بجٹ رمضان اور عوام
ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ تعلیمی ادارے مرغیوں کے ڈربے بن گئے ہیں
NEW YORK:
بجٹ ہر ملک میں ہر سال پیش کیا جاتا ہے، بجٹ ملکوں کا ہی نہیں ہوتا بلکہ سلیقہ مند گھرانوں میں بھی بجٹنگ کی جاتی ہے۔ بجٹ کا مقصد آنے والے ایک سال کی آمدنی اور خرچ کو اس ترتیب اور مہارت سے پیش کرنا ہوتا ہے کہ آمدنی اور خرچ میں توازن رہے۔ بجٹ کا خاص مقصد ملک کے عوام کو ایسی سہولتیں فراہم کرنا ہوتا ہے جن سے عوام کی زندگی آسان ہوجائے۔
ترقی یافتہ ملکوں کے بجٹ میں تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ عوام کو آنے والے ایک سال میں ممکنہ سہولتیں فراہم کی جائیں، اس بات کا خیال ترقی یافتہ ملکوں میں رکھنا ضروری اس لیے ہوتا ہے کہ عوام اپنے نمایندوں کو اسی مقصد کے لیے منتخب کرتے ہیں کہ وہ قانون ساز اداروں میں جاکر ایسے قوانین بنائیں جو ان کی زندگی میں آسانیاں لاسکیں اگر ان ملکوں میں عوام کے منتخب نمایندے عوامی توقعات پر پورے نہیں اترتے تو عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
پسماندہ ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام کو جمہوریت کا صرف اتنا مطلب اور مقصد معلوم ہے کہ انتخابات کے موقعے پر انھیں پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنا ووٹ ان نمایندوں کو دینا ہے جو ان کے طبقاتی دشمن ہیں۔ جب ایسے عوام دشمن نمایندے قانون ساز اداروں میں جاتے ہیں تو بجٹ کے حوالے سے بس انھیں یہ فکر رہتی ہے کہ انھیں بجٹ کی چیر پھاڑ کے کتنے مواقعے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ پسماندہ ملکوں میں ترقیات کے نام پر جو بھاری رقوم رکھی جاتی ہیں وہی رقوم دراصل ہمارے محترم نمایندوں کا من بھاتا کھاجا ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر ہر ایم این اے، ہر ایم پی اے کو ''ترقیات'' کے کاموں کے حوالے سے ہر سال کروڑوں روپے فراہم کیے جاتے ہیں اور اس ترقیاتی فنڈز کا جو حشر ہوتا ہے وہ ایک ایسا اوپن سیکریٹ ہے جس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ اس لوٹ مار کی آزادی کی وجہ یہ ہے کہ عوام کے ہاتھ سیاسی پسماندگی کی وجہ سے اس طرح مفلوج بن کر رہ گئے ہیں کہ وہ لٹیروں کے گریبانوں کی طرف اٹھنے ہی سے معذور ہیں۔
ہماری سر سے پاؤں تک کرپٹ حکومتوں کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہتا ہے کہ بجٹ میں عوام کی سہولتوں کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہے۔ عوام کی سہولتیں ہیں کیا؟ سب سے پہلے مہنگائی سے نجات عوام کے لیے ترجیحی سہولت ہے۔ ہمارے وزیراعظم جو ہر جملہ ادا کرنے سے پہلے ''اللہ کے فضل سے'' کا جملہ ادا کرتے ہیں یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ''ان کی حکومت نے مہنگائی کی کمر توڑ دی ہے''۔ لیکن دیکھا یہی جا رہا ہے کہ مہنگائی کی کمر سلامت بھی ہے اور پھل پھول بھی رہی ہے لیکن عوام کی کمر کو مہنگائی نے اس قدر خمیدہ کردیا ہے کہ عوام اب چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو رہے ہیں۔ عوام کا دوسرا اہم مسئلہ بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان ماسٹرز کی ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر گھوم رہے ہیں لیکن انھیں کسی سرکاری یا نجی دفتر میں چپراسی کی نوکری بھی نہیں مل رہی ہے۔
ہر مہذب ملک میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ اگر ایک سال میں5 ہزار گریجویٹ 5 ہزار ماسٹر ڈگری ہولڈر پیدا ہو رہے ہیں تو ان کے تعلیمی اداروں سے باہر آنے سے پہلے سرکاری اور نجی شعبوں میں 5-5 ہزار نوکریوں کا اہتمام کردیا جائے تاکہ انھیں جاب ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہو۔ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کی پھیلائی ہوئی بے روزگاری میں یہ روایتی اہتمام مشکل ہوتا جا رہا ہے اور بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان ملکوں میں بے روزگاروں کو بے روزگاری الاؤنس دے کر ان کی اشک شوئی کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ تعلیمی ادارے مرغیوں کے ڈربے بن گئے ہیں اور ہر سال ان ڈربوں سے لاکھوں نوجوان مرغیوں کی طرح باہر آتے ہیں اور سرکاری اور نجی اداروں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں لیکن ہر جگہ ان کے سامنے ''نو ویکنسی'' کا بورڈ کھڑا نظر آتا ہے۔ جن ملکوں میں حکومتیں نوکریاں بیچنے کا کوٹہ سیاسی جماعتوں کو دیتی ہیں اور منتخب نمایندے ہزاروں نوکریاں بیچ کر کروڑوں روپے کماتے ہوں اس ملک میں مستحق بے روزگاروں کا حشر کیا ہوگا؟
ویسے تو ہمارے ملک میں عوام سر سے پیر تک سنگین مسائل کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن ہم نے یہاں صرف دو بنیادی مسائل مہنگائی اور بے روزگاری کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ غریب عوام کی زندگی ان ہی محوروں پر گھوم رہی ہے۔ ہمارے علماء ہمارے ملک کو فخر سے اسلام کا قلعہ کہتے ہیں اور اس اسلام کے قلعے کا عالم یہ ہے کہ تاجر برادری رمضان کوکمائی کا مہینہ کہتی ہے اور مہنگائی کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ مومن کی زبان پر ہوتا ہے ''جس کے پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو بے چارہ وہ غریب روزہ نہ کھائے تو پھر اورکیا کرے؟''
غریب طبقات افطار کے لیے جو سب سے بڑا اہتمام کرتے ہیں وہ ہوتا ہے پکوڑوں کا اہتمام اور اب بیسن جو عموماً 80-70 روپے کلو فروخت ہوتا تھا اب 250روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، پھل وغیرہ تو غریب کے لیے خواب کی باتیں بن گئے ہیں، یہ ہے ہمارے بجٹ اور رمضان کی کرامات۔ ہم بجٹ کے اعداد وشمار پر اس لیے نہیں جائیں گے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی ماہرین کا اعداد و شمار کا شاطرانہ کھیل ہے البتہ اتنا ضرور کریں گے کہ پسماندہ ملکوں میں پاکستان وہ واحد ملک ہے۔
جس کا بجٹ عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کی مرضی اور مفادات کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے جس کا اولین مقصد قرضوں اور سود کی وصولی ہوتا ہے اور سروسز اور اشیائے صرف وغیرہ پر جو ٹیکس لگائے جاتے ہیں، ان میں عوامی مفادات کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہوتا البتہ عالمی مالیاتی اداروں کے قرض اورسود کی وصولی یقینی بنائی جاتی ہے۔ یہی بجٹ کا اولین مقصد ہوتا ہے باقی رہے کھربوں کے ترقیاتی منصوبے سو وہ ہماری ایلیٹ کے لیے ایسی چراگاہیں ہیں جہاں وہ آنے والے ایک سال تک نہ صرف بے فکری سے چرائی کرتے ہیں بلکہ جگالی بھی کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں اس ملک کے 20کروڑ غریب عوام کے لیے بجٹ اور رمضان کیسی سوغاتیں ہوں گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔