’ بلاول بھٹو زرداری فیکٹر ‘

بلاول بھٹو کی اپوزیشن کی سیاست نے پنجاب میں ہلچل پیدا کر دی ہے ۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

بلاول بھٹو کی اپوزیشن کی سیاست نے پنجاب میں ہلچل پیدا کر دی ہے ۔ قبل ازیں پنجاب میں صرف عمران خان اور چوہدری پرویزالٰہی کی اپوزیشن کی سیاست کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ پیپلزپارٹی نہ تین میں تھی نہ تیرا میں ۔ آصف علی زداری کی مفاہمت کی سیاست نے پیپلزپارٹی کو عملی طور پر ن لیگ کی بی ٹیم بنا دیا تھا ، اور عام تاثر یہی تھا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اب محض گزرنے دنوں کی کہانی ہے ۔

یوسف رضا گیلانی ، زرداری دور میں ساڑھے تین سال وزیراعظم رہے ہیں، لیکن نوازشریف کے ساتھ ان کی قربت ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ وہ نوازشریف کے خلاف ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے ہیں ۔ راجہ پرویزاشرف کی کوئی اتنی اہمیت نہیں ہے ۔ پھر منظور وٹو ہیں، جن کو پنجاب پیپلزپارٹی کے کارکن ذہنی طور پرقبول ہی نہیں کر سکے ہیں ۔ کبھی پنجاب میں پیپلزپارٹی ، ن لیگ کے بعد سب سے بڑی پارٹی سمجھی جاتی تھی ، لیکن یہ اعزاز بھی اس سے چھن چکا ہے ۔ ایسے بدترین حالات میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کو ازسر نو متحرک کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ بلاول بھٹو مگر پوری کوشش کر رہے ہیں ۔

یہ فیصلہ تو مستقبل کا کوئی مورخ ہی کرے گا کہ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد آصف زرداری نے جو مفاہمت کی سیاست' کی، اس کا پیپلزپارٹی کو فائدہ زیادہ ہوا یا نقصان زیادہ پہنچا ؛ لیکن فی الحال مسئلہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سکڑتے سکڑتے دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ بلاول بھٹو کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے والد آصف زرداری کی سیاست نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کو بے حد نقصان پہنچایا ہے ۔

لہٰذا اب بطور چیئرمین ، وہ اس کی تلافی کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کی برسی پر ان کے جوش خطابت کی گونج پیپلزپارٹی کے حلقوں میں آج بھی سنی جا سکتی ہے ۔کوٹلی آزادکشمیر میں انھوں نے پانامہ لیکس پرجو لائن لی ، اب وہ پیپلزپارٹی کی مستقل لائن بن چکی ہے اور آصف علی زرداری نے بھی اس کی تائید کر دی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 2008 ء کے بعد اگرپہلی بارکسی بحران میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوئی ہیں ، تو اس کا کریڈٹ بلاول بھٹو کو جاتا ہے ۔ اس طرح پانامہ لیکس کے بعد اگر نوازشریف اور آصف علی زرداری کے درمیان باضابطہ ملاقات نہیں ہو سکی تو اس کے پیچھے بھی پارٹی کو بطور 'اپوزیشن پارٹی' بحال کرنے کی بلاول بھٹو کی حکمت عملی کارفرما نظر آتی ہے ۔ فلسفہ اس میں یہ ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر اپوزیشن کی سیاست ہی کرنا ہو گی۔

بلاول بھٹو کے مگر کچھ ذاتی مشاہدات بھی ہیں ۔ مثلاً ، 12اکتوبر1999ء کو جنرل مشرف نے نوازشریف حکومت کو برخاست کیا ، تو باوجود اس کے کہ پیپلزپارٹی نظریاتی طور پر فوجی مداخلت کی مخالف ہے ، اس نے مشرف اقدام کی حمایت کی ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ نوازشریف کے اس دوسرے دورحکومت میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو دیوار سے لگا گیا ۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دی گئیں ۔

ان کے والد آصف علی زرداری کو مستقلاً قید میں ڈال دیا گیا ، جہاں بقول ان کے ، ان کی زبان بھی داغی گئی ۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی برائے نام باقی رہ گئی تھی ، جب کہ سندھ میں بھی اس پر زمین تنگ کی جا رہی تھی ۔ یہ وہ زمانہ ہے ، جب بلاول بھٹو نے سن شعور میں قدم رکھا تھا۔یہ بھی ان کو یاد ہوگا کہ نوازشریف نے پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ،اس کے باوجود 12 اکتوبر1999 ء کے بعد جب دوبئی میں بے نظیر بھٹو سے رابطہ قائم کیا ، تو انھوں نے مایوس نہیں کیا گیا ۔ اے آر ڈی ( الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکرسی ) میں دونوں پارٹیاں اکٹھی ہو گئیں ۔

لیکن پھر نوازشریف 10 برس کے لیے جدہ چلے گئے ۔ بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کے ساتھ این آر او کرکے اپنی وطن واپسی کا راستہ ہموارکیا ، تو اس کا بیشتر فائدہ بھی نوازشریف کو پہنچا ، کیونکہ ان کی وطن واپسی کے بعد ہی سعودی عرب نے نوازشریف کی وطن واپسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔ قبل ازیں وہ جلاوطنی سمجھوتہ کے تحت نوازشریف کی پاکستان واپسی کی کوشش ناکام بنا چکے تھے ۔ اس طرح 2008 ء میں بے نظیر بھٹو نے ہی نوازشریف کو الیکشن بائیکاٹ ختم کرنے پر آمادہ کیا تھا ۔

ورنہ اگر وہ آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے اعلان کے تحت الیکشن میں حصہ نہ لیتے تو آج ان کی پارٹی بھولی بسری کہانی بن چکی ہوتی ۔ ان کے بائیکاٹ کے نتیجہ میں پنجاب میں ق لیگ کی کام یابی یقینی تھی اور اگر ق لیگ پنجاب میں مسلسل دوسری مرتبہ حکومت بنانے میں کام یاب ہو جاتی ، تو ن لیگ کو پنجاب میں پھر سے ابھرنے کا موقع نہیں ملنا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد نوازشریف نے اس اندیشے کی بنیاد پر کہ ان کی پارٹی کو کامیاب ہونے نہیں دیا جائے گا ، دوبارہ سے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ۔ اس پر بھی آصف علی زرداری نے ہی نوازشریف کو اس سیاسی خودکشی سے بچایا تھا ۔


پیپلزپارٹی کا ن لیگ پر یہی احسان نہیں کہ اس نے ن لیگ کو الیکشن 2008 ء میں شرکت پر آمادہ کیا، بلکہ الیکشن کے بعد پنجاب میںن لیگ حکومت بنانے میں بھی اس کا کردار کلیدی تھا۔ پی پی پی ارکان اسمبلی کی عددی حمایت کے بغیر پنجاب میں شہبازشریف حکومت نہیں بن سکتی تھی۔ اس مرحلہ پربھی اگر جیسا کہ ابتدائی طور پرجنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے ہوا تھا ، پنجاب میں پیپلزپارٹی اور ق لیگ کی مخلوط حکومت بن جاتی تو نوازشریف کا تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہونا نامکن تھا ۔

لیکن بلاول بھٹو کی حیرت کی انتہا نہ رہی ، جب پنجاب کو بیس کمیپ بنانے میں کام یابی حاصل کرنے کے بعدنوازشریف ، شہبازشریف نے آصف علی زرداری کو رگیدنے کا سلسلہ ازسرنو شروع کر دیا ۔ان کو طرح طرح کے القابات دیے گئے ۔ لیکن اس کے باوجود2014 ء میں جب نوازشریف حکومت عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کے دوران لرز رہی تھی اور ہر آن اس کے گرنے کا امکان تھا ، تو آصف علی زرداری نے ہی نوازشریف حکومت کو ریسکیو کیا، اور کچھ ہی عرصہ بعد جب آصف علی زرداری ایک متنازعہ تقریرکرکے مشکل میں پھنس گئے تو نوازشریف نے پہلے سے طے شدہ ان کی دعوت میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا ۔کہا جاتا ہے کہ یہی وہ لمحہ تھا ، جب آصف علی زرداری نے اپنے قریبی دوستوں سے کہا کہ اب نوازشریف کے ساتھ چلنا مشکل ہے ۔

بلاول بھٹو پنجاب میں پیپلزپارٹی کا روایتی کردار بحال کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے کہ نوازشریف حکومت پانامہ لیکس کے گرداب میں بری طرح پھنس گئی ۔ کہنے والوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی جلد یا بدیر پانامہ لیکس پر ن لیگ کے ساتھ کھڑی ہو گی ۔ آصف علی زرداری کی خاموشی کو ان کی درپردہ حمایت ہی قرار دیا گیا ، لیکن ان کالموں میں ایسے کسی امکان کی مسلسل نفی کی گئی ، اور پیپلزپارٹی میں بلاول بھٹو زر داری فیکٹر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ' متحدہ اپوزیشن کے بعض قائدین اگر اب بھی پیپلزپارٹی کی اپوزیشن پر شک کرتے ہیں ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے سیاسی مفادات بہت عرصہ بعد ن لیگ کے سیاسی مفادات سے علیحدہ ہوئے ہیں ۔

حکومت کے خلاف پیپلزپارٹی کی مخالفانہ مہم پر سندھ پیپلزپارٹی کے تحٖفظات اپنی جگہ ، لیکن آصف علی زرداری کا موجودہ سیاسی مفاد اب اسی کیمپ کی حکمت عملی سے وابستہ ہے ، جس کی قیادت اعتزازاحسن اور بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے لیے یہ اس کی بقا کی جنگ ہے ۔ اگر متحدہ اپوزیشن ، جس کی قیادت اس وقت پیپلزپارٹی کر رہی ہے ، نوازشریف حکومت کو گرانے یا کمزور کرنے میں کام یاب ہو جاتی ہے، تو اس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو جائے گا ،اور بالواسطہ طور پرآصف علی زرداری ہی کو فائدہ ہو گا۔ آصف علی زرداری کے لیے پیچھے ہٹنے کی کوئی راہ نہیں،کیونکہ اس مرحلہ پر اگر وہ پیچھے ہٹتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کو جو نقصان ہو گا ، وہ تو ہو گا ہی ، پنجاب میں ان کے فرزند ارجمند بلا ول بھٹو زرداری کی سیاست کا ستارہ ابھرنے سے پہلے ہی ڈوب جائے گا ، جو آصف علی زرداری کبھی نہیں چاہیں گے ۔'

بلاول بھٹو پڑھے لکھے نوجوان ہیں ۔ ان میں جوش سیاست بھی ہے ، جوش خطابت بھی ہے اور جوش عمل بھی ۔ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے ، اور اس کے اثرات ان کی سوچ پر محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ اپنے والد آصف زرداری کے طرز سیاست سے بظاہر ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ ان کے لب ولہجہ اور ان کی تقریریں سننے کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ان کے آئیڈیل ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ہیں ۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے کسی کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو ، یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ بانی ِ پاکستان کے بعد ان کے پائے کا سیاست دان ، پاکستان کی سیاست میں نہیں آیا ہے ۔ پاکستان میں تبدیلی کی سیاست واقعتاً اگر کسی نے کی ہے ، تو وہ ذوالفقار علی بھٹو نے کی ہے ۔اگر بلاول بھٹو ، پیپلزپارٹی کو پھر سے ذوالفقار علی بھٹو کی تبدیلی کی علم بردار پارٹی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، تو پیپلزپارٹی کی آیندہ سیاست میں ان کا رتبہ ذوالفقارعلی بھٹو سے کم نہیں سمجھا جائے گا۔ سعدی شیرازی نے کہا تھا ،

تونگری بہنر است نہ بمال

بزرگی بعقل است نہ بسال

( یعنی امارت ہنر سے ہے ، مال ودولت سے نہیں ؛ جس طرح کہ بزرگی عقل و دانائی سے ہے، عمر سے نہیں )
Load Next Story