کراچی ٹرانسپورٹ مسائل سے حل تک

بے ہنگم ٹریفک، ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور لا قانونیت کی وجہ سے کراچی ایک عجیب تماشہ بن چکا ہے۔


تعمیرات کے علاوہ ضروری ہوگا کہ قوانین پر عملداری کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے لئے تربیت لازمی قرار دی جائے اور ڈرائیونگ لائسنس کو اہمیت دی جائے۔

کراچی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب نظر، اب عالم بے بسی میں ہے۔ مسائل کا انبار اور ان مسائل پر تقاریر، تقاریر پر بیان بازی، شہر بے حال، شہری لاچار باقی امید پر دنیا قائم ہے۔ اچھے کی امید رکھیں۔ نجی مالکان جس تیزی سے اس شہر میں ایک کے بعد ایک منصوبے لا رہے ہیں، کاش حکومتی سطح پر بھی اسی تیزی اور تندہی سے نہ صرف پرانے منصوبے جلد از جلد مکمل کئے جائیں بلکہ نئے منصوبوں کا بھی آغاز کیا جائے۔

 

تمام مسائل کے باوجود کراچی پاکستان کا مرکز بھی ہے اور روزگار کا محور بھی۔ کراچی کی موجودہ آبادی کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مردم شماری گزشتہ کئی برسوں سے التواء کا شکار ہے۔ تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافے کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آنے والے چند سالوں میں کراچی کی آبادی دوگنی ہوجائے گی۔

اس صورتحال کا تقاضہ ہے کہ کراچی کے مسائل کا نہ صرف فوری حل نکالا جائے بلکہ ترقیاتی منصوبہ بندی کا بھی ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ کراچی کے موجودہ مسائل میں ٹرانسپورٹ، پانی، نکاسی، صفائی، توانائی اور مناسب روزگار شامل ہیں، لیکن اس مضمون میں ہم صرف ٹرانسپورٹ کے مسئلے اور اس کے ممکنہ حل کا جائزہ لیں گے۔

کراچی میں عوامی سواری بسیں تقریباََ نایاب ہوچکی ہے۔ 329 روٹس میں سے صرف 111 پر بسیں دستیاب ہیں۔ ان میں بھی تقریباََ 9 ہزار منی بسیں ہیں۔ موجودہ ضرورت کے مطابق تقریباً 9 ہزار مزید بسوں کی ضرورت ہے۔ بسوں کی کمی کو چنگچی اور سی این جی رکشہ جیسی سواریوں سے پورا کرنے کی کوشش نے عوام کو کچھ سہولت تو ضرور مہیا کی مگر ان سے ٹریفک کی روانی میں شدید رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ اس کے علاوہ دوسرا حل موٹرسائیکل ہے۔ ایک موٹرسائیکل پر خاتون سمیت کئی بچے نہ صرف ایک تکلیف دہ نظارہ ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے۔

بے ہنگم ٹریفک، ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور لاقانونیت کی وجہ سے کراچی ایک عجیب تماشہ بن چکا ہے۔ اس کے نتیجہ میں نہ صرف حادثات میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ عوام بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ وقت اور ایندھن کے زیاں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

اس تمام صورتحال کی وجہ غلط منصوبہ بندی اور منصوبوں پر عمل درآمد میں تاخیر ہے۔ کراچی میں ٹریفک نظام کی بحالی کے لئے تین مختلف امور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ تعمیری منصوبے اور ان کی تکمیل
2۔ ذرائع آمدورفت
3۔ ٹریفک قوانین کی عملداری

گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی میں کئی منصوبے التواء کا شکار ہیں، جن کی بر وقت تکمیل سے کراچی کے ٹریفک کے مسائل میں خاطرخواہ کمی ہوسکتی ہے۔ ان منصوبوں میں درج ذیل قابل ذکر ہیں۔
لیاری ایکسپریس وے

جس کا شمالی حصہ کئی سالوں سے تکمیل کا منتظر ہے۔ اب دوبارہ اس پر کام شروع ہوا ہے۔ امید ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ مکمل ہوجائے گا۔
کراچی سرکلر ریلوے

کراچی سرکلر ریلوے 1996 میں بند کردی گئی تھی حالانکہ یہ کراچی کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ جاپان سے مالی تعاون کی یقین دہانی کے باوجود تقریباََ 15 سالوں سے اس کی تجدید کا منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ایک ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے جو ابھی تک کوئی عملی کام نہیں کرپایا ہے۔
ریپڈ بس سروس

اس منصوبے کے تحت تیز رفتار ائیرکنڈیشنڈ بسوں کی سہولت دستیاب ہوگی جو اپنے مخصوص راستوں پر چلیں گیں۔ تقریباََ تمام میگا شہروں میں یہ ایک کامیاب اور معیاری عوامی سواری ہے۔ اس منصوبے میں درج ذیل منصوبے شامل ہیں۔

  • گرین لائن (سرجانی ۔ گرومندر)

  • بلیو لائن (سہراب گوٹھ ۔ ٹاور)

  • ریڈ لائن (صفورا ۔ صدر)

  • یلو لائن (کورنگی ۔ صدر)

  • اورنج لائن (اورنگی ۔ ناظم آباد)

  • پرپل لائن (حب ۔ شیرشاہ)

  • براؤن لائن (کورنگی ۔ نارتھ کراچی)


یہ تمام منصوبے ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ سرکلر ریلوے کی بحالی کی صورت میں یہ اس سے بھی منسلک ہوجائیں گے۔ تاہم ابھی ان تمام میں سے صرف گرین لائن اور اورنج لائن پر کام شروع ہوا ہے۔ ان منصوبوں کے علاوہ کراچی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے چند نامکمل منصوبے یہ بھی ہیں۔
ملیر ایکسپریس وے

یہ منصوبہ موجود ہے اور حکومت کی نظرِ کرم کا منتظر ہے۔ اس منصوبے سے سپرہائی وے کو ڈیفنس سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ اس سے موجودہ شاہراہوں مثلاََ شاہراہ فیصل، کورنگی روڈ اور یوینورسٹی روڈ پر ٹریفک کا دباؤ کافی کم ہوجائے گا۔
گوجرنالہ ایکسپریس وے

اس منصوبے کے تحت کراچی کے سب سے بڑے برساتی نالے کے اطراف سے تجاوزات کا خاتمہ اور اس کے دونوں طرف سڑک کی تعیر شامل ہے۔ گزشتہ سال اس پر بہت تن دہی سے کام شروع ہوا تھا، تاہم حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے اب اس پر کام رک چکا ہے۔
لیاری ندی فیری سروس

لیاری ندی کو اس طرح دوبارہ ڈیزائن کیا جاسکتا ہے کہ اس میں پانی نسبتاََ صاف ہوجائے اور اس کا بہاؤ بھی سود مند ہو۔ جس پر چھوٹی کشتیاں چل سکیں۔ یہ ایک سستی سواری ہوسکتی ہے جوموجودہ ٹریفک میں مخل بھی نہیں ہوگی۔
ملیر ندی فیری سروس

یہ ندی کئی سالوں سے سوکھ چکی ہے۔ تھوڑی سی کاوش سے اسے دوبارہ جاری کیا جاسکتا ہے۔ صنعتی استعمال شدہ پانی تطہیر کے بعد اس میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اس ندی کے اجراء کے بعد اس میں بھی چھوٹی کشتیاں بطور سواری استعمال کی جا سکتی ہیں۔
بائیک وے

کراچی کی ٹریفک کا تقریباََ 50 فی صد موٹرسائیکل پر مشتمل ہے۔ ان کی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ ہے، مگر کراچی میں کہیں بھی ان کے لئےعلیحدہ گزرگاہ نہیں ہے۔ ایک دو مقامات پر پیدل حضرات کے لیے بنائی جانے والی بالائی گزرگاہ پر موٹرسائیکل لے جانے کی سہولت موجود تھی مگر وہ بھی بند کردی گئی۔ چناںچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں موٹرسائیکل سواروں کو ہر ممکن سہولت دی جائے۔

بالائی گزرگاہوں کے علاوہ، شاہراہوں پر مختصر مگرعلیحدہ راہداری برائے موٹرسائیکل اور سگنل فری کوریڈور کی طرز پر بائیک ویز بنانا اہم ہے بلکہ یہ ٹریفک کی موجودہ صورتحال کو یکسر بدل سکتا ہے۔ انسانی زندگیوں کو بچانے کے لئے بھی یہ ایک مستحسن قدم ہوگا۔ ہلکی سواری ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل کے لئے بائیک ویز بنانا نسبتاََ سستا اور سہل ہوگا۔
ایکسپریس ویز

چند سال پہلے کراچی میں سگنل فری کوریڈورز کی تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس کے تحت،

  • کورنگی تا نارتھ کراچی

  • شاہراہِ فیصل تا سائٹ

  • صفورا تا صدر

  • سہراب گوٹھ تا گرومندر


تعمیر کئے گئے۔ شروع میں یہ سگنل فری کوریڈورز انتہائی مفید ثابت ہوئے مگر اب ان پر بھی ٹریفک کا اژدہام روز مرہ کا معمول ہے۔ چناںچہ ضروری ہے کہ ان سگنل فری کوریڈورز کو مزید بہتربنایا جائے تاکہ ان کی افادیت میں اضافہ ہو۔ لیاقت آباد میں تعمیر کئے جانے والے حالیہ پل کے ساتھ سڑک کے دونوں اطراف طویل بندش کے ذریعے ٹریفک کو مربوط کیا گیا ہے۔ اسی طرز پر تمام سگنل فری کوریڈورز کو ایکسپریس ویز میں تبدیل کیا جائے۔ داخلی و خارجی راستے اور سروس روڈز کی از سر نو تعمیرکی جائے۔

تعمیرات کے علاوہ ضروری ہوگا کہ قوانین پر عملداری کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے لئے تربیت لازمی قرار دی جائے اور ڈرائیونگ لائسنس کو اہمیت دی جائے۔ ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کے لئے تربیتی کورس کے علاوہ کم از کم میٹرک لازمی قرار دی جائے۔ گاڑیوں کے ماڈل کی حد بھی متعین کی جائے اور 30 سال سے پرانی گاڑی پر پابندی عائد کی جائے۔ شوقین حضرات کو بھاری فیس کے عوض اجازت نامہ دیا جائے۔

کراچی میں ٹریفک کے نظام کی بحالی کی جانب پہلا اور فوری قدم یہ ہے کہ کراچی کے ٹریفک کے نظام کو کسی ایک ادارے کے ماتحت کیا جائے۔ کراچی ٹریفک مینجمنٹ بورڈ کو فعال بنایا جائے، جس کے تحت تمام متعلقہ ادارے مربوط انداز میں کام کریں۔ اس میں کراچی ٹریفک انجنئیرنگ بیورو، ٹریفک پولیس، کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپورشن، کے ایم سی، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسڑی، کنٹونمنٹ وغیرہ کے نمائندوں کو شامل کیا جائے اور اس بورڈ کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر ماہ کم از کم ایک میٹنگ کا انعقاد کریں، جس میں ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیں اور کارروائی کو مشتہر کریں۔

ان تمام گزارشات سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں مگر کیونکہ ان کا تعلق کراچی کے ایک انتہائی اہم مسئلے سے ہے اس لئے امید ہے کہ ان کو سنجیدگی سے لیا جائے گا اور ہر خاص وعام مثبت تنقید و اضافے کے ساتھ ان کو آگے بڑھانے میں معاون ہوگا۔

[poll id="1139"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں