نوجوان خون

نئی ووٹر لسٹوں میں قابل ذکر حصہ نوجوانوں کا ووٹ ہے، جو پارٹی یہ ووٹ لے جائے گی ، وہی قسمت کی دھنی ثابت ہوگی ۔

ghalib1947@gmail.com

QUETTA:
میں تحریک انصاف کے نوجواں جذبوں سے متاثر ہو کر یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں، مگر منہاج القرآن انٹر نیشنل کے جذبوں کو بھی میں سلام پیش کرتا ہوں۔

ایک نوجوان وہ بھی ہیں جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہیں اور پنجاب حکومت ان کے دل جیتنے کے لیے انھیں لیپ ٹاپ پیش کرتی ہے یا ملک ملک کی سیر پر روانہ کر تی ہے یا ان کو گارڈ آف آنر پیش کرتی ہے، ایک نوجوان وہ بھی ہیں جن کا پنجاب یونیورسٹی پر غلبہ ہے، برصغیر کی اس قدیم ترین یونیورسٹی میں ان نوجوانوں کا سکہ چلتا ہے۔این ایس ایف اور پی ایس ایف بھی ایک زمانے میں بڑے پریشر گروپ تھے۔تحریک پاکستان کے فیصلہ کن دور میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان نے بر صغیر کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔

میں ریسرچ پیپر لکھنے نہیں بیٹھا، صرف تبصرہ کرنا میرا کام ہے۔ کہتے ہیں اس وقت نئی ووٹر لسٹوں میں قابل ذکر حصہ نوجوانوں کا ووٹ ہے، جو پارٹی یہ ووٹ لے جائے گی ، وہی قسمت کی دھنی ثابت ہوگی،تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ یہ نوجوان اس کے ساتھ ہیں ، اس کا ہراول دستہ ہیںاور مستقبل کے معمار ہیں ، خود عمران خان ساٹھ برس کے ہوگئے ہیں مگر کرکٹ کی جولانی ان کے اندر آج بھی موجود ہے اور شاید انھوں نے خود بھی اس حقیقت کو قبول نہیں کیا ہو گا کہ وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں۔

میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سیاست میں آئے تھے تو نوجوان ہی تھے، ان کی رگوں میں گرم لہو دوڑتا ہے جو ان کے لہجے سے کبھی کبھی ابل پڑتا ہے۔اس گھرانے کی نئی نسل مریم نواز اور حمزہ شہباز کی شکل میں سر گرم عمل ہے۔چوہدری خاندان کی سیاسی میراث کو آگے بڑھانے کے لیے مونس الہی میدان عمل میں ہیں۔آصف علی زرداری نے تو بلاول بھٹو زرداری کو پی پی پی کے چیئر مین کا منصب جلیلہ پیش کر دیا ہے، ایک لحاظ سے یہ اچھی بات ہے کہ اپنی زندگی میں اور اپنی نگرانی میں اولاد کی تربیت کر دی جائے۔یوسف رضا گیلانی کے دو بیٹے پارلیمنٹ میں گھن گرج کے ساتھ موجود ہیں۔

جماعت اسلامی کے لیڈرچاہیں بھی تو اپنی اولاد کو آگے نہیں لا سکتے، ان کے ہاں ایک نظم اور نظام ہے اور پدرم سلطان بود کا اصول لاگو نہیں ہوسکتا۔مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد کی آل اولاد کس حال میں ہے، کوئی نہیں جانتا۔عمران خان کو ابھی یہ ٹیسٹ پیش نہیں آیا، ان کے فرزند سلمان خان ابھی کم سن ہیں تاہم عمران خاں کا سارا انحصار نوجوانوں پر ہے، پندرہ سال تک وہ بابوں اور بابوؤںکے ساتھ بیٹھے رہے، ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا، اب نوجوان خون ان کی جماعت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور تحریک انصاف کا لب و لہجہ دیکھنے والا ہے، کوئی سال بیت گیا ، لاہور میں اس جماعت نے نئی انگڑائی لی اور سیاست میں تھرتھلی مچا دی۔


یہ تحریک انصاف کا نیا چہرہ تھا۔سونامی محض نعرہ ہی نہ تھا ، ایک حقیقت اور عملی طور پر رونما ہوتے نظر بھی آرہا تھا۔بالکل نئے چہرے سامنے آئے، انداز نیا، سج دھج نئی، شان نئی، آن بان نئی۔اب اس جماعت میں نئے پرانے کا جھگڑا ضرور ہے، ہر جماعت میں یہ تنازعہ اٹھتا ہے، بیگم نصرت بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تو انکلز ناراض ہو گئے اور ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد کھڑی کرنے میں مصروف نظر آئے، غلام مصطفی جتوئی کو انھی دنوں میں نے ایک اخباری فورم میں بلایا تو انھوں نے اپنی سفید لٹیں انگلیوں میں تھامتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کروائے مگر بے نظیر نہیں سمجھتیں۔

بے نظیر جو سمجھتی تھیں تاریخ نے اس پر مہر ثبت کی۔اس سے قبل بھٹو نے اپنی پارٹی کھڑی کی تو ستر کے الیکشن میں کھمبے کھڑے کیے، ان کو کوئی محلے میں بھی نہیں جانتا تھا ، مگر لوگوں نے ان کی صندوقچیاں ووٹوں سے بھر دیں۔ چند ہی برس بعد یہ کھمبے زنگ آلود ہو گئے ، بھٹو کو نئے حقائق کے پیش نظر جیتنے والے گھوڑوں کی ضرورت محسوس ہوئی، پرانے لوگوں نے برا بھی منایا، مگر زمینی حقائق کو کون جھٹلا سکتا تھا۔آج اگر پندرہ برس بعد عمران خان کو احساس ہو گیا کہ پرانے ساتھی ان کو الیکشن نہیں جتوا سکتے تو اس نے کونسا گناہ کیا ہے۔

ن لیگ برسوں تک کہتی رہی کہ مشرف کے ساتھی قبول نہیں کریں گے مگر سب سے پہلے مشرف کے وزیر داخلہ کو قبول کرتے بنی، اب تو ہجرت کرنے والے پرندوں کی ڈار، ن لیگ کے آنگن میں اتر آئی ہے،وہ تو یوسف رضا گیلانی تک کو گود لینے کو تیار تھی۔سندھ کے قوم پرست جوق در جوق ن لیگ میں داخل ہو رہے ہیں ، یہ تماشہ بھی تاریخ نے دیکھنا تھا۔بھٹو کا ٹیلنٹنڈ کزن ممتاز بھٹواب ن لیگی رہنما ہے، سیاسی حاجت در پیش ہو تو کوئی حقیقت اٹل اور ابدی نہیں ہوتی، یہ سب سراب ہے، کہنے کی باتیں ہیں، عمران نے نئے لوگوں سے معانقہ کیا تو ٹھیک کیا، یہ اس کے ساتھ نہیں تھے تو عمران کارنر ہو چکا تھا، اس کو لوگ صرف کھالیں اکٹھی کرنے والے کی حیثیت سے جانتے تھے،اب اس کی پہچان ایک لیڈر کے طور پر ہے، اس کے ساتھ قد آور لوگ ہیں ، ایک تجربہ کار ٹیم اس نے فیلڈ میں اتاری ہے۔

ہر شعبے کے ماہرین اس کے ساتھ ہیں اور ہر مسئلے کا حل تجویز کر رہے ہیں۔شاہ محمود قریشی، سردار آصف احمد علی، خورشید قصوری، تین بڑے نام تو امور خارجہ کے حوالے سے ہیں ، جہانگیر ترین معاشی اور معاشرتی اصلاح کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہے۔ پی ٹی آئی کا نوجوان ووٹ عمران خان کے خلوص کی ڈوری سے بندھا ہوا ہے، اس نے ماضی کے تمام سیاستدانوں کی کارکردگی دیکھ لی، اب وہ عمران خاں کو بھی موقع دینے کے حق میں ہیں ، اس کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔

انھیں عمران سے کوئی لالچ نہیں ، وہ کوئی لیپ ٹاپ نہیں مانگتے، بیرونی ملکوں کے دورے نہیں مانگتے۔آسمان چھونے کی تمنا نہیں رکھتے، زمین پر مضبوطی سے قدم جمائے رکھنا چاہتے ہیں، آسمان ان کی پہنچ سے دور ہیں اور وہ خوابوں کا پیچھا نہیں کرتے۔میں نے شروع میں منہاج القرآن انٹر نیشنل کی نئی ٹیم کا ذکر کیا تھا،زاہد فیاض شیخ،ڈاکٹر رحیق عباسی،میاں زاہد اسلام نئے چہرے ہیں، وہ نظام سیاست اور نظام انتخاب میں اصلاحات کی بات کرتے ہیں ، ان کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری 23 دسمبر کو پاکستان واپس آرہے ہیں، ان کے استقبال کے لیے دس لاکھ نوجوانوں کو مینار پاکستان کے سائے میں اکٹھا کرنے کے لیے انھوں نے دن رات ایک کیا ہوا ہے، ایک ایک دانشور کے پاس جا رہے ہیں اور اپنے ایجنڈے پر مشورہ کر رہے ہیں ۔

وہ تحرک کے قائل ہیں ، کچھ کرنے کے لیے بے چین اور مضطرب ہیں مگر صحیح راستے سے، منطقی طریقے سے۔اگلے الیکشن میں یقینی طور پر نئے اور پرانے نظریات ہی کی نہیں ، نئی اور پرانی قیادت کی بھی ٹکر ہو گی۔اس ٹکرائو سے بجلیاں چمکیں گی اور وطن کے افق پر روشنی لہرائے گی۔ اور کچھ ہو یا نہ ہو،باری باری کے کھیل کا یقینی طور پر خاتمہ ہو گا۔اور یہی اصل سونامی ہو گا۔
Load Next Story