اچھا شغل

عدالت اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹی ہوئی ہے کہ وہ آئین کی تشریح کرتی رہے گی اور متعین کرتی رہے گی کہ کس کا کیا دائرہ ہے۔


Abbas Athar November 22, 2012
[email protected]

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیخلاف رٹ کی سماعت ٹل گئی اور یوں ایک اور ''ڈی ڈے'' طلوع ہوتے ہوتے رہ گیا جس سے بہت سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں۔

ہمارے ہاں لڑائی مارکٹائی کا کلچر اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ جس ایشو سے تصادم کی بو نہ آئے، اُسے توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھا جاتا۔ بہرحال یہ بھی ایک سچائی ہے کہ جہاں بہت سے ایشو ہوائی ہوتے ہیں، وہاں کچھ ٹھوس بھی ہوتے ہیں اور یہ ایشو بھی اپنی اصل میں بہت ٹھوس ہے اور فی الحال اس کے ممکنہ نتائج بنچ ٹوٹنے کی وجہ سے ٹلے ہیں، ان سے مستقل نجات نہیں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ محاذ آرائی کی ایک نئی شکل بہرحال ظاہر ہو گئی۔

صدر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو ججوں کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن نہیں کیا جو جنرل کیانی کیخلاف رٹ کی سماعت کر رہے تھے۔ اس طرح یہ بنچ ٹوٹ گیا۔ نوٹیفکیشن نہ کرنے کی کارروائی کو ایک وکیل نے چیلنج کر دیا۔ جس کی سماعت کے لیے بنچ بھی بن گیا ہے اور اس نے سماعت بھی شروع کر دی۔ سماعت کرنے والے ججوں نے کہا کہ صدر کو نوٹیفکیشن جاری کرنا ہی ہو گا اس لیے کہ ان کے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اب اس کیس کی سماعت دو روز کیلیے ملتوی ہوئی ہے۔

جب دوبارہ سماعت شروع ہو گی تو قیاس ہے کہ تیز رفتاری سے فیصلہ سنا دیا جائے گا جو حرف آخر ہو گا، صدر کو یا تو نوٹیفکیشن جاری کرنا ہو گا یا عدالتی حکم کے مطابق ان ججوں کی تعیناتی ہو جائے گی اور پھر یہ بنچ اصل خطرناک رٹ کی سماعت کرے گا جس سے اندازہ ہو گا کہ تصادم کے اس نئے دور کی شدت کتنی ہے اور یہ کتنا سنگین ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ سماعت مکمل ہونے کی نوبت ہی نہ آ سکے۔

وہ یاد دلاتے ہیں جنرل مشرف کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کیخلاف رٹ کی سماعت ہو رہی تھی اور ابھی فیصلہ سنائے جانے میں کچھ روز باقی تھے کہ جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگا دی۔ ایسے کسی امکان کو مسترد کرنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ تب حالات اور تھے اب کلہاڑا چلانا ممکنات میں شامل نہیں۔ لیکن ہمارے ملک کی تاریخ غیر متوقع وقت پر غیر متوقع واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ایوب خان کی حکومت کا اختتام ایسے موقع پر ہوا جب گول میز کانفرنس کے بعد یہ یقین تھا کہ وہ استعفیٰ دے کر نئے الیکشن کا اعلان کریں گے۔ تحریک تھم گئی تھی اور بات چیت کے ذریعے معاملہ سلجھ گیا تھا لیکن یحییٰ خان نے اچانک ہی صدارتی محل پر قبضہ کر لیا۔ بھٹو صاحب کیخلاف پی این اے کی تحریک ایک سمجھوتے کے تحت ختم ہو رہی تھی۔ اگلی صبح اعلان ہونا تھا لیکن آدھی رات کے بعد جنرل ضیا نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح کے دوسرے واقعات بھی ہیں۔

بہرحال، میرا سوال یہ ہے کہ جن خدشات کو میں یا میرے جیسے دوسرے ''عام آدمی'' محسوس کر رہے ہیں کیا عدالت کو ان کا علم نہیں۔ عدالت کس لیے یہ یقین رکھتی ہے کہ وہ اسی طرح رٹ پٹیشنوں کی سماعت اور آئین کی تشریح کرتی رہے گی اور کوئی انہونی نہیں ہو گی۔ کسی انہونی کی صورت میں سب سے پہلا وار عدلیہ پر ہو گا۔ جتنا جی چاہے اتنی بار یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ نظریہ ضرورت ختم ہو چکا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین اتنی زیادہ زرخیز ہے کہ یہاں کسی نئی صورتحال کو جواز مہیا کرنے والے حضرات کسی نہ کسی جگہ سے برآمد کر ہی لیے جاتے ہیں۔

عدالت اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹی ہوئی ہے کہ وہ آئین کی تشریح کرتی رہے گی اور متعین کرتی رہے گی کہ کس کا کیا دائرہ ہے۔ دوسری طرف فوج کا موقف بیان کرنے والے (ظاہر ہے کہ موقف بیان کرنے والے سویلین ہی ہیں کیونکہ فوج اس طرح کے امور پر بیانات نہیں دیا کرتی) یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ رٹ کی سماعت سے فوج کا وقار خطرے میں پڑسکتا ہے اور اُسے بچانے کیلیے فوج کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جنرل کیانی کی مدت میں تین سال کی توسیع دو سال پہلے ہوئی تھی اور اس وقت اپوزیشن لیڈر نے بہت نرم الفاظ میں اس پر تنقید کی تھی جس کے بعد معاملہ ختم ہو گیا تھا۔ یوں اس توسیع کو گویا سب نے قبول کر لیا تھا۔

اگر یہ توسیع غیر آئینی تھی تو رٹ اسی زمانے میں دائر ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب اتنی تاخیر سے رٹ دائر ہونے کی وجہ سے معاملے میں پر اسراریت کا عنصر خود بخود داخل ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں وکیلوں کی پریس کانفرنس بھی معنی خیز نظر آتی ہے جس میں جنرل کیانی کے بھائیوں کی مبینہ کرپشن کو بنیاد بنا کر ان سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس مبینہ کرپشن کی کہانی طویل عرصہ سے اسی طرح سینہ بہ سینہ چل رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اسے بھی ایسے موقع پر آخر کیوں اٹھایا گیا جب انتخابات سر پر آ گئے ہیں۔

کیا کوئی ''ملی بھگت'' ہے یا کوئی تیسرا ہاتھ فریقین کو تصادم کے اس مرحلے میں لے جانا چاہتا ہے جس کے بطن سے اس عبوری جن کی پیدائش ہو گی جو تین سال تک ملک پر حکومت کرے گا اور سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ کو کیفر کردار تک پہنچائے گا اور تین سال کے بعد ایک نئی صاف شفاف قیادت کو ملک کی باگ ڈور سونپ کر پھر سے بوتل میں بند ہو جائے گا۔

خود کو باخبر کہنے والے کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کے سربراہ چیف جسٹس ہوں گے۔ اِس بار ایک سوال کو چھوڑیے کہ وہ آئین کی کس شق کے تحت نئے عہدے پر فائز ہوں گے۔ صرف اس موٹے سوال پر غور کیجیے کہ اگر عدلیہ اور فوج ایک دوسرے سے متصادم ہوں تو اُس کا یہ نتیجہ کیسے نکلے گا کہ وجود میں آنے والی نئی حکومت کی سربراہی عدلیہ کے پاس آ جائے گی؟ ایک ایسی صورتحال میں جب ہر معمے کے حل میں سے ایک اور معمہ نکلتا ہو' معمے بنانا اورتوڑنا سب سے اچھا شغل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں