چاہ بہار منصوبہ بھارت کے لیے گھاٹے کا سودا

ایران کی غیر معمولی ترقی کا مطلب ایران کی فوجی طاقت میں اضافہ ہے


عثمان دموہی June 08, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیرکے لیے بھارت اور ایران کے درمیان معاہدے سے بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے حلقوں میں زبردست جشن کا سماں ہے۔ اسے نریندر مودی کا عظیم کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا جو ہمیشہ سے پاکستان مخالفت میں اپنی حکومت کی پالیسیوں کے ساتھ چلتا ہے اس میں چاہ بہار بندرگاہ کے حوالے سے ایک نیا جوش اور ولولہ دکھائی دے رہا ہے اور وہ روز ہی چاہ بہار منصوبے کی تعریف میں خبریں دے رہا ہے ساتھ ہی گوادر بندرگاہ منصوبے پر تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔

مودی کو چاہ بہار کی تعمیر کے معطل کام کو اس لیے آگے بڑھانا پڑا کیونکہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر و ترقی اور پھر اسے چین کے حوالے کیے جانے سے ان کی راتوں کی نیندیں اڑ چکی تھیں وہ کسی طرح گوادر کا توڑ نکالنا چاہتے تھے مگر چاہ بہارگوادر کا توڑ ہو ہی نہیں سکتا اس لیے کہ جو قدرتی خصوصیات اور فوائد اس بندرگاہ کو حاصل ہیں وہ چاہ بہار کو نہیں۔ بہرحال چین کی برابری کرنے اور پاکستان مخالفت میں اپنے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر پچاس کروڑ ڈالر کی رقم سے اس منصوبے کو مکمل کرنے کا معاہدہ کر لیا گیا ہے۔

بھارت اس منصوبے کے ذریعے اپنے مال تجارت کو ایران سے گزار کر افغانستان اور آگے وسطی ایشیائی ریاستوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ چاہ بہار منصوبے کو شروع کرنے سے قبل مودی پاکستان سے واہگہ کے راستے تجارتی راہداری حاصل کرنا چاہتے تھے مگر پاکستان کے لیے بھارت کو یہ سہولت فراہم کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا کیونکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ پہلے ہی پاکستان میں دہشت گردی میں مصروف ہیں پھر بھارت کو راہداری کی اجازت دینے سے تو دہشت گردی پر قابو پانا مشکل ہو جاتا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بھارتی حکمراں اس وقت تو ضرور چاہ بہار منصوبے کو اپنے لیے گیم چینجر خیال کر رہے ہیں، مگر یہ بھارت کے لیے سراسر خسارے کا سودا ثابت ہونے والا ہے۔ اول تو چاہ بہار بھارت کی اپنی سرزمین پر واقع نہیں ہے یہ ایک پرائی بندرگاہ ہے۔ ایران جب چاہے اسے بھارت کے لیے بند کر سکتا ہے۔ بیشک دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ موجود ہے مگر حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اس وقت تو بھارتی حکمرانوں کی خوش فہمی مایوسی میں بدل جائے گی جب طالبان ان کے مال تجارت کو افغانستان کی حدود میں داخل ہی نہیں ہونے دیں گے۔

ایران تو ضرور بھارتی مال کو اپنی حدود سے بخیریت نکالنے کی کوشش کر سکتا ہے مگر افغانستان میں طالبان سے اسے کون بچائے گا۔ چند سال قبل کراچی سے کابل جانے والے امریکی کنٹینروں کو طالبان نے افغانستان پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں تباہ کر دیا تھا ایسے حالات میں بھارت کیا کرے گا؟ پھر بھارت اپنا مال ممبئی یا گجرات سے پہلے چاہ بہار بھیجے گا وہاں تک کا بحری جہازوں کا کرایہ پھر آگے چاہ بہار سے کابل تک کے طویل راستے کا کرایہ اس طرح یہ سامان کابل پہنچتے پہنچتے اتنا مہنگا ہو جائے گا کہ غریب افغانوں کی قوت خرید سے باہر ہو جائے گا۔ جہاں تک وسطیٰ ایشیائی ممالک کی منڈیوں کا تعلق ہے وہاں پہلے سے ہی چینی اور روسی مال کی ریل پیل ہے جو نہایت ارزاں ہے۔

چنانچہ وہاں بھارت کی مہنگی اشیا کو کون خریدے گا؟ ابھی بھارت نے چاہ بہار کی تعمیر کا صرف معاہدہ کیا ہے اس کی مکمل تعمیر اور ریلوے لائن بچھانے میں کئی سال لگیں گے اس وقت تک ایران کے امریکا کے ساتھ تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ بھی ایک اہم سوال ہے بھارت کی ایران میں اس سرمایہ کاری پر امریکا نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے مگر وہ اپنی اسرائیل پالیسی کے تحت اس سے خوش نہیں ہو گا کیونکہ ایران اسرائیل کے خلاف ہے۔

ایران کی غیر معمولی ترقی کا مطلب ایران کی فوجی طاقت میں اضافہ ہے جسے اسرائیل کے حوالے سے امریکا کبھی بھی پسند نہیں کرے گا۔ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مسئلے پر پرامن معاہدہ ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ جاری ہے خامنہ ای اب بھی امریکا اور یورپی ممالک کے خلاف سخت بیانات دے رہے ہیں وہ اب بھی انھیں اپنا دشمن قرار دے رہے ہیں یہ صورتحال ایران پر کئی پابندیاں لگنے کا اشارہ کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات چاہ بہار منصوبے کے حق میں نہیں ہو سکتے وہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ ان کی سرزمین کے قریب کوئی دوسری بڑی بندرگاہ تعمیر ہو کیونکہ اس سے دبئی اور دیگر عرب بندرگاہوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ادھر اسرائیل شروع سے ہی ایران کو اپنا دشمن قرار دیتا آیا ہے چنانچہ بھارت کی جانب سے ایران میں سرمایہ کاری اسے بالکل پسند نہیں آئے گی۔ اس وقت بھارت کے اسرائیل سے بڑے گہرے تعلقات قائم ہیں وہ اسرائیل سے خطرناک قسم کا اسلحہ خرید کر جنوبی ایشیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے اسرائیل بھارت کو ایسے مہلک ہتھیار بھی فروخت کر رہا ہے جن کے لیے امریکا اسے پہلے ہی منع کر چکا ہے چنانچہ بھارت کے ایران کے زیادہ قریب جانے سے اس کی اسرائیل سے دوریاں بڑھ سکتی ہیں۔ ایران کئی برس تک پابندیوں کی زد میں رہنے کی وجہ سے سرمایہ کاری کے لیے بلیک لسٹ رہ چکا ہے چنانچہ اب وہ محض ملک میں مزید سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کی غرض سے اپنی چاہ بہار بندرگاہ کسی غیر ملک کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے ورنہ کیا اس کے پاس اپنی بندرگاہ کو ترقی دینے کے لیے چالیس کروڑ ڈالر بھی نہیں ہیں؟

ابھی یہ منصوبہ شروع بھی نہیں ہوا ہے مگر افغانستان میں جس پر اس منصوبے کی کامیابی کا سارا دار و مدار، اس کی سخت مخالفت شروع ہو گئی ہے۔حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار نے اسے افغانستان کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دے دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت بھارت کے بجائے پاکستان سے معاملات طے کرے۔ انھوں نے چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے افغان تجارت کو مہنگا سودا قرار دیا ہے ان کے مطابق کابل اور قندھار سے چاہ بہار بندرگاہ سے فی کنٹینر کرایہ کراچی کے مقابلے میں ایک ہزار سے پانچ ہزار ڈالر تک زائد دینا پڑے گا جس کے نتیجے میں افغان تجارت تباہ ہو جائے گی۔

انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ایران افغانستان سے تجارت کی باتیں تو کرتا ہے مگر اس نے افغانی پھلوں کی درآمد پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے ان کا مزید کہنا ہے کہ جس طرح روس نے جنوبی بندرگاہوں تک پہنچنے کے لیے تباہی مچائی تھی اب بھارت ایران کے ساتھ مل کر امریکی ایما پر ایک سازشی کھیل کا آغاز کرنا چاہتا ہے ان کے مطابق پاکستانی مارکیٹ افغان پھلوں کے لیے ایک بڑی منڈی ہے اور اسی مارکیٹ پر افغان کسانوں کی خوشحالی کا دار و مدار ہے اگر اسے کھو دیا گیا تو افغان تاجر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ حزب اسلامی حکومتی اتحادی پارٹی ہے افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کتنے ہی بھارت نواز ہوں انھیں حزب اسلامی کے سربراہ کے ان مشوروں پر ضرور غور کرنا ہو گا کیونکہ اس پارٹی کا طالبان میں گہرا اثر و رسوخ ہے انھیں ناراض کرنے کا مطلب افغانستان کے حالات کو مزید خراب کرنا ہو گا۔

بھارت کی حزب اختلاف کی پارٹیوں نے اس منصوبے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس منصوبے کی ابتدا کانگریس نے ہی کی تھی مگر ایران امریکا کے تلخ تعلقات دوسرے اس منصوبے سے دیرپا فوائد حاصل نہ ہو پانے اور چاہ بہار کے دیارغیر میں بھارت سے سیکڑوں میل دور واقع ہونے کی وجہ سے اس نے اس منصوبے میں زیادہ سرگرمی نہیں دکھائی تھی۔ نریندر مودی نے جو اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں اپنے مایوس عوام کو اپنا ایک کارنامہ دکھانے کی غرض سے اسے شروع کیا ہے پھر چونکہ پاک چائنا راہداری منصوبے کو ناکام بنانا آر ایس ایس کا مطالبہ ہے چنانچہ انھوں نے اپنے آقاؤں کا غم غلط کرنے کے لیے بھی یہ قدم اٹھایا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں