صدر مملکت کا خطاب قومی امنگوں کا آئینہ دار
پاکستان میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب کرنا، ملک کے جمہوری نظام کا حصہ ہے
پاکستان میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب کرنا، ملک کے جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ صدر مملکت عام طور پر نئے پارلیمانی سال کے آغاز کے موقعے پر خطاب کرتے ہیں۔ صدر مملکت اس موقعے پر عموماً حکومت کی گزشتہ برس کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ خطاب میں اگلے سال کے لیے رہنما اصول تجویزکیے جاتے ہیں تاکہ حکومت ان پر عمل کرکے اپنی کارکردگی کو بہتر بناس کے اور ان اہداف کو پورا کرسکے جو وہ اپنے لیے مقرر کرتی ہے۔ سربراہ مملکت کی جانب سے درپیش مسائل کا اجتماعی جائزہ لے کر ان کا حل بھی تجویز کیا جاتا ہے۔
صدر مملکت منون حسین نے اس روایت کو بحسن وخوبی برقرار رکھا ہے۔ یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت اقتدارکے تین برس پورے کرکے چوتھے برس میں داخل ہوگئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اس سے پہلے 1990 اور 1997 میں وفاق میں حکومت بناچکی ہے لیکن دونوں بار اس کی حکومت کو مقررہ مدت سے پہلے ہی ختم کردیا گیا۔ پہلی مرتبہ اس کی مدت ڈھائی سال اور دوسری مرتبہ پونے تین برس رہی تھی۔ مقام شکر ہے کہ اس بار مسلم لیگ (ن) کی حکومت پہلی بارچوتھے سال میں داخل ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے صدر مملکت ممنون حسین نے بھی اپنے خطاب میں موجودہ پارلیمنٹ کو مبارکباد پیش کی اور حکومت کی 3 سالہ کارکردگی کوسراہا۔
صدر مملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جمہوری نظام اتنا مضبوط ہوچکا ہے کہ وہ کامیابی سے بحرانوں سے نپٹ سکتا ہے۔ حکومت اورحزب اختلاف دونوں جمہوری استحکام پر یقین رکھتے ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں ترتیب دے جن سے ملک مستحکم ہو اورذاتی اختلافات کو قومی اختلافات کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔ جمہوریت کے بغیر پائیدار ترقی ممکن نہیں ۔گزشتہ 3 برس کے دوران ترقی کا سفر جاری رہا۔ 2018 تک بجلی کے بحران پرقابو پالیا جائے گا۔ معاشرے کی ترقی کا اندازہ معاشی استحکام سے لگایا جاسکتا ہے ۔
معاشی اشارے مثبت ہیں لیکن اقتصادی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچنا چاہیے۔ حکومت نے غریب آدمی کی فلاح کے منصوبے شروع کررکھے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف ملک میں ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔عالمی اداروں نے پاکستان کی جمہوریت کو بہترین قراردیا ہے۔ اقتصادی راہداری نے ملک کی قسمت بدل دی ہے۔ حزب اختلاف کو غیرآئین اورغیر قانونی مطالبات سے گریزکرنا چاہیے۔
اپنے خطاب میں صدر مملکت ممنون حسین نے دفاع کی خاطر قربان ہونے والے فوجی جوانوں کو سلام پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے شہید ہونے والا ہر شخص قوم کا محسن ہے۔صدر مملکت نے توانائی، خارجہ پالیسی، اقتصادی راہداری منصوبہ، معاشی ترقی، مسئلہ کشمیر، دہشتگردی، زراعت، تعلیم، نوجوانوں اورخواتین کے مسائل پر اظہارخیال کیا۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے صدر مملکت نے واضح کیا کہ یہ منصوبہ کسی پارٹی، حکومت یا شخصیات کا نہیں بلکہ قومی منصوبہ ہے اور اس کی تکمیل کے لیے ہم سب کو مل کر اس پر کام کرنا چاہیے۔
یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ صدر مملکت کے خطاب کے دوران وزیر اعظم نوازشریف ایوان میں موجود نہیں تھے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی علالت ہے وہ ان دنوں لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس حقیقت سے قطع نظر مجموعی تاثر یہی ہے کہ صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سنجیدہ اور فکر انگیز تھا۔ انھوں نے بیشتر قومی امور پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ بیشتر سیاسی مبصرین نے صدر مملکت کے خطاب کو قومی عزائم اور تمناؤں کا مظہر قراردیا ہے۔ یوں بھی صدر مملکت کا خطاب سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی مفاد اور عوامی جذبات و محسوسات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ خطاب محض رسما تقریر نہیں ہوتی بلکہ یہ قوم کو نشان منظر بھی دکھاتا ہے۔
صدر مملکت کی تقریر کے دوران جمشید دستی اور بعض دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے پانامہ لیکس کے حوالے سے نعرے بھی لگائے۔ میری رائے یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ کے وقار اور تقدس کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ محض الیکٹرانک چینلزکے ٹیگرز میں جگہ پانے یا اخبارات کی سرخیوں میں نمایاں جگہ پانے کے لیے سنجیدگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بلاشبہ اراکین پارلیمنٹ بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے۔ جمہوریت کشیدگی اور محاذ آرائی کا نام نہیں ہے بلکہ جمہوریت مفاہمت، قوت برداشت اور باہمی تعاون کا نام ہے۔
اب جہاں تک ان نکات کا تعلق ہے کہ جو اپوزیشن کے خیال میں صدر مملکت کے خطاب میں شامل نہیں تھے ان میں پانامہ لیکس اور ڈرون حملے کے حوالے سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین کرپشن کے سخت خلاف ہیں اور ماضی قریب میں وہ کرپشن کے خلاف ایک سے زائد بار اپنی رائے کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ بدعنوانی کے مرتکب افراد کی ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
یہی نہیں بلکہ پانامہ لیکس کے حوالے سے بھی وہ اپنے موقف کا واضح اظہار کرچکے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو کرپشن کے خلاف کھلی کتاب کی طرح ہو اس پر اس ضمن میں نکتہ چینی اپوزیشن کو زیب نہیں دیتی۔ اس کے علاوہ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے تو اس پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا ہمیشہ واضح موقف رہا ہے۔ حکومت ڈرون حملوں کو پاکستان کی خودمختاری کے خلاف تصور کرتی ہے۔ صدر مملکت کا موقف بھی اس سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ خوشی ہے کہ صدر مملکت نے ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے فوج کی خدمات کو سراہا اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔
صدر مملکت کا جمہوری نظام کے استحکام پر اظہار اطمینان بھی خوش آئند ہے۔ ملک کا ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ وطن عزیز میں سیاسی طالع آزماؤں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے عوامی اور جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر ملک کو ہمیشہ سیاسی بحران سے دوچارکیا۔ اب اگر مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت چوتھے سال میں داخل ہوئی ہے تو اسے جمہوری نظام کے استحکام سے تعبیر کرنا بلا شبہ درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت کا معاشی ترقی کے سفر کی جانب اشارہ کرنا بھی قابل ذکر امر ہے کیونکہ جب 3 برس قبل مسلم لیگ کو اقتدار ملا تھا تو ملک بد ترین معاشی بحران کا شکار تھا۔ یقینا وزیر اعظم نوازشریف کی مدبرانہ پالیسیوں کی بدولت پاکستان ایک بار پھر معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے ۔ صدر مملکت کا خطاب مدلل متوازن اور قومی امنگوں کے عین مطابق تھا۔