سنگین الزامات کی مگر قیمت کون ادا کرے گا
بھارت نے اس سلسلے میں تین بڑے دعوے کیے: ایک تو یہ کہ دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے
MINGORA:
آج 6 جون 2016ء کی شام چھ بجے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس حالت میں امریکی دارالحکومت، واشنگٹن، میں قدم رکھ رہے ہیں کہ دو اہم ترین واقعات اور سانحات ان کے تعاقب میں ہیں۔ یقینا امریکی میڈیا کے سامنے مودی صاحب کو اس حوالے سے جوابدہ ہونا پڑے گا، تاآنکہ امریکی صحافی ان کے جوابات سے مطمئن نہ ہو جائیں۔ کوئی پانچ ماہ قبل بھارت کے معروف عسکری شہر پٹھانکوٹ، جہاں فوجی چھاؤنی بھی ہے اور بھارتی ائیرفورس کا اہم ہوائی اڈہ بھی، پر مبینہ طور پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس سانحہ میں سات بھارتی فوجی مارے گئے۔ دہشت گردوں کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے میں بھارتی فوج کو دو دن لگ گئے، حالانکہ کہا گیا تھا کہ ان کی تعداد صرف چھ تھی۔
بھارت نے اس سلسلے میں تین بڑے دعوے کیے: ایک تو یہ کہ دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کا تعلق پاکستان کی ایک مذہبی و جہادی تنظیم سے ہے۔ تیسرا یہ کہ تمام دہشت گرد حملہ آور پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی کے تربیت یافتہ اور ارسال کردہ تھے۔ بھارت نے پاکستان کے مخالف اس پروپیگنڈے کا ڈھول اس قدر شدت اور تسلسل سے پیٹا کہ اس (جھوٹ) کی بازگشت ساری دنیا میں سنائی دی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان، اس کے سیکیورٹی ادارے اور پاکستان کی سویلین حکومت مسلسل تردید کرتی رہی کہ پاکستان اور اس کا کوئی جلی یا خفی ادارہ اس سانحہ میں ملوث ہے۔ بھارتی قومی تحقیقاتی ادارے (NIA) کے ڈائریکٹر جنرل، شرد کمار، نے بھارت ہی کے ایک ٹی وی چینل (نیوز 18) کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ پاکستان، اس کی کوئی ایجنسی اور پاکستان کی کوئی جہادی تنظیم سانحہ پٹھانکوٹ میں ملوث نہیں ہے۔ شرد کمار گزشتہ پانچ ماہ سے اس مبینہ خونی اور دہشت گردانہ واقعے کی تحقیقات کر رہے تھے۔ بھارتی ایجنسیوں نے اسی سلسلے میں اپنے آٹھ شہری بھی گرفتار کر رکھے تھے۔
ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ''پاکستانی دہشت گرد حملہ آوروں'' سے تعاون کیا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ شرد کمار کے نادم انگیز اعتراف سے دو روز قبل ان آٹھوں زیرِ حراست بھارتی شہریوں کو چپکے سے رہا کر دیا گیا تھا۔ شرد کمار کے اعتراف کے بعد اب ایک مخصوص لابی کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ چلو، اچھا ہوا، پاکستان کی جان چھوٹ گئی، اب کم از کم یہ تو ہو گا کہ رکے ہوئے پاک بھارت مذاکرات کا دروازہ پھر سے کھل جائے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ دروازہ کھلے گا یا بدستور بند ہی رہے گا کہ اس دروازے کی کُنڈی بھارت کی طرف سے بند کی گئی تھی۔
اہم سوال مگر یہ ہے کہ بھارت سرکار اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے منہ پھاڑ کر پاکستان پر دہشت گرد حملوں کا سنگین الزام عائد کر کے دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کی جو دیدہ دانستہ سازش کی اور پاکستان کے منہ پر کالک ملنے کی ناپاک جسارت کی گئی، اس سنگین الزام کی بھاری قیمت کون ادا کرے گا؟ کیا اس کا واضح مطلب یہ نہیں ہے کہ پٹھانکوٹ پر حملے سے قبل بھارت نے ممبئی اور دہلی کی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملوں کا جس ڈھٹائی سے پاکستان کو ذمے دار ٹھہرایا، دراصل یہ سب بے بنیاد بھارتی پروپیگنڈہ تھا؟ اور یہ کھچڑی انڈین اسٹیبلشمنٹ کے ''باورچی خانے'' میں پکائی گئی تھی!! واقعے یہ ہے کہ پٹھانکوٹ پر مبینہ حملے کے حوالے سے بھارتی تحقیقاتی ادارے، این آئی اے، کے سربراہ (شرد کمار) کی طرف سے کیے گئے اعتراف نے دنیا کے سامنے بھارت کو برہنہ کر دیا ہے۔
اب جب کہ آج سے نریندر مودی واشنگٹن یاترا کا آغاز کر رہے ہیں، اسی اعتراف کے حوالے سے یقینا انھیں امریکی میڈیا کے سامنے ندامت کا اظہار بھی کرنا پڑے گا اور ان سوالات کا جواب بھی دینا ہو گا کہ آخر بھارتی ایجنسیوں نے پاکستان کو کیوں ان سنگین الزامات کا ہدف بنایا؟ نریندر مودی بلند آدرشوں کے ساتھ امریکا پہنچ رہے ہیں۔ آنجناب اس دورے سے بھاری مقدار میں نیوکلیئر خام مواد بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تا کہ ابتدائی طور پر بھارت میں چار نئے ایٹمی ری ایکٹر چالُو کیے جا سکیں۔ وہ امریکا کے نیوکلیئر سپلائر گروپس سے معانقہ اور مصافحہ کر کے امریکا کی طرف سے کیے گئے وعدوں میں عمل کا رنگ بھرنے کے بھی متمنی ہیں مگر ان کے دَورے سے قبل کوئی بھی ڈِیل حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی تھی۔
معلوم ہوا ہے کہ شاید جنوری 2017ء میں امریکا کا نیا صدر ہی یہ ایٹمی مواد بھارت کو فراہم کر سکے گا۔ گزشتہ دو سالہ اقتدار کے دوران نریندر مودی کا یہ چوتھا سرکاری امریکی دَورہ ہے۔ اس دوران امریکی صدر، باراک اوباما، نے بھی دو بار بھارت یاترا کی ہے جس پر بھارت اور مودی اپنے آپے میں نہیں سما رہے تھے۔ بھارت کی ''کامیاب سفارتکاری'' کی بازگشت بھی خوب سنائی دی گئی مگر نیوکلیئر سپلائر گروپ کا حصہ بننے کا بھارتی خواب ابھی تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے کو شروع ہوئے پندرہ برس ہو گئے ہیں لیکن یہ بیل ہنوز منڈھے نہیں چڑھ سکی ہے۔ (آغاز اس وقت ہوا تھا جب 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت کا دورہ کیا تھا) ہاں، اس دوران امریکا کے ہاں بھارت کی اچھی شنوائی ضرور ہوئی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 7 جون 2016ء کو نریندر مودی امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔
(وہ پانچویں بھارتی وزیراعظم ہوں گے جو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے) لیکن ساتھ ہی امریکا میں بھارت کے سفیر، ارون کے سنگھ، نے غیر مبہم الفاظ میں یہ بھی کہا ہے کہ جن بڑی توقعات کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی صاحب امریکا آ رہے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ بڑے معاہدوں کی تکمیل کے حوالے سے یہ توقعات بھی پوری ہو سکیں۔ اس دورے میں مودی جی کے لیے جو ''شے'' اصل سر درد بننے والی ہے، وہ یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے دورے سے چار روز قبل لاس اینجلس میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ایک اہم قتل ہو گیا۔ قاتل بھارتی طالب علم شہری ہے اور اس کا نام ہے: مانک سرکار۔ پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے۔
اس نے طیش اور نفرت سے مغلوب ہو کر اپنے سپروائزر پروفیسر، ڈاکٹر کلوگ، کو گولی سے مار ڈالا۔ مودی جی اب اس حالت میں امریکا میں قدم رکھ رہے ہیں کہ بھارتی ہندو طالب علم کے ہاتھوں امریکی پروفیسر کے قتل کی بازگشت پورے امریکا میں سنائی دے رہی ہے۔ امریکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بار بار قاتل ہندو طالب علم مانک سرکار کا نام گونج رہا ہے اور ساتھ ہی بھارت کا نام بھی۔ یقینی طور پر یہ صورتحال امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے لیے ندامت اور پریشانی کا باعث بن رہی ہے اور اس صورتحال کا سامنا، آج سے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی کرنا پڑے گا۔ انھیں، سات اور آٹھ جون کو، امریکا میں دو اہم پریس کانفرنسوں سے خطاب بھی کرنا ہے جہاں یقینا ان سے ہندو قاتل مانک سرکار کے بارے میں استفسار کیا جائے گا۔ واشنگٹن میں اندرونِ خانہ سفارتی معاملات سے آگاہ باخبروں کا کہنا ہے کہ بھارتی سفارتخانہ سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ اپنی امریکی لابی کو بروئے کار لا کر امریکی صحافیوں کو اس بات پر مائل کیا جا سکے کہ نریندر مودی سے مانک سرکار اور پٹھانکوٹ پر مبینہ پاکستانی دہشت گردوں کے حملے کے حوالے سے شرد کمار کے تازہ اعترافات کے بارے میں سوالات نہ پوچھے جائیں۔
امریکی صحافی، بھارتی لابی کی بسیار کوششوں کے باوصف، ابھی اس ڈَھب پر نہیں آ رہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو رسوا کرنے کے لیے جو کاٹھ کی ہنڈیا چڑھائی تھی، اب وہ بیچ چوراہے کے پھوٹی ہے تو پاکستان کے خلاف اس سنگین جھوٹ کا سنگین خمیازہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اکیلے ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پٹھانکوٹ پر حملے کے حوالے سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ جھوٹ بھارتی وزیرِ دفاع، منوہر پاریکار، نے بولا تھا۔ اب وہ بھی مارے شرمندگی کے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اہم خبر یہ بھی ہے کہ مودی جی کے امریکی دورے کے دوران انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں مظاہرے کرنے والی ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔
آج 6 جون 2016ء کی شام چھ بجے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس حالت میں امریکی دارالحکومت، واشنگٹن، میں قدم رکھ رہے ہیں کہ دو اہم ترین واقعات اور سانحات ان کے تعاقب میں ہیں۔ یقینا امریکی میڈیا کے سامنے مودی صاحب کو اس حوالے سے جوابدہ ہونا پڑے گا، تاآنکہ امریکی صحافی ان کے جوابات سے مطمئن نہ ہو جائیں۔ کوئی پانچ ماہ قبل بھارت کے معروف عسکری شہر پٹھانکوٹ، جہاں فوجی چھاؤنی بھی ہے اور بھارتی ائیرفورس کا اہم ہوائی اڈہ بھی، پر مبینہ طور پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس سانحہ میں سات بھارتی فوجی مارے گئے۔ دہشت گردوں کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے میں بھارتی فوج کو دو دن لگ گئے، حالانکہ کہا گیا تھا کہ ان کی تعداد صرف چھ تھی۔
بھارت نے اس سلسلے میں تین بڑے دعوے کیے: ایک تو یہ کہ دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کا تعلق پاکستان کی ایک مذہبی و جہادی تنظیم سے ہے۔ تیسرا یہ کہ تمام دہشت گرد حملہ آور پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی کے تربیت یافتہ اور ارسال کردہ تھے۔ بھارت نے پاکستان کے مخالف اس پروپیگنڈے کا ڈھول اس قدر شدت اور تسلسل سے پیٹا کہ اس (جھوٹ) کی بازگشت ساری دنیا میں سنائی دی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان، اس کے سیکیورٹی ادارے اور پاکستان کی سویلین حکومت مسلسل تردید کرتی رہی کہ پاکستان اور اس کا کوئی جلی یا خفی ادارہ اس سانحہ میں ملوث ہے۔ بھارتی قومی تحقیقاتی ادارے (NIA) کے ڈائریکٹر جنرل، شرد کمار، نے بھارت ہی کے ایک ٹی وی چینل (نیوز 18) کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ پاکستان، اس کی کوئی ایجنسی اور پاکستان کی کوئی جہادی تنظیم سانحہ پٹھانکوٹ میں ملوث نہیں ہے۔ شرد کمار گزشتہ پانچ ماہ سے اس مبینہ خونی اور دہشت گردانہ واقعے کی تحقیقات کر رہے تھے۔ بھارتی ایجنسیوں نے اسی سلسلے میں اپنے آٹھ شہری بھی گرفتار کر رکھے تھے۔
ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ''پاکستانی دہشت گرد حملہ آوروں'' سے تعاون کیا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ شرد کمار کے نادم انگیز اعتراف سے دو روز قبل ان آٹھوں زیرِ حراست بھارتی شہریوں کو چپکے سے رہا کر دیا گیا تھا۔ شرد کمار کے اعتراف کے بعد اب ایک مخصوص لابی کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ چلو، اچھا ہوا، پاکستان کی جان چھوٹ گئی، اب کم از کم یہ تو ہو گا کہ رکے ہوئے پاک بھارت مذاکرات کا دروازہ پھر سے کھل جائے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ دروازہ کھلے گا یا بدستور بند ہی رہے گا کہ اس دروازے کی کُنڈی بھارت کی طرف سے بند کی گئی تھی۔
اہم سوال مگر یہ ہے کہ بھارت سرکار اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے منہ پھاڑ کر پاکستان پر دہشت گرد حملوں کا سنگین الزام عائد کر کے دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کی جو دیدہ دانستہ سازش کی اور پاکستان کے منہ پر کالک ملنے کی ناپاک جسارت کی گئی، اس سنگین الزام کی بھاری قیمت کون ادا کرے گا؟ کیا اس کا واضح مطلب یہ نہیں ہے کہ پٹھانکوٹ پر حملے سے قبل بھارت نے ممبئی اور دہلی کی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملوں کا جس ڈھٹائی سے پاکستان کو ذمے دار ٹھہرایا، دراصل یہ سب بے بنیاد بھارتی پروپیگنڈہ تھا؟ اور یہ کھچڑی انڈین اسٹیبلشمنٹ کے ''باورچی خانے'' میں پکائی گئی تھی!! واقعے یہ ہے کہ پٹھانکوٹ پر مبینہ حملے کے حوالے سے بھارتی تحقیقاتی ادارے، این آئی اے، کے سربراہ (شرد کمار) کی طرف سے کیے گئے اعتراف نے دنیا کے سامنے بھارت کو برہنہ کر دیا ہے۔
اب جب کہ آج سے نریندر مودی واشنگٹن یاترا کا آغاز کر رہے ہیں، اسی اعتراف کے حوالے سے یقینا انھیں امریکی میڈیا کے سامنے ندامت کا اظہار بھی کرنا پڑے گا اور ان سوالات کا جواب بھی دینا ہو گا کہ آخر بھارتی ایجنسیوں نے پاکستان کو کیوں ان سنگین الزامات کا ہدف بنایا؟ نریندر مودی بلند آدرشوں کے ساتھ امریکا پہنچ رہے ہیں۔ آنجناب اس دورے سے بھاری مقدار میں نیوکلیئر خام مواد بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تا کہ ابتدائی طور پر بھارت میں چار نئے ایٹمی ری ایکٹر چالُو کیے جا سکیں۔ وہ امریکا کے نیوکلیئر سپلائر گروپس سے معانقہ اور مصافحہ کر کے امریکا کی طرف سے کیے گئے وعدوں میں عمل کا رنگ بھرنے کے بھی متمنی ہیں مگر ان کے دَورے سے قبل کوئی بھی ڈِیل حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی تھی۔
معلوم ہوا ہے کہ شاید جنوری 2017ء میں امریکا کا نیا صدر ہی یہ ایٹمی مواد بھارت کو فراہم کر سکے گا۔ گزشتہ دو سالہ اقتدار کے دوران نریندر مودی کا یہ چوتھا سرکاری امریکی دَورہ ہے۔ اس دوران امریکی صدر، باراک اوباما، نے بھی دو بار بھارت یاترا کی ہے جس پر بھارت اور مودی اپنے آپے میں نہیں سما رہے تھے۔ بھارت کی ''کامیاب سفارتکاری'' کی بازگشت بھی خوب سنائی دی گئی مگر نیوکلیئر سپلائر گروپ کا حصہ بننے کا بھارتی خواب ابھی تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے کو شروع ہوئے پندرہ برس ہو گئے ہیں لیکن یہ بیل ہنوز منڈھے نہیں چڑھ سکی ہے۔ (آغاز اس وقت ہوا تھا جب 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت کا دورہ کیا تھا) ہاں، اس دوران امریکا کے ہاں بھارت کی اچھی شنوائی ضرور ہوئی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 7 جون 2016ء کو نریندر مودی امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔
(وہ پانچویں بھارتی وزیراعظم ہوں گے جو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے) لیکن ساتھ ہی امریکا میں بھارت کے سفیر، ارون کے سنگھ، نے غیر مبہم الفاظ میں یہ بھی کہا ہے کہ جن بڑی توقعات کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی صاحب امریکا آ رہے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ بڑے معاہدوں کی تکمیل کے حوالے سے یہ توقعات بھی پوری ہو سکیں۔ اس دورے میں مودی جی کے لیے جو ''شے'' اصل سر درد بننے والی ہے، وہ یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے دورے سے چار روز قبل لاس اینجلس میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ایک اہم قتل ہو گیا۔ قاتل بھارتی طالب علم شہری ہے اور اس کا نام ہے: مانک سرکار۔ پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے۔
اس نے طیش اور نفرت سے مغلوب ہو کر اپنے سپروائزر پروفیسر، ڈاکٹر کلوگ، کو گولی سے مار ڈالا۔ مودی جی اب اس حالت میں امریکا میں قدم رکھ رہے ہیں کہ بھارتی ہندو طالب علم کے ہاتھوں امریکی پروفیسر کے قتل کی بازگشت پورے امریکا میں سنائی دے رہی ہے۔ امریکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بار بار قاتل ہندو طالب علم مانک سرکار کا نام گونج رہا ہے اور ساتھ ہی بھارت کا نام بھی۔ یقینی طور پر یہ صورتحال امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے لیے ندامت اور پریشانی کا باعث بن رہی ہے اور اس صورتحال کا سامنا، آج سے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی کرنا پڑے گا۔ انھیں، سات اور آٹھ جون کو، امریکا میں دو اہم پریس کانفرنسوں سے خطاب بھی کرنا ہے جہاں یقینا ان سے ہندو قاتل مانک سرکار کے بارے میں استفسار کیا جائے گا۔ واشنگٹن میں اندرونِ خانہ سفارتی معاملات سے آگاہ باخبروں کا کہنا ہے کہ بھارتی سفارتخانہ سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ اپنی امریکی لابی کو بروئے کار لا کر امریکی صحافیوں کو اس بات پر مائل کیا جا سکے کہ نریندر مودی سے مانک سرکار اور پٹھانکوٹ پر مبینہ پاکستانی دہشت گردوں کے حملے کے حوالے سے شرد کمار کے تازہ اعترافات کے بارے میں سوالات نہ پوچھے جائیں۔
امریکی صحافی، بھارتی لابی کی بسیار کوششوں کے باوصف، ابھی اس ڈَھب پر نہیں آ رہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو رسوا کرنے کے لیے جو کاٹھ کی ہنڈیا چڑھائی تھی، اب وہ بیچ چوراہے کے پھوٹی ہے تو پاکستان کے خلاف اس سنگین جھوٹ کا سنگین خمیازہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اکیلے ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پٹھانکوٹ پر حملے کے حوالے سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ جھوٹ بھارتی وزیرِ دفاع، منوہر پاریکار، نے بولا تھا۔ اب وہ بھی مارے شرمندگی کے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اہم خبر یہ بھی ہے کہ مودی جی کے امریکی دورے کے دوران انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں مظاہرے کرنے والی ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔