انقلاب فرانس اور پاکستان
خود ٹیکس نہیں دیتے تھے لیکن آئے روز عوام پرنیا ٹیکس لگا دیتے
برطانیہ سے امریکا کی جنگ آزادی میں فرانس نے کھل کرامریکا کی مدد کی جس کے نتیجے میں بالاخر 1776ء میں امریکا آزاد ہوگیا لیکن یہی بے جا حمایت فرانس میں بھی تبدیلی کا پیش خیمہ بنی۔ فرانس کی اشرافیہ اور کلیسا نے گٹھ جوڑ کررکھا تھا اور تمام زمینوں پر قابض تھے۔
خود ٹیکس نہیں دیتے تھے لیکن آئے روز عوام پرنیا ٹیکس لگا دیتے ۔ قانون کا یہ حال تھا کے ''پروانہ گرفتاری'' پر شخص کا نام ' مدت اور قید خانہ لکھ کر پولیس کے حوالے کر دیا جاتا۔ لوگوں کوبغیر وجہ بتائے گرفتار کرکے قید کر لیا جاتا۔ جنگِ آزادی میں امریکا کی مدد کرنے کے سبب فرانس کا خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی، غریب غریب تر اور اشراف امیر ترین ہوتے جا رہے تھے لہذا فیصلہ کیا گیا عوام پرمزید ٹیکس لگائے جائیں۔
5 مئی 1789 کو ٹیکس کے نفاذ کے لیے پارلیمان کا اجلاس بلایا گیا، پارلیمان کے 3 حصے تھے۔ ایک حصہ امرا دوسرا حصہ کلیسا اور تیسرا حصہ عوام کا تھا جو 97 فیصد تھا۔ عوام کے نمایندوںکے اختیارات محدود تھے۔ وہ اشرافیہ سے خوف زدہ رہتے تھے مگر آج ان کی آوازیں اونچی ہونے لگیں۔ انھوں نے ٹیکس کے نفاذ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا مگر بادشاہ نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ جون 1789 میں عوام کے نمایندوں نے اپنا نام قومی اسمبلی رکھ کر اپنا اجلاس پارلیمان کے باہر کیا۔
بادشاہ نے پولیس اور فوج کو انھیں وہاں سے ہٹانے کا حکم دیا مگر انھوں نے حکم ماننے سے انکار کر دیا۔بالاخرڈیڑھ ماہ بعد غیرملکی سپاہیوں کی مدد سے انھیں وہاں سے منتشر کرکے قید کرلیا گیا۔ بادشاہ مطمئن ہوگیا مگر اس سے گزشتہ روز عوام کا ہجوم ''بستیل'' قید خانے پرحملہ آور ہوکرتمام لوگوں کو آزاد کرا کر جیل میں موجود تمام اسلحہ ساتھ لے گیا۔
اس وقت پاکستانی عوام جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں ان کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ایک عام آدمی چکرا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، کیپٹل ویلیو ٹیکس، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، سینٹرل سیلز ٹیکس، سروس ٹیکس، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، پٹرول لیوی، ایکسائز ڈیوٹی، کسٹمز ڈیوٹی، آکٹرول ٹیکس،TDSٹیکس، ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، گورنمنٹ اسٹیمپ ڈیوٹی، آبیانہ ٹیکس، عشر، زکوٰۃ کٹوتی بذریعہ بینک، Dhal Tax، لوکلCESSٹیکس، PTV لائیز، پارکنگ فیس بلدیہ، کیپٹل گین ٹیکس، واٹر ٹیکس، فلڈ ٹیکس...، پروفیشنل ٹیکس، روڈ ٹیکس، ٹال گیٹ فیس، سیکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس، ایجوکیشن Cess، ویلتھ ٹیکس، Transrent occupancy ٹیکس، Congestion لیوی لازمی کٹوتی، سپر ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس، ایجوکیشن فیس پر 5 فیصد ٹیکس، SECP لیوی، تعلیم جہلم سرچارج ان کے علاوہ اسکول کی بھاری فیس، ڈونیشن، مسجدوں کا چندا اور چوک پر بھکاریوں کی طرف سے وصولیاں ان ٹیکسوں میں شامل نہیں ہیں۔
اب دیکھا یہ جانا چاہیے کہ اگر ایک شخص کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے تو وہ کتنے روپے ٹیکس کی مد میں حکومت کو واپس کر دیتا ہے، اگر اس پر یہ تمام ٹیکس لگا دیے جائیں تو وہ آدھی سے زیادہ تنخواہ واپس کر چکا ہوتا ہے۔ اسی مسئلے کا حل ہمارے پارلیمنٹرین نے نکال لیا ہے جنہوں نے چند روز قبل تنخواہوں میں اضافے کی تحریک متفقہ طور پر منظور کر لی۔ ارکان کے علاوہ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہیں تین گنا اور باقی مراعات دس گنا تک بڑھا لیں، قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں دشمنیاں بھلا کر ایک ہو گئے اور قومی اسمبلی نے تحریک کو منٹوں میں منظور کر لیا۔ ارکان پارلیمنٹ کی بنیادی تنخواہ کو 36 ہزار 200 سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے، دفتری اخراجات 8 ہزار سے ایک لاکھ روپے، حلقے کے دورے کا الاؤنس 70 ہزار روپے جب کہ سفری الاؤنس بڑھا کر 50 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔
باقی تنخواہوں کی تفاصیل بھی حیران کن ہے۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ یہ کس طریقہ کار کے تحت بڑھائی گئی ہیں اور کہاں گیا میرٹ؟ جب کہ اس کے برعکس ٹیچرز، کلرک اور ینگ ڈاکٹرز کو کیا تنخواہ مل رہی ہے؟ اور جو اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکلتا ہے اس وقت جمہوری حکمران انھیں مار مار کر بھگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ موجودہ بجٹ میں 150 ارب کے جو نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ،ان کا 80 فیصد بوجھ اگر غریبوں پر ڈال دیا گیا جیسا کہ پہلے ہو رہا ہے تو اس سے غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ظالمانہ ٹیکس کی مثال پٹرول پر لیا جانے والا ٹیکس ہے۔
ماضی میں حکومت کو جب بھی محصولات میں اضافے کا خیال آتا تھا تو راتوں رات پٹرول پر ٹیکس بڑھا کر کام چلا لیا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق پٹرول پر من مانے ٹیکسوں کو ختم کرکے باقی چیزوں کی طرح صرف 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس رکھا جائے تو اس سے 40-45 فیصد پٹرول سستا ہو جائے گا جو تقریباً 30 روپے فی لٹر قیمت میں کمی کا باعث ہوگا مگر حکومتیں چونکہ امراء کے آگے بے بس ہیں لہٰذا وہ آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے پٹرول پر ٹیکس لگاتے ہیں جس سے راتوں رات ملک میں مہنگائی بڑھتی اور افراط زر ہوتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر پاکستانی تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار روپے کا مقروض ہے اور ملک کا بیرونی قرضہ 70 بلین ڈالر کو عبور کر چکا ہے اور اگر چائنہ پاکستان راہداری منصوبے کا قرضہ شامل کیا جائے تو یہ تقریباً 90 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
ملک بھر کے 35لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں10 فی صد اضافہ ایک مذاق ہے ، جب کہ مزدور و کسان تنظیموں نے بجٹ میں تنخواہوں پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے، جو بے جا نہیں ہے، مزدور کی تنخواہ 13 ہزار سے بڑھا کر 14 ہزار کی گئی ہے، جب کہ شدید مہنگائی کے باعث محنت کش طبقہ خط افلاس سے نیچے گر رہا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری کم ہونے کی نوید حقیقت سے ہم آہنگ نہیں، پورے ملک میں اشیائے خور ونوش مہنگے ہیں، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، غریب مہنگا تعمیراتی میٹیریل خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتے، جب کہ سیمنٹ مزید مہنگا کر دیا گیا، سریا ، ریتی بجری ، سیمنٹ کے بلاکس سمیت لکڑی کے سامان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، عوام بجٹ سے مہنگائی کے نئے طوفان کی آمد سے خوفزدہ ہیں۔ اس بجٹ میں تعلیم کا بجٹ شرمناک حد تک کم ہے۔
صحت کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے، تعلیم و صحت کا بجٹ کل ملا کر بھی پچاس ارب نہیں بنتا جب کہ میں تو کہتا ہوں کہ آپ پوری اسلامی دنیا کا کل تعلیمی بجٹ جمع کر لیں تو امریکا کی کسی ایک بڑی یونیورسٹی کے بجٹ کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ، اسی لیے وہ تعلیم و تحقیق سے ہم سے بہت آگے ہیں۔ خیر اس حوالے سے پھر کسی دن کالم لکھوں گا لیکن آج پاکستان کے حالات انقلاب فرانس سے مختلف نظر نہیں آرہے۔ ہر چیز کا ٹیکس عوام پر تھوپا جا رہا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بھی مختلف معاشی ذاتوں میں تقسیم ہو چکا ہے مگر افسوس ان پر جو آنکھیں بند کر کے سب اچھا کی لوری سنا رہے ہیں۔ یقین کیجیے جب عوام کو حق نہ دیا جائے تو وہ حق چھین لیتے ہیں لہٰذا آنکھیں کھولیے دل بڑا کیجیے اس سے پہلے کے وقت گزر جائے اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے...!!!