بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسی

بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ایشو کو سبوتاژ کرنے کی کوشش پہلی بار نہیں کی گئی


Editorial June 06, 2016
بلوچستان اور کراچی میں بھی ہونے والی گڑ بڑ میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: پاکستانی حکومت نے علاقائی مسائل پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے بھارت کو ہمیشہ مذاکرات کی دعوت دی اور واضح کیا کہ خطے کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار باہمی دوستانہ تعلقات پر ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے جارحانہ اور متعصبانہ رویہ اپنانے کے باوجود پاکستان نے اسے بھی مذاکرات کی دعوت دی جس کے بعد خارجہ سیکریٹریز کی سطح پر مذاکرات شروع کرنے کی بات چیت چلی مگر بھارت نے مختلف ایشوز کو بنیاد بنا کر ان مذاکرات کو شروع ہی نہ ہونے دیا۔ اب بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی کھڑکی کو بند کر دیا گیا ہے' انھوں نے جواز یہ گھڑا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ خیرسگالی اور مذاکرات کے لیے کھڑکی کھولی تھی تاہم ہمسایہ ممالک کی جانب سے دہشت گردی سے نمٹنے میں مخلصانہ پن کے بارے میں شکوک و شبہات کے باعث اسے بند کر دیا گیا ہے۔

بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ایشو کو سبوتاژ کرنے کی کوشش پہلی بار نہیں کی گئی بلکہ ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بھارت کی جانب سے ایک معمول کا عمل دکھائی دیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات حل کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ متعدد بار خارجہ سیکریٹریز اور اعلیٰ سطح کے مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن ان کا آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

پاکستان جب بھی بھارت سے مذاکرات کی بات کرتا ہے تو وہ ایک خاص منصوبہ کے تحت دہشت گردی کی آڑ لے کر انھیں شروع ہی نہیں ہونے دیتا۔ بھارت یہ الزام لگا رہا ہے کہ پٹھان کوٹ کے واقعے میں پاکستان ملوث ہے لیکن اب یہ صورت حال پوری دنیا کے سامنے آ گئی ہے کہ اس واقعے میں پاکستانی حکومت یا اس کی کوئی ایجنسی ملوث نہیں اس بات کا اعتراف بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل شرد کمار نے بھی کیا کہ پٹھانکوٹ حملے میں حکومت پاکستان یاکسی بھی پاکستانی ایجنسی کے براہ راست ملوث ہونے کے کوئی شواہد اب تک نہیں ملے ہیں۔

اس حقیقت کے سامنے آنے کے باوجود بھارتی حکومت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹھانکوٹ کا واقعہ پاکستان کے سر منڈھنے پر تلی ہوئی ہے اور اس واقعے کو آڑ بنا کر پاکستان سے مذاکرات کی راہ سے فرار اختیار کر رہی ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں عالمی طاقتوں کی جانب سے بھی کوئی ایسی کوشش سامنے نہیں آئی کہ وہ بھارت پر پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے دباؤ ڈالیں' ان کا یہ خاموش کردار کسی خاص منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر حربے اختیار کر رہا ہے ایک جانب وہ اسے داخلی عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے تو دوسری جانب اسے جغرافیائی طور پر گھیرا ڈالنے کے لیے سازشوں کے جال بن رہا ہے۔

وہ ایران میں چاہ بہار کی بندر گاہ کی تعمیر کے بہانے پاکستان میں اپنے جاسوس داخل کر رہا ہے۔ جب سے پاکستان نے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع کیا ہے بھارت اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت افغانستان میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے' بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہفتے کے روز افغانستان کے مختصر دورے کے موقع پر ایران کی سرحد سے متصل افغان صوبہ ہرات میں بھارت کی فراہم کردہ 29کروڑ ڈالر کی امداد سے مکمل ہونے والے سلما ڈیم کا افتتاح کیا' اس ڈیم سے 42میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکے گی اور 75ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جاسکے گا اس کے علاوہ بھارت افغانستان میں بہت سے ترقیاتی منصوبے مکمل کر رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے راستے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر میں بھارتی آشیرباد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

بلوچستان اور کراچی میں بھی ہونے والی گڑ بڑ میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ بھارت کی ان تمام تر چالوں اور حربوں کے باوجود پاکستان نے یہ واضح کیا ہے کہ جنگ خطے کے مسائل کا حل نہیں' علاقائی تنازعات کے حل کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہے۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھی یہ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پٹھانکوٹ حملے کے بعد تعطل کا شکار ہونے والے پاک بھارت مذاکرات جلد شروع ہوں گے' جب بھی مذاکرات ہوں گے اس میں کشمیر کا مسئلہ ضرور شامل ہو گا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ یہی مسئلہ ہے۔ یوں دیکھا جائے تو تمام تر مشکلات اور مایوسی کے باوجود پاک بھارت مذاکرات کے احیا کے امکانات موجود ہیں' مذاکرات کا سلسلہ جتنا جلد بحال ہو جائے' اتنا ہی بہتر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔