خودمختاری کا احترام دوطرفہ عمل ہے

ایک بار پھر ملک کی خود مختاری کے احترام کا شور مچایا جا رہا ہے۔

ayazbabar@gmail.com

ایک بار پھر ملک کی خود مختاری کے احترام کا شور مچایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت یہ اشارہ ہے کہ امریکا اورافغان حکومت نے ان دہشت گردوں کو پناہ دینے سے روکنے کے لیے پاکستان کو پیار و محبت سے سمجھانے کی پالیسی اب تبدیل کر دی ہے جو پچھلے پندرہ برس سے ان کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اس پالیسی کا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پرکوئی اثر نہ ہوا اور وہ طالبان کو افغانستان میں حملے کرنے کے لیے اپنی سر زمین استعمال کرنے سے نہ روک سکی۔ لگتا ہے نئی پالیسی یہ ہے کہ امریکا ان طالبان رہنماؤںکو نشانہ بنائے گا جو مذاکرات پرآمادہ نہیں ہوں گے۔

افغان طالبان نے پچھلے ایک سال کے دوران افغانستان پر حملوں میں شدت پیدا کر دی تھی۔ ان کی اس حکمت عملی کو سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اس قسم کے تنازعات میں لڑنے والے فریق، مذاکرات کی میز پرکسی تصفیے تک پہنچنے سے قبل لڑائی تیزکر دیتے ہیں۔ اب دوسرا فریق بھی اپنی طاقت ور پوزیشن منوانا چاہتا ہے اورطالبان کو باورکرانا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر محفوظ ٹھکانوں سے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے۔

ملا منصور نے ایک متنازع عمل کے دوران امیر منتخب ہونے کے بعد اپنے موقف کو سخت کر لیا تھا۔ اگرچہ اس سے قبل انھوں نے چار فریقی مذاکراتی عمل کے بارے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مثبت اشارے دیے تھے، مگر جب امیر منتخب ہو گئے تو انھوں نے خود کو اپنے ساتھیوں کی نظر میں ایک ایسا عسکری لیڈر ثابت کرنا چاہا جو ہر حال میں جنگ جاری رکھے گا۔

پاکستان کہتا رہا ہے کہ افغان طالبان پر اس کا بہت کم اثرورسوخ ہے اور وہ انھیں کنٹرول نہیں کرتا۔ اگر یہ درست ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر طالبان قیادت مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے اپنے مہربانوں کی بات نہیں سن رہی، جو خود پاکستان کے مفاد میں بھی ہے تو پھر ہم ابھی تک کیوں ان کی حمایت کرتے ہیں؟ پاکستان کو طالبان پر یہ واضح کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے تھاکہ ہم افغانستان میں ان کی مہم جوئی کی وجہ سے اپنے عوام کے لیے مسلسل خطرہ پیدا نہیں کر سکتے۔ اگر انھیں واپس افغانستان نہیں بھیجاجا سکتا تھا تو پاکستان کو ان کی نقل و حرکت محدود کر دینی چاہیے تھی۔ پاکستان کو ان کی فنڈنگ کے ذرایع بند کر د ینے چاہیے تھے۔

پاکستان نے اس ضمن میں کیوں کچھ نہیں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ابھی تک اس ناکام خطرناک پالیسی پر یقین رکھے ہوئے ہے کہ وہ اِن غیر ریاستی ادا کاروں کی مدد سے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھا سکتی ہے۔ اس سوچ سے پاکستان پوری دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا اور یہ بدنامی بھی حصے میں آئے گی کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنی خارجی سیکیورٹی کے لیے دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے۔


مسئلہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اُن بین الاقوامی قوانین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی بجائے افغانستان میں غیر ریاستی اداکاروں کی مداخلت کی سرپرستی کرتی رہی ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے عدم تحفظ کے احساس اور اپنی تنگ نظر سوچ کی وجہ سے خود کو افغانستان کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ افغانستان کو ایک ایسا ملک بنانے کی خواہش نے جو بھارت کے ہر جذبہ خیرسگالی کو دھتکار دے، ہمیں اس حد تک ناپسندیدہ بنا دیا ہے کہ کابل کی زیادہ تر حکومتیں اسلام آباد سے نا خوش رہی ہیں۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے خلاف کوئی جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی مگر وہ افغان اور سوویت فوج کے خلاف مزاحمت میں کامیاب رہی ہے اور اس نے بھارتی فوج کو کشمیر میں بری طرح الجھا رکھا ہے۔ ہمارے کوتاہ اندیش قوم پرست اسے ایک بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی پالیسی نے امریکا اور نیٹو فورسز کو ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے اور بھارتیوں کو بلوچستان میں قوم پرستانہ شورش کو بھڑکانے کا موقع دیا ہے۔ اگر ہم ڈرون حملوں کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن عسکریت پسندوں کی طرف سے اپنی سرزمین کا استعمال روکنا چاہیے جو افغانستان میں حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان مسائل کھڑے کرنے والے ان لوگوں کو زندہ رکھ کر ہی اس خطے میں بھارتی اثرونفوذ کو روک سکتا ہے ۔اس قسم کی دلیل دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی تنازع میں چھوٹے اورکمزور فریقوں کے لیے بہترین راستہ، اُن قوانین کو فعال کرنا ہوتا ہے جو ان کے مفاد کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔ ان قوانین کی چھوٹے ملکوں کو ضرورت ہوتی ہے اور اگر یہ ملک ان قوانین کی خلاف ورزی کریں تو پھر دوسرے فریق کو طاقت استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔

ہمارا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہییں لیکن ان مقامی اور افغان دہشت گردوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے جو کھلے عام دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں حملے کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ دنیا اس بات کو نہیں مانتی کہ ہم ان اصل طالبان سے لڑ رہے ہیں جو افغانستان میں مداخلت کر رہے ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہم افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور اپنی شمالی سرحدوں کے قریب ان کی سرگرمیوں کے بارے میں پریشان ہیں۔

ہم نے کبھی اس پریشانی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور بھارتی اثرورسوخ کو روکنے کے لیے ہم اپنے ان پسندیدہ دوستوں کوخوش رکھتے ہیں۔ بھارتی ہماری سرحدوں کے قریب سڑکیں تعمیر کر رہے ہیں اور ہمارے جنگی حکمت عملی کے منصوبہ سازوں کے لیے یہ بات پریشان کن ہے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ہمیں یہ سڑکیں اس لیے خطرناک لگتی ہیں کہ ہم صرف جنگ کے حوالے سے سوچتے ہیں۔ ہم نے کبھی پر امن تعلقات کے بارے میں سوچنے کی زحمت نہیں کی جن میں ہم ان سڑکوں کو، پاکستان کو وسطیٰ ایشیائی منڈیوں سے جوڑنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

ہم نے کبھی اس بارے میں بھی نہیں سوچا کہ اگر ہم بھارتی اشیاء کو سڑک کے راستے پاکستان سے گزرنے دیں تو ہم کتنا پیسہ کما سکتے ہیں، مگر یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم فوجی تناظر میں سوچنا چھوڑ دیں اور اس خطے میں علاقائی اقتصادی تعاون شروع کرنے کے بارے سوچیں۔ ایک بات یقینی ہے کہ ہم اپنی پسند کے مطابق نہیں لڑ سکتے البتہ امن اور اس کے نتیجے میں معاشی ترقی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ امریکا، افغانستان اور بھارت نے بھی پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کی مدد شروع کر دی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے سبق ہے کہ ہم اپنے پڑوسی ملکوں میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی حمایت نہیں کر سکتے اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی وہی رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ ہماری تمام بات چیت دہشت گردی کے مسئلے کے گرد گھومے گی۔ یہ مناسب وقت ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ دہشت گردی کے مخصوص معاملے پر، اس عہد کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کیے جائیں کہ یہ ممالک دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کی بات سننے اور ایک دوسرے ملک میں خفیہ طریقے سے دہشت گردی کو فروغ دینے کی بجائے آپس میں تعاون کریں گے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ہماری خود مختاری کا احترام اس وقت کیا جائے گا جب ہم اپنے پڑوسی ملکوں کی خود مختاری کا احترام کریں گے۔
Load Next Story