڑ رہا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''دیکھیں، کلب ختم ہوگئے ہیں، انٹرنیشنل ٹیمیں یہاں آنے کو تیار نہیں، اسپانسرز نہیں مل رہے، مگر اِن مشکل حالات میں بھی موجودہ فیڈریشن کوششیں کر رہی ہے۔ گذشتہ چند برس میں اکیڈمیز بنائی گئیں، کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ دیا گیا، قاسم ضیا کا کام بہ ہرحال قابل تعریف ہے، لیکن ایک چیز نظرانداز ہورہی ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے مستقل ملازمتوں کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔
پہلے تمام اداروں کی ٹیمیں ہوا کرتی تھیں، وہ اب نہیں رہیں۔ ہمارے زمانے میں ہاکی میں پیسا نہیں تھا، لیکن ملازمتیں تھیں۔ چھوٹے کھلاڑیوں کو بھی ملازمت مل جاتی تھی، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اِس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔'' اِس بات کا بھی دُکھ ہے کہ آج درس گاہوں کی سطح پر کھیلوں کا شعبہ بدحالی کا شکار ہے، جب کہ ماضی میں اسکول اور کالجز کی سطح پر کھیلوں کے سرگرمیاں ہوتی تھیں، جن کے طفیل کئی باصلاحیت کھلاڑی سامنے آئے۔
زندگی گزارنے کا سیدھا سادہ اصول ہے۔ کہتے ہیں،''انسان کو کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے، جدوجہد سے منہ نہیںموڑنا چاہیے۔ زیادتی ہو، تو انتظار کرے، کیوں کہ محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔''
لباس کی بات کی جائے، تو شاہد جینز اور ٹی شرٹ میں خودکو آرام دہ پاتے ہیں۔ سردی کا موسم بھاتا ہے۔ ہالینڈ کے میدانوں میں کھیلنا یادگار تجربہ رہا۔ بریانی پسندیدہ ڈش ہے۔ ہلکی پھلکی موسیقی پسند ہے۔ ایکشن فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ تاریخی فلمیں بھی شوق سے دیکھتے ہیں۔ ٹام کروز کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ شاعری سے دل چسپی نہیں۔ اسلامی تاریخ پسندیدہ موضوع ہے۔ اِس تعلق سے لکھی جانے والے کُتب مطالعے میں رہتی ہیں۔
ٹی وی دیکھتے ہوئے معیاری ڈرامے پہلی ترجیح ہے۔ 96ء میں شادی ہوئی۔ تین بیٹے ہیں۔ بچے بھی اُن کے مانند کھیلوں میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ یوں تو شفیق والد ہیں، البتہ تربیت کی غرض سے سختی برتنے کے قائل ہیں۔ اپنے ہم عصروں میں برطانوی گول کیپر، این ٹیلر کی صلاحیتوں کو سراہتے ہیں۔
راجیو گاندھی نے کہا،'' تم نے ہماری ٹیم کا بھٹا بٹھا دیا!''
دہلی میں ہونے والے ایشین گیمز کے فائنل سے کئی خوش گوار یادیں جڑی ہیں۔
اُس مقابلے میں، شاہد علی خان کے بہ قول، بھارت نے جیت کے لیے کئی ہتھ کنڈے استعمال کیے۔ بے ایمانی بھی کی، لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کی صلاحیتیں کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائیں۔ پاکستان نے ہندوستان کو 1 کے مقابلے میں 7 گولز کے واضح فرق سے شکست دی۔
شاہد علی خان کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بتا دینا ہی کافی ہے کہ اُس میچ میں ہندوستان کو 13 شارٹ کارنرز ملے تھے۔
میچ دیکھنے کے لیے پوری ہندوستانی کیبینٹ آئی ہوئی تھے۔ مقابلے کے بعد راجیو گاندھی نے، جو گیمز کے انعقاد میں پیش پیش تھے، شاہد علی خان کو بلایا، ہاتھ ملایا، اور کہا،''تم نے تو ہماری ٹیم کا بھٹا ہی بیٹھا دیا!'' ایشین گیمزکے بعد ہندوستانی پریس نے اُنھیں ''دیوار چین'' کا خطاب دیا۔
''آل رائونڈر'' سے'' گول کیپر'' تک کا سفر۔۔۔
یہ اُس زمانے کا ذکر ہے، جب وہ پاکستان نیوی اسکول سے میٹرک کا مرحلہ طے کر رہے تھے۔ اُن دنوں کرکٹ اور فٹ بال دل چسپی کا محور تھے، ہاکی سے تو دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
ایک روز اسکول کی ہاکی ٹیم روایتی حریف، ریلوے اسکول کے خلاف میدان میں اتری۔ گول کیپر کسی وجہ سے نہیں پہنچ سکا۔ ٹیم کے کپتان، چوہدری تنویر نے اُن سے گول پوسٹ سنبھالنے کی درخواست کی۔ اُن کا جواب نفی میں تھا کہ کبھی ہاکی اسٹک نہیں پکڑی تھی۔ البتہ پرنسپل کے کہنے پر پیڈز باندھ کر میدان میں اترنا پڑا۔ فٹ بال پلیئر کی حیثیت سے گیند کو ٹھوکر لگانے کا تجربہ اور کرکٹر کی حیثیت سے ڈائیو کرنے کی صلاحیت اُس روز خوب کام آئی۔
مخالف ٹیم کے کھلاڑی اُنھیں دھوکا دینے میں ناکام رہے، اُن کی ٹیم فاتح ٹھہری۔ اِس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے چند روز بعد جب حبیب پبلک اسکول میں مقابلہ منعقد ہوا، ایک بار پھر ٹیم کی جانب سے اُنھیں میدان میں اترنے کے لیے کہا گیا۔ اِس بار بھی اُن کا انکار لاحاصل رہا، پوسٹ اُنھیں ہی سنبھالنی پڑی۔ گوکہ اُن کی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اُس روز قسمت شاہد علی خان کے ساتھ تھی۔
قصّہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے دورے پر آنے والی چین کی ہاکی ٹیم سے مقابلے کے لیے، کراچی اسکولز الیون منتخب کرنے کے ارادے سے سیلیکٹرز اُس روز میدان میں موجود تھے۔ بس، چند روز بعد اُنھیں ٹرائلز کے لیے ''کال'' آگئی۔ اُنھوں نے اِس بلواے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، لیکن دوستوں کے سمجھانے پر اسکول سے چھٹی لے کر، محلے کے ایک دوست کے ساتھ، سائیکل پر سوار ٹرائلز کے لیے پہنچ گئے۔
مجموعی طور پر وہاں پانچ سو کھلاڑیوں کی صلاحیتیں جانچی گئیں۔ گول کیپرز بھی کئی تھے۔ اِس بار بھی فٹ بال کا تجربہ کام آیا۔ مراحل طے کرتے کرتے آخر کار شاہد علی خان اسکولز الیون کا حصہ بن گئے۔ سننے والوں نے یہ خبر حیرت کے ساتھ سنی۔
ہاکی کلب میں ہونے والے پہلے مقابلے میں تو اُنھیں موقع نہیں ملا، البتہ اُس روز بھرا ہوا اسٹیڈیم اور لشکتی ہوئی گھاس قریب سے دیکھ کر انوکھے تجربے سے گزرے۔ بس پھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔
جب پال لٹجن نے کاندھا تھپتھپایا!
80ء میں جب جونیر ٹیم کے ساتھ یورپ کے دورے پر نکلے، تو پہلے ہالینڈ میں پڑائو ڈالا، جہاں میزبان جونیر ٹیم کے علاوہ سینئر ٹیم سے بھی ٹاکرا ہوا۔ اُس مقابلے میں گول پوسٹ کی حفاظت پر مامور، شاہد علی خان نے پینالٹی کارنر اسپیشلسٹ، پال لٹجن کا سامنا کیا۔ گوکہ میچ ہار گئے، لیکن مخالف ٹیم کو ملنے والے گیارہ شارٹ کارنرز میں سے سات روکے۔ میچ کے بعد پال لٹجن نے کم سن شاہد کا کاندھا تھپتھپایا۔ وہ ایک یادگار لمحہ تھا۔ دورے کے اختتام تک وہ قومی ٹیم کے لیے منتخب ہوچکے تھے۔
شاہد علی خان کی کہانی اِس سوال کا جواب اثبات میں دیتی ہے کہ یہ واقعات کی روایتی ترتیب توڑ کر جنم لینے والا پُراسرار اتفاق ہی تھا، جو ایک کرکٹر کو ہاکی کی بہ ظاہر اجنبی، پر حقیقتاً مانوس دنیا میں لے آیا۔ آگے کی کہانی تحیر کی لپیٹ میں ہے!
یہ امر حیران کن ہے کہ ہاکی سے ناتا جوڑنے کے فقط ایک ہی برس بعد وہ نیشنل جونیر ٹیم کا حصہ بن گئے۔ 80ء تا 85ء جونیر ٹیم کی نمایندگی کرتے ہوئے اُنھوں نے دو سو سے زاید مقابلوں میں شرکت کی۔ 82ء اور 85ء کا جونیر ورلڈ کپ کھیلا۔ آخر الذکر مقابلے میں وہ کپتان تھے۔
81ء تا 94ء وہ قومی ہاکی ٹیم کا حصہ رہے۔ 215 میچز میں پاکستان کی نمایندگی کرنے والے شاہد علی خان نے اپنے شان دار کیریر میں تین ایشیا کپ کھیلے، اور تینوں بار فاتح کی حیثیت سے میدان سے باہر آئے۔ دو ایشین گیمز میں قومی ٹیم کا حصہ رہے۔ دونوں ہی بار کام یابی نے پاکستان کے قدم چومے۔ دو اولمپکس کھیلے۔
ایک میں طلائی تمغہ اپنے نام کیا، ایک میں کانسی کے تمغے کے حق دار ٹھہرے۔ دو ورلڈ کپ مقابلوں میں اترے۔ ایک بار پاکستان نے ٹرافی اٹھائی، ایک بار دوسری پوزیشن حاصل کی۔ دس چیمپیئنز ٹرافی کے مقابلوں میں گول پوسٹ کی حفاظت کی۔ اِن برسوں میں ٹیم سے اندر، باہر ہونے کا سلسلہ بھی جارہا، لیکن کبھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔ ہر بار بھرپورقوت کے ساتھ پلٹے، اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔
گوکہ نیشنل جونیر ٹیم کی کپتانی کا تجربہ رکھتے تھے، لیکن قومی ٹیم کی کپتانی کے لیے، تمام تر تجربے کے باوجود کبھی اُن کی صلاحیتیں زیرغور نہیں آئیں۔ فقط نائب کپتان کے عہدے تک محدود رکھا گیا، جس کا سبب اُن کے بہ قول، اقربا پروری اور اپنوں کو نوازنے کی پالیسی تھی، لیکن اُنھوں نے کبھی اِس معاملے کو دردِ سر نہیں بنایا۔
کوچنگ کیریر کا آغاز 97ء میں ہوا۔ کچھ وقت جونیر ٹیم کی تربیت کرتے بیتا۔ 98ء میں گول کیپر کوچ کی حیثیت سے قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ بعد میں مختلف مواقع پر یہ ذمے داری نبھائی۔ 2005 میں ملایشیا چلے گئے۔ اگلے تین برس وہاں کوچنگ کی۔ 2009 میں قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہوگئے، دو برس ذمے داریاں نبھائیں۔ پھر گول کیپر کوچ کا عہدہ سنبھالا، 2012 لندن اولمپکس تک اِس حیثیت میں مصروف رہے۔
83ء میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں ''پلیئر آف دی ٹورنامینٹ'' کا ایوارڈ اپنے نام کرنا اُن کا بڑا کارنامہ تھا کہ وہ پہلا موقع تھا، جب کسی گول کیپر کو مذکورہ ٹورنامینٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہو۔ 84ء اولمپکس میں بھی اُنھیں، ایک بین الاقوامی سروے کے بعد بہترین گول کیپر قرار دیا گیا۔ 92ء کا سال زندگی میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ وہ چیمپیئنز ٹرافی اور اولمپکس میں بہترین گول کیپر قرار پائے۔ ساتھ ہی حکومت پاکستان نے اُنھیں پرائیڈ آف پرفارمینس سے نوازا۔ خود کو خوش قسمت قرار دیتے ہیں کہ اُنھیں زندگی ہی میں یہ ایوارڈ مل گیا۔ دُکھ ہے کہ کئی باصلاحیت کھلاڑی اِس سے محروم رہے۔ اِس ضمن منور الزماں کا خصوصی طور پر ذکرکرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ سفر کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ حبیب بینک اور کسٹمز سے کھیلنے کے بعد وہ 81 میں پی آئی اے کا حصہ بن گئے۔ اِس وقت اِسی ادارے میں مینیجر ہاکی کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔
حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ آفریدی قبیلے کے اِس سپوت نے 26 دسمبر 1964 کو کراچی میں مقیم، مشکور علی خان کے گھر آنکھ کھولی۔ پاک بحریہ سے منسلک اُن کے والد کا تعلق قائم گنج سے تھا۔ والدہ آگرے سے تھیں۔ آٹھ بھائی، تین بہنوں میں شاہد نویں ہیں۔ یادیں بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیںِ، چُوں کہ والدہ معلمہ تھیں، اِس لیے پڑھائی کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ غلطیوں پر سزا دینے کی ذمے داری بھی اُن ہی کے کاندھوں پر تھی۔ والد بھی سخت مزاج آدمی تھے، اُنھیں قطعی پسند نہیں تھا کہ اولاد کھیل کود میں وقت ضایع کرے۔ بڑے بھائیوں نے ہمیشہ چُھپ کر میدانوں کا رخ کیا، البتہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے اُنھیں تھوڑی بہت چُھوٹ مل جاتی تھی۔
گنتی اوسط درجے کے طلبا میں ہوتی تھی۔ پاکستان نیوی اسکول سے 79ء میں میٹرک کرنے کے بعد اُنھوں نے ڈی جے کالج کا رخ کیا۔ اُن ہی دنوں ہاکی کے میدانوں میں قدم رکھا، جس کے بعد تعلیمی سلسلہ تقریباً معطل ہوگیا۔ کئی برس بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے گریجویشن کیا۔
بھائیوں کی دیکھا دیکھی جب شاہد نے کرکٹ کھیلنی شروع کی، تو آل رائونڈر کا کردار چُنا۔ کلب کرکٹ کھیلی۔ زون کی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں شرکت کی۔ اُن دنوں ہاکی میں قطعی دل چسپی نہیں تھی، حتیٰ کہ میچز بھی نہیں دیکھتے تھے۔ پھر 78-79 میں جنم لینے والے اتفاقات یک دم اُنھیں ہاکی کی جانب لے آئے۔ اُن کی خداداد صلاحیتوں نے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر دیں۔ اپنی قابلیت سے آگاہی خود اُن کے لیے بھی حیرت انگیز تجربہ رہا۔ بعد کے مراحل تیزی سے طے کیے۔ وائی ایم سی کا حصہ بن گئے، جہاں صلاحیتیں نکھارنے کا موقع ملا۔ کراچی اے ٹیم سے جُڑنے کے بعد بھی سولہ سالہ شاہد نے شایقین ہاکی کو حیران کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
پھر نیشنل جونیر ٹیم کے ٹرائلز میں خود کو ثابت کیا، اور قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ لوگ اندازہ ہی نہیں لگا سکے کہ شاہد کرکٹ کو خیرباد کہہ چکا ہے، اب ہاکی اُس کا مستقبل ہے۔ کہتے ہیں،''نیشنل جونیر ٹیم میں سلیکٹ ہونے کے بعد جب والد صاحب کو یہ خوش خبری سنائی، تو اُنھوں نے پوچھا کہ ٹیم کہاں جارہی ہے؟ میں نے جواب دیا، پاکستانی ٹیم ہالینڈ، جرمنی، اسپین اور مصر کا دورہ کرے گی۔ اُنھوں نے حیرت سے سوال کیا، اِن ممالک میں کرکٹ کہاں کھیلی جاتی ہے؟ یعنی گھر میں کسی کو نہیں پتا تھا کہ اب میں ہاکی کھیل رہا ہوں!''
یورپ کا دورہ یادگار رہا۔ ٹور کے اختتام تک جونیر ٹیم کے پانچ کھلاڑی قومی ٹیم کے لیے منتخب ہوچکے تھے، جن میں شاہد بھی شامل تھے۔ کیمپ کراچی میں لگا، جہاں اُن کی کارکردگی متاثر کن رہی، لیکن بدقسمتی سے ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔ وہ کرب ناک لمحات تھے۔ منزل کے قریب پہنچ کر لگا کہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ خیر،81ء میں ملک کی نمایندگی کرنے کا خواب پورا ہوا۔ پہلا میچ زمباوے کے خلاف کھیلا۔ پھر سنگاپور کا دورہ کیا۔
82ء میں ممبئی میں ہونے والے ورلڈ کپ میں کے آخری تین میچز میں اُنھیں میدان میں اتارا گیا۔ بتاتے ہیں، اُن کی ناتجربہ کاری کو بنیاد بنا کر بریگیڈیر عاطف کے اِس فیصلے کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے پولینڈ کے خلاف میدان میں اترتے سمے خاصا دبائو تھا، لیکن مقابلہ شروع ہونے کے بعد اعتماد، دبائو پر غالب آگیا۔ سیمی فائنل میں ہالینڈ کے حملوں کا کام یابی سے سامنا کیا۔ آخری میچ میں جرمنی کے خلاف آہنی دیوار بن گئے۔ وہ مقابلہ پاکستان نے تین کے مقابلے میں ایک گول سے جیت لیا۔
اگلا ٹورنامینٹ دہلی میں ہونے والا ایشین گیمز تھا، جہاں پاکستان نے ہندوستان کو شکست دے کر تاریخی فتح اپنے نام کی۔ لاس اینجلس اولمپکس کی کسوٹی پر بھی کھرے اترے، پاکستان نے جرمنی کو شکست دے کر گولڈ میڈل جیتا۔ اِس نقطۂ نگاہ سے وہ ''گرینڈ سلیم ہولڈر'' ہیں کہ ترتیب وار منعقد ہونے والے ورلڈ کپ، ایشین گیمز اور اولمپکس مقابلوں کی فاتح ٹیم کا حصہ رہے۔
آنے والے برسوں میں کئی بین الاقوامی مقابلوں میں اُنھوں نے پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فیڈریشن اور کھلاڑیوں کے درمیان جنم لینے والے اختلافات کی وجہ سے چند بڑے ٹورنامینٹس سے دُور بھی رہے۔ اِس دوران ان کی کمی شدت سے محسوس کی گئی، 86ء ورلڈ کپ اور 88ء اولمپکس میں ٹیم فتح اپنے نام کرنے میں ناکام رہی۔ 89ء میں واپسی ہوئی، جس کی بعد ایک بار پھر فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُس برس پاکستان نے ایشیا کپ جیتا، برلن چیمپیئنز ٹرافی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پھر 90ء ورلڈ کپ میں فائنل تک رسائی حاصل کی، چین میں ہونے والے ایشیا کپ میں جھنڈے گاڑے۔
93ء کی چیمپیئنز ٹرافی کے بعد اُن کی انگلی زخمی ہوگئی تھی۔ یہ انجری ٹیم سے دُور لے گئی۔ وہ واپسی کے آرزومند تھے، لیکن 94ء ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتح نے صورت حال بدل دی، فیڈریشن نے سینئرز کو ٹیم میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، یوں اُن کا انٹرنیشنل کیریر، بڑے ہی عجیب انداز میں اختتام پذیر ہوگیا۔ ہاں، چھے برس بعد، 98ء میں جب پی آئی اے کی طرف سے کھیلتے ہوئے وہ نیشنل چیمپیئن شپ کے بہترین گول کیپر قرار پائے، اُنھیں ٹرائلز کے لیے ''کال'' آئی تھی۔ اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، اُنھوں نے انکار کر دیا۔
82ء ورلڈ کپ میں ہالینڈ کے خلاف سیمی فائنل مقابلے میں اترنا، اپنے من پسند کھلاڑی، ٹیز کروزے کا اسٹوک روکنا، زندگی کے یادگار ترین لمحات تھے۔ اُس مقابلے کو وہ اپنے کیریر کا ''ٹرننگ پوائنٹ'' قرار دیتے ہیں۔ بارسلونا اولمپکس کے فائنل میں جرمنی کے ہاتھوں شکست سے دُکھ بھری یادیں وابستہ ہیں، جہاں فتح چند قدم دُور تھی، لیکن پَلوں میں منظر بدل گیا۔
ہاکی کی دنیا میں لیجنڈ تصور کیے جانے والے شاہد بچپن میں کرکٹر بننا چاہتے تھے، مگر آج اوائل عمری کی اُس خواہش کے پورے نہ ہونے کا غم نہیں۔ کہتے ہیں، اگر وہ کرکٹ کھیل رہے ہوتے، تو شاید وہ عروج نہیں ملتا، جو ہاکی کے وسیلے نصیب ہوا۔ ''ہاکی نے ہر وہ شے دی، جس کی انسان تمنا کر سکتا ہے۔ عزت دی، شہرت دی، دنیا کا بہترین گول کیپر کہلایا۔ ہاں، کرکٹ آج بھی شوق سے دیکھتا ہوں، کھیلتا بھی ہوں۔''
کیا ہاکی کا کھیل دم توڑ رہا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''دیکھیں، کلب ختم ہوگئے ہیں، انٹرنیشنل ٹیمیں یہاں آنے کو تیار نہیں، اسپانسرز نہیں مل رہے، مگر اِن مشکل حالات میں بھی موجودہ فیڈریشن کوششیں کر رہی ہے۔ گذشتہ چند برس میں اکیڈمیز بنائی گئیں، کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ دیا گیا، قاسم ضیا کا کام بہ ہرحال قابل تعریف ہے، لیکن ایک چیز نظرانداز ہورہی ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے مستقل ملازمتوں کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔
پہلے تمام اداروں کی ٹیمیں ہوا کرتی تھیں، وہ اب نہیں رہیں۔ ہمارے زمانے میں ہاکی میں پیسا نہیں تھا، لیکن ملازمتیں تھیں۔ چھوٹے کھلاڑیوں کو بھی ملازمت مل جاتی تھی، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اِس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔'' اِس بات کا بھی دُکھ ہے کہ آج درس گاہوں کی سطح پر کھیلوں کا شعبہ بدحالی کا شکار ہے، جب کہ ماضی میں اسکول اور کالجز کی سطح پر کھیلوں کے سرگرمیاں ہوتی تھیں، جن کے طفیل کئی باصلاحیت کھلاڑی سامنے آئے۔
زندگی گزارنے کا سیدھا سادہ اصول ہے۔ کہتے ہیں،''انسان کو کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے، جدوجہد سے منہ نہیںموڑنا چاہیے۔ زیادتی ہو، تو انتظار کرے، کیوں کہ محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔''
لباس کی بات کی جائے، تو شاہد جینز اور ٹی شرٹ میں خودکو آرام دہ پاتے ہیں۔ سردی کا موسم بھاتا ہے۔ ہالینڈ کے میدانوں میں کھیلنا یادگار تجربہ رہا۔ بریانی پسندیدہ ڈش ہے۔ ہلکی پھلکی موسیقی پسند ہے۔ ایکشن فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ تاریخی فلمیں بھی شوق سے دیکھتے ہیں۔ ٹام کروز کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ شاعری سے دل چسپی نہیں۔ اسلامی تاریخ پسندیدہ موضوع ہے۔ اِس تعلق سے لکھی جانے والے کُتب مطالعے میں رہتی ہیں۔
ٹی وی دیکھتے ہوئے معیاری ڈرامے پہلی ترجیح ہے۔ 96ء میں شادی ہوئی۔ تین بیٹے ہیں۔ بچے بھی اُن کے مانند کھیلوں میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ یوں تو شفیق والد ہیں، البتہ تربیت کی غرض سے سختی برتنے کے قائل ہیں۔ اپنے ہم عصروں میں برطانوی گول کیپر، این ٹیلر کی صلاحیتوں کو سراہتے ہیں۔
راجیو گاندھی نے کہا،'' تم نے ہماری ٹیم کا بھٹا بٹھا دیا!''
دہلی میں ہونے والے ایشین گیمز کے فائنل سے کئی خوش گوار یادیں جڑی ہیں۔
اُس مقابلے میں، شاہد علی خان کے بہ قول، بھارت نے جیت کے لیے کئی ہتھ کنڈے استعمال کیے۔ بے ایمانی بھی کی، لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کی صلاحیتیں کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائیں۔ پاکستان نے ہندوستان کو 1 کے مقابلے میں 7 گولز کے واضح فرق سے شکست دی۔
شاہد علی خان کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بتا دینا ہی کافی ہے کہ اُس میچ میں ہندوستان کو 13 شارٹ کارنرز ملے تھے۔
میچ دیکھنے کے لیے پوری ہندوستانی کیبینٹ آئی ہوئی تھے۔ مقابلے کے بعد راجیو گاندھی نے، جو گیمز کے انعقاد میں پیش پیش تھے، شاہد علی خان کو بلایا، ہاتھ ملایا، اور کہا،''تم نے تو ہماری ٹیم کا بھٹا ہی بیٹھا دیا!'' ایشین گیمزکے بعد ہندوستانی پریس نے اُنھیں ''دیوار چین'' کا خطاب دیا۔
''آل رائونڈر'' سے'' گول کیپر'' تک کا سفر۔۔۔
یہ اُس زمانے کا ذکر ہے، جب وہ پاکستان نیوی اسکول سے میٹرک کا مرحلہ طے کر رہے تھے۔ اُن دنوں کرکٹ اور فٹ بال دل چسپی کا محور تھے، ہاکی سے تو دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
ایک روز اسکول کی ہاکی ٹیم روایتی حریف، ریلوے اسکول کے خلاف میدان میں اتری۔ گول کیپر کسی وجہ سے نہیں پہنچ سکا۔ ٹیم کے کپتان، چوہدری تنویر نے اُن سے گول پوسٹ سنبھالنے کی درخواست کی۔ اُن کا جواب نفی میں تھا کہ کبھی ہاکی اسٹک نہیں پکڑی تھی۔ البتہ پرنسپل کے کہنے پر پیڈز باندھ کر میدان میں اترنا پڑا۔ فٹ بال پلیئر کی حیثیت سے گیند کو ٹھوکر لگانے کا تجربہ اور کرکٹر کی حیثیت سے ڈائیو کرنے کی صلاحیت اُس روز خوب کام آئی۔
مخالف ٹیم کے کھلاڑی اُنھیں دھوکا دینے میں ناکام رہے، اُن کی ٹیم فاتح ٹھہری۔ اِس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے چند روز بعد جب حبیب پبلک اسکول میں مقابلہ منعقد ہوا، ایک بار پھر ٹیم کی جانب سے اُنھیں میدان میں اترنے کے لیے کہا گیا۔ اِس بار بھی اُن کا انکار لاحاصل رہا، پوسٹ اُنھیں ہی سنبھالنی پڑی۔ گوکہ اُن کی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اُس روز قسمت شاہد علی خان کے ساتھ تھی۔
قصّہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے دورے پر آنے والی چین کی ہاکی ٹیم سے مقابلے کے لیے، کراچی اسکولز الیون منتخب کرنے کے ارادے سے سیلیکٹرز اُس روز میدان میں موجود تھے۔ بس، چند روز بعد اُنھیں ٹرائلز کے لیے ''کال'' آگئی۔ اُنھوں نے اِس بلواے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، لیکن دوستوں کے سمجھانے پر اسکول سے چھٹی لے کر، محلے کے ایک دوست کے ساتھ، سائیکل پر سوار ٹرائلز کے لیے پہنچ گئے۔
مجموعی طور پر وہاں پانچ سو کھلاڑیوں کی صلاحیتیں جانچی گئیں۔ گول کیپرز بھی کئی تھے۔ اِس بار بھی فٹ بال کا تجربہ کام آیا۔ مراحل طے کرتے کرتے آخر کار شاہد علی خان اسکولز الیون کا حصہ بن گئے۔ سننے والوں نے یہ خبر حیرت کے ساتھ سنی۔
ہاکی کلب میں ہونے والے پہلے مقابلے میں تو اُنھیں موقع نہیں ملا، البتہ اُس روز بھرا ہوا اسٹیڈیم اور لشکتی ہوئی گھاس قریب سے دیکھ کر انوکھے تجربے سے گزرے۔ بس پھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔
جب پال لٹجن نے کاندھا تھپتھپایا!
80ء میں جب جونیر ٹیم کے ساتھ یورپ کے دورے پر نکلے، تو پہلے ہالینڈ میں پڑائو ڈالا، جہاں میزبان جونیر ٹیم کے علاوہ سینئر ٹیم سے بھی ٹاکرا ہوا۔ اُس مقابلے میں گول پوسٹ کی حفاظت پر مامور، شاہد علی خان نے پینالٹی کارنر اسپیشلسٹ، پال لٹجن کا سامنا کیا۔ گوکہ میچ ہار گئے، لیکن مخالف ٹیم کو ملنے والے گیارہ شارٹ کارنرز میں سے سات روکے۔ میچ کے بعد پال لٹجن نے کم سن شاہد کا کاندھا تھپتھپایا۔ وہ ایک یادگار لمحہ تھا۔ دورے کے اختتام تک وہ قومی ٹیم کے لیے منتخب ہوچکے تھے۔