سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں پانچویں قسط

کیبل کار میں بیٹھنے کیلئے 3 گھنٹے لگ سکتے تھے، لیکن دوگنا پیسے دینے کے بعد صرف 10 منٹ میں ہمارا کام ہوگیا تھا۔

ملائشیا کے واقعات سنتے ہوئے جھیل سیف الملوک کے کنارے سیاحوں کے درمیان شلوار قمیض پر واسکٹ، سر پر چترالی ٹوپی اوڑھے داستان گو یاد آگئے جن سے عوام خوب لطف اندوز ہوتی ہے۔

کیبل کار اور سسپینشن برج

لنکاوی کے بارے میں کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں، ایک کہانی تو اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ ملائیشیا کی زبان میں لنکاوی کے معنی ہیں، گرے وی(gravy)۔ جی ہاں وہی سالن والی گریوی، اب یہ نام کیوںکر پڑا اسے کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ دو قدامت پرست گھرانوں کے درمیان ایک شادی سے اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ جن میں مت رایا کا بیٹا، مت رایا چن چنگ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ شادی کے لئے دی جانے والی دعوت جس میں مختلف انواع کے کھانے موجود تھے۔ اِس دعوت میں دونوں خاندانوں کے مابین تصادم ہوگیا۔ ایسا اس بناء پر ہوا کہ مترایا کا بیٹا کسی اور عورت سے فلرٹ کرتا ہوا پکڑا گیا جس میں برتنوں کی ایک دوسرے پر بارش کی جانے لگی۔ اس تصادم کے دوران گریوی (جسے مقامی زبان میں کواہ KUAH کہا جاتا تھا) کا ایک بہت بڑا برتن زمین پر گر کر ٹوٹا اور اس میں جو کچھ تھا زمین پر بکھر گیا، جس جگہ یہ برتن ٹوٹا اور گریوی (gravy) زمین پر بکھری اس جگہ کا نام کواہ پڑ گیا جو لنکاوی پر بہت بڑا شہر ہے۔

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چوتھی قسط)

 

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)

ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے وہ کواہ میں ہی تھا۔ ہوٹل کے قریب جھکی ہوئی کمر کے ساتھ ایک ضعیف سامان لئے گزرے تو تو ہم نے اسے آواز دے کر روک لیا۔ ہم سامنے اسٹور سے اپنے لئے شیو کا سامان لینے گئے ہوئے تھے۔ ہم نے اس سے تھوڑی بہت معلومات لینے کی کوشش کی، لیکن ہمیں ایسا لگا کہ وہ بھی چاہتا یہی تھا کہ کسی کو کچھ بتائے۔ اوپر پہاڑ پر بنے اپنے مکان میں وہ تنہا رہتا تھا۔ اس نے ہمیں اوپر چلنے کی دعوت دی۔ ہم نے سر اٹھا کر پہاڑ کی جانب دیکھا پھر اس رستے کو دیکھا جس پر چل کر اس نے جانا تھا، چھوٹی سی اس پگڈنڈی پر چل کر پہاڑ پر بنے اس کے گھر تک پہنچنے کے تصور نے ہی ہمیں خوف زدہ کردیا۔


وہ زور دیتا رہا لیکن ہم نے اسے اپنے ساتھ ہوٹل پر کھانے کی دعوت دی۔ جس کے لئے وہ بخوشی راضی ہوگیا۔ وہاں اس کے لئے کھانے اور اپنے لئے چائے کا آرڈر دیا۔ کھانا کھاتے ہوئے اس نے بتایا کہ اب تو یہ علاقہ بہت ترقی یافتہ ہوگیا ہے۔ 1987ء تک اس علاقے کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ پھر سن 1987ء میں اسے ایک سیاحتی مقام کا درجہ دیا گیا اور ساتھ ہی اس علاقے کو ٹیکس فری قرار دیا گیا۔ درحقیقت اُسی نے وہ کہانی سنائی جو ہم نے اوپر درج کی ہے۔

وہ ضعیف خاصے تعلیم یافتہ معلوم ہورہے تھے۔ اگرچہ ہم نے اُس کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہیں کی لیکن رہ رہ کر خیال آ رہا تھا کہ آخر وہ اکیلا کیوں رہتا ہے؟ ہمارے لبوں پر یہ سوال آتے آتے رہ گیا کیونکہ اس نے پھر بولنا شروع کردیا تھا اور اس کی دی گئی معلومات ہمارے لئے زیادہ ضروری تھی۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس کہانی کے علاوہ دو اور باتیں بھی ہیں۔ ایک یہ کہ لنکاوی کا نام بادشاہ لانگا سوکا سے منسوب ہے، دوسرا ملائیشیا کی زبان میں نگاری آلانگ کہہ سوکا کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے (the land of all one's wishes)۔ ہمیں ان واقعات کو سنتے ہوئے پاکستان میں جھیل سیف الملوک کے کنارے سیاحوں کے درمیان شلوار قمیض پر واسکٹ، سر پر چترالی ٹوپی اوڑھے داستان گو یاد آگئے جو داستان بیان کر رہے ہوتے ہیں اور جسے سیاح بڑے شوق سے سن رہے ہوتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی یہاں محسوس ہو رہا تھا۔ ویسی ہی مافوق الفطرت کہانیاں، ہم بھی ان محترم سے بڑے شوق سے داستان سن رہے تھے کہ عدیل بیٹا ہمیں ڈھونڈتا ہوا وہاں آگیا۔ کہنے لگا آپ یہاں بیٹھے ہیں اور ہم کمرے میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آج کیبل کار کے لئے جانا ہے، یہ سن کر وہ محترم اٹھے، ہم سے ہاتھ ملایا اور چل دئیے۔ ہم نے بیٹے سے کہا چلو ذرا ان صاحب سے نام تو پوچھ لوں بڑی معلومات دی ہیں یہاں کے بارے میں۔ بس جلدی سے آجائیں۔ ہم جلدی اُس راستے کی طرف لپکے جدھر وہ محترم جا رہے تھے، لیکن وہ کچھ ہی دیر میں کافی چڑھائی چڑھ چکے تھے اور مجھے مایوس ہو کر سڑک کی دوسری جانب اپنے ہوٹل کی طرف واپس آنا پڑا۔

وہاں سب تیار بیٹھے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے ہم باتھ روم میں گھس گئے۔ شیو کی، کپڑے تبدیل کئے اور باہر آگئے۔ 'لنکاوی کیبل کار گنونگ مت چن چنگ' نامی پہاڑ کی چوٹی تک جاتی ہے۔ جہاں سے سیاح انڈامن سمندر کا خوبصورت نظارہ کرسکتے ہیں۔ ملائیشیا کی ریکارڈ بک کے مطابق 919.50 میٹر طوالت کے ساتھ یہ طویل ترین فری اسپن سنگل روپ کیبل کار ہے۔ اس کیبل کار کی ایک اور خصوصیت وہ ورلڈ ریکارڈ ہے جس کے مطابق یہ 40 ڈگری اینگل کی چڑھائی چڑھتی ہے۔ ایک اور قابل توجہ شے ایک 125 میٹر طویل بل کھاتا ہوا انجینئرنگ کا شاہکار پل ہے۔

یہ قابل ذکر شاہکار سسپنشن برج کیبل کار کے اسٹیشن کو مت چن چنگ پہاڑی سلسلے سے ملاتا ہے۔ یہ کیبل کار کواہ شہر سے 30 منٹ کی ڈرائیو پر اورینٹل ویلج میں واقع ہے۔ ہم جب اس کے بیس اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں ایک میلے کا سا سماں تھا، کیبل کار میں جانے والوں کی ایک لمبی قطار ہمارے سامنے تھی، ٹکٹ خریدنے اور کیبل کار میں بیٹھنے تک کا انتظار ٹائم صرف 3 گھنٹے تھا۔ اپنی ننھی سی پوتی کے ساتھ یہ ایک لمبا دورانیہ تھا جو موزوں نہیں تھا، ہم نے بیٹے سے کہا واپس چلتے ہیں، لیکن بیٹا کہنے لگا اب آئے ہیں تو جانا تو ہے، میں دیکھتا ہوں کہ کیا ہوسکتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد آیا اور کہنے لگا یہاں ایکسپریس سروس بھی ہے، اِس کا ٹکٹ دوگنا ہے لیکن سیدھے کیبل کار میں کوئی انتظار نہیں، میں ٹکٹ لے کر آتا ہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں شاید دس منٹ لگے ہوں گے اور ہم کیبل کار میں تھے، واقعی پیسہ ہر جگہ بولتا ہے۔

یہ سب جانتے ہیں کہ ہمیں اونچائی سے ڈر لگتا ہے اس لئے بچے ہمیں چھیڑ رہے تھے۔ اندر سے تو واقعی ہم ڈر رہے تھے لیکن اوپر سے نظارہ قابل دید تھا۔ ہمارے گائیڈ نے دور دھندلے سے نظر آنے والے پہاڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ان پہاڑوں کے پرے تھائی لینڈ ہے، پھر اردگرد پھیلے سمندر کے بارے میں معلومات فراہم کرنے لگا۔ اسی نے انجینئرنگ کے شاہکار پل کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ اس نے بتایا کہ یہ پل آج کل تکنیکی وجوہات کی بنا پر بند ہے، بچوں نے وہاں رائیڈز لیکر تفریح کی جبکہ ہم اپنی بیگم کے ساتھ ایک بینچ پر بیٹھ گئے، بچے جب تھک گئے تب ہی ہوٹل واپسی ہوئی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story