صفائی اور ایمان

جب بھی وہاں جانا ہوا اس کی بلندیاں تو دیکھیں لیکن پستیوں کو دیکھ کر دکھ ہوا

h.sethi@hotmail.com

KARACHI:
ٹریفک سگنل کا اشارہ سرخ ہوا تو معروف چوراہے کے ایک طرف گاڑیاں رک گئیں، میری گاڑی کے دائیں جانب کھڑی لینڈ کروزر کا شیشہ سلائیڈ کرکے نیچے اترا جہاں سے گتے کے تین ڈبے سڑک پر گرے۔ میں نے دیکھا کہ یہ مشہور فاسٹ فوڈ ریستوران کے خالی یا کچرا بھرے گتے کے خوراک والے ڈبے تھے جو لینڈ کروزر کے سواروں نے خالی کیے تھے اور اب انھیں ٹھکانے لگانے کے لیے سڑک پر پھینکا گیا تھا۔ ٹریفک روانہ ہوتی تو یہ ڈبے گاڑیوں کے پہیوں کے نیچے آآ کر گندگی بکھیرتے۔ میں گاڑی سے نیچے اترا تیزی سے ڈبے سمیٹے اور انھیں اپنی گاڑی کی ڈکی میں رکھ کر سٹیئرنگ پر آن بیٹھا۔ لینڈ کروزر کے مسافر زور زور سے ہنسنے لگے۔ کراچی ہمارے ملک کا کئی لحاظ سے چمکتا چہرہ ہے جو خشکی اور پانی کا سنگم تو ہے ہی لیکن ہمارے قائد کا گھر بھی ہے اور ان کی پیدائش سے لے کر ابدی یادگار تک یہ ہمارا سب سے پیارا شہر بھی ہے جہاں امیر ترین اور غریب ترین شہری رہتے ہیں۔

جب بھی وہاں جانا ہوا اس کی بلندیاں تو دیکھیں لیکن پستیوں کو دیکھ کر دکھ ہوا۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارا میڈیا حکمرانوں کی توجہ انسان کی جانی و جسمانی ضرورت پانی کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرکر کے اب ذرا وقفہ دیے ہوئے ہے۔ چند روز قبل شیخ لطف الرحمان لطفی کے ہاں جو کراچی کے معروف ٹیکس کنسلٹنٹ اور اوپر کے حلقوں میں گھومتے رہتے ہیں، قیام ہوا تو ان کے مکان پر واٹر ٹینکر کی آمد پر دریافت کیا کہ سمندر کے کنارے گھر ہو اور آپ لوگ پانی کو ترسیں کیا یہ سرکار کی بخیلی ہے یا نااہلی۔ تو وہ بولے یہ خدا کی رزاقی ہے کہ ہمارے قرب میں ساحل سمندر ہے لیکن ٹینکر مافیا کے ہوتے ہوئے کراچی والے پانی کو ترستے ہی رہیں گے یہاں پانی کی نایابی تو ایک مسئلہ رہا ہے جو دیرینہ ہے لیکن اس کالم میں لکھے سڑک کو ڈسٹ بن بنانے کی کوشش والے واقعے سے بھی بڑی حقیقت کا مشاہدہ کراچی گھومتے ہوئے اس بار ہوا۔

میرا خیال تھا بڑا اور امراء کا شہر ہے۔ صاف ستھرا، گندگی سے پاک ماحول ہوگا اور جو کچھ عرصہ سے الیکٹرانک میڈیا نے کراچی کو ایک بہت بڑا کوڑے دان بناکر پیش کرنے کی مہم چلا رکھی تھی، میرا خیال تھا یہ کراچی انتظامیہ کے خلاف کوئی سازش ہوگی اور جو طویل و عریض کچرے اور گندگی کے ڈھیروں ڈھیر ٹی وی پر دکھا دکھا کر ناظرین کو بھی ناک پر رومال رکھ لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے، یہ ایک ہی کچرا ڈھیر کو مختلف زاویوں سے دکھائے چلے جانے کی Camera Trick ہوگی لیکن جب میں نے لطفی صاحب سے کچرا گھروں کی حقیقت پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تو وہ مجھے موٹر میں بٹھا کر کچرا ڈھیروں کی زیارت کرانے چل نکلے اور کاغذ پنسل کے علاوہ مجھے اپنا جدید موبائل فون پکڑا کر گنتی کرنے اور تصاویر اتارنے پر لگا دیا۔


''صفائی نصف ایمان ہے'' اس حوالے سے ایک پرانا واقعہ یاد آیا۔ شہر کے بہترین پارک کے ایک مخصوص کونے میں رات کی تقریب تھی، شہر کی Elite مدعو تھی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک اہم موضوعات پر تقاریر ہوئیں۔ اس کے بعد ڈنر کا اہتمام تھا۔ جیسے ہی اعلان ہوا کہ معزز مہمان کھانے کی میزوں کی طرف تشریف لے چلیں، یوں معلوم ہوا کہ یلغار ہوگئی ہے۔

نہایت اطمینان سے بیٹھے ہوئے مہمان کھانے کی ڈشوں پر ٹوٹ پڑے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک باریش شخص اپنی پلیٹ میں گھاس پر گرے گوشت کے ٹکڑے اور ہڈیاں اٹھا کر رکھتا ہے اور وہ پلیٹ میز پر رکھ کر ایک دوسری خالی پلیٹ پکڑلیتا ہے اور گھاس پر گری خوراک اٹھانے کا عمل شروع کردیتا ہے۔ یہ بزرگ جو خاموشی سے اپنے کام میں مگن تھا، اس کا نام جنرل (ر) انصاری تھا۔ بیس پچیس سال پرانا یہ واقعہ میرا چشم دید نہیں لیکن جن صاحب نے بیان کیا، بتاتے ہیں کہ جنرل صاحب کے دیکھا دیکھی دو تین اور لوگ بھی اس صفائی مہم میں شریک ہوگئے تھے۔

اس حوالے سے ایک یورپین ملک کا چشیم دید منظر یاد آگیا کہ ایک سڑک پر جاتی موٹر میں سے کسی نے گتے کا گلاس مشروب پینے کے بعد باہر پھینک دیا جو ہوا سے ادھر ادھر گھومنے لگا۔ اسے پکڑنے کے لیے ایک گورا اور ایک سیاہ فام لڑکی نے دوڑیں لگا دیں۔ لڑکی نے گلاس قابو کرلیا۔ اس کے بعد وہ ضرور کسی ڈسٹ بن کی طرف چلی گئی ہوگی۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ کار میں گورے تھے نہ سیاہ فام۔
Load Next Story