پتے نہ چھانٹیے جڑکا علاج کیجیے
موبائل فون بند ہونے سے کتنا سکون تھا۔ نہ کوئی رانگ نمبر آیا، نہ کوئی فون بے وقت بجا۔
فی زمانہ چوں کہ کمپیوٹر پر انحصار بڑھ گیا ہے لہٰذا، ہرکام میں کمپیوٹر سے مدد لی جاتی ہے۔
ایک ملک میں جہاں زلزلے بہت آیا کرتے ہیں، کسی حکومتی لال بجھکڑ نے کمپیوٹر سے پوچھا کہ جب کبھی زلزلہ آتا ہے تو پہلی اور آخری منزلوں (گرائونڈ اور ٹاپ فلور) کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اس کا حل کیا ہو؟ کمپیوٹر سے فوراً جواب آیا؛ ''پہلی اور آخری منزل نہ تعمیر کی جائیں۔''
لگتا ہے ایسا ہی کوئی کمپیوٹر ہماری حکومت خصوصاً رحمان ملک بابا کے ہاتھ بھی لگ گیا ہے۔ وہ بھی ہر مسئلے کا حل کمپیوٹر سے پوچھتے ہیں اور پھر جو جواب ملتا ہے اس پر عمل درآمد کرنے کا حکم صادر کردیتے ہیں۔ مثلاً:
س: دہشت گرد موٹرسائیکلوں پہ دو دو، تین تین کی تعداد میں آتے ہیں اور وارداتیں کرکے چلے جاتے ہیں؟
ج: موٹرسائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی لگادیں۔ (سو اب وقتاً فوقتاً یہ پابندی لگادی جاتی ہے اور بسااوقات تو اس کا دورانیہ کئی کئی ماہ تک جاری رہتا ہے۔)
س: دہشت گردوں میں موبائل فون کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے اور وہ سارا نیٹ ورک موبائل فون پر چلاتے ہیں؟
ج: موبائل فون بند کردیے جائیں۔ (چناںچہ عید اور بقرعید جیسے اہم تہواروں پر یہ تجربہ بھی ہوگیا۔) اور اب ایک مرتبہ پھر یکم محرم الحرام کو یہی تجربہ دہرایا گیا۔)
س: ڈبل سواری پر پابندی کے باوجود دہشت گرد قابو میں نہیں آرہے کیوںکہ اب یہ موٹرسائیکل ہی کو بم کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ ایک دہشت گرد آتا ہے اور موٹرسائیکل پر بم یا بارودی مواد نصب کرکے کھڑی کر جاتا ہے پھر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اسے اُڑا دیا جاتا ہے؟
ج: موٹرسائیکل چلانے پر پابندی لگادی جائے۔ (سو تازہ ترین حکم نامہ رحمان بابا نے یہی جاری کردیا کہ یکم محرم الحرام کو دو شہروں میں موٹرسائیکل چلانے پر پابندی ہوگی نیز موبائل فون بھی دن بھر بند رہیںگے۔
کوئٹہ کے لوگ تو قانون کے پابند نکلے کہ چُپ کرکے حکم مان لیا اور اپنی موٹرسائیکلیں دھومانجھ کر گھر میں رکھ دیں۔ اِکادُکا لوگوں نے سرکشی کی تو تھانے پہنچا دیے گئے۔ جب کہ کراچی کے لوگوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات ہی کو سندھ کی عدالت عالیہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ چیف جسٹس صاحب بھی بیدار ہی نہیں بیدارمغز بھی تھے کہ فوراً اس حکم نامے کو معطل کرنے کا حکم جاری کردیا۔ سو۔۔۔۔ عملاً صرف کوئٹہ ہی وہ مظلوم شہر ٹھہرا جہاں یکم محرم کو موٹرسائیکل چلانے پر پابندی رہی۔
سچ پوچھا جائے تو ذاتی طور پر ہم ان پابندیوں کے حق میں ہیں۔ موبائل فون بند ہونے سے کتنا سکون تھا۔ نہ کوئی رانگ نمبر آیا، نہ کوئی فون بے وقت بجا۔ طول طویل SMS سے بھی جان چھوٹی رہی۔ ٹھیک ہے جو لوگ گھر سے باہر تھے ان سے رابطہ نہ ہوسکا تو کیا ہوا؟ آخر موبائل فون کی ایجاد سے پہلے بھی تو زندگی چل ہی رہی تھی؟
اسی طرح ہم موٹرسائیکل چلانے پر پابندی کا اعلان سن کر بھی بہت خوش ہوئے کہ ایک دن کے لیے سہی، سڑکیں تو لہراتی بل کھاتی موٹرسائیکلوں سے صاف رہیں گی لیکن افسوس۔۔۔۔ ذرا سوچیے، اگر سندھ بار کے صدر صاحب جلدبازی سے کام نہ لیتے اور فوری اس حکم کے خلاف درخواست دائر نہ کردیتے یا اگر انہوں نے ایسا کرہی دیا تھا تو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب ہی طرح دے جاتے اور کہتے کہ ''میاں! رات ہوگئی ہے، صبح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا اور پھر عدالت میں یہ کارروائی ''کل تک'' کے لیے ملتوی کردیتے اور اس حکم پر عمل درآمد ہوجاتا تو کیا ہوتا؟ ہم تو بس چشم تصور سے ہی دیکھ سکتے ہیں کہ سڑکوں پر کتنا سکون ہے۔ کسی بس اسٹاپ پر ویگن یا بس سے کوئی سواری اتری اور اطمینان سے سڑک کے کنارے ہوگئی یا اگر سڑک پار کرنی ہے تو بھی ٹریفک کو ذرا دور پایا اور خراماں خراماں پار کرلی۔
آپ کسی موٹرسائیکل والے کا خطرہ محسوس کیے بغیر۔۔۔۔ آرام سے فٹ پاتھ پہ چلے جارہے ہیں ورنہ ابھی تو یہ ہوتا ہے کہ بس یا ویگن والا اپنی گاڑی کی رفتار انتہائی کم (کم ازکم پندرہ میل فی گھنٹہ کرکے مرد تو کجا بوڑھی خواتین سے بھی کہتا ہے، خالہ! جلدی کرو، شابا۔۔۔۔ امّاں! جلدی اترو۔۔۔۔۔'' اور جیسے ہی اس کی ''خالہ یا امّاں '' پائوں نیچے دَھرتی ہے پیچھے سے دو تین موٹرسائیکل سوار اسے کچلنے کے لیے چلے آتے ہیں۔ وہ تو بس اس کی قسمت میں اس وقت سڑک پر مرنا نہیں لکھا ہوتا سو بچ جاتی ہے اور اس موقع پر تو وہ گنگنا بھی سکتی تھی:
رہا کھٹکا نہ ''موٹرسائیکل'' کا، دعا ''دیتی ہوں رحمان بابا کو''
اب شعر کا وزن، ردیف، قافیہ، بحر جائے بھاڑ میں۔۔۔۔ جان تو بچی۔
لگتا ہے یہ موٹرسائیکل سوار ہر طرح کے قانون سے آزاد ہوتے ہیں۔ انتہائی تنگ راستوں پر بقول شخصے ''سوئی کے ناکے سے بھی موٹرسائیکل گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔'' جہاں کہیں سگنل بند ہوا، یہ موٹرسائیکل والے لہراتے، بل کھاتے سب سے آگے آکے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آپ غور کیجیے، جب بھی کوئی سگنل کھُلتا ہے پہلے اٹھارہ بیس موٹرسائیکلیں ہَراوَل دستے کی طرح چلتی ہیں تب کہیں جاکر دوسری گاڑیوں کی باری آتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، ٹریفک جام ہونے کی صورت میں یہ سڑک سے اترکر حتیٰ کہ فٹ پاتھوں پر بھی چلنا شروع کردیتے ہیں۔ یوں پیدل چلنے والوں کو بھی راستہ نہیں ملتا اور وہ اپنی جان اور ہڈیاں بچانے کی خاطر سہم کر دیوار سے لگ جاتے ہیں۔
اب نو اور دس محرم کو پھر موٹرسائیکلوں پر پابندی لگانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہشت گردی صرف موٹرسائیکلوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے؟ یہ جو کاروں اور چھوٹے ٹرکوں میں دھماکا خیز مواد بھرکر مختلف عمارتوں سے ٹکرا کر اُڑایا گیا تو کیا ان پر پابندی نہیں لگنی چاہیے؟ اور یہ خودکُش بمبار۔۔۔۔؟؟
حکومت ہمارا مشورہ مانے تو ہر چیز پر پابندی لگا دے پھر دیکھے ملک میں کیسا امن وامان ہوتا ہے۔ مثلاً تمام کاروبار اور دفاتر بند کردیے جائیں، لوگوں کے کام کرنے اور گھروں سے نکلنے پر پابندی لگادی جائے۔ ہر قسم کی سواری بند کردی جائے۔ سب لوگ آرام سے اپنے اپنے گھروں میں رہیں اور حکومت کی طرف سے روزانہ صبح سویرے ہر گھر میں ''مَن وسَلویٰ'' بھیج دیا جائے۔ یعنی ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک کے پیکٹ بھیج دیے جائیں۔ جب لوگوں کو گھر بیٹھے کھانے کو ملے گا تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ باہر نکل کر سڑکوں پر خوار ہوں یا موٹرسائیکلیں چلائیں۔ گھر میں ملے کھانے کو، تو جوتی جائے کمانے کو۔
سوچیں۔۔۔۔ اس طرح کتنی بچت ہوگی؟ سڑکیں چوڑی کرنی ہوں گی نہ پل بنانے ہوں گے۔ انڈرپاس اور بائی پاس سب ختم کردیے جائیں۔ ہر جگہ پودے اور درخت لگادیں۔ لوگ ٹھنڈی، صاف اور صحت بخش ہوا میں سانس لیںگے۔ شور، دھواں، دھول مٹی، غرض ہر طرح کی آلودگی سے نجات مل جائے گی۔ نہ سی این جی کی قلت، نہ بجلی اور گیس کی کمی۔
فون خصوصاً موبائل فون کا تو نظام ہی ختم کردینا چاہیے۔ ظاہر ہے جب کوئی کاروبار ہی نہیں رہے گا نہ کوئی کسی دفتر یا دکان میں کام کے لیے جائے گا، گھر کے تمام افراد گھر ہی میں رہیں گے تو پھر کون کس کے لیے پریشان ہوگا؟ اور کس کو موبائل فون کی ضرورت پیش آئے گی؟ ویسے بھی جب کوئی گھر سے ہی نہیں نکلے گا تو دہشت گرد بھلا کس کو مارنے کے لیے کارروائی کریں گے؟
اسی طرح میڈیا پر بھی مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ بقول حکومت، یہ بھی کچھ کم دہشت نہیں پھیلاتے۔ رائی کا پہاڑ بنانا کوئی ان سے سیکھے۔ یوں بھی جب تمام افراد اپنے اپنے گھروں میں سکون سے رہ رہے ہوں گے تو اخبارات یا ریڈیو، ٹیلی ویژن کی کیا ضرورت ہے؟ دنیا میں کچھ بھی ہورہا ہو، ہمیں کیا۔ گھر کے افراد آپس ہی میں گپ شپ کریں گے اور اینکروں کی طرح لڑیں لڑائیں گے تو انہیں میڈیا کی کیا ضرورت؟ حکومت ان تمام چیزوں پر پابندی لگاکر بس حکومت کیے جائے، کیے جائے اور۔۔۔۔ کیے جائے۔
ہماری حکومت کا حال بھی اس مالی جیسا ہے جو ہر روز صبح کو اپنے باغ کی دیکھ بھال کے لیے جاتا ہے اور جس پودے یا درخت کے پتوں میں کیڑے لگے نظر آئیں ان تمام پتوں کو کاٹ چھانٹ کر مطمئن ہوجاتا ہے کہ اب کسی پودے یا درخت کو کیڑا نہیں لگا رہ گیا۔ لیکن اگلی صبح پھر اس کے پودوں اور درختوں کے بے شمار پتے کیڑوں نے کھالیے ہوتے ہیں۔ وہ انہیں پھر چھانٹتا اور سوچتا جاتا ہے کہ کل تو اس نے کیڑے لگے تمام پتے چھانٹ دیے تھے، آج پھر اتنے سارے پتوں کو کیڑے کیسے کھا گئے؟ اس بے وقوف کی عقل میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ کیڑوں سے نجات کے لیے صرف پتوں کو چھانٹنا نہیں بلکہ جڑوں کا علاج کرنا بھی ضروری ہے۔
جب تک جڑوں میں کیڑے مار ادویہ کا اسپرے نہیں ہوگا کیڑوں کا خاتمہ نہیں ہوگا اور جب تک جڑ کے کیڑے ختم نہیں ہوں گے پتوں میں یونہی کیڑے لگتے رہیں گے یہاں تک کہ ایک روز سارے پتے جھڑ جائیں گے اور ٹنڈمنڈ درخت رہ جائیں گے۔ اﷲ نہ کرے، ہمارے ملک کا حشر اس باغ کا سا ہو لیکن اگر مالی اتنا ہی نادان ہو تو۔۔۔۔۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیں اور پتوں کی چَھٹائی کی بجائے جڑوں کو صحت مند اور مضبوط بنانے کی تدبیر کریں۔