پاک افغان سرحد کی توجہ طلب صورتحال

سرحدی تنازعے اور دہشت گردوں کے افغانستان سے بآسانی پاکستانی حدود میں داخلے کے باعث اکثر معاملات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔


November 21, 2012
پاکستان میں امن کی بحالی افغانستان میں امن کی بحالی سے مشروط ہے. فوٹو فائل

پاکستان اورافغانستان نہ صرف پڑوسی ملک ہیں بلکہ تاریخ کے اٹوٹ ثقافتی ،لسانی اوراسلامی رشتوں سے بھی جڑے ہیں ۔

افغانستان ہمیشہ سے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ اس کے غیور عوام نے غلامی کو کبھی قبول نہیں کیا اور بیرونی حملہ آور قوم کو مار بھگایا ہے ۔ اس وقت عالمی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان میں امن کی بحالی اقوام عالم کی بالعموم اور پاکستان کی بالخصوص پہلی خواہش ہے ۔ اسی حوالے سے کابل میں پاکستان، افغانستان اور ایساف کے سہ فریقی کمیشن کا36 واں اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی جانب سے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی، افغان فوج کے سربراہ جنرل شیر محمدکریمی اور ایساف کے قائم مقام کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نکول کارٹر نے اپنے وفودکے ہمراہ شرکت کی۔

اجلاس کے شرکاء پاکستان، افغانستان اورایساف نے سرحدکے دونوں اطراف پائیدار کامیابی، امن اور استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ گفت وشنید کے بعد سہ فریقی بارڈر کوآرڈی نیشن میکنزم کی دستاویز پردستخط بھی کیے گئے ہیں۔ پاکستان نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کا اہم ترین رکن بنا ۔ لیکن اس کا رکن بننے پر پاکستان کو نہ صرف کثیر مالی نقصان ہوا بلکہ ہزاروں جانوں کی قربانی بھی دینا پڑی ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونے کی بنا پر اسے شدید ترین معاشی واقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ خود پاکستان دہشت گردی کا شکار ملک بن چکا ہے۔

اور پاکستان میں امن کی بحالی افغانستان میں امن کی بحالی سے مشروط ہے ۔ وطن عزیز کوکھربوں ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے ہمارے 9 جرنیل اور ہزاروں فوجی شہید ہو چکے ہیں، ڈرون حملے روزانہ ہو رہے ہیں، خودکش حملے ہو رہے ہیں، نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے ہماری سڑکیں تباہ ہو رہی ہیں،غیر ملکی جاسوس ہمارے ملک میں انسانیت دشمن کارروائیاں کر رہے ہیں، ہماری مساجد،امام بارگاہیں، بزرگوں کے مزار، ہمارے بازار، کرکٹ میچ کے مہمان،ہمارے سیاسی لیڈر اور ان کے بچے، ہمارے مذہبی رہنما،ہماری بچیوں کے اسکول، کیاکچھ ہے جو تباہ نہ ہو گیا ہو؟ اس پر بھی امریکا خوش نہیں ہے ڈومور ڈومور کی رٹ لگائی جا رہی ہے۔

اسی حوالے سے شرکاء نے افغانستان اور اس سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوںمیںجاری فوجی کارروائیوںکاجائزہ لیا۔شرکاء نے افغانستان میں ایساف کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز کو سلامتی کی ذمے داری کی منتقلی، ایساف کے 2014میں افغانستان سے انخلاکے منصوبے اور پاکستان اور افغانستان میں 2014 تک اور اس کے بعد دوطرفہ سرحدی تعاون بتدریج بڑھانے کے معاہدوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعے اور دہشت گردوں کے افغانستان سے بآسانی پاکستانی حدود میں داخلے کے باعث اکثر وبیشتر معاملات کشیدہ اور تلخی کا عنصر نمایاں ہوجاتا ہے جو کہ دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔

اسی حوالے سے مثبت تجاویز کے تحت کسی میکنزم پر پہنچنا اور اس پر غور کرنا اہم ترین پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے۔سہ فریقی کمیشن کے اجلاس سے قبل جنرل اشفاق پرویزکیانی نے افغان صدر حامدکرزئی سے صدارتی محل میں ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے معاملات پرتبادلہ خیال کیا ، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی سے جی ایچ کیو میں پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے بھی ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امورکے علاوہ پاک امریکا دفاعی تعلقات اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

امریکی سفیر نے پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوںکا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امریکا دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون جاری رکھے گا۔امریکا اگر ہماری قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے تو یہ امر خوش آیند ہے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ خطے میں امن وامان کی بحالی میں ایساف کے رکن ممالک اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ۔امن پاکستان، افغانستان اور عالمی برادری کی مشترکہ ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔