ماہ صیام اور فلسفہ صیام
روزہ ان مضبوط ستونوں میں سے ایک ہے، روزہ 2 ہجری کو فرض ہوا۔
KARACHI:
زندگی عبادت سے عبارت ہے۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم وسیع ہے۔ عبد اپنے معبود کی اطاعت اور خوشنودی کے لیے جو کچھ کرے عبادت ہے۔ اس بڑی عبادت کی تیاری کے لیے اسلام میں چند مخصوص عبادات فرض کی گئی ہیں جو بڑی عبادت کے لیے ایک طرح کا تربیتی کورس ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ جو تصورات اس نے پیش کیے انھیں دل و دماغ میں آباد رکھنے کے لیے ایک منظم اور مربوط عملی پروگرام مرتب کیا تا کہ نظریہ بے عملی کا شکار ہو کر ذہنوں سے محو نہ ہونے پائے۔ بے عملی کسی نظریے کے لیے موت کا ہاتھ ہے، اس لیے اسلام نے اپنی تعلیمات کو عمل کے مضبوط ستونوں میں محفوظ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسلام کی تعلیمات اتنی ہی تازہ ہیں جتنی صبح نو۔
روزہ ان مضبوط ستونوں میں سے ایک ہے، روزہ 2 ہجری کو فرض ہوا۔ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ فرمان الٰہی اور رمضان میں ایک خاص نسبت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے رمضان کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں اﷲ کی رحمت اور مغفرت بارش کی طرح برستی ہے۔ ادھر ماہ رمضان آیا ادھر شیطان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ پورے معاشرے پر تقویٰ اور طہارت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ مہینہ بدی کا موسم خزاں ہے۔ اس مہینے میں گناہ اس طرح جھڑنے لگتے ہیں جیسے موسم خزاں میں ہوا کے ہلکے سے جھونکے سے پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ اس مہینے میں نیکی سبز اور گناہ زرد پڑجاتے ہیں۔
روزہ کی عبادت کے پس منظر میں جو تصورات اور حقیقتیں کار فرما نہیں، ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
روزہ کی تہہ میں خدا کا خوف، اس کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین، آخرت کی زندگی، خدا کی عدالت پر ایمان اور فرض کا زبردست احساس ہے۔ روزہ معفرتِ الٰہی انسان کے دل و دماغ میں گل تر کی صورت میں تازہ رکھتا ہے۔ سال میں ایک بار مسلسل 29 یا 30 دن تک اﷲ کی موجودگی کا احساس انسان کے لیے ایک حقیقت بن جاتا ہے۔ شدید پیاس اور شدید بھوک کے باوجود وہ پانی کا ایک قطرہ، گندم کا ایک دانہ حلق کے نیچے نہیں اترنے دیتا۔ کیوں کہ خدا کی علمیت، بصیرت اور قدرت پر اسے یقین ہوتا ہے۔ فرمان الٰہی اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔
''ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں'' (ق) ''وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں ہوں'' (مجادلہ) ''یقینا اﷲ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں'' (آل عمران) ''وہ لوگوں سے چھپ سکتے ہیں لیکن خدا سے نہیں چھپ سکتے'' (نساء) ''وہ خفیہ اور اعلانیہ جو کچھ بھی کرتے ہیں خدا کو اس کا علم ہے'' (بقرہ) ''جو کچھ تم کرتے ہو خدا دیکھ رہا ہے'' (بقرہ) یہ آیات الٰہی انسان کو روزہ کے دوران بدی سے باز رکھتی ہیں۔ ایک مہینہ بعد آگ تو بجھ جاتی ہے لیکن اس کی تپش اور حرارت باقی گیارہ مہینے تک انسان محسوس کرتا رہتا ہے۔ اس کی نگاہیں رضائے الٰہی پر جمی رہتی ہیں۔ اس طرح روزہ روحانی ترقی کا ایک مضبوط زینہ ہے۔
اسلام میں انسان کی کامیابی کا دارومدار اخلاق پر ہے۔ اﷲ کی نظر میں با کمال وہ ہے جس کی لا جواب اخلاقی پرواز ہو۔ اخلاقی پرواز میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا نفس ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بدی کے جراثیم جنم لیتے ہیں۔ پرورش پاتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ روزہ نفس پر ایک کامیاب شب خون یا چھاپہ مارتا ہے اس کے ذریعے نفس کی کلائی توڑی تو نہیں جاتی لیکن اس کو مجروح اور اس کی طاقتورگرفت کوکمزور ضرورکردی جاتی ہے۔ غذا، پانی اور جنس، نفس کے تین بنیادی تقاضے ہیں۔ روزہ ان ہی تین بنیادوں پر پے در پے ضرب شدید لگاکر نفس کوکمزورکردیتا ہے اور انسان نفس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر اپنے اندر صفاتِ محمودہ کی پرورش کرتا ہے۔ ظاہری پابندی کے ساتھ باطنی اصلاح روزے کی اصل روح ہے۔
رسولؐ مقبول کا یہ حکیمانہ جملہ اسی حقیقت کا ترجمان ہے ''جس نے روزے کے دوران جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو خدا کو اس بات کی قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے'' روزے کے دوران صفات مندرجہ مثلاً جھوٹی قسم، جھوٹی شہادت، غیبت، بہتان، تمسخر، دل آزاری، ترش کلامی، بد کالمی، سخت کلامی، وعدہ خلافی، لڑائی جھگڑا، ظلم، لوگوں کی حق تلفی، اعضائے جسمانی کا گناہوں میں ملوث ہونا، روزہ کے ساتھ ایک کھلم کھلا مذاق ہے یہ رذیل اور مذموم باتیں روزہ کے مقصد کو فوت کردیتی ہیں۔ روزہ ضبط نفس کی تربیت ہے، صبروتحمل، جفاکشی، قوت برداشت اور قوت ارادی کی مشق ہے اور مضبوط قوت ارادی نفس کی شکست ہے۔ اس طرح روزہ تعمیر سیرت کا ایک موثر ذریعہ ہے۔
روزہ اسلام کی بنیادی تعلیم خدا ایک، مرکز ایک، کتاب ایک، رسول ایک کا دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ مختلف ممالک میں آباد تمام فرزندان توحید ایک ہی مہینے میں ایک ہی وقت بلا امتیاز رنگ و نسل، زبان ایک ہی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں۔ ایک ہی حالت سے گزرتے ہیں اور یہ ایک حال میں ہونا ان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ معاشرتی فضا کو خوشگوار بنانے کا اور افراد میں اخوت، مساوات، ہمدردی اور باہمی اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کا روزہ ایک کارگر نسخہ ہے۔
ساری اسلامی آبادی میں پورا ایک مہینہ پاکیزگی کا مہینہ ہوتا ہے۔ ساری فضا خوف خدا، اندیشہ آخرت، اطاعت الٰہی، پاکیزگی اخلاق اور حسن عمل کی روشنی جگمگا اٹھتی ہے۔ اس فضا میں برائیاں دب جاتی ہیں اور نیکیاں ابھرتی ہیں۔ امیروں کے دلوں میں غریبوں کے لیے رحم اور مدد کا جذبہ اور احساس پیدا ہوتا ہے۔
طبی نقطہ نظر سے بھی روزہ بڑی افادیت کا حامل ہے۔ ارسطو، فیشا غوث اور بطلیموس سب اس امر پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ ''دل کی صفائی اور دماغ کی جلا کے لیے بھوک، پیاس اور جنسی خواہشات کو روکنا بہترین علاج ہے'' امریکا میں ایک طبی جماعت نے روزے کو ڈاکٹری اصول میں داخل کرکے اس کے ذریعے دماغی اور جسمانی امراض کا کامیاب علاج شروع کردیا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کی صداقت کی منہ بولتی دلیل ہے۔ روزے سے جسمانی اعضا کو آرام و سکون ملتاہے، ان کی ضایع شدہ قوت، شکست و ریخت بحال ہوجاتی ہے، فضول فاسد اور زہریلا مادہ جل جاتا ہے، مادے کی تیزابیت اور خون کی حدت ختم ہوجاتی ہے نظام انہضام درست ہوجاتا ہے اور اس طرح انسان میں نیا خون، نئی طاقت اور نئی توانائی پیدا ہوتی۔ اطبا کی نظر میں بعض امراض کا واحد علاج روزہ ہے۔
زندگی عبادت سے عبارت ہے۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم وسیع ہے۔ عبد اپنے معبود کی اطاعت اور خوشنودی کے لیے جو کچھ کرے عبادت ہے۔ اس بڑی عبادت کی تیاری کے لیے اسلام میں چند مخصوص عبادات فرض کی گئی ہیں جو بڑی عبادت کے لیے ایک طرح کا تربیتی کورس ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ جو تصورات اس نے پیش کیے انھیں دل و دماغ میں آباد رکھنے کے لیے ایک منظم اور مربوط عملی پروگرام مرتب کیا تا کہ نظریہ بے عملی کا شکار ہو کر ذہنوں سے محو نہ ہونے پائے۔ بے عملی کسی نظریے کے لیے موت کا ہاتھ ہے، اس لیے اسلام نے اپنی تعلیمات کو عمل کے مضبوط ستونوں میں محفوظ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسلام کی تعلیمات اتنی ہی تازہ ہیں جتنی صبح نو۔
روزہ ان مضبوط ستونوں میں سے ایک ہے، روزہ 2 ہجری کو فرض ہوا۔ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ فرمان الٰہی اور رمضان میں ایک خاص نسبت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے رمضان کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں اﷲ کی رحمت اور مغفرت بارش کی طرح برستی ہے۔ ادھر ماہ رمضان آیا ادھر شیطان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ پورے معاشرے پر تقویٰ اور طہارت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ مہینہ بدی کا موسم خزاں ہے۔ اس مہینے میں گناہ اس طرح جھڑنے لگتے ہیں جیسے موسم خزاں میں ہوا کے ہلکے سے جھونکے سے پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ اس مہینے میں نیکی سبز اور گناہ زرد پڑجاتے ہیں۔
روزہ کی عبادت کے پس منظر میں جو تصورات اور حقیقتیں کار فرما نہیں، ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
روزہ کی تہہ میں خدا کا خوف، اس کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین، آخرت کی زندگی، خدا کی عدالت پر ایمان اور فرض کا زبردست احساس ہے۔ روزہ معفرتِ الٰہی انسان کے دل و دماغ میں گل تر کی صورت میں تازہ رکھتا ہے۔ سال میں ایک بار مسلسل 29 یا 30 دن تک اﷲ کی موجودگی کا احساس انسان کے لیے ایک حقیقت بن جاتا ہے۔ شدید پیاس اور شدید بھوک کے باوجود وہ پانی کا ایک قطرہ، گندم کا ایک دانہ حلق کے نیچے نہیں اترنے دیتا۔ کیوں کہ خدا کی علمیت، بصیرت اور قدرت پر اسے یقین ہوتا ہے۔ فرمان الٰہی اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔
''ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں'' (ق) ''وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں ہوں'' (مجادلہ) ''یقینا اﷲ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں'' (آل عمران) ''وہ لوگوں سے چھپ سکتے ہیں لیکن خدا سے نہیں چھپ سکتے'' (نساء) ''وہ خفیہ اور اعلانیہ جو کچھ بھی کرتے ہیں خدا کو اس کا علم ہے'' (بقرہ) ''جو کچھ تم کرتے ہو خدا دیکھ رہا ہے'' (بقرہ) یہ آیات الٰہی انسان کو روزہ کے دوران بدی سے باز رکھتی ہیں۔ ایک مہینہ بعد آگ تو بجھ جاتی ہے لیکن اس کی تپش اور حرارت باقی گیارہ مہینے تک انسان محسوس کرتا رہتا ہے۔ اس کی نگاہیں رضائے الٰہی پر جمی رہتی ہیں۔ اس طرح روزہ روحانی ترقی کا ایک مضبوط زینہ ہے۔
اسلام میں انسان کی کامیابی کا دارومدار اخلاق پر ہے۔ اﷲ کی نظر میں با کمال وہ ہے جس کی لا جواب اخلاقی پرواز ہو۔ اخلاقی پرواز میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا نفس ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بدی کے جراثیم جنم لیتے ہیں۔ پرورش پاتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ روزہ نفس پر ایک کامیاب شب خون یا چھاپہ مارتا ہے اس کے ذریعے نفس کی کلائی توڑی تو نہیں جاتی لیکن اس کو مجروح اور اس کی طاقتورگرفت کوکمزور ضرورکردی جاتی ہے۔ غذا، پانی اور جنس، نفس کے تین بنیادی تقاضے ہیں۔ روزہ ان ہی تین بنیادوں پر پے در پے ضرب شدید لگاکر نفس کوکمزورکردیتا ہے اور انسان نفس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر اپنے اندر صفاتِ محمودہ کی پرورش کرتا ہے۔ ظاہری پابندی کے ساتھ باطنی اصلاح روزے کی اصل روح ہے۔
رسولؐ مقبول کا یہ حکیمانہ جملہ اسی حقیقت کا ترجمان ہے ''جس نے روزے کے دوران جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو خدا کو اس بات کی قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے'' روزے کے دوران صفات مندرجہ مثلاً جھوٹی قسم، جھوٹی شہادت، غیبت، بہتان، تمسخر، دل آزاری، ترش کلامی، بد کالمی، سخت کلامی، وعدہ خلافی، لڑائی جھگڑا، ظلم، لوگوں کی حق تلفی، اعضائے جسمانی کا گناہوں میں ملوث ہونا، روزہ کے ساتھ ایک کھلم کھلا مذاق ہے یہ رذیل اور مذموم باتیں روزہ کے مقصد کو فوت کردیتی ہیں۔ روزہ ضبط نفس کی تربیت ہے، صبروتحمل، جفاکشی، قوت برداشت اور قوت ارادی کی مشق ہے اور مضبوط قوت ارادی نفس کی شکست ہے۔ اس طرح روزہ تعمیر سیرت کا ایک موثر ذریعہ ہے۔
روزہ اسلام کی بنیادی تعلیم خدا ایک، مرکز ایک، کتاب ایک، رسول ایک کا دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ مختلف ممالک میں آباد تمام فرزندان توحید ایک ہی مہینے میں ایک ہی وقت بلا امتیاز رنگ و نسل، زبان ایک ہی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں۔ ایک ہی حالت سے گزرتے ہیں اور یہ ایک حال میں ہونا ان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ معاشرتی فضا کو خوشگوار بنانے کا اور افراد میں اخوت، مساوات، ہمدردی اور باہمی اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کا روزہ ایک کارگر نسخہ ہے۔
ساری اسلامی آبادی میں پورا ایک مہینہ پاکیزگی کا مہینہ ہوتا ہے۔ ساری فضا خوف خدا، اندیشہ آخرت، اطاعت الٰہی، پاکیزگی اخلاق اور حسن عمل کی روشنی جگمگا اٹھتی ہے۔ اس فضا میں برائیاں دب جاتی ہیں اور نیکیاں ابھرتی ہیں۔ امیروں کے دلوں میں غریبوں کے لیے رحم اور مدد کا جذبہ اور احساس پیدا ہوتا ہے۔
طبی نقطہ نظر سے بھی روزہ بڑی افادیت کا حامل ہے۔ ارسطو، فیشا غوث اور بطلیموس سب اس امر پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ ''دل کی صفائی اور دماغ کی جلا کے لیے بھوک، پیاس اور جنسی خواہشات کو روکنا بہترین علاج ہے'' امریکا میں ایک طبی جماعت نے روزے کو ڈاکٹری اصول میں داخل کرکے اس کے ذریعے دماغی اور جسمانی امراض کا کامیاب علاج شروع کردیا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کی صداقت کی منہ بولتی دلیل ہے۔ روزے سے جسمانی اعضا کو آرام و سکون ملتاہے، ان کی ضایع شدہ قوت، شکست و ریخت بحال ہوجاتی ہے، فضول فاسد اور زہریلا مادہ جل جاتا ہے، مادے کی تیزابیت اور خون کی حدت ختم ہوجاتی ہے نظام انہضام درست ہوجاتا ہے اور اس طرح انسان میں نیا خون، نئی طاقت اور نئی توانائی پیدا ہوتی۔ اطبا کی نظر میں بعض امراض کا واحد علاج روزہ ہے۔