تاثیر کا کیف…
زمانے کی گردش بھنور کی چال چلتے چلتے ایک نکتے پر کسی لمحے پر آ کر جم سی گئی ہے۔
تاثیر بڑی پراسرار شے ہے، ہم اس کا منبع، مرکز اور ماخذ نہیں جان سکتے، ہم کوئی توجیہہ نہیں تراش سکتے کہ کوئی شے، کوئی ذائقہ، کوئی ساز، کوئی کوچہ، کوئی نظر، کوئی چہرہ، کوئی فن، کوئی لمس، کوئی آواز، کوئی دریچہ، کوئی خیال، کوئی ہنسی، کوئی تخلیق، کوئی انداز ، کوئی گوشہ، کوئی شعر اور ہماری کوئی بھی ضد، ہٹ دھرم سی پسند آخر ہمارے دل میں اپنی کشش کیسے گوندھ دیتی ہے؟
زمانہ خواہ ترقی کی کتنی ہی منازل طے کر لے اور مادی و سائنسی عروج کی کتنی ہی سیڑھیاں پھلانگ لے لیکن کہیں پر ایسا لگتا ہے کہ زمانے کی گردش بھنور کی چال چلتے چلتے ایک نکتے پر کسی لمحے پر آ کر جم سی گئی ہے، ٹرین کی سیٹی، پلیٹ فارم پر بچھی بنچ، گھوڑے کی ٹاپ، لہروں کی للکار، بانسری کی دُھن، صدائے جرس، اندھیری سنسان رات میں بارش کا شور، سناٹے کو چیرتی جھینگر کی آواز، تیز ہوا اور پتّوں کی سر سراہٹ یا گہری نیند میں نومولود کی اچانک بھری جانے والی سسکی، یہ سب گویا وہ تازیانے ہیں جو انسان کی جستجو پسندی اور اخفاء کی عقدہ کشائی کے شوق پر برستے ہیں۔ عقل انسانی خود کو بڑی بے خودی میں عالم تاثیر کی رومانویت میں محو و مبتلا قرار پاتی ہے۔
تاثیر کا کیف بڑا جدا ہوتا ہے یہ آپ کو باہر سے کھینچ کر اپنے اندر کی طرف لے جاتا ہے، یہ مراقباتی کیفیت اتصال کا وہ لمحہ ہوتی ہے کہ جس میں شعور و لاشعور بہم مدغم ہو رہے ہوتے ہیں۔
تاثیر کا امرت جنھیں عطا ہوتا ہے وہ ''وہ امر ہو جاتے ہیں کہ جو زمانے اور وقت کی گرفت سے آزاد رہتے ہیں جن کو ان کا وجدان کبھی زمینی حقائق کی سطح پر قدم نہیں دھرنے دیتا اور وقت کی جنبشیں جن کی چال کو غیر متوازن کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ دنیا کی بھیڑ چال میں توانائی اور امنگوں سے بھرپور کتنے ہی جی میدان مارنے اور اپنا نام و رنگ جمانے کی خاطر نکلتے ہیں، کئی چھا بھی جاتے ہیں اور شہرت کے اُفق پر ان کی تابناکی ان کے ہم عصروں کو ماند کیے رکھتی ہے، لیکن پھر کیا وقت کا ابر انھیں ڈھانپ کر گمنامی اور فراموشی کی اَور لے اُڑتا ہے، کتنے ہی سر پھرے اس دُھن میں نکلتے ہیں کہ کچھ ایسا انمٹ کر چلیں کہ وقت سدا ان کا نام دہراتا رہے۔
لیکن ان کے حصے میں بھی سب کچھ کر چکنے کے بعد تاریخ کے چند صفحات کی سیاہی ہی آتی ہے، سب ماضی کے سکوت میں اترتے چلے جاتے ہیں، فطرت کا قانون ہست و نیست ہر مظہر کو بالآخر عدم کے مرحلے سے دوچار کردیتا ہے لیکن کچھ آوازیں، کچھ ساز، کچھ خیال، کچھ تحریریں، کچھ کلام اور کچھ کام اپنے اندر جدّت و ندرت کا وہ وصف سموئے ہوتے ہیں کہ یہ ہر دور کی آواز ہوتے ہیں، ہر تنوع کی بنیاد ہوتے ہیں، یہ اپنے اپنے فن میں معیار ہوتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات یہ گناہ و ثواب اور جائز و ناجائز کی بحث سے بھی آزاد ہوتے ہیں، ان کی تاثیر میں اتنا جبر ہوتا ہے اور ان کا جبر اتنا قوی ہوتا ہے جو دلائل اور اصولوں کو مرغولہ بنا دیتا ہے ان کا تعلق فن کی اس Purity سے ہوتا ہے جو فنکار میں تحلیل ہوکر اُسے فن علیٰ فن کر دیتی ہے۔
سچا فنکار کسی کو حیران نہیں کرنا چاہتا وہ اپنا فن دکھانے اور رنگ جمانے کے خبط میں مبتلا نہیں ہوتا، سچا فنکار تو بس مجبور ہوتا ہے، اس کی تخلیق کی ہر لہر اس بے کلی کی آہنگ ہوتی ہے جو اس کے کلیجے میں اپنے پنجے گڑائے پاؤں پسارے اُسے اظہار کا ٹھونگا لگائے جاتی ہے، تخلیق کا آزار اُسے چین نہیں لینے دیتا اور سر پٹختے، خود سے بھاگتے وہ تخلیق کا جاں گُسل عمل سرانجام دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ فن فنکار کو ایجاد، اپنے موجد کو تخلیق، اپنے خالق کو اور فعل اپنے فاعل کو عطا ہوتا ہے۔ عطا کا یہ راز اُس تخصیص کو قائم کرتا ہے جس کے تحت کوئی راہی، کوئی رہبر، کوئی محقق، کوئی موجد، کوئی ساز و آواز کا دلدادہ اور کوئی لفظوں کا کھلاڑی، کوئی کینوس کا شہ سوار اور رنگوں کو زباں دینے والا اور کوئی خیالوں کا بنت کار بنتا ہے، فنکاروں کے اس گروہ کی کاوشیں شہرت کی اشتہاء سے پاک صرف اظہار کے اصول پر کاربند رہتی ہیں۔
ایک سچے فنکار اور خود ساختہ فنکار کو تاثیر کا تفاوت ہی امتیاز دیتا ہے، وگرنہ کتنے ہی فنکار اپنی فنکاریاں دکھا کر اور فن کی کاسہ لیسی سے ناموری، دولت اور معیار کی ہر علامت حاصل کر لیتے ہیں، لیکن ان کا فن حسیّات میں گڑی تاثیر تک رسائی میں ناکام رہتا ہے اور بظاہر ایک رجحان ساز دور گزارنے کے بعد بھی آخر کار ان کا وقت گزر جاتا ہے یعنی تاثیر معیار ٹھہری، معیار کو تاثیر نہیں کہا جائے گا تو پھر کیا تاثیر خوبصورتی سے جنم لیتی ہے؟
شاید نہیں کیونکہ خوب صورتی کا بہرحال ایک پیمانہ ہے آپ اسے پسند، ستائش اور تسلیم کے ترازو میں تول سکتے ہیں لیکن تاثیر کی پرکھ کے لیے آپ کوئی فارمولہ وضع نہیں کر سکتے یہ آفرین سے ماورا ہے اس کا تعلق محسوسات سے ہوتا ہے، کیوں! مکین مکانوں کے اسیر ہو جاتے ہیں، بے جان گارے مٹّی کی دیواروں سے دل ایسی کون سی نسبت باندھ لیتا ہے کہ ان کے پرانے پن کی سادگی یہاں تک کہ بوسیدگی کو بھی جدّت، تعیش، آسائش اور خوبصورتی کی قیمت پر بھی تبادلے کو قبول نہیں کر پاتا، کیوں انسان یادوں سے وابستگی میں سرشاری محسوس کرتا ہے، رونق میلوں میں گم ہو کر بھی کیوں ''کسی نظر'' کے اثر سے آزاد نہیں ہوا جاتا! پھولوں کی مہک سے الرجی ہو سکتی ہے مگر اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
کسی جھریوں زدہ سن رسیدہ جوڑے کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھیں، ان کی گرفت میں بیتے وقت کے تشکر کے ساتھ ساتھ انتظار کی وہ اذیت بھی ہوتی ہے جس میں عنقریب کوئی لمحہ ان کے مابین ابدی جدائی لے کر وارد ہو جائے گا، سو ''پہلے کون'' کا اسرار اور پیچھے اکیلے رہ جانے کا ہول رہ رہ کر دل میں در آتا ہے، مگر ان کی آنکھیں جب ایک دوسرے میں جھانکتی ہیں تو ان کے چہروں کی آسودہ مسکراہٹ رفاقت کا جو مفہوم آشکار کرتی ہے وہ الفاظ کسی صنفِ سخن کے پیرائے میں نہیں سمو سکتے۔
جھوٹ کتنا بھی دل نشیں ہو مگر ایک مختصر سے سچے جملے کی سادگی کے آگے کبھی سرخرو نہیں ہو پاتا، سچائی اور سادگی کی تاثیر جھوٹے بناوٹی کو حسد کی آگ میں جلا ڈالتی ہے، مختلف مذاہب کے ابدی مساکن کی تاثیر مشترک ہوتی ہے یہاں کا ہیبت ناک یاسیت زدہ ماحول نہ جانے انسان کو کیا کچھ باور کرا رہا ہوتا ہے، یہاں تاثیر کی توانائی بڑی قوت سے انسان کو اپنے مرکز ثقل کی جانب کشش کرتی ہے اور اسی نکتے کو تاثیر کا مخرج بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہاں غیب کا اسرار اور مادے کا مظہر متوازی عمل پذیر ہوتے ہیں۔