رمضان المبارک کے بعد دم دمادم
جولائی اور اگست کے مہینے پاکستان میں سیاسی افراتفری پیدا کرنے کے لیے بہت اہم تصور کیے جاتے ہیں۔
جولائی اور اگست کے مہینے پاکستان میں سیاسی افراتفری پیدا کرنے کے لیے بہت اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ دو سال قبل اِنہی مہینوں میں تحریک ِ انصاف اور علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے باہم متحد ہو کر تبدیلی اور انقلاب کے نام پر لانگ مارچ او ر تحریک کا آغاز کیا تھا جو 126 دنوں کے دھرنے پر محیط ہو کر بالآخر پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد اختتام پذیر ہو گیا۔ طاہر القادری تو بہت پہلے ہی اپنے اُس دھرنے سے واپس ہوگئے جس کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ یہ اپنے مقاصد حاصل کیے بنا ہرگز ختم نہیں ہو گا۔
لیکن خان صاحب اِس کے بعد بھی کافی دنوں تک سرے شام ایک محفل موسیقی سجا کر خود اپنے آپ کو اور اپنے چاہنے والوں کو اقتدار کے قلعے پر کمند ڈالنے کی نوید سنا سنا کر مطمئن کرتے رہے۔ اپنے اِس لانگ مارچ کے بعد بھی وہ حکومت گرانے کی اپنی خواہشوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کوشاںہی رہے اورکہ اپریل 2016 میں پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آ گیا اور اب وہ اِس ایشو کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔ حالانکہ اُنہیں معلوم ہے کہ اِس سارے معاملے کی تحقیقات کوئی اتنا آسان نہیں اور اگر تحقیقات ہو بھی ہو گئیں تو کچھ حاصل نہیں ہونے والا اور وہ 2018 سے پہلے میاں صاحب کی حکومت کو گرا نہیں پائیں گے۔ مگروہ اِس معاملے کو سڑکوں پہ لا کر حکمرانوں کو ٹف ٹائم ضرور دے سکتے ہیں۔
فی الحال وہ رمضان المبارک کی وجہ سے اپنے اِس ایجنڈے پر عمل درآمد سے گریزاں ہیں لیکن عید الفطرکے بعد وہ ضرور اپنا یہ مشن پورا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔ اُدھر پیپلز پارٹی بھی کچھ ایسی ہی سرگرمیوں کا سوچ بچارکر رہی ہے، لٰہذا بہت ممکن وہ اِس بار خان صاحب کی حکومت مخالف ہنگامہ آرائی کے اِس سفر میں شانہ بشانہ شریک ہو گی۔ پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے کہ 2013 کی الیکشن کے بعد وہ پنجاب میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ وہ اگر ایسا نہ کرے تو اگلے انتخابات میں بھی اُسے ویسے ہی نتائج کا سامنا ہو گا اور اُس کا ووٹر مایوس ہو کر پی ٹی آئی یا کسی اور پارٹی کے پلڑے میں جا گرے گا۔ دوسری جانب اُسے یہ بھی خدشات لاحق ہیں کہ تحریک ِانصاف کے چیئرمین کی لیڈر شپ میں کسی تحریک کا چلانا، خود اُس کی اپنی اہمیت او ر مقبولیت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
وہ کسی طرح یہ نہیں چاہے گی کہ پیپلز پارٹی جیسی ایک بڑی اور شاندار ماضی رکھنے والی پارٹی کسی اور کے رحم وکرم پر ہو۔ ویسے بھی اِن دونوں پارٹیوں کے نظریات اور خیالات میں بہت بڑا فرق ہے۔ اُن کا ایک دوسرے کے ساتھ چلنا دنگا فساد اور ہنگامہ آرائی مچانے تک تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن کسی تعمیری اور جمہوری سیاسی حکمتِ عملی کے لیے ہرگز نہیں ہو سکتا ۔خود خان صاحب کے لیے بھی یہ لمحہ بڑے سوالوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے کہ جس پارٹی کو وہ چور اور لٹیرا قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ نون کے ساتھ مک مکا کا طعنہ دیا کرتے تھے اب اچانک کیسے نیک اور پارسا ہو گئی کہ اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے اور وہ خان صاحب کے لیے قابلِ قبول ہو گئی۔
موجودہ سیاسی تناظر میں یہ بات اب بعید از قیاس بھی نہیں رہی کہ ملک کے اندر بے یقینی اور بے اعتمادی کی فضا پیدا کرنے کے اِس مشن میں اب دونوں پارٹیاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اگلے مہینوں میں ایک ساتھ دکھائی دینگی۔ پانامہ لیکس اوراُس کی تحقیقات کے لیے ''ٹی او آرز'' تو ایک بہانہ ہے اصل مقصد حکومت گرانا ہی ہے اور اپنے ان مقاصد اور عزائم کی تکمیل کے لیے یہ دونوں پارٹیاں اب ہم خیال اور ہم سخن بن چکی ہیں۔ وہ اگر ایسا نہ کریں تو پھر اُنہیں شاید ایسا سنہری موقعہ 2018 تک نہیں مل پائے گا اور وہ اگلے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو شکست نہیں دے پائیں گے۔
اُن کی تمام تر کوششیں یہی ہیں کہ موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت کسی طرح پوری نہ کرنے دی جائے خواہ اُس کے لیے اُنہیں آخری حد تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ وہ موجودہ حکومت کا کوئی بڑا اور میگا مالیاتی اسکینڈل تو سامنے نہیں لا سکے البتہ پانامہ لیکس کی روشنی میں پُرانے دور کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں پر فساد ضرور پیدا کر سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر خالصتاً کارکردگی کی بنیاد پر تو اُنہیں اگلے الیکشن میں شکست اور ناکامی دوچار ہونا ہی پڑے گا۔
وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ملک میں حالات آج پہلے کی نسبت بہت اچھے ہیں اور مزید بہتری کی جانب رواں دواں ہے۔ عرصے سے جاری خوف اور دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ کراچی شہر میں بھی امن و امان قائم کیا گیا ہے۔اب وہاں نہ کوئی غیر ضروری ہڑتال ہوتی ہے اور نہ کوئی خون آشام احتجاج اور نہ روزانہ کی بنیاد پر دس بارہ لوگوں کوموت کی نیندسلایا جا رہا ہے۔ ریلوے اور پی آئی اے سمیت کئی اداروں میں خسارے کو کم کر کے منافع بخش بنانے کی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
سڑکوں اور موٹرویز کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ کراچی لاہور موٹرویز پر کام تیزی سے جاری ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت توانائی پیدا کرنے کے پلانٹ بھی لگائے جا رہے ہیں۔ روپے کی قیمت مستحکم رکھنے کے ساتھ ساتھ زرِمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھائے جا رہے ہیں۔ مہنگائی کے ''جن'' کو پچھلے سالوں کی نسبت کسی حد تک قابو میں رکھا جا رہا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ایل این جی کی درآمد کی وجہ سے گیس کے بحران پر بھی قابو پا لیا گیا ہے۔ اب گاڑیوں میں سی این جی بھروانے گیس اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ یہ وہ سب کامیابیاں ہیں جو موجودہ حکومت نے گزشتہ تین سالوں میں انتہائی مشکل حالات کے باوجود حاصل کی ہیں۔اُسے اگر اگلے دو سال اطمینان وسکون سے کام کرنے دیدیا جائے تو وہ یقینا ملک و قوم کو ترقی وخوشحالی کی منزلوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
یہی وہ اصل مسئلہ اور پریشانی ہے جو ہماری اپوزیشن کو مضطرب و بے چین کیے ہوئے ہے۔ اِسی خطرے کے پیشِ نظر وہ ہر حال میں اِس سال رمضان المبارک کے فوراً بعد توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی منصوبہ بندی پرکاربند ہے، مگر پیپلزپارٹی کو یہ خطرہ ضرور لاحق ہے کہ اگر اِس سیاسی کشمکش کی وجہ سے ملک ایک بار پھر غیر جمہوری قوتوں کے قبضے میں چلا گیا تو پھر اگلے دس بارہ سال جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد ہی میں ضایع ہو جائیں گے۔ اِسی لیے وہ اِس خطرناک حد تک جانے سے تذبذب اور پس و پیش کا شکار ہے جب کہ خان صاحب کو اِس خدشہ اور وسوسہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اُن کی موجودہ ساری سیاسی جدوجہد اور تحریک کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ صرف اور صرف موجودہ حکومت کو گرانا مقصود ہے خواہ اِس کے نتیجے میں ملک و قوم پر ایک بار پھر کیوں نہ ہی مارشل لاء مسلط ہو جائے۔
اُن کے ارد گرد جن سیاسی سورماؤں کا گھیرا ہے اُنہیں دراصل جمہوری نظام سوٹ ہی نہیں کرتا۔ اُنہیں غیر جمہوری نظام ہی میں چور دروازے سے ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے کا چسکا پڑچکا ہے۔ اُنہیںجمہوری نظام کی گردن دبوچنے، اُس کی لاش گرانے اور اُس کی نتیجے میں غیرجمہوری نظام کی بے روح اور بے مغزکابینہ میں بیٹھے اقتدار کے مزے لینے کی عادت پڑ چکی ہے۔
وہ ہر حال میں خان صاحب کو اپنی اِس آرزوئے تشنہ کی تکمیل کے لیے اُکساتے رہیں گے۔ اب یہ خان صاحب اور پیپلز پارٹی کے زعماء پر منحصر ہے کہ وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس پانامہ اسکینڈل سے نبرد آزما ہونے کی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں یا پھر پُرتشددہنگامہ آرائی کی راہ اختیار کرتے ہوئے ملک و قوم کو ایک بار پھرآمریت اور ڈکٹیٹر شپ کے اندھیروں میں ڈھکیل دیتے ہیں۔آنے والے مہینے پاکستانی سیاست اور جمہوریت کے لیے بہت اہم اور انتہائی خطرناک اور نازک ہیں۔وطنِ عزیز نے اگر بخیرو عافیت یہ وقت گزار لیا تو پھر اِس فتنہ خو قبیلے کی حسرتوں اور اُمیدوں پر نہ صرف پانی پھر جائے گا بلکہ اُنہیں پھر شاید2018ء کی انتخابات میں ناکامی و نامرادی سے بھی دوچار ہونا پڑے گا۔
لیکن خان صاحب اِس کے بعد بھی کافی دنوں تک سرے شام ایک محفل موسیقی سجا کر خود اپنے آپ کو اور اپنے چاہنے والوں کو اقتدار کے قلعے پر کمند ڈالنے کی نوید سنا سنا کر مطمئن کرتے رہے۔ اپنے اِس لانگ مارچ کے بعد بھی وہ حکومت گرانے کی اپنی خواہشوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کوشاںہی رہے اورکہ اپریل 2016 میں پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آ گیا اور اب وہ اِس ایشو کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔ حالانکہ اُنہیں معلوم ہے کہ اِس سارے معاملے کی تحقیقات کوئی اتنا آسان نہیں اور اگر تحقیقات ہو بھی ہو گئیں تو کچھ حاصل نہیں ہونے والا اور وہ 2018 سے پہلے میاں صاحب کی حکومت کو گرا نہیں پائیں گے۔ مگروہ اِس معاملے کو سڑکوں پہ لا کر حکمرانوں کو ٹف ٹائم ضرور دے سکتے ہیں۔
فی الحال وہ رمضان المبارک کی وجہ سے اپنے اِس ایجنڈے پر عمل درآمد سے گریزاں ہیں لیکن عید الفطرکے بعد وہ ضرور اپنا یہ مشن پورا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔ اُدھر پیپلز پارٹی بھی کچھ ایسی ہی سرگرمیوں کا سوچ بچارکر رہی ہے، لٰہذا بہت ممکن وہ اِس بار خان صاحب کی حکومت مخالف ہنگامہ آرائی کے اِس سفر میں شانہ بشانہ شریک ہو گی۔ پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے کہ 2013 کی الیکشن کے بعد وہ پنجاب میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ وہ اگر ایسا نہ کرے تو اگلے انتخابات میں بھی اُسے ویسے ہی نتائج کا سامنا ہو گا اور اُس کا ووٹر مایوس ہو کر پی ٹی آئی یا کسی اور پارٹی کے پلڑے میں جا گرے گا۔ دوسری جانب اُسے یہ بھی خدشات لاحق ہیں کہ تحریک ِانصاف کے چیئرمین کی لیڈر شپ میں کسی تحریک کا چلانا، خود اُس کی اپنی اہمیت او ر مقبولیت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
وہ کسی طرح یہ نہیں چاہے گی کہ پیپلز پارٹی جیسی ایک بڑی اور شاندار ماضی رکھنے والی پارٹی کسی اور کے رحم وکرم پر ہو۔ ویسے بھی اِن دونوں پارٹیوں کے نظریات اور خیالات میں بہت بڑا فرق ہے۔ اُن کا ایک دوسرے کے ساتھ چلنا دنگا فساد اور ہنگامہ آرائی مچانے تک تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن کسی تعمیری اور جمہوری سیاسی حکمتِ عملی کے لیے ہرگز نہیں ہو سکتا ۔خود خان صاحب کے لیے بھی یہ لمحہ بڑے سوالوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے کہ جس پارٹی کو وہ چور اور لٹیرا قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ نون کے ساتھ مک مکا کا طعنہ دیا کرتے تھے اب اچانک کیسے نیک اور پارسا ہو گئی کہ اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے اور وہ خان صاحب کے لیے قابلِ قبول ہو گئی۔
موجودہ سیاسی تناظر میں یہ بات اب بعید از قیاس بھی نہیں رہی کہ ملک کے اندر بے یقینی اور بے اعتمادی کی فضا پیدا کرنے کے اِس مشن میں اب دونوں پارٹیاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اگلے مہینوں میں ایک ساتھ دکھائی دینگی۔ پانامہ لیکس اوراُس کی تحقیقات کے لیے ''ٹی او آرز'' تو ایک بہانہ ہے اصل مقصد حکومت گرانا ہی ہے اور اپنے ان مقاصد اور عزائم کی تکمیل کے لیے یہ دونوں پارٹیاں اب ہم خیال اور ہم سخن بن چکی ہیں۔ وہ اگر ایسا نہ کریں تو پھر اُنہیں شاید ایسا سنہری موقعہ 2018 تک نہیں مل پائے گا اور وہ اگلے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو شکست نہیں دے پائیں گے۔
اُن کی تمام تر کوششیں یہی ہیں کہ موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت کسی طرح پوری نہ کرنے دی جائے خواہ اُس کے لیے اُنہیں آخری حد تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ وہ موجودہ حکومت کا کوئی بڑا اور میگا مالیاتی اسکینڈل تو سامنے نہیں لا سکے البتہ پانامہ لیکس کی روشنی میں پُرانے دور کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں پر فساد ضرور پیدا کر سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر خالصتاً کارکردگی کی بنیاد پر تو اُنہیں اگلے الیکشن میں شکست اور ناکامی دوچار ہونا ہی پڑے گا۔
وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ملک میں حالات آج پہلے کی نسبت بہت اچھے ہیں اور مزید بہتری کی جانب رواں دواں ہے۔ عرصے سے جاری خوف اور دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ کراچی شہر میں بھی امن و امان قائم کیا گیا ہے۔اب وہاں نہ کوئی غیر ضروری ہڑتال ہوتی ہے اور نہ کوئی خون آشام احتجاج اور نہ روزانہ کی بنیاد پر دس بارہ لوگوں کوموت کی نیندسلایا جا رہا ہے۔ ریلوے اور پی آئی اے سمیت کئی اداروں میں خسارے کو کم کر کے منافع بخش بنانے کی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
سڑکوں اور موٹرویز کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ کراچی لاہور موٹرویز پر کام تیزی سے جاری ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت توانائی پیدا کرنے کے پلانٹ بھی لگائے جا رہے ہیں۔ روپے کی قیمت مستحکم رکھنے کے ساتھ ساتھ زرِمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھائے جا رہے ہیں۔ مہنگائی کے ''جن'' کو پچھلے سالوں کی نسبت کسی حد تک قابو میں رکھا جا رہا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ایل این جی کی درآمد کی وجہ سے گیس کے بحران پر بھی قابو پا لیا گیا ہے۔ اب گاڑیوں میں سی این جی بھروانے گیس اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ یہ وہ سب کامیابیاں ہیں جو موجودہ حکومت نے گزشتہ تین سالوں میں انتہائی مشکل حالات کے باوجود حاصل کی ہیں۔اُسے اگر اگلے دو سال اطمینان وسکون سے کام کرنے دیدیا جائے تو وہ یقینا ملک و قوم کو ترقی وخوشحالی کی منزلوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
یہی وہ اصل مسئلہ اور پریشانی ہے جو ہماری اپوزیشن کو مضطرب و بے چین کیے ہوئے ہے۔ اِسی خطرے کے پیشِ نظر وہ ہر حال میں اِس سال رمضان المبارک کے فوراً بعد توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی منصوبہ بندی پرکاربند ہے، مگر پیپلزپارٹی کو یہ خطرہ ضرور لاحق ہے کہ اگر اِس سیاسی کشمکش کی وجہ سے ملک ایک بار پھر غیر جمہوری قوتوں کے قبضے میں چلا گیا تو پھر اگلے دس بارہ سال جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد ہی میں ضایع ہو جائیں گے۔ اِسی لیے وہ اِس خطرناک حد تک جانے سے تذبذب اور پس و پیش کا شکار ہے جب کہ خان صاحب کو اِس خدشہ اور وسوسہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اُن کی موجودہ ساری سیاسی جدوجہد اور تحریک کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ صرف اور صرف موجودہ حکومت کو گرانا مقصود ہے خواہ اِس کے نتیجے میں ملک و قوم پر ایک بار پھر کیوں نہ ہی مارشل لاء مسلط ہو جائے۔
اُن کے ارد گرد جن سیاسی سورماؤں کا گھیرا ہے اُنہیں دراصل جمہوری نظام سوٹ ہی نہیں کرتا۔ اُنہیں غیر جمہوری نظام ہی میں چور دروازے سے ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے کا چسکا پڑچکا ہے۔ اُنہیںجمہوری نظام کی گردن دبوچنے، اُس کی لاش گرانے اور اُس کی نتیجے میں غیرجمہوری نظام کی بے روح اور بے مغزکابینہ میں بیٹھے اقتدار کے مزے لینے کی عادت پڑ چکی ہے۔
وہ ہر حال میں خان صاحب کو اپنی اِس آرزوئے تشنہ کی تکمیل کے لیے اُکساتے رہیں گے۔ اب یہ خان صاحب اور پیپلز پارٹی کے زعماء پر منحصر ہے کہ وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس پانامہ اسکینڈل سے نبرد آزما ہونے کی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں یا پھر پُرتشددہنگامہ آرائی کی راہ اختیار کرتے ہوئے ملک و قوم کو ایک بار پھرآمریت اور ڈکٹیٹر شپ کے اندھیروں میں ڈھکیل دیتے ہیں۔آنے والے مہینے پاکستانی سیاست اور جمہوریت کے لیے بہت اہم اور انتہائی خطرناک اور نازک ہیں۔وطنِ عزیز نے اگر بخیرو عافیت یہ وقت گزار لیا تو پھر اِس فتنہ خو قبیلے کی حسرتوں اور اُمیدوں پر نہ صرف پانی پھر جائے گا بلکہ اُنہیں پھر شاید2018ء کی انتخابات میں ناکامی و نامرادی سے بھی دوچار ہونا پڑے گا۔