اقتدار کے ایندھن کے کوئلے
بیسویں صدی کے ادیبوں کے برعکس پاکستانی سماج انسان کی ہزاروں اقسام کا تصور پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے
جو لوگ سوال نہیں اٹھاتے وہ منافق ہیں، جو لوگ سوال کر نہیں سکتے وہ احمق ہیں، جن کے ذہن میں سوال ابھرتا نہیں وہ غلام ہیں۔ بنگالی زبان کے ناول نگار شرت چندر لکھتے ہیں ''انسان کیا ہے، یہ بات انسان کو دیکھے بغیر نہیں سمجھی جا سکتی''۔ اونامونو نے کئی قسم کے انسان گنوائے ہیں، مثلاً ارسطو کا بے پروں والا دو پایہ، مانچسٹر اسکول کا معاشی انسان، لینوس کا عقل رکھنے والا انسان، روسو کا معاشرتی عہدنامے والا انسان۔ انسان کیا ہے اور اس کی تقدیر کیا ہے ان دونوں سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی جو شدید پیاس آپ کو سالرو، سارتر، کامیو، سین میں ملے گی، ویسی کسی فلسفی یا ماہر عمرانیات میں نظر نہیں آئے گی۔ 70 سال پہلے انگلستان کے ادبی حلقوں میں اس پورے موضوع کا ایک تجزیہ بہت مقبول ہوا، اس نظریہ کے مطابق بیسوی صدی کے ناول نگار انسان کے تین تصورات پیش کرتے ہیں (1) سیاسی انسان (لارنس نے اس کا نام سماجی انسان رکھا ہے)۔
اس قسم کے انسان کی داخلی زندگی اتنی اہم نہیں ہوتی، جتنی خارجی زندگی۔ اس کی شخصیت اور عمل کا دارومدار سماجی اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے، اگر سماجی نظام بدل دیا جائے تو انسان کو اپنی مرضی کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔ یہ تصور ایچ جی ویلز اور گالزوردی کے یہاں ملتا ہے اور ان کے بعد اشتراکی ادیبوں کے یہاں بھی۔ (2) فطری انسان، یہ ہر قسم کی سماجی اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ہوکر فطری جبلتوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے، اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سماجی ذمے داریوں سے آزاد ہوکر انفرادی اور ذاتی تسکین حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ (3) نامکمل انسان، یہ وہ انسان ہے جس کی اندرونی زندگی خارجی زندگی سے زیادہ اہم ہے اور جس کے اندر کوئی تبدیلی صرف داخلی عمل کے ذریعے واقع ہوسکتی ہے۔ یہ انسان صلاحیتیں تو بہت سی رکھتا ہے لیکن اس میں خامیاں بھی اتنی ہیں کہ وہ مکمل کسی طرح نہیں ہوسکتا، پورا سکون اور پوری خوشی کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔
بیسویں صدی کے ادیبوں کے برعکس پاکستانی سماج انسان کی ہزاروں اقسام کا تصور پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ انسانوں کی یہ ہزاروں اقسام آپ کو پاکستانی سماج میں جابجا دیکھنے اور بھگتنے کو مفت اور باآسانی دستیاب ہیں۔ یہ اقسام آپ کو اقتدار کے ایوانوں، بازاروں، آفس، محلوں، گلیوں، پارلیمنٹ اور گھروں میں وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ دنیا بھر کے ادیب، ناول نگار، فلسفی، ماہر عمرانیات، تاریخ دان دل تھام کر نہیں بلکہ دل پکڑ کر بیٹھیں، کیونکہ ہم آپ کو انسانوں کی وہ اقسام بتانے چلے ہیں جو اس سے پہلے نہ کبھی آپ نے سنی اور نہ دیکھی ہیں۔
چونکہ ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ آپ حضرات انتہائی حساس اور کمزور دل کے واقع ہوئے ہیں اس لیے ہم یہاں صرف بڑی اور موٹی موٹی اقسام کا ہی ذکر خیر کریں گے۔ (1) موقع پرست انسان (2) مطلب پرست انسان (3) خود پرست انسان (4) لالچی انسان (5) وقت پر دھوکا دینے والا انسان (6) اختیار پرست انسان (7) کرپٹ انسان (8) لٹیرے انسان (9) کمیشن ایجنٹ انسان (10) اقتدار پرست انسان (11) بے حس انسان (12) بے شرم انسان (13) جھوٹا انسان (14) بھیڑیا نما انسان (15) بھتہ خور انسان (16) تاحیات اقتدار میں رہنے کا خواہشمند انسان (17) دوسروں کو روندتا، کچلتا انسان۔
ابھی تو ہم نے آپ کو وہ بڑی بڑی اقسام بتائی ہیں جن سے آپ پہلے ناواقف تھے، ان کے علاوہ ہزاروں اور اقسام ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں جن کا فی الحال ذکر نہ کرنا آپ کے لیے سودمند ہوگا۔ معاف کیجئے گا ایک اہم ترین قسم کا تو ذکر کرنا ہی بھول گئے، جن کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ بیس کروڑ ہے اور وہ ہیں عام انسان۔ روتے، کوستے، ماتم کرتے، بیس کروڑ عام انسان۔ جن کا نہ تو کوئی وارث ہے اور نہ ہی والی۔ انسان کی یہ قسم آپ کو پاکستان میں گندی گلیوں، کچرے کے ڈھیروں کے آس پاس کی آبادیوں میں رہتی نظر آئے گی۔ یہ سب پانی، بجلی، گیس، سڑکوں اور تمام بنیادی سہولتوں سے محروم گندگی میں رہنے والے اور گندگی کھانے والے تمام بیماریوں کے جراثیم اپنے اندر پالنے والے انسان ہیں، جو صدیوں سے بھوک، غربت، بیماریوں اور افلاس کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی حیثیت گندی نالیوں کے کیڑوں سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ جن کے پاس باقی انسانوں کی اقسام اس وقت آتی ہیں جب انھیں ان کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے یا ان کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر اور اسے دنیا کو دکھا کر کروڑوں کی امداد لینی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ان کے پاس نہ تو کوئی آتا ہے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کا کوئی سروکار رکھتا ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے ہیں اور ساتھ ان کا تذکرہ اور ان کی فکر صرف اور صرف سیاسی جلسوں، سیمیناروں، مذاکروں میں ہوتا ہے اور جہاں جلسے، سیمینار اور مذاکرہ ختم ہوا وہاں ان کا تذکرہ اور فکر دم توڑ جاتی ہے۔ یہ صرف اور صرف اقتدار کے ایندھن ہیں، یہ صرف کوئلے ہیں۔ بھوکے، ننگے، گندے، لاچار، کالے، پیلے، کپڑوں اور جوتوں سے بے نیاز کوئلے، جو اقتدار کے چولہے جلانے کے کام آتے ہیں، جب کہ ان کے گھروں کے چولہے شاذونادر ہی جلتے ہیں۔
سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کے سب عقل سے محروم مخلوق ہیں، جنھیں نہ تو اپنی اہمیت کا احساس ہے اور نہ ہی اپنی طاقت کا۔ جنھیں نہ تو احساس ہے اور نہ ہی معلوم ہے کہ وہ کتنی بڑی قوت اور طاقت ہیں، جو اگر چاہیں تو پھر کوئی تخت سلامت نہیں رہ سکتا، کوئی تاج محفوظ نہیں رہ سکتا، جو اگر اٹھ کھڑے ہوں تو پھر کوئی ظالم، جابر، غاصب، ملک میں نہیں رہ سکتا، جو اگر چل پڑیں تو پھر ہر طرف زلزلے آجائیں، ایوان کے ایوان کانپنے لگ جائیں، لوگ اپنی جانیں بچانے بھاگ کھڑے ہوں۔ ہر طرف سے معافی معافی کی آوازیں گونج رہی ہوں۔ لیکن افسوس کریں تو کیا کریں، جو اصل طاقت اور قوت ہیں، انھیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے اور کچھ نہیں اگر کرسکتے ہو تو اپنے آپ سے سوال تو کر ہی سکتے ہو۔ لہٰذا آؤ ہم سب اپنے آپ سے اپنے متعلق سوال کر ہی لیتے ہیں۔
اس قسم کے انسان کی داخلی زندگی اتنی اہم نہیں ہوتی، جتنی خارجی زندگی۔ اس کی شخصیت اور عمل کا دارومدار سماجی اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے، اگر سماجی نظام بدل دیا جائے تو انسان کو اپنی مرضی کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔ یہ تصور ایچ جی ویلز اور گالزوردی کے یہاں ملتا ہے اور ان کے بعد اشتراکی ادیبوں کے یہاں بھی۔ (2) فطری انسان، یہ ہر قسم کی سماجی اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ہوکر فطری جبلتوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے، اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سماجی ذمے داریوں سے آزاد ہوکر انفرادی اور ذاتی تسکین حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ (3) نامکمل انسان، یہ وہ انسان ہے جس کی اندرونی زندگی خارجی زندگی سے زیادہ اہم ہے اور جس کے اندر کوئی تبدیلی صرف داخلی عمل کے ذریعے واقع ہوسکتی ہے۔ یہ انسان صلاحیتیں تو بہت سی رکھتا ہے لیکن اس میں خامیاں بھی اتنی ہیں کہ وہ مکمل کسی طرح نہیں ہوسکتا، پورا سکون اور پوری خوشی کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔
بیسویں صدی کے ادیبوں کے برعکس پاکستانی سماج انسان کی ہزاروں اقسام کا تصور پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ انسانوں کی یہ ہزاروں اقسام آپ کو پاکستانی سماج میں جابجا دیکھنے اور بھگتنے کو مفت اور باآسانی دستیاب ہیں۔ یہ اقسام آپ کو اقتدار کے ایوانوں، بازاروں، آفس، محلوں، گلیوں، پارلیمنٹ اور گھروں میں وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ دنیا بھر کے ادیب، ناول نگار، فلسفی، ماہر عمرانیات، تاریخ دان دل تھام کر نہیں بلکہ دل پکڑ کر بیٹھیں، کیونکہ ہم آپ کو انسانوں کی وہ اقسام بتانے چلے ہیں جو اس سے پہلے نہ کبھی آپ نے سنی اور نہ دیکھی ہیں۔
چونکہ ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ آپ حضرات انتہائی حساس اور کمزور دل کے واقع ہوئے ہیں اس لیے ہم یہاں صرف بڑی اور موٹی موٹی اقسام کا ہی ذکر خیر کریں گے۔ (1) موقع پرست انسان (2) مطلب پرست انسان (3) خود پرست انسان (4) لالچی انسان (5) وقت پر دھوکا دینے والا انسان (6) اختیار پرست انسان (7) کرپٹ انسان (8) لٹیرے انسان (9) کمیشن ایجنٹ انسان (10) اقتدار پرست انسان (11) بے حس انسان (12) بے شرم انسان (13) جھوٹا انسان (14) بھیڑیا نما انسان (15) بھتہ خور انسان (16) تاحیات اقتدار میں رہنے کا خواہشمند انسان (17) دوسروں کو روندتا، کچلتا انسان۔
ابھی تو ہم نے آپ کو وہ بڑی بڑی اقسام بتائی ہیں جن سے آپ پہلے ناواقف تھے، ان کے علاوہ ہزاروں اور اقسام ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں جن کا فی الحال ذکر نہ کرنا آپ کے لیے سودمند ہوگا۔ معاف کیجئے گا ایک اہم ترین قسم کا تو ذکر کرنا ہی بھول گئے، جن کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ بیس کروڑ ہے اور وہ ہیں عام انسان۔ روتے، کوستے، ماتم کرتے، بیس کروڑ عام انسان۔ جن کا نہ تو کوئی وارث ہے اور نہ ہی والی۔ انسان کی یہ قسم آپ کو پاکستان میں گندی گلیوں، کچرے کے ڈھیروں کے آس پاس کی آبادیوں میں رہتی نظر آئے گی۔ یہ سب پانی، بجلی، گیس، سڑکوں اور تمام بنیادی سہولتوں سے محروم گندگی میں رہنے والے اور گندگی کھانے والے تمام بیماریوں کے جراثیم اپنے اندر پالنے والے انسان ہیں، جو صدیوں سے بھوک، غربت، بیماریوں اور افلاس کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی حیثیت گندی نالیوں کے کیڑوں سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ جن کے پاس باقی انسانوں کی اقسام اس وقت آتی ہیں جب انھیں ان کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے یا ان کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر اور اسے دنیا کو دکھا کر کروڑوں کی امداد لینی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ان کے پاس نہ تو کوئی آتا ہے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کا کوئی سروکار رکھتا ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے ہیں اور ساتھ ان کا تذکرہ اور ان کی فکر صرف اور صرف سیاسی جلسوں، سیمیناروں، مذاکروں میں ہوتا ہے اور جہاں جلسے، سیمینار اور مذاکرہ ختم ہوا وہاں ان کا تذکرہ اور فکر دم توڑ جاتی ہے۔ یہ صرف اور صرف اقتدار کے ایندھن ہیں، یہ صرف کوئلے ہیں۔ بھوکے، ننگے، گندے، لاچار، کالے، پیلے، کپڑوں اور جوتوں سے بے نیاز کوئلے، جو اقتدار کے چولہے جلانے کے کام آتے ہیں، جب کہ ان کے گھروں کے چولہے شاذونادر ہی جلتے ہیں۔
سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کے سب عقل سے محروم مخلوق ہیں، جنھیں نہ تو اپنی اہمیت کا احساس ہے اور نہ ہی اپنی طاقت کا۔ جنھیں نہ تو احساس ہے اور نہ ہی معلوم ہے کہ وہ کتنی بڑی قوت اور طاقت ہیں، جو اگر چاہیں تو پھر کوئی تخت سلامت نہیں رہ سکتا، کوئی تاج محفوظ نہیں رہ سکتا، جو اگر اٹھ کھڑے ہوں تو پھر کوئی ظالم، جابر، غاصب، ملک میں نہیں رہ سکتا، جو اگر چل پڑیں تو پھر ہر طرف زلزلے آجائیں، ایوان کے ایوان کانپنے لگ جائیں، لوگ اپنی جانیں بچانے بھاگ کھڑے ہوں۔ ہر طرف سے معافی معافی کی آوازیں گونج رہی ہوں۔ لیکن افسوس کریں تو کیا کریں، جو اصل طاقت اور قوت ہیں، انھیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے اور کچھ نہیں اگر کرسکتے ہو تو اپنے آپ سے سوال تو کر ہی سکتے ہو۔ لہٰذا آؤ ہم سب اپنے آپ سے اپنے متعلق سوال کر ہی لیتے ہیں۔