پیپلز پارٹی کے کارکن کی عزتِ نفس بحال کرنا ہوگی

پنجاب کے حکمران سرکاری ملازمین تک کی بے عزتی کرتے ہیں۔

2013ء کے عام انتخابات میں پنجاب میدان جنگ کی حیثیت رکھے گا ،منظور وٹو ۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
میاں منظور احمد وٹو کا شمار ملک کے تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتا ہے ۔

وہ کم و بیش تین عشروں سے کارزارِ سیاست میں سرگرم عمل ہیں ۔وہ ان خوش قسمت سیاستدانوں میں سے ایک ہیں اقتدار کا ہما کسی نہ کسی انداز میں جن کے سر پر آبیٹھتا ہے ۔ایوب خان کے دور میں وہ ڈسٹرکٹ کونسلر تھے مگر اپنی خداداد صلاحتیوں کے باعث وہ سیاسی میدان میں نمایاں ہوتے چلے گئے اور انہوں نے اہم ترین لیڈروں کی صف میں اپنی جگہ بنالی ۔ وہ تین بار سپیکر پنجاب اسمبلی رہے ۔ 92 ء میں بطور سپیکرپنجاب اسمبلی مسلم لیگ(ن) کی دو تہائی اکثریت ختم کردی اور وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔

93 ء میں 18 ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ پیپلزپارٹی کے اتحادی وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔ میاں منظور احمد وٹو سیاسی رابطوں اور جوڑ توڑ کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ ماضی میں پنجاب میں نواز شریف کی سیاست کو ناکام بنا چکے ہیں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری نے میاں منظور احمد وٹوکو پیپلزپارٹی پنجاب کا صدر نامزد کیا ہے اور انہیں پارٹی کی تنظیم اور انتخابات میں پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے ضمن میں اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ۔جس کے بعد پیپلزپارٹی پنجاب کے ارکان میں بالعموم اور پنجاب کی سیاست میں بالخصوص ایک تحرک کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔

پیپلزپارٹی کے لوگ ان سے غیرمعمولی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں جبکہ مخالف سیاسی جماعتیں ان کی نامزدگی کو ایک چیلنج تصور کرتے ہوئے نئے سرے سے حکمت عملی وضع کرنے پر مجبور دکھائی دیتی ہیں۔میاں منظور احمد وٹو سے ان کی نئی ذمہ داریوں کے حوالے سے خیالات جاننے اور مستقبل کے لیے ان کے عزائم سے آگاہی کے ضمن میں روزنامہ ''ایکسپریس '' نے انہیں اپنے فورم میں مدعو کیا جہاں انہوں نے کھل کر گفتگو کی اور متعدد سوالوں کے جوابات بھی دیے۔پیپلزپارٹی کے رہنما حاجی عزیز الرحمن چن، منیر احمد خاں، میاں منیر ہانس ،فائزہ ملک اور شہزاد احمد خاںبھی اس موقع پر موجود تھے۔ ایکسپریس فورم میں کی جانے والی ان کی گفتگو کی تفصیل قارئین کے مطالعے کے لیے پیش کی جار ہی ہے۔

پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے مجھے نئی ذمہ داری دے کر جس اعتماد کا اظہارکیا ہے اس پر میں انکا شکرگزار ہوں۔یہ بڑی ذمہ داری ہے جبکہ ہم الیکشن میں جارہے ہیں میں سمجھتا ہوں الیکشن عملاً شروع ہوچکا ہے کیونکہ چیف الیکشن کمشنر آفس میں بھی کام شروع ہوچکا ہے۔ میں سب سے پہلے پارٹی ورکرز کو موبلائز کرکے ان سے ڈائریکٹ تعلق قائم کرنا چاہتا ہوں ، پیپلزپارٹی سب سے بڑی جماعت اور پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ میجر کنٹری بیوشن کرتا ہے ملکی معاملات میں اور اگر پنجاب میں آپ بڑی تعداد میں سیٹیں نکال لیتے ہیں تو مرکز میں پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوسکتی ہے۔

2013ء کے الیکشن میں پنجاب ''بیٹل فیلڈ'' میدان جنگ ہے، کوئی اکیلا ہر کام انجام نہیں دے سکتا دوسرا میں ہر معاملے میں مشاورت، صلاح مشورے اور ڈسکشن پر یقین رکھتا ہوں ، تمام امیدواروں، ورکروں اور پارٹی تنظیموں سے مشاورت کرکے اس الیکشن میں ہم جائینگے۔ میں نے اب تک پنجاب کے پانچ ڈویژنوں راولپنڈی، گوجرانوالا، فیصل آباد، ساہیوال اور لاہور اربن کا وزٹ کرلیا ہے ۔ اضلاع کی تنظیموں سے بھی ملا ہوں، اب صرف لاہور رورل اور سرگودھا ڈویژن کا دورہ رہ گیا ہے۔ اس کے بعد میں ضلع کی سطح پر دورے کروں گا اور اضلاع میں قیام بھی کرونگا جہاں جائزہ لے کر اپنی سٹریٹجی بنائیں گے اور لوگوں کو اعتماد میں لیں گے۔

میں نے جن ڈویژنوں کا دورہ کیا ان سب میں یہ ہے کہ صوبائی حلقوں کی تنظیمیں ہونی چاہئیں۔ یونین کونسل کی تنظیمیں تو ہم نے بنانی ہی ہیں جس کیلئے میں نے 30دسمبر تک کی ڈیڈ لائن دیدی ہے کہ مجھے یونین کونسل وائز تنظیمیں بناکر دیں۔ ہر تنظیم میں 25عہدیدار ہوں اور میں کاغذی تنظیمیں قبول نہیں کرونگا۔ اسی طرح ہم صوبائی حلقوں کی تنظیمیں بنائیں گے۔آئندہ ماہ تک یہ کام مکمل ہوجائیگا۔ ہمارے پاس بڑا '' مینی فیسٹو'' منشور پارٹی لیڈرشپ کی قربانیاں ہیں۔ اسکے علاوہ پیپلزپارٹی نے جو '' ریفارمز''اصلاحات کی ہیں ۔بینظیر بھٹو شہیدکے بارے میں بتاوں کہ چھوٹا پارٹنر ہونے کے باوجود مجھے وزارت اعلیٰ اپنی رضامندی سے دی اور ہم نے کام چلایا۔

93ء سے 95ء تک میری حکومت وہ پہلی حکومت تھی جس کی قیادت اقلیتی پارٹی کے ہاتھ میں تھی یعنی 18سیٹوں والا وزیراعلیٰ اور 108سیٹوں والا میرے ساتھ کابینہ میں بیٹھے۔ کابینہ بھی برابر برابر تھی ، میرے تمام ممبر وزیر یا مشیر تھے اس وقت سے پیپلزپارٹی کیلئے میرے دل میں بڑی عزت اور مقام موجود تھا۔ محترمہ بینظیر کی شفقت کا اندازہ کریں کہ حکومت چلانے اور قائم کرنے کیلئے دونوں پارٹیوں نے پچاس پچاس فیصدکابینہ کی شرط منظور کرلی۔

میرے دور میں ایک دن سپاہ صحابہ اور دوسرے دن سپاہ محمد کا جلوس نکلتا تھا میں نے اسے روکا ، مولانا شاہ احمد نورانی کو اﷲ غریق رحمت کرے وہ ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ تھے میں نے انہیں کہاکہ میں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد والوں کو گرفتار کررہا ہوں لیکن آپ جس کی صفائی دیں گے اسے چھوڑ دوں گا۔ میں نے اسلحے کی نمائش پر بھی پابندی لگائی، میرے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں صرف ایک اعجازالحق نے راولپنڈی جلسے میں کلاشنکوف لہرائی تو ہم نے گرفتارکرلیا اور سفارش پر میں نے چھوڑنے سے انکارکردیا جس پر مجھے درمیانی راستہ نکالنے کیلئے درخواست کی گئی تو میں نے کہاکہ مجھے بتادیں اور اگلے دن اعجاز الحق کا اخبارات میں بیان چھپاکہ کلاشنکوف تو جعلی تھی جس پر ہم نے انہیں چھوڑدیا۔

میں نے مساجد میں لاوڈ سپیکرز کے استعمال پر پابندی لگائی۔ میری وزارت اعلیٰ میں کسی نے اسکی خلاف ورزی کی ہو اور اسے گرفتار نہ کیا گیا ہو تو وہ بتائے۔ ہم نے مالکانہ حقوق لوگوں کو اس طرح دیئے کہ کئی لاکھ لوگ کالونی اور شام لاٹ کی زمینوں کے مالک بن گئے ۔

پنجاب کے 30ہزار دیہات میں سے 12ہزار کالونی کے چکوک ہیں جبکہ 18ہزار چکوک شام لاٹ کے ہیں اور ان دونوں میں زمین داروں سے زمین لے کر میں لوگوں کو دے رہا تھا ، میرے گاوں میں 2ہزار گھر ہیں جن میں سے 100گھرانے زمیندار ہیں جبکہ 1900 گھروں کے مالک جو زمیندار نہ تھے ان کو بھی پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے اوربورڈ آف ریونیو کے ذریعے اس جگہ کا مالک بنادیا۔میری حکومت ختم ہوگئی تو یہ حقوق ملکیت والے سرٹیفکیٹ بورڈ آف ریونیو والے اب تک دبا کر بیٹھے ہیں حالانکہ میں نے رجسٹر انتقال میں لوگوں کے نام درج کرادیئے تھے لیکن ہمارے پنجاب کے موجودہ مہربان حکمران جو حقیقت میں عوام دشمن ہیں وہ یہ فائلیں دبا کر بیٹھے ہیں کیونکہ ان سرٹیفکیٹس پر محترمہ بینظیر اور میری تصاویر ہیں۔

آج آپ صوبے میں امن وامان کی صورتحال دیکھ لیں، چوریاں ،ڈاکے ہر جگہ پڑرہے ہیں جبکہ پولیس تک پہنچنے کیلئے سائلوں کی خوب بے عزتی ہوتی ہے ، میرے دور میں سب انسپکٹر لیول کے اہلکار گائوں اور شہروں کی مساجد میں اعلان کیا کرتے تھے کہ کسی کا اگر کوئی وقوعہ ہوا ہو تو وہ پرچہ درج کرالے کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب کا خصوصی حکم ہے، ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ میں نے صوبے میں اینٹی انکروچمنٹ کمپیئن کامیابی سے چلائی ، مسلم لیگ جونیجو کے صدر حامد ناصر چٹھہ کے عزیز نے جہلم میں انکروچمنٹ کی تھی لیکن ہم نے اپنے پارٹی سربراہ ہونے کے باوجود وہ انکروچمنٹ ختم کرادی۔

اسی طرح ایک پارٹی عہدیدار نے جونیجو لیگ کا ایک سڑک پر دفتر بنالیا میں نے اسسٹنٹ کمشنر سے کہا کہ اسے سمجھاو کہ یہ غیر قانونی ہے لیکن جب وہ نہ سمجھا تو اپنی ہی پارٹی کا وہ دفتر گرادیا۔ اس پر لوگوں کو سمجھ لگ گئی کہ یہ حکومت واقعی ایماندار اور اپنی کمٹمنٹ میں سیریس ہے۔ میرے اے سی لائنیں لگاتے تھے اور لوگ اپنی تجاوزات کی دیواریں خود گراتے تھے ۔ میں نے کبھی کسی کو نوکری میں ایکسٹینشن بھی نہیں دی اور نہ ہی کوئی آوٹ آف ٹرن ترقی دی۔ لاکھوں روپے لے کر باہر علاج کیلئے لوگ چلے جاتے تھے جبکہ یہاں عوام ہسپتالوں میں میڈیسن اور ڈاکٹروں کیلئے ترستے ہیں۔ میں نے اس پر پابندی لگادی۔

گڈگورننس یہ نہیں کہ فرشتے ہی آکر نظام چلائیں گے تو بات بنے گی، میرا ایک طریقہ ہے کہ جو قانون بھی بنایا اس پر عمل درآمد کرایا اس میں اپنے پرائے یا اچھے برے کی تمیز بھی نہیں کی کیونکہ فیورٹ ازم سے چند لوگ تو آپ کے ساتھی بن جاتے ہیں باقی سب آپ کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لاکھوں لوگوں کو سپورٹ کیا گیا ہے۔ محترمہ شہید نے خاتون خانہ عورتوں کیلئے قانون سازی کرائی ۔ اب وسیلہ حق پروگرام بھی شروع ہوگیا ہے۔


میں کہتا ہوں پیپلزپارٹی مزدور کا ساتھ دینے والی جماعت ہے۔نواز دور میں نکالے گئے لاکھوں لوگوں کو ہم نے بحال کیا اور واجبات ادا کئے۔ چھوٹے چھوٹے ملازم جو ڈیلی ویجز پر کام کرتے تھے ان سب کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے مستقل کیا جبکہ سرکاری کارخانوں میں مزدوروں کو مالکانہ حقوق دیدیئے جس کے بعد اب ان کارخانوں کے مزدور بھی حصے دار ہیں۔ پیپلزپارٹی کے 124ارکان قومی اسمبلی میں ہیں جبکہ 178چاہئیں حکومت چلانے کیلئے تو یہ سیٹیں ہم دوسری اتحادی پارٹیوں کو ساتھ ملاکر حکومت چلارہے ہیں ۔

منظور وٹو نے کہاکہ اگر یہ نظام نہ چلتا اور صدر زرداری اتفاق رائے پیدا نہ کرتے، قومی مصالحت نہ کرتے تو پاکستان میں جمہوریت کا نظام کیسے چلتا۔ جمہوریت ملک میں جب نہیں تھی تو میڈیا اور عدلیہ کے ساتھ مشرف دور میں بڑی زیادتیاں ہوئیں۔ ساڑھے چار سال میں پیپلزپارٹی نے نہیں جمہوریت نے پورے کئے۔ پانچ سال بعد سویلین گورنمنٹ سے سویلین گورنمنٹ کو اقتدار منتقل ہوجائیگا۔ اب ہر بندہ کہہ رہا ہے کہ ملک میں الیکشن شفاف ہونگے، اسکا کریڈٹ آپ کو موجودہ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت اور موجودہ پارلیمنٹ کو دینا پڑیگا۔

الیکشن کمشنر کی تقرری میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت اور الیکشن کا نظام آزادانہ بنانا اور کیئرٹیکر سیٹ اپ کے نظام کو بنانے والی پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ۔ اب اتحادی دوستوں سے جاکر ہر کام میں مذاکرات کرنا پڑتے ہیں اور صوبوں کو ساتھ ملارہے ہیں ، ہم نے ادارے بنادیئے اور نسلوں کا کام سنوار دیا ، لوگوں کو فوڈ سکیورٹی دی، جب ہماری حکومت آئی ہماری بہنوں کو قطاروں میں کھڑے ہوکر آٹا ملتا تھا۔ہماری پالیسیوں سے اب ملک میں سرپلس گندم موجود ہے اور لوگ ایکسپورٹ کررہے ہیں۔ 2005ء میں 8000 کا انڈیکس تھا جو آج 16300 تک پہنچ چکا ہے ، دنیا میں اتنا رائز اور کسی ملک میں نہیں آیا۔ اب لوگ یہاں انویسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نے اکانومی کو سٹیبل (مستحکم) شکل دیدی۔ کتنے ہزار ارب روپے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے بعد دیدیئے اور صوبوں کو بااختیار بنایاگیا کہ صوبوں کے پاس پیسے اب مرکز سے زیادہ ہیں۔ اب اربوں روپے موجودہ حکومت ایک سڑک پر خرچ کررہی ہے جس سے صوبے کا سارا کام اوپر نیچے ہوچکا ہے۔محض 18سے20میل کی اس سڑک پر لگائے جانیوالے پیسے سے پورے پنجاب کی سڑکیں ٹھیک ہوسکتی ہیں۔ 2ارب روپے ہر ضلع کو سڑک کیلئے دیدیئے جائیں تو وہ ٹھیک نہ ہوجائیں اسی طرح یہی رقم اگر تعلیمی اداروں یا ہسپتالوں کو دیدی جائے تو یہ ادارے بھی بہترین ہوجائیں لیکن ہمارے خادم اعلیٰ وزیراعلیٰ نے عوام دشمن پالیسی اختیار کررکھی ہے ۔

میں کسی کی ذات پر کیچڑ نہیں اچھالتا لیکن ہماری لیڈرشپ کے بارے میں اگر کوئی بات کہے تو وہی رویہ ہمارے کارکن انکے بارے میں اختیار کرینگے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاست میں شائستگی اختیار کی جائے اور دشمنی نہ کی جائے ۔ میں کہتا ہوں وزیراعلیٰ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ سارے پنجاب کا پیسہ محض ایک سڑک پر لگادیں۔ مقامی حکومتوں کا پیسہ بھی ادھر لگادیا گیا ہے۔ مقامی حکومتوں کے الیکشن یہ کرانے سے ڈرتے ہیں میں کہتا ہوں الیکشن سے پہلے سڑک پر پیسہ لگانا قبل از الیکشن دھاندلی ہے الیکشن کمیشن کو اسکا نوٹس لینا چاہیے۔ میں سرکاری ملازمین کو بھی کہتا ہوں کہ سوچ سمجھ کر کام کریں کیونکہ اس سے انکی پکڑ بھی ہوسکتی ہے۔

پیپلزپارٹی کا پروگرا م پروگریسو ہے جو سب کو پسند آئیگا۔ہماری لیڈرشپ سے انکی لیڈرشپ کا کوئی مقابلہ نہیں ۔ شہید ذوالفقار بھٹو اور شہید محترمہ نے تو لوگوں کو حقوق لے کر دینے میں اپنی جانیں تک گنوادیں۔ اس کے مقابلے میں ذرا سی دھوپ انہیں لگی تو چھاوں میں آگئے اور بھاگ کر جدہ چلے گئے اور عوام کو پیچھے تنہا چھوڑ گئے ۔ انکی حکومت کو خواہ اسٹیبلشمنٹ نے بنوایا ہو لیکن ووٹ تو عوام نے ہی دیئے تھے تو عوام انکو اب پوچھیں کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر چلے گئے تھے ایک ڈکٹیٹر سے سیٹلمنٹ کرکے ۔پیپلزپارٹی کے ورکر بڑے عظیم ہیں ، انہیں میرے دور وزرات اعلیٰ کے علاوہ پنجاب میں کبھی نوکریاں نہیں ملیں اور انکی آج تک کسی نے نہیں سنی اسکے باوجود یہ پیپلزپارٹی اور محترمہ کے اتنے متوالے ہیں کہ تکلیف اٹھاکر بھی جئے بھٹو کہتے ہیں۔ ہم الیکشن میں اپنی تمام صلاحتیں صرف کرینگے اور کوئی کسر نہیں چھوڑینگے۔

کہتے ہیں لڑائی میں جو تیر بچ جائے وہ خود کو مارلینا چاہیے اسلیے ہم سب تیر چلائیں گے۔میں پیپلزپارٹی کے ورکر کی عزت بحال کرونگا اور انکے کام آوں گا۔ یہ سیٹیں تو آنی جانی ہوتی ہیں میں رہوں نہ رہوں کل کو پی پی ورکر کہے گا کہ پنجاب کے فلاں صدر نے واقعی ہمیں ہمارا حق لے کر دیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل میں نے نہیں بلکہ دینی جماعتوں نے بنائی تھی لیکن میرے ان سے تعلقات اچھے تھے۔صدر زرادری نے میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات کہی ہوگی کہ 30فیصد لبرل لوگ ہمارے ساتھ ہیں باقی 70فیصد لائن کے دوسری طرف ہیں۔

میں سمجھتا ہوں پاکستان کے عوام زیادہ تر لبرل ہیں جو قائداعظم کا پاکستان چاہتے ہیں اور قائداعظم لبرل پاکستان چاہتے تھے جس میں ہرکسی کو اپنی زندگی اور مذہبی عقائد اپنی مرضی سے اختیار اور ادا کرنے کا حق حاصل ہو اور ہرکسی کی سوچ پر کسی اور کو پہرے لگانے کا حق نہ ہو، میں سمجھتا ہوں چند لوگ دوسری طرف ہیں، لبرل لوگ پاکستان پیپلزپارٹی کا ساتھ دینگے ۔ نماز پڑھنے والے اور داڑھی والے، اﷲ رسولؐ کو ماننے والے بھی لبرل ہیں ۔ اسلام میں کوئی جبر نہیں جبکہ لائن کے دوسری طرف والے لوگ قدغن لگانا چاہتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے میں خود حق میں ہوں ۔ پنجاب کو تقسیم کرنے اورتوڑنے کی قرارداد ہم نے نہیں بلکہ موجودہ پنجاب اسمبلی میں منظور ہوئی جس میں ن لیگ کی اکثریت ہے اور اس نے ایوان میں بہاولپور کو صوبہ بنانے کی بات کی۔ن لیگ والوں نے جعلسازی سے ق لیگ کے بندے توڑے۔

جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے والی بات کو ہم سپورٹ کرتے ہیں انڈین پنجاب ہم سے چھوٹا ہونے کے باوجود وہاں تین صوبے پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش بنادیئے گئے۔ راجن پور کے لوگوں کیلئے لاہور آکر کام کروانے کی بجائے ملتان آکر کام کروانا آسان ہے، میں کہتا ہوں کہ صوبے بننے چاہئیں یہ پنجاب دشمنی نہیں ہے بلکہ اس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔میں تو کالا باغ ڈیم کے حق میں بھی ہوں کہ یہ اب تک بن جانا چاہیے تھا لیکن فیڈریشنز میں مسائل قومی مفاد میں دیکھنا پڑتے ہیں۔ فیڈریشن کو توڑنے کی بنیاد پر کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہیے۔ تین صوبے اسکی مخالفت کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں اسے نہیں بننا چاہیے جب تک کہ اتفاق رائے نہ ہوجائے۔

لوگوں نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں کالاباغ ڈیم کو ایشو بنالیا ہے حالانکہ بھاشا ڈیم اور دیگر کئی ڈیم اس سے بڑے ہیں جن میں پانی کی سٹوریج بھی زیادہ ہوگی اور بجلی بھی زیادہ بنے گی ، نیلم جہلم ڈیم کیلئے بھی جرمنی سے مشینری منگوالی گئی ہے اور ہم نے اتنے ڈیم شروع کررکھے ہیں کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے جبکہ سابق حکومتوں نے ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی، ہم کوئلے اور پانی سے بجلی پیدا کرنے پر اتنا کام کررہے ہیں کہ جلد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی۔

پنجاب حکومت کے دوستوں کا رویہ اپنے لوگوں سے ہی ٹھیک نہیں ،یہ اپنے ارکان اسمبلی سے ملاقات تک نہیں کرتے، لوگ ترستے ہیں اور جب انتظار کروانے کے بعد لوگ تھک ہار کر چلے جاتے ہیں تو اس پر بھی مائنڈ کرتے ہیں، ارکان اسمبلی کی بے عزتی کرتے ہیں حالانکہ انکو پتہ ہے کہ یہاں بی ڈی ممبر بننا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے۔آج لوگ بڑے سمجھ دار ہوگئے ہیں جس پر انہیں اعتماد نہیں ہوتا اسکی پرچی پر مہر نہیں لگاتے، لیکن ہمارے پنجاب کے حکمران سرکاری ملازمین تک کی بے عزتی کرتے ہیں، میں نے سرکاری ملازمین کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا اور میں ان میں ٹیم سپرٹ بھی قائم کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی میرا نام عزت سے لیتے ہیں۔

انکی حکومت میں انکی پیٹھ پیچھے ہی لوگ انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز اب مذید اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرینگے ، ہم انکی ورکنگ بحال کرائیں گے ، انہیں عزت اور مقام دینگے اسلئے جونہی موقع ملا انکے ارکان اسمبلی ہمارا ساتھ دینگے۔ ہمارے ق لیگ سے کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کا کریڈٹ صوبے کو نہیں بلکہ حکومت کو ملنا چاہیے، آٹا کی وافر دستیابی وفاقی حکومت کی طرف سے گندم کا ایک ہزار روپے ریٹ مقرر کرنا تھا اسی طرح کھاد کی بہترین پالیسی بھی ہم نے دی۔1985ء کے الیکشن میں فیصلہ ہوا کہ میاں نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب جبکہ میں سپیکر پنجاب اسمبلی اسی طرح 88ء میں بھی یہی فیصلہ ہوا اور میں سپیکر بن گیا۔

میں نے میاں برادران سے اپنے راستے کیسے جدا کئے اس سلسلے میں میری کتاب '' جرم سیاست '' پڑھیں کہ کیسے ہماری راہیں جدا ہوئیں ۔ غلام حیدر وائیں پر عدم اعتماد کیوں ہوا اور میری میاں صاحب سے تعلق داری میں کمی کیوں ہوئی۔ پنجاب اسمبلی نے اپنا لیڈر آئینی و قانونی طریقے سے تبدیل کیا اس وقت ایوان کے اندر ہی 165ارکان نے میرا ساتھ دیا جبکہ میاں نوازشریف کے ساتھ محض 35بندے رہ گئے تھے وہ بھی میرے ساتھ آجاتے اگر سپریم کورٹ انکی حکومت بحال نہ کرتی ۔ میں نے پارٹی تو تبدیل نہیں کی تھی بلکہ عین جمہوریت کے مطابق پارٹی کا فیصلہ تھا جو سب نے قبول کیا۔

ق لیگ ہمارے اتحادی جماعت ہے ہم اسکے ساتھ مل کر چلیں گے جبکہ دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی ہمارا اتحاد ہوسکتا ہے۔ میگا پراجیکٹس کا جہاں تک تعلق ہے تو پنجاب میں اگر ہماری حکومت ہوتی تو 70ارب روپے محض 20کلومیٹر سڑک پر کبھی خرچ نہ کرتے۔ ڈویلپمنٹ لوگوں کی معاشی حالت دیکھ کر کرتے اور سٹینڈرڈ آف لیونگ دیکھے بغیر کوئی پیسہ خرچ نہ کرتے۔ لوگوں کو اس طرح عذاب میں بھی نہ ڈالتے کہ اس سڑک نے مکمل بھی کبھی نہیں ہونا۔ آپ دیکھیں گے کہ کیئر ٹیکر سیٹ اپ آجائیگا اور انکی چھٹی ہوجائیگی لیکن سڑک مکمل نہیں ہوئی ہوگی۔ ساڑھے چار ہزار ارب روپے کے پراجیکٹس پیپلزپارٹی کی حکومت نے مکمل کئے ہیں اپنے دور حکومت میں ۔

اصغر خان کیس کے فیصلے میں سیدھی سیدھی بات ہے کہ میاں صاحبان جو شروع دن سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ پیپلزپارٹی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کرتی تو پیپلزپارٹی نے تو سپریم کورٹ کے تمام فیصلے مانے، وزیراعلیٰ گیلانی اور وزیراعظم راجہ پرویزاشرف سپریم کورٹ میں پیش ہوتے رہے۔ہم تو فیصلوں کی عزت کرتے اور انہیں مانتے ہیں اب ان کے بارے میں تفصیلی فیصلہ آگیا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مانو اور حکومت چھوڑ دو کیونکہ حکومت کرنا اب اپ کا حق نہیں رہ گیا۔
Load Next Story