ماہ صیام قلب و ذہن کی تبدیلی
الحمدللہ! ہمیں پھر یہ سعادت نصیب ہورہی ہے کہ ہمارے درمیان رمضان المبارک اپنی عظمتوں و برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے
الحمدللہ! ہمیں پھر یہ سعادت نصیب ہورہی ہے کہ ہمارے درمیان رمضان المبارک اپنی عظمتوں و برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے، یقینا اس ماہ مبارک کی فضیلتوں، عظمتوں اور برکتوں کا کیا ٹھکانہ کہ جس مہینے کا ایک ایک لمحہ اپنے اندر خیر ہی خیر لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مقدس کے روزوں کو ایمان والوں کے لیے فرض قرار دیتے ہوئے اعلان فرمادیا''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ''۔رمضان پورے معاشرے کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور ایک سازگار اجتماعی ماحول بنادینے کا سبب بنتا ہے۔
انسانی نفسیات ہے کہ وہ اجتماعی طور پر ہونیوالے کاموں کو آسانی سے انجام دیتا ہے، اس لیے رمضان میں بھی مجموعی طور پر نیکیاں آسان اور برائیاں مشکل ہوتی چلی جاتی ہیں، یہ نیکیوں کے موسم بہارکی طرح پورے معاشرے میں ایک خاص طرح کی پاکیزگی اور بھلائی کے رنگ بکھیر دیتا ہے، اللہ کے گھر، اللہ کے کلام کی دلکش آوازوں سے گونج اٹھتے ہیں، اللہ کے بندے اللہ کے لیے اپنے دلوں اورجیبوں کوکھول دیتے ہیں، معاشرے میں خیر وبرکت کا اثر ہر صاحب دل کو محسوس ہونے لگتا ہے، اس کے اثر سے بھلائیوں اور خیرکو فروغ ملتا چلا جاتا ہے۔
مسلم معاشروں میں کئی طرح کے افراد پائے جارہے ہیں،کچھ وہ ہیں جو حقیقت اسلام سے اچھی طرح آگاہ ہیں، رمضان کی اہمیت سمجھتے ہیں، روزے اسی مثالی طریقے سے رکھتے ہیں جو ان کی روح ہے، فوائد سمیٹتے ہیں، یہ اسلامی معاشرے کی کریم ہیں مگر قلیل ہیں، اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو رمضان میں روزے کا اہتمام توکرتے ہیں لیکن اس کی روح سے ناآشنا ہیں اور فرمان رسول ﷺ کے مطابق بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے، نہ رب کی رضا، نہ تربیت، نہ جنت، نہ بے حد و حساب اجر، نہ گناہوں کی معافی۔
فرمان نبی رحمت ﷺ ہے کہ جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے تو اس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائینگے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ (متفق علیہ)
یعنی روزہ شفاعت توکرے گا لیکن شرائط کیا ہیں؟ ایمان اور احتساب، ایمان تو خیر کسی بھی عمل کے نافع ہونے کی بنیادی شرط ہے، ورنہ تمام نیک اعمال بھی حیات ودنیا کے ساتھ ہی ختم ہوجاتے ہیں، یہ احتساب کیا ہے؟ اپنا جائزہ، نیت کا کہ کتنی خالص ہے؟ عمل کتنا درست ہے؟ بھلا کتنے انسان ہونگے جو روزہ رکھ کر اپنا احتساب بھی کرتے ہونگے، جائزہ لیتے ہونگے کہ کتنے اعضاء کا روزہ ہے؟ محض بھوک، پیاس ہے یا واقعی آنکھوں، کانوں، زبان، ہر عضو نے روزہ رکھا ہے، کتنے لوگوں کو یہ حدیث یاد ہوگی کہ ''کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام کرنیوالے ہیں، جنھیں رت جگے کے سوا کچھ نہیں ملتا'' (ابن ماجہ)
ایسے کون لوگ ہیں، ذرا جائزہ تو لیں، روزہ رکھا، جھوٹ نہ چھوڑا، جھوٹی قسمیں کھا کھاکر مال بیچا، رمضان آیا، مال کی قیمت بڑھادی، ناجائز منافع خوری شروع کردی، عید آرہی ہے، خرچ بڑھ جائے گا، دودھ میں پانی ملادیا، اچھا دکھاکرگلا سڑا پھل تھیلے میں ڈال کر دے دیا، ملازمت کے اوقات میں ڈنڈی ماری، دیر سے آئے، جلدی گھر چلے گئے، روزے رکھ کر خیانت کے مرتکب ہوگئے۔
رشوت کے ریٹ بڑھادیے، رمضان میں تو عیدی بنانی ہے یہ اور اس طرح کے سارے افعال جھوٹ کی قسمیں ہیں اور روزے کے اجر کو چاٹ جانیوالی ہیں، سیر بھر اجر کمایا، من بھر گناہ کرلیے، اس لیے روزے رکھ کر احتساب ضروری ہے کہ اجر حاصل ہورہا ہے یا ضایع ہورہا ہے، یہ احتساب ہر طبقہ زندگی کے افراد کے لیے ضروری ہے، عورت ہے یا مرد، استاد ہوں یا علماء، تاجر ہوں یا ڈاکٹر، حکومتی اہلکار، عدلیہ، سیاستدان، کسان یا مزدور، سب اپنے اپنے کام اور اپنی اپنی دیانتداری پر نظر ڈالیں اور جائزہ لیں کہ روزہ کتنا درست ہے۔
عملاً کیا ہوتا ہے، یہ دل کا ایک درد ہے جسے بیان کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے، دنیا میں ہی دیکھیں، کیا حالت ہے، ہر سال، ہر رمضان میں ہم جیسے رمضان میں داخل ہوتے ہیں، ویسے ہی نکل آتے ہیں نہ قلبی کیفیت بدلتی ہے، نہ اخلاق، نہ کردار، نہ ذاتی زندگی میں تبدیلی، نہ اقوام کی حالت میں تغیر، قرآن پڑھ رہے ہیں حامل قرآن ہیں لیکن کافروں کے غلام ہیں، ذلت و مسکنت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں ایک عام روزے دار آج غربت اور محرومی کی پٹریوں میں جکڑا ہوا ہے، ہوشربا گرانی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے اس کا جینا حرام کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک عام گھرانے کی اتنی استطاعت بھی باقی نہیں رہی کہ وہ روزہ افطار کرنے کے لیے چند کھجوریں اور شربت کی ایک بوتل بھی خرید سکے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک میں حقیقی اسلامی اور جمہوری نظام کب قائم ہوگا اور اس روز روشن کا سورج کب طلوع ہوگا جب وطن عزیز میں ایک عام خاندان کی کفالت کرنے والا خاندان کا سربراہ اتنا کمانے کے قابل ہوگا کہ وہ عزت و آرام کے ساتھ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکے۔
خوف خدا سے عاری ہمارے تاجر اور دکاندار ماہ مبارک کے احترام کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی بے چارے خریداروں اور صارفین کو حسب عادت الٹی چھری سے ذبح کرنے میں مصروف ہیں اور ان مظلوموں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ماہ صیام کے بدلتے ہوئے شب و روز کی کہانی میں الیکٹرونکس میڈیا پر بیٹھے بہروپیے جو کردار ادا کررہے ہیں وہ بھی انتہائی بھیانک ہے۔ رحمتوں اور فضیلتوں کے اس بابرکت مہینہ میں مذہب کے نام پر جو منڈی لگی ہوئی ہے، اس نے فروخت کے اس نظام کے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، سحر اور افطار اور اس کے درمیان گھنٹوں میں ہمیں کیا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ کیسے کیسے لوگ کیسے کیسے روپ دھاکر محفل سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
کہنے کو رمضان کریم کی کرامات کا ورد کرتے ہیں، اصل میں چھابڑی فروش ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ بہروپیے اسلامی تاریخ پر لیکچر دے رہے ہیں۔ بے علم قرآن پاک کے آفاقی پیغام پر وعظ دے رہے ہیں۔ جو کل تک فیشن کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اب دوپٹے، چادریں اور ٹوپیاں پہن کر نیکو کار بنے بیٹھے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ایسے فخر کے ساتھ ہورہا ہے کہ جیسے اسلام کی بیش قیمت خدمت سرانجام دی جارہی ہو۔ یہ جو کچھ بھی دکھایا جارہا ہے اس کا اسلام یا روح پروری سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کا انسان دکھوں کا ستایا ہوا ہے، بے سکونی، بدامنی، ڈپریشن اور طرح طرح کے ذہنی امراض میں گھرا ہوا ہے، انسانیت نے ربانی چشمہ ہدایت سے منہ موڑکر دنیا کو نفسانیت کی بھینٹ چڑھادیا ہے، مادیت پرستی، مفادات اور شہرت و دولت کی بھوک نے اعلیٰ اقدار تباہ کردی ہیں۔ انسان، انسان کا دشمن بن گیا ہے، حسد اور شر نے سکون برباد کردیا ہے۔
قومیں، قوموں پر چڑھ دوڑی ہیں، خونی جنگیں جاری ہیں، آج نفسانیت اور خود غرضی کے ان پجاریوں کو پہلے سے کہیں زیادہ اسلام کے اس نظام تربیت کی ضرورت ہے۔دیکھنے والے یہ بھی دیکھیں کہ مشرق وسطیٰ سے لے کر ایشیاء، افریقہ، امریکا و یورپ تک ایک پاکیزہ فضاء ہے، ہر طرف نورانیت ہے، محبت ہے، ذکر ہیں، دعائیں ہیں، قرآن پڑھا جارہا ہے، سچائی ہے، امانت و دیانت ہے، قتل و غارت، چوری چکاری، لڑائی، مار کٹائی، گالم گلوچ، شہوت و بے حیائی سب کچھ یکسر بند ہوگیا ہے، امن کا دور دورہ ہے، پاکیزہ فضائیں ہیں، معطر ہوائیں ہیں، انسانی ہمدردی اور اخوت کی اعلیٰ مثالیں ہیں، افطار کرائی جارہی ہیں، کوئی بھوکا نہیں، کوئی مجبور نہیں، فطرانہ دیا جارہا ہے، کپڑے اور راشن تقسیم ہورہے ہیں، محبتیں بانٹی جارہی ہیں، کیا رمضان ہے، کیا اس کی روح ہے، کیا اعلیٰ تصور ہے، کاش ہم یہ عملی مثالیں قائم کرسکیں۔