افطار پارٹیوں کا نمودو نمائش پر مبنی کلچر
مجھے یاد ہے کہ میری والدہ کچھ پکوڑے اور کجھوروں کے ساتھ ہی کھانا کھا کر روزہ کھولتی تھیں۔
یہ معاشرہ بنیادی طور پر اپنے سیاسی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی معاملات میں بڑی تیزی سے نمود و نمائش کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ اسلام نہ صرف عاجزی کا درس دیتا ہے بلکہ سادگی کا کلچر بھی اس کا اصل حسن ہے۔ رمضان المبارک میں عمومی طور پر خاندان کی اجتماعیت کا کلچر بھی خوب دیکھنے کو ملتا تھا۔ سب گھر میں روزے سے پہلے اکٹھے ہوتے اور سادہ انداز میں روزے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ یہ اجتماعی عمل گھر اور خاندان کی برکت کا بھی باعث بنتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ میری والدہ کچھ پکوڑے اور کجھوروں کے ساتھ ہی کھانا کھا کر روزہ کھولتی تھیں۔ اسی طرح محلہ کی سطح پر ایک دوسرے کے گھروں اور بالخصوص ضرورت مند لوگوں تک سحری و افطاری کا سامان پہنچانے کے عمل کو بھی زندہ رکھا جاتا تھا۔ والدہ محترمہ محلہ کے کم از کم تین چار لوگوں کا روزہ رکھوا کر یا کھلوا کر خود روزہ رکھتیں اور کھولتی تھیں۔ ان کے بقول اپنے ارد گرد ضرورت مند لوگوں کو نظر انداز کر کے روزہ رکھنا یا کھولنا عبادت نہیں۔ لیکن اب سحری اور افطاری کا عمل بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔
شہروں میں یہ معاملات گھروں سے نکل کر بڑے بڑے ہوٹلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں محض اب افطار کا ہی اہتمام نہیں ہوتا بلکہ سحری کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ بعض ہوٹلوں اور ریسٹورنٹوں میں لوگوں کو اپنی باری کے لیے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک ہزار سے دو ہزار تک افطار ڈنر اور سات سو سے بارہ سو روپے تک سحر کے انتظام میں فی فرد خرچہ ہوتا ہے۔سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی قیادتیں، کاروباری طبقہ، دولت مند افراد جو بڑی رقم خرچ کر سکتے ہیں بڑے ہوٹلوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کر کے نہ صرف افطار و ڈنر دیتے ہیں بلکہ دوسروں پر اپنی شان و شوکت بھی جماتے ہیں۔ زیادہ آمدنی رکھنے والی عورتیں بھی اپنے خاوندوں کو مجبور کرتی ہیں کہ افطار کا اہتمام کسی بڑے ہوٹل میں بچوں کے ساتھ کیا جائے۔ ہوٹلوں میں بکنگ کی بہتات ظاہر کرتی ہے کہ یہ نمود و نمائش پر مبنی کلچر بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
جس بے دردی سے ہوٹلوں میں کھانا برباد یا ضایع کیا جاتا ہے اس کی مثالیں الگ ہیں۔ بھاری افطاری کے بعد ڈنر کا معاملہ بھی عجیب ہے فوری طور پر رات کا کھانا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن یہاں کیونکہ پیسے خرچ کیے جاتے ہیں تو اپنی استعداد سے بھی بڑھ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو محدود وسائل کے باعث خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔
ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو روزہ تو رکھ لیتے ہیں لیکن ان کے پاس کھانے کے لیے بنیادی خوراک کا انتظام بھی نہیں ہوتا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایسے لوگوں کی طرف زیادہ توجہ دیں اور ان کو روزہ یا افطار کروا کر زیادہ اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگ آپ کے محلہ سمیت اردگرد بہت موجود ہیں، لیکن وہ ہماری نمود و نمائش کی زندگی میں ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو افطار پارٹیوں کو اپنی کاروباری دنیا کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بلایا جاتا ہے جو ان کے کاروبار سمیت روزمرہ کے معاملات میں فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ ان افطاری کے پروگراموں کو سماجی رتبے کے طور پر استعمال کرنے کی روش بھی معاشرے میں خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے، جو ہم سب کے لیے لحمہ فکریہ ہے۔ جس تیزی سے سماجی رویوں میں خرابیاں جنم لے رہی ہیں اس نے ہماری مذہبی تقریبات کو بھی ایک فیشن کی دنیا میں بدل ڈالا ہے ۔
آپ ضرور مہمانوں کو افطار میں دعوت دیں لیکن اس میں معاملات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر یا نمود و نمائش کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اس میں سادگی کے کلچر کو عام کریں۔ بہت سے لوگ افطار پارٹی یا ڈنر میں کسی اہم اسلامی مہمان کو طلب کرکے ان سے درس قرآن سمیت رمضان یا روزہ کی اہمیت پر بات کرواتے ہیں ۔ لیکن دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ ایسی تقریبات میں لوگ افطاری سے چند منٹ قبل آتے ہیں اور درس قرآن سننے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ مسئلہ اچھی ، اصلاحی اور مذہبی باتیں سننے کا نہیں بلکہ محض افطار ڈنر کا ہوتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اصلاح کا عمل کیسے شروع ہوگا؟ اس کے لیے ہمارے بالادست طبقات کو خود اچھی مثالیں پیش کرکے معاشرے کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ روزوں کے معاملے میں نمود ونمائش کے کلچر سے اجتناب کریں۔ ایسی مجالس یا افطار ڈنر کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے جس کا مقصد اپنی سیاسی دکانداری کو چمکانا ہوتا ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی قیادت معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی ضمانت ہوتی ہیں ۔ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ سیاست بھی کریں لیکن معاشرے میں اصلاح احوال کے حوالے سے اپنا کردار بھی ادا کرکے لوگوں میں یہ شعور دیں کہ ہمیں فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے حقیقی معاملات جن کا براہ راست تعلق اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے، پر توجہ دی جائے ۔