امریکا کی تلاش میں

الوداع اے امریکا، اللہ تیری روشنیوں کو قائم رکھے اور تجھے دوسروں کی روشنیاں گل کرنے کی کوششوں سے باز رہنے کی توفیق دے۔

صبیح محسن امریکا کی تلاش میں نکلے تو نیو یارک پہنچے جہاں ان کے چھوٹے بھائی جمال اور اُن کے بیوی بچے تھے۔

تین مہینے کے قریب امریکا میں اپنے قیام کے دوران انھوں نے امریکا کے کئی شہروں میں اپنے دوستوں اور عزیزوں سے ملاقاتیں کیں اور قابلِ دید مقامات کی سیر کی۔ اس سفر میں اُن کی بیگم محترمہ نزہت اُن کے ساتھ تھیں۔
شکاگو میں صبیح محسن کی ملاقات ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ہوئی، یہ ایک پاکستانی نوجوان تھا۔ صبیح محسن نے اسے بتایا کہ اُن کا تعلق صحافت سے بھی ہے اور وہ پاکستان واپس جا کر وہاں کے ایک بڑے اخبار میں امریکا کے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں کے بارے میں مضمون لکھنا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں انھیں معلومات چاہئیں۔ اس نے بڑی خوشی سے انھیں اپنے کام کے بارے میں ساری تفصیلات بتائیں۔ آخر میں صبیح محسن نے اپنا کیمرہ نکالا اور نوجوان ٹیکسی والے سے کہا اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر تصویر بنوا لے۔ اب وہ ہچکچایا، پھر بولا: ''بات یہ ہے جی! کہ میری حال ہی میں شادی ہوئی ہے، بیوی ابھی تک پاکستان میں ہی ہے، میں تو کوئی بات نہیں چھپاتا اس لیے میں نے اپنے سسرال والوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں ٹیکسی چلاتا ہوں، لیکن۔۔۔۔۔!''

وہ تھوڑا سا رُکا اور پھر بولا: ''لیکن جی! پتہ نہیں، ان لوگوں نے اپنے رشتہ داروں میں کیا بتایا ہو۔ ایسے میں اگر میری اس طرح کی تصویر پاکستان کے اخبار میں چھپی تو ہو سکتا ہے ان لوگوں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے۔''

بات ٹھیک تھی۔ صبیح محسن کب چاہتے تھے کہ اُن کی وجہ سے اس نوجوان کو یا اُس کی سسرال والوں کو کسی طرح کی شرمندگی اُٹھانا پڑے۔ وہ اس سے دوسری باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں سڑک کے اس پار ایک ٹیکسی آ کر رُکی۔ اس کا ڈرائیور بھی پاکستانی تھا۔ اس نے اشارے سے نوجوان کو سلام کیا۔ تب صبیح محسن کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس سے تصویر کے لیے کہا جائے۔ جب انھوں نے نوجوان سے اس خیال کا اظہار کیا تو اس نے کہا ''میں ابھی پوچھ کر بتاتا ہوں۔''

نوجوان سڑک پار کرکے دوسرے ٹیکسی ڈرائیور کے پاس گیا، وہ دونوں کچھ دیر آپس میں باتیں کرتے رہے، پھر وہ منہ لٹکائے واپس آ گیا۔

صبیح محسن نے پوچھا: ''کیا ہوا؟''

نوجوان بولا: ''وہ کہتا ہے کہ تم خود کیوں نہیں تصویر بنوا لیتے؟''

صبیح محسن لکھتے ہیں: ''تصویر تو خیر نہیں بن سکی، لیکن نوجوان نے جو کچھ بتایا اس سے ہمیں بہت کچھ اندازہ ہو گیا''


نوجوان پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے صبیح محسن کو بتایا کہ اسے امریکا آئے ہوئے چھ سال ہو چکے ہیں۔ تین سال ہوئے اس کے بڑے بھائی بھی بیوی بچوں سمیت یہاں آ گئے۔ یہ سب ٹورسٹ ویزا پر آئے تھے اور اس کے بعد غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ دونوں بھائیوں نے کراچی پولی ٹیکنیک سے مکینیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ہے، لیکن یہاں باہر سے آنے والوں کو اپنی لائن کی نوکریاں کہاں ملتی ہیں اور وہ بھی اس صورت میں جب کہ اُن کا قیام بھی غیر قانونی ہو۔

صبیح محسن لکھتے ہیں: ''حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں کسی پاکستانی کا پیشہ ورانہ کریئر بنانا بڑا مشکل ہے۔ ڈاکٹروں کے علاوہ ہم نے بہت کم لوگوں کو دیکھا کہ انھوں نے جس پیشے کی تعلیم حاصل کی ہے اسی سے متعلق ملازمت کر رہے ہوں۔ ڈاکٹروں کے لیے بھی یہاں ایک مقامی امتحان پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم نے کئی ایسے پاکستانی ڈاکٹروں کو دیکھا جو اس امتحان میں کئی کوششوں کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے اور اب کسی اسپتال میں یا کہیں اور کسی اور نوعیت کا کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہم وطنوں کا یہاں یہی بڑا مسئلہ تھا۔ ہم کہیں بھی جاتے، گفتگو گھوم پھر کر بالآخر اسی موضوع پر آ جاتی، یعنی امریکا میں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع۔ اس حقیقت کا بار بار ادراک ہوتا کہ پاکستانیوں کے لیے یہاں کوئی پیشہ ورانہ کریئر بنانا مشکل کام ہے۔''

صبیح محسن براڈ کاسٹر ہیں، صحافی ہیں، ادیب ہیں۔ ان کی ایک اور پہچان ہے۔ وہ مزاح نگار بھی ہیں۔ ان کے سفرنامہ ''امریکا کی تلاش میں'' سے ان کی اس صفت کا خوب اظہار ہوتا ہے۔ ان کے مشاہدات اور تجزیے قابل غور ہیں اور دلچسپ بھی۔ قابل غور اُن نوجوانوں کے لیے جو امریکا جانا چاہتے ہیں اور دلچسپ ہم جیسے قاریوں کے لیے۔

صبیح محسن نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر دیکھنے گئے۔ یہاں سیاحوں کو صرف جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی عمارت کی سیر کرائی جاتی ہے۔ جنرل اسمبلی کے ہال کو دیکھ کر لکھتے ہیں: ''یہ وہ جگہ تھی جہاں پچھلی نصف صدی کے دوران دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے صف اول کے سیاسی اداکار اپنے فن کے جوہر دکھاتے رہے ہیں۔ یہاں بڑی خوبصورت باتیں ہوتی رہی ہیں، امن کی سلامتی کی، لیکن مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔'' انھیں اقوام متحدہ کا ہیڈکوارٹر ''بیش قیمت فرنیچر، دلکش پینٹنگز اور ہنر مندی سے تیار کیے گئے غالیچوں سے مزیّن دنیا کا سب سے مہنگا ڈیکوریشن پیس'' نظر آیا۔

جمال انھیں مین ہٹن میں واقع ہارلم لے گئے۔ یہاں کالے رہتے ہیں، غریبوں کی بستی ہے، پورٹوریک بھی ہیں۔ صبیح محسن نے گاڑی سے اُتر کر تصویریں بنانا چاہیں تو جمال نے انھیں روک دیا۔ ''آپ کا کیمرہ چھن جائے گا، گاڑی کے اندر سے ہی تصویر بنا لیجیے۔'' دراصل جہاں غربت ہو وہاں جرائم بھی فروغ پاتے ہیں۔ ہارلم کے ساتھ ہی مشہور کولمبیا یونیورسٹی ہے۔ ایک سڑک پار کر کے دوسری طرف چلے جائیں تو ماحول یکسر بدل جاتا ہے۔

صبیح محسن واشنگٹن گئے، کیپٹل ہل کی جہاں امریکا کے قانون ساز تشریف فرما ہوتے ہیں، زیارت کی۔ ہوا بازی اور خلاء بازی کا میوزیم دیکھا، وہائٹ ہاؤس کی سیر کی جہاں ان دنوں کلنٹن صاحب براجمان تھے۔ سب سے دلچسپ وزٹ تو وائس آف امریکا کی نشر گاہ کا تھی جہاں ان کے بہت سے جاننے والے تھے۔ اختر عباس تھے، صلاح الدین تھے، صفیہ کاظم تھیں، شہناز تھیں۔ یہ سب VOA کی اُردو سروس کے کارکن تھے، صبیح کے ریڈیو پاکستان کے ساتھی۔

بوسٹن گئے جو نیویارک اور واشنگٹن سے مختلف تھا۔ اس شہر کو حصول علم، ثقافتی سرگرمیوں اور نفاست کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے دو تعلیمی ادارے ایم آئی ٹی اور ہارورڈ اپنے اعلیٰ معیارِ تعلیم کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ صبیح محسن جب یہاں لنچ کے لیے ایک ریستوران میں گئے تو ہر شخص کھانے کے ساتھ کوئی کتاب پڑھتا ہوا نظر آیا۔ ایک امریکی نے ان سے سوال کیا کہ افغانستان میں امن کیوں قائم نہیں ہو رہا؟ انھوں نے جواب دیا: ''اس لیے کہ آپ کا ملک وہاں امن نہیں چاہتا۔'' صبیح کو یہ پہلا امریکی ملا تھا جس نے کوئی سنجیدہ سوال کیا۔

اپنے قیام کے دوران صبیح محسن نے ادبی تقریبات میں بھی شرکت کی۔ وہ ادارۂ فن و ادب کے مشاعرے میں گئے۔ یہ نیو یارک کے ایک ہوٹل میں تھا، چالیس ڈالر ٹکٹ تھا، اس میں کھانا شامل تھا، ایک تقریب خود ان کے اعزاز میں تھی۔ اس کا اہتمام امریکا میں اُردو کے سبب سے زیادہ شایع ہونے والے اخبار ''اُردو ٹائمز'' نے کیا تھا۔ صبیح محسن حلقۂ ارباب ذوق کی ادبی نشست میں بھی شریک ہوئے۔

صبیح کے کچھ عزیز ہیوسٹن اور فلوریڈا میں بھی تھے۔ یہ وہاں بھی گئے، مصنوعی سیاروں کا مرکز NASA بھی دیکھا، ڈزنی ورلڈ کی بھی سیر کی، اچھا وقت گزر گیا۔ اب واپسی تھی لندن کے راستے۔ یہ جس جہاز سے جا رہے تھے وہ لندن سے دہلی ہوتے ہوئے ہانگ کانگ جا رہا تھا اس لیے ہندوستانی بڑی تعداد میں نظر آئے۔ جہاز نے نیویارک کے ہوائی اڈے سے ٹیک آف کیا۔ صبیح محسن نے کھڑکی کے باہر دیکھا، روشنیاں ہی روشنیاں نظر آئیں۔
انھوں نے دل ہی دل میں کہا ''الوداع اے امریکا، اللہ تیری ان روشنیوں کو قائم رکھے اور تجھے دوسروں کی روشنیاں گل کرنے کی کوششوں سے باز رہنے کی توفیق دے۔'' کاش وہ یہ بات اتنی زور سے کہتے کہ سارا امریکا سن لیتا۔
Load Next Story