گدھے آم نہیں کھاتے
کشش تو آموں میں ہوتی ہے۔ آہا! ہر لقمے پر سبحان ﷲ، ماشاء ﷲ نکلتا ہے۔ لگتا ہے آم کی میز پر محفل مشاعرہ بپا ہوگئی ہے۔
باادب، باملاحظہ، ہوشیار ۔۔۔ پھلوں کے شہنشاہ 'آم' تشریف لاچکے ہیں۔ جسے آم کھانا ہو وہ ابھی سے بکنگ کروالے کیونکہ 'آم' عوام کی طرح عام ضرور ہوتے ہیں لیکن پھر بھی عوام کی پہنچ سے دور ہیں شاید اسی لیے آم کو 'پھلوں کا بادشاہ' کہا جاتا ہے۔ جو اپنی مرضی سے آئے اور اپنی مرضی سے جائے اسے پتا ہے ناں کیا کہتے ہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں تسی تے بادشاہ ہو (آپ تو بادشاہ ہیں) تو جناب آم پنجابی ہی نہیں سندھی بھی ہے بلکہ 'سندھری' بھی ہے اور یہ سب سے پہلے تشریف لاتے ہیں بس شرط یہی ہے کہ انہیں کوئی باہر نہ جانے دے۔
بعض ایسے پھل بھی ہیں جنہیں ہم دیکھ تو سکتے ہیں لیکن کھا نہیں سکتے۔ شاید یہ بھی ان میں سے ایک ہے جسے اپنے پیٹ کے اندر پہنچانے کے لئے آدمی کو اپنے بینک بیلنس کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ انسانوں نے پھلوں کی بھی طبقہ واری تقسیم کر رکھی ہے۔ امیروں کے پھل، غریبوں کے پھل اور متوسط طبقہ کے لئے صبر اور نیکی کا پھل۔
آم کی اتنی ہی قسمیں ہیں جتنی شاید ہمارے فرقوں یا ذاتوں کی ہیں۔ لیکن آپ آم کو کسی بھی نام سے پکار لیں وہ آم ہی رہتا ہے۔ ناموں میں کیا رکھا ہے لیکن بعض نام اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ ان پر تخلص کا گمان ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح آموں کی صورت اور سیرت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ آم کی صورت جتنی اچھی ہوگی اس کی سیرت اتنا ہی دھوکا دے گی۔
کہتے ہیں کہ مرزا غالب اپنے گھر کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ یار دوست جمع تھے۔ سامنے سے کچھ گدھے گزرے۔ گزر گاہ کے ایک گوشے میں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا ٹھٹھکا۔ گٹھلیوں اور چھلکوں کو سونگھا اور آگے بڑھ گیا۔ ایک دوست نے از راہِ تفنن کہا مرزا صاحب آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ ''گدھے بھی آم نہیں کھاتے''۔ مرزا مسکرائے اور بولے ''ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔''
بچوں کو آم بہت پسند ہوتے ہیں کیونکہ وہ نیوٹن کے سر پر نہیں گرے تھے۔ اگر نیوٹن کے سر پر سیب کے بجائے آم گرتا تو ﷲ قیامت آجاتی۔ بچوں کوگول گول، میٹھے میٹھے، رس دار آموں سے نفرت اور چڑ ہوجاتی جس طرح نیوٹن کے قربت کی وجہ سے سیبوں سے ہے۔ اِدھر سیب دیکھا، اُدھر نیوٹن اور اس کی دریافت کردہ کشش ثقل یاد آئی۔ کشش تو آموں میں ہوتی ہے۔ آہا! ہر لقمے پر سبحان ﷲ، ماشاء ﷲ نکلتا ہے۔ لگتا ہے آم کی میز پر محفل مشاعرہ بپا ہوگئی ہے۔
آم کے آم گٹھلیوں کے دام! یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ورنہ آم کے دام سن کر کون آسانی سے رام ہوتا ہے؟ اسی لیے کچھ لوگ آم کھانے کے بجائے پیڑ گننے کی کوشش کرتے ہیں پھر ان کے ہاتھ صرف گٹھلیاں ہی آتی ہیں کیونکہ اتنا سوچیں گے تو آم تو ہاتھ نہیں آنے والا۔ آم کھانے والا بڑا مشہور ہوجاتا ہے بھئی! اخبار کی خبر کی طرح، سب تعریف کرتے ہیں کھاتے پیتے گھرانے کا ہے۔ اتنے روپے کلو کے آم کھا رہا ہے۔
کچھ لوگوں کا شوق آم کھانا ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کا شوق دوسروں کو آم کھاتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے۔ ہمارا شمار موخر الذکر انسانوں کے زمرے میں آتا ہے۔ بلکہ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ آم کھانے میں اتنا مزہ نہیں آتا جتنا کہ کسی کو آم کھاتے ہوئے دیکھنے میں آتا ہے۔ آدمی جب آم کھاتا ہے تو اس کی شکل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ خوبرو سے خوبرو آدمی بھی جب آم کھاتا ہے تو بدصورت دکھائی دینے لگتا ہے۔ آدمی ہر موقع کی تصویر کھنچواتا ہے لیکن ہم نے کسی کو آج تک آم کھاتے وقت تصویر کھنچواتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آم کی ساخت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اسے کھانے کے لئے آدمی کو اپنی شکل بگاڑنی پڑتی ہے۔ آم جتنا بڑا ہوگا آدمی کی شکل اتنی ہی بگڑے گی۔ اگر آم بڑا نہ ہو اور اس کے ذائقہ میں کھٹائی شامل ہو تو یہ ذائقہ آدمی کے چہرے پر عیاں ہوجاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے آدمی آم نہ کھا رہا ہو، ارنڈی کا تیل پی رہا ہو۔
کچھ لوگ زندگی کے بارے میں اتنی معلومات نہیں رکھتے جتنی کہ آموں کے بارے میں رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست جب بھی آم کھلاتے ہیں تو ہر آم کی خصوصیت پہلے ہی بتا دیتے ہیں۔ اس کا شجرہ بھی بیان فرما دیتے ہیں۔ آم تو چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کا تعارف بڑا ہوتا ہے یعنی ڈاڑھی سے مونچھیں بڑی ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہم ان کے ساتھ آم کھاتے ہیں تو پیٹ آموں سے اور دماغ معلومات سے بھر جاتا ہے۔
آموں کو آم کے باغ میں کھانے کا جو لطف آتا ہے وہ ڈائیننگ ٹیبل پر کھانے میں نہیں آتا۔ جب ہم بچے تھے تو آم کے باغ میں ہی آم کھایا کرتے تھے، باغ کسی اور کا ہوتا تھا لیکن آم ہمارے ہوتے تھے۔ مطلوبہ آم کو تاک کر اس طرح پتھر مارتے تھے کہ آم سیدھے نیچے آجاتا تھا۔ یہ بچپن کا ریاض ہی ہے کہ آج تک ہمارا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔۔
واہ رے آم تیری قسمت، دھوپ کی سختی برداشت کرکے پکا، مٹھاس اور خوشبو لے کر انسانوں کے ہاتھ میں پہنچا۔ واہ رے آم، انسان تجھ ہی سے کچھ سیکھ لے۔
[poll id="1136"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بعض ایسے پھل بھی ہیں جنہیں ہم دیکھ تو سکتے ہیں لیکن کھا نہیں سکتے۔ شاید یہ بھی ان میں سے ایک ہے جسے اپنے پیٹ کے اندر پہنچانے کے لئے آدمی کو اپنے بینک بیلنس کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ انسانوں نے پھلوں کی بھی طبقہ واری تقسیم کر رکھی ہے۔ امیروں کے پھل، غریبوں کے پھل اور متوسط طبقہ کے لئے صبر اور نیکی کا پھل۔
آم کی اتنی ہی قسمیں ہیں جتنی شاید ہمارے فرقوں یا ذاتوں کی ہیں۔ لیکن آپ آم کو کسی بھی نام سے پکار لیں وہ آم ہی رہتا ہے۔ ناموں میں کیا رکھا ہے لیکن بعض نام اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ ان پر تخلص کا گمان ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح آموں کی صورت اور سیرت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ آم کی صورت جتنی اچھی ہوگی اس کی سیرت اتنا ہی دھوکا دے گی۔
کہتے ہیں کہ مرزا غالب اپنے گھر کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ یار دوست جمع تھے۔ سامنے سے کچھ گدھے گزرے۔ گزر گاہ کے ایک گوشے میں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا ٹھٹھکا۔ گٹھلیوں اور چھلکوں کو سونگھا اور آگے بڑھ گیا۔ ایک دوست نے از راہِ تفنن کہا مرزا صاحب آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ ''گدھے بھی آم نہیں کھاتے''۔ مرزا مسکرائے اور بولے ''ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔''
بچوں کو آم بہت پسند ہوتے ہیں کیونکہ وہ نیوٹن کے سر پر نہیں گرے تھے۔ اگر نیوٹن کے سر پر سیب کے بجائے آم گرتا تو ﷲ قیامت آجاتی۔ بچوں کوگول گول، میٹھے میٹھے، رس دار آموں سے نفرت اور چڑ ہوجاتی جس طرح نیوٹن کے قربت کی وجہ سے سیبوں سے ہے۔ اِدھر سیب دیکھا، اُدھر نیوٹن اور اس کی دریافت کردہ کشش ثقل یاد آئی۔ کشش تو آموں میں ہوتی ہے۔ آہا! ہر لقمے پر سبحان ﷲ، ماشاء ﷲ نکلتا ہے۔ لگتا ہے آم کی میز پر محفل مشاعرہ بپا ہوگئی ہے۔
آم کے آم گٹھلیوں کے دام! یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ورنہ آم کے دام سن کر کون آسانی سے رام ہوتا ہے؟ اسی لیے کچھ لوگ آم کھانے کے بجائے پیڑ گننے کی کوشش کرتے ہیں پھر ان کے ہاتھ صرف گٹھلیاں ہی آتی ہیں کیونکہ اتنا سوچیں گے تو آم تو ہاتھ نہیں آنے والا۔ آم کھانے والا بڑا مشہور ہوجاتا ہے بھئی! اخبار کی خبر کی طرح، سب تعریف کرتے ہیں کھاتے پیتے گھرانے کا ہے۔ اتنے روپے کلو کے آم کھا رہا ہے۔
کچھ لوگوں کا شوق آم کھانا ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کا شوق دوسروں کو آم کھاتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے۔ ہمارا شمار موخر الذکر انسانوں کے زمرے میں آتا ہے۔ بلکہ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ آم کھانے میں اتنا مزہ نہیں آتا جتنا کہ کسی کو آم کھاتے ہوئے دیکھنے میں آتا ہے۔ آدمی جب آم کھاتا ہے تو اس کی شکل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ خوبرو سے خوبرو آدمی بھی جب آم کھاتا ہے تو بدصورت دکھائی دینے لگتا ہے۔ آدمی ہر موقع کی تصویر کھنچواتا ہے لیکن ہم نے کسی کو آج تک آم کھاتے وقت تصویر کھنچواتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آم کی ساخت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اسے کھانے کے لئے آدمی کو اپنی شکل بگاڑنی پڑتی ہے۔ آم جتنا بڑا ہوگا آدمی کی شکل اتنی ہی بگڑے گی۔ اگر آم بڑا نہ ہو اور اس کے ذائقہ میں کھٹائی شامل ہو تو یہ ذائقہ آدمی کے چہرے پر عیاں ہوجاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے آدمی آم نہ کھا رہا ہو، ارنڈی کا تیل پی رہا ہو۔
کچھ لوگ زندگی کے بارے میں اتنی معلومات نہیں رکھتے جتنی کہ آموں کے بارے میں رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست جب بھی آم کھلاتے ہیں تو ہر آم کی خصوصیت پہلے ہی بتا دیتے ہیں۔ اس کا شجرہ بھی بیان فرما دیتے ہیں۔ آم تو چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کا تعارف بڑا ہوتا ہے یعنی ڈاڑھی سے مونچھیں بڑی ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہم ان کے ساتھ آم کھاتے ہیں تو پیٹ آموں سے اور دماغ معلومات سے بھر جاتا ہے۔
آموں کو آم کے باغ میں کھانے کا جو لطف آتا ہے وہ ڈائیننگ ٹیبل پر کھانے میں نہیں آتا۔ جب ہم بچے تھے تو آم کے باغ میں ہی آم کھایا کرتے تھے، باغ کسی اور کا ہوتا تھا لیکن آم ہمارے ہوتے تھے۔ مطلوبہ آم کو تاک کر اس طرح پتھر مارتے تھے کہ آم سیدھے نیچے آجاتا تھا۔ یہ بچپن کا ریاض ہی ہے کہ آج تک ہمارا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔۔
واہ رے آم تیری قسمت، دھوپ کی سختی برداشت کرکے پکا، مٹھاس اور خوشبو لے کر انسانوں کے ہاتھ میں پہنچا۔ واہ رے آم، انسان تجھ ہی سے کچھ سیکھ لے۔
[poll id="1136"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔