مویشیوں کے ’’مُلک‘‘ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے کیٹل فارمز

2013 کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مویشی برازیل میں ہیں جن کی تعداد اکیس کروڑ سترہ لاکھ کے لگ بھگ ہے


Ateeq Ahmed Azmi June 12, 2016
2013 کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مویشی برازیل میں ہیں جن کی تعداد اکیس کروڑ سترہ لاکھ کے لگ بھگ ہے:ـفوٹو : فائل

HANGU: ہماری روزمرہ کی غذائی ضروریات میں سے ایک اہم جزو گوشت اور دودھ ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ گوشت اور دودھ اور اس سے متعلق اشیاء کی طلب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اس حوالے سے اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو علم ہوتا ہے کہ مویشیوں کو بطور غذا پالنا زمانہ قدیم سے انسانوں کا اہم ترین پیشہ رہا ہے، بل کہ بعض تاریخی حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ماضی میں وہ قبائل بالادست ہوتے تھے جن کے پاس مال مویشیوں کی کثرت ہوتی تھی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح انسانی معاشرے کی دیگر روایات میں انقلابی تبدیلیاں آئیں بالکل اسی طرح مویشی پالنے کے روزگار کی اہمیت بھی بوجہ کم ہوگئی یا معاشی سرگرمیوں کے نقشے میں پس پشت ڈال دی گئی، کیوں کہ کارپوریٹ کلچر کی آمد نے مشینوں سے تیار کردہ اشیاء کے فروغ کو اپنی بنیاد بنالیا اور ڈبا پیک دودھ سے لے کر گوشت یا اس سے متعلق پیک اشیاء پر زور دیا جانے لگا۔

اس کے باوجود آج بھی ایسے افراد یا ادارے ہیں جو مویشی پالنے کو اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہیں اور ان کا یہ پیشہ دنیا کی غذائی ضروریات دور کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس مضمون میں کچھ ایسے ہی مویشی پالنے کے فارمز پر نظر ڈالی گئی ہے جو اپنے رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے اور اہم مویشی فارمز قرار دیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ وسیع طول و عرض پر پھیلے ہوئے بیشتر مویشی فارمز آسٹریلیا میں واقع ہیں، جہاں کے مقامی باشندے ان فارمز کے لیے ''کیٹل اسٹیشن '' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

٭ مودین جیانگ سٹی میگا فارم
Mudanjiang City Mega Farm
رقبے کے لحاظ سے دنیا کا یہ سب سے بڑا کیٹل فارم چین میں واقع ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کیٹل فارم بیس سے پچیس ملین ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ چین کے انتہائی شمال مشرق میں روسی سرحد سے متصل صوبے ہلونگ جیانگ کے شہر مودین جیانگ میں واقع یہ کیٹل فارم بنیادی طور پر روسی عوام کو گائے کے گوشت اور دودھ کی فراہمی کے لیے کام کررہا ہے۔

واضح رہے کہ یوکرائن کے تنازعے کی بعد روس نے بطور احتجاج یورپی یونین ممالک کی دودھ اور گوشت کی اشیاء کی درآمد پر پابندی عاید کردی تھی، جس کے بعد روس میں گوشت اور دودھ کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا، جسے دیکھتے ہوئے چین نے مودین جیانگ سٹی میگا کیٹل فارم کی داغ بیل ڈالی۔ اس وسیع و عریض کیٹل فار م میں بیک وقت ایک لاکھ صحت مند گائے موجود ہیں۔

یہ تعداد برطانیہ کے سب سے بڑے کیٹل فارم سے بھی پچاس گنا زاید ہے، جب کہ امریکا کے سب سے بڑے کیٹل فارم سے تین گنا زاید ہے۔ اس فارم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپی یونین فارمز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مینسل ریمنڈ کا کہنا ہے کہ مودین جیانگ سٹی میگا کیٹل فارم کی موجودگی میں اب شاید ہی کبھی یورپی یونین ممالک روس کی ڈیری فارم مارکیٹ میں دوبارہ قدم جماسکیں۔ واضح رہے کہ مودین جیانگ سٹی میگا کیٹل فارم میں موجود اگر تمام گائیوں سے بیک وقت دودھ حاصل کیا جاسکے تو اس کی مقدار کم و بیش آٹھ سو ملین لیٹر بنتی ہے اور ایک لاکھ ٹن پنیر بھی حاصل ہوسکتا ہے۔

ایک سو اکسٹھ ملین ڈالر کی خطیر رقم سے قائم کیے گئے اس فارم کے بنیادی سرمایہ کاروں کا تعلق چین کے ادارے چائنا زونگ ڈنگ ڈیری فارم اور روس کے سیورنری برن سے ہے۔ مودین جیانگ سٹی میگا فارم میں موجود گائیوں کی خوراک کے لیے روس کے علاقے ٹرانس بائیکل ریجن میں دو لاکھ چوراسی ہزار ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے۔

٭چائنا موڈرن ڈیری فارم
China Modern Dairy Farm
چین کی تقریباً تمام آبادی کو ڈیری مصنوعات فراہم کرنے والے ادارے چائنا موڈرن ڈیری کے زیرانتظام چین کے آٹھ صوبوں میں ستائیس مختلف مقامات پر ڈیری فارم قائم ہیں، جن کا مجموعی رقبہ بارہ ملین ایکڑ بنتا ہے۔ اس وسعت کے لحاظ سے چائنا موڈرن ڈیری فارم کو دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ڈیری فارم کا درجہ حاصل ہے۔

اس وسیع وعریض ڈیری فارم کا مرکزی فارم چین کے مشرق حصے میں واقع صوبے ان ہوئی کے علاقے ماآنشان میں ہے۔ دو ہزار پانچ میں قائم کیے جانے والے اس ڈیری فارم میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں سرفہرست امریکا کا ''کولبرگ کیوس رابرٹ گروپ '' ہے، جس نے دیگر سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر لگ بھگ ایک سو پچاس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ واضح رہے کہ چائنا موڈرن ڈیری فارم میں مجموعی طور پر دو لاکھ سے زاید دودھ دینے والی گائیں موجود ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق یوراگوئے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے ہے۔ جدید ترین مشینوں سے آراستہ اس وسیع و عریض ڈیری فارم کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ گائیوں سے حاصل شدہ دودھ صرف دو گھنٹے میں پلانٹ تک پہنچ جاتا ہے، جو اس نوعیت کے وسیع وعریض ڈیری فارمز میں واحد مثال ہے۔ یاد رہے کہ گائیوں کی تعداد کے لحاظ سے چائنا موڈرن ڈیری فارم کے نیٹ ورک کو دنیا میں اول پوزیشن حاصل ہے۔

٭ اینا کریک اسٹیشن
Anna Creek Station
چھے ملین ایکٹر پر پھیلا ہوا یہ فارم آسٹریلیا میں واقع ہے۔ بنیادی طور پر یہ ڈیری فارم بھیڑوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ تاہم اس خطے میں پائے جانے والی جنگلی کتوں کی خطرناک نسل ''ڈنگوس'' کے بھیڑوں پر پے درپے حملوں کے بعد اس فارم کو اب مکمل طور پر گائیوں کے فارم میں تبدیل کردیا گیا ہے واضح رہے جنوبی آسٹریلیا میں واقع اس فارم کا مجموعی رقبہ نہ صرف اسکاٹ لینڈ سے کچھ زیادہ ہے بل کہ اسرائیل کے رقبے سے بھی زیادہ ہے اور افریقی ملک روانڈا کے برابر ہے۔ اس وسیع و عریض ڈیری فارم کے نزدیک ترین کوبر پیڈی نام کا قصبہ ہے، جو اپنے زیرزمین گھروں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ ولیمز کیٹل کمپنی کے زیرانتظام چلنے والے اس کیٹل فارم میں زیادہ تر ''سانتا گرٹروڈس'' نسل کی گائیں ہیں۔ یاد رہے کہ اس وسیع کیٹل فارم میں گائیوں کی چراگاہوں میں نگرانی کے لیے اسپورٹس موٹر سائیکلیں استعمال کی جاتی ہیں۔

اس سے قبل یہ کام گھوڑوں پر سوار ہوکر کیا جاتا تھا۔ اگرچہ سن دو ہزار ایک سے دو ہزار آٹھ تک اس علاقے میں خشک سالی کے باعث یہ کیٹل فارم تقریباً ختم ہوگیا تھا اور صرف ڈیڑھ ہزار گائیں رہ گئی تھیں۔ تاہم دو ہزار دس میں بارشوں کے بعد آنے والے سیلابی پانی کی فراوانی سے یہاں کی رونق لوٹ آئی، جس کے نتیجے میں سبزے کی مقدار میں اضافہ ہوا اور اب یہاں تقریباً بیس ہزار گائیں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ آسٹریلوی نژاد امریکی اداکارہ نکول کڈمین کے رشتے دار سر سڈنی کڈمین نے اس فارم کو ایک سو اٹھارہ برس قبل سن اٹھارہ سو نناوے میں قائم کیا تھا۔ ان کی اس خدمت کے عوض سر سڈنی کڈمین کو ''کیٹل کنگ'' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سولہ اپریل دو ہزار سولہ کو انا کریک کیٹل فارم کو ولیمز کیٹل کمپنی نے ایس کڈمین اینڈ کمپنی سے خرید لیا ہے۔

٭ کلفٹن ہل کیٹل فارم
Clifton Hills Cattle Farm
یہ تاریخی کیٹل فارم اٹھارہ سو اکیاسی میں قائم کیا گیا۔ اس کا محل وقوع بھی جنوبی آسٹریلیا کا شمالی ریجن ہے، جہاں یہ تقریباً چار اعشاریہ دو ملین ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ اپنے قیام کے وقت دنیا کا پہلا کیٹل فارم تھا جہاں ریل گاڑی کے علاوہ بذریعہ سڑک بھی مویشی آسٹریلیا کے دوسرے علاقوں میں پہنچائے جاسکتے تھے۔ کلفٹن ہل کیٹل فارم کے قریب ترین علاقوں میں ایک سو بیس کلومیٹر کی دوری پر جنوب میں برڈس ویلی کا قصبہ اور دوسو کلومیٹر کی دوری پر شمال مغرب میں اینا منکا کا قصبہ ہے۔ دونوں علاقوں کی آبادی بالترتیب سو اور ایک سو اکتیس افراد پر مشتمل ہے۔

جن میں سے زیادہ تر کلفٹن ہل کیٹل فارم کے ملازم ہیں۔ پتھریلی سطح زمین اور خشک آب و ہوا پر مشتمل اس صحرائی علاقے میں کلفٹن ہل کیٹل فارم زندگی کی واحد علامت ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خشک موسم کے باوجود اس صحرائی علاقے میں بہت سے مقام پر قدرتی ندی نالے اور جھیلیں بھی ہیں، جن کے اطراف میں اُگنے والا سبزہ اور گھاس کلفٹن ہل کیٹل فارم کے مویشیوں کی عمدہ چراگاہ ہے۔ ان جھیلوں کو مقامی زبان میں ''گیلگائے'' کہا جاتا ہے۔ کلفٹن ہل کیٹل فارم میں موجود گائیوں میں سے بیشتر کا تعلق ''شارٹ ہارن'' نسل سے ہے جن کا گوشت دنیا بھر میں رغبت سے کھایا جاتاہے۔

٭ الیگزینڈریا کیٹل فارم
Alexandria Cattle Farm
اونچی نیچی ریتیلی پہاڑیوں، وسیع میدانوں اور چھوٹی چھوٹی ندیوں نالوں پر مشتمل الیگزنڈریا کیٹل فارم بھی آسٹریلیا کے شمالی حصے میں واقع ہے، جس کا رقبہ چار ملین ایکڑ ہے۔ الیگزنڈریا کیٹل فارم کی داغ بیل اٹھارہ سو ستتر میں ''نارتھ آسٹریلین پیسٹورل کمپنی'' نے ڈالی تھی اور تاحال الیگزنڈریا کیٹل فارم کی ملکیت اسی کمپنی کے پاس ہے۔ اس کیٹل فارم کے قریب ترین علاقوں میں ''کاموویل'' کا قصبہ ایک سو تہتر کلومیٹر کی دوری پر شمال مغرب میں واقع ہے، جب کہ مشرق میں دو سو تہتر کلومیٹر کی دوری پر ''ٹینینٹ کریک'' کا قصبہ ہے۔



اس علاقے میں پیدا ہونے والی ''میچل گھاس'' مویشیوں کی خوراک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چکنی مٹی میں اُگنے والی یہ گھاس صرف آسٹریلیا ہی میں پائی جاتی ہے جو الیگزنڈریا کیٹل فارم کے ستر ہزار مویشیوں کے علاوہ دیگر کیٹل فارمز کے لیے سال بھر دست یاب ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ سن دو ہزار بارہ میں اس علاقے میں زبردست بارشیں ہوئی تھیں، جن سے سیلابی کیفیت پید ا ہوجانے سے کافی جانور مرگئے تھے۔ تاہم انتظامیہ کے مطابق اب صورت حال اطمینان بخش ہے۔

٭ ڈیون پورٹ ڈاؤن کیٹل فارم
Davenport Down Cattle Farm
سن دو ہزار نو سے ''پاراوے پیسٹورل کمپنی'' کے زیرانتظام چلنے والا ڈیون پورٹ ڈاؤن کیٹل فارم آسٹریلوی ریاست کوئنزلینڈ میں واقع ہے۔ کوئنزلینڈ کے جنوب مغرب میں چینل کونٹری ریجن میں پھیلا ہوا یہ کیٹل فارم تقریباً تین اعشاریہ سات ملین ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔

اس کیٹل فارم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سال بھر زیرزمین پانی کی فراوانی رہتی ہے، جس کے باعث مویشیوں کی خوراک کے لیے چارے کی ہر وقت موجودگی نے اس دوردراز مقام پر قائم کیٹل فارم کو تیزی سے ترقی فراہم کی ہے۔ انیس سو بانوے میں یہاں پر جنگلی بلیوں کی بہتات ہوگئی تھی، جس کے باعث جب مویشیوں کی اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا تو کوئن لینڈ کی انتظامیہ نے مشاق نشانہ بازوں کے ذریعے جنگلی بلیوں کو مارنے کا حکم دیا اور محض تین دن میں پانچ سو سے زاید جنگلی بلیوں کو مارا گیا۔ اس کام یابی کے بعد اب ڈیون پورٹ ڈاؤن کیٹل فارم میں مویشیوں کی تعداد تیس ہزار ہوچکی ہے۔

٭ ہوم ویلی کیٹل فارم
Home Valley Cattle Farm
مغربی آسٹریلیا میں واقع ہوم ویلی کیٹل فارم کا شمار ایک عمدہ تفریح گاہ میں بھی ہوتا ہے یہ کیٹل فارم مغربی آسٹریلیا کے مشہور شہر کمبرلے کے علاقے کنونورا سے ایک سوچودہ کلومیٹر دوری پر واقع ہے، جس کے ساتھ مشہور دریا پینٹی کوسٹ اور دریائے گب سے متصل سڑک خوب صورت منظر پیش کرتی ہے۔ ہوم ویلی کیٹل فارم مقامی باشندوں کی شراکت سے تشکیل کردہ ''انڈیجینئس لینڈ کارپوریشن'' کی ملکیت ہے۔ تین اعشاریہ پانچ ملین ایکڑ پر محیط اس کیٹل فارم کے اطراف میں آسٹریلیا کے قدیم ایبوریجینل نسل کے باشندوں کی ثقافت پھیلی ہوئی ہے، جس کے باعث یہاں سال بھر سیاحوں کی آمد جاری رہتی ہے۔

انیس سو چھبیس سے قائم اس کیٹل فارم سے برہما نسل کی گائیوں کا گوشت دنیا بھر میں فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہوم ویلی کیٹل فارم میں دس ہزار سے زاید مویشی ہیں۔ یاد رہے کہ سن دو ہزار آٹھ میں ریلیز ہونے والی رومانویت اور تجسس سے بھرپور فلم ''آسٹریلیا '' کی عکس بندی ہوم ویلی کیٹل فارم میں کی گئی تھی۔ اس فلم میں مرکزی کردار آسٹریلوی نژاد امریکی اداکارہ نکول کڈمین اور ہیو جیک مین نے ادا کیا تھا۔

٭ انامنکا کیٹل فارم
Innamincka Cattle Farm
اٹھارہ سو بہتر سے قائم انامنکا کیٹل فارم ایس کڈمین اینڈ کمپنی کی ملکیت ہے۔ یہ کیٹل فارم جنوبی آسٹریلیا کے چھوٹے سے قصبے ''انامنکا'' کے شمال مشرق میں چار کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور علاقے کی مناسبت سے ہی اس کا نام انا منکا ہے یہ لفظ قدیم ایبوریجینل زبان کے دو لفظوں ''انا'' اور ''منکا'' سے مل کر بنا ہے، جس کے معنی ''تمھارا سائبان ہمارا گھر'' کے ہیں۔

تقریباً تین اعشاریہ تین ملین ایکڑ پر محیط انا منکا کیٹل فارم کا بیس فی صد حصہ سیلابی پانی کے راستوں اور بیس فی صد میچل گھاس پر مشتمل ہے، جب کہ ساٹھ فی صد علاقے میں ریت کے ٹیلے اور پانی کے مختصر تالاب ہیں۔ تاریخی طور پر یہ علاقہ شدید خشک سالی اور موسلادھار بارشوں کے موسموں سے نبردآزما رہا ہے، جس کے باعث انا منکا کیٹل فارم میں کئی مرتبہ مالکان کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم ان تمام نامساعد حالات کے باوجود اس کیٹل فارم میں چودہ ہزار صحت مند مویشی موجود ہیں۔

٭ ویو ہل کیٹل فارم
Wave Hill Cattle Farm
آسٹریلیا کے شمالی علاقے میں واقع ویو ہل کیٹل فارم ایک ایسے علاقے میں قائم کیا گیا ہے جو آسٹریلیا کی قدیم ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ ماہرین بشریات کا خیال ہے اس مقام پر گذشتہ ساٹھ ہزار سال سے آبادی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے۔ واضح رہے کہ ویو ہل کیٹل فارم آسٹریلیا کے شمالی علاقہ جات میں مشرق میں ''کالکرندج'' اور جنوب مشرق میں ''ٹمبر کریک'' اور جنوب میں صوبائی دارالحکومت ''ڈارون'' کے اطراف میں تین اعشاریہ تینتیس ملین ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔

ویو ہل کیٹل فارم میں کام کرنے والے ملازمین میں سے بیشتر کا تعلق ایبوریجینل نسل کے قدیم مقامی باشندوں سے ہے، جن کی جانب سے انیس سو چھیاسٹھ سے انیس سو پچھتر تک اپنے بنیادی مالکانہ حقوق کے لیے کی جانی والی ہڑتال بھی عالمی شہرت رکھتی ہے۔ ویو ہل کیٹل فارم کے ملازمین کی نو سال تک جاری رہنے والی اس ہڑتال کے باعث اس وقت کی وفاقی حکومت نے قدیم باشندوں کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے قوانین میں ترامیم کی تھیں۔ ویو ہل کیٹل فارم میں لگ بھگ پچاس ہزار صحت مند جانور موجود ہیں، جن کا گوشت آسڑیلیا میں فروخت کیا جاتا ہے۔

٭ میریان ڈاؤن کیٹل فارم
Marion Downs Cattle Farm
آسٹریلیا کی تیسری سب سے زیاد آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دوسری بڑی ریاست کوئنز لینڈ میں واقع میریان ڈاؤنز کیٹل فارم کا رقبہ تقریباً تین اعشاریہ صفر سات ملین ایکڑ ہے۔ اطراف سے تین دریاؤں میں گھرے اس کیٹل فارم میں گھاس کی فراوانی ہے، جو لگ بھگ پندرہ ہزار مویشیوں کی بہترین خوراک کا قدرتی ذریعہ ہے۔

اگرچہ میریان ڈاؤن کیٹل فارم کا قیام اٹھارہ سو ستتر میں ہوگیا تھا۔ تاہم انیس سو چونتیس میں جب اسے شمالی آسٹریلین پیسٹوریل کمپنی نے خرید لیا تو اس وقت سے میریان ڈاؤنز کیٹل فارم میں مُنظّم انداز میں کام شروع ہوا، جو ابھی تک جاری ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اتنے وسیع وعریض رقبے پر محیط ہونے کے باوجود یہاں پر صرف پندرہ افراد پر مشتمل عملہ ہے۔

گوشت مہیا کرنے والے مویشیوں سے متعلق چند دل چسپ حقائق


٭ دنیا میں پانچ ایسے ممالک ہیں جہاں مویشیوں کی تعداد وہاں کی آبادی سے زیادہ ہے۔ ان ممالک میں بالترتیب یوراگوئے، نیوزی لینڈ، ارجنٹائن، آسٹریلیا اور برازیل شامل ہیں۔
٭ آبادی کی بنیاد پر گوشت کے فی کس استعمال میں سرفہرست ہانگ کانگ ہے، جہاں گوشت123پونڈ فی کس استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ امریکا کے محکمۂ زراعت کی جانب سے مہیا کردہ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ برس دنیا بھر میں مجموعی طور پر پانچ کروڑ چوراسی لاکھ تینتالیس ہزار میٹرک ٹن گوشت مختلف مویشیوں سے حاصل کیا گیا۔
٭ مویشیوں سے حاصل شدہ گوشت کی پیداوار کے لحاظ سے امریکا سرفہرست ہے، جہاں گذشتہ سال ایک کروڑ چھیاسی لاکھ ایک ہزار میٹرک ٹن گوشت حاصل کیا گیا۔
٭ گذشتہ برس امریکا، برازیل اور یورپی یونین ممالک نے مویشیوں سے حاصل شدہ دنیا کے مجموعی گوشت کا اڑتالیس فی صد گوشت مہیا کیا۔
٭ مویشیوں سے حاصل شدہ گوشت کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر نواں ہے۔ پاکستان میں گذشتہ برس سترہ لاکھ پچیس ہزار میٹرک ٹن گوشت مویشیوں سے حاصل ہوا۔
٭ گوشت کا سب سے اہم ذریعہ گائے ان جانوروں میں شامل ہے جو تین سو ساٹھ درجے کے زاویے تک اپنی آنکھیں گھما کر دیکھ سکتی ہیں۔
٭ گائے چھے میل کی دوری سے سونگھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
٭ اگرچہ گائے کا ایک معدہ ہوتا ہے، لیکن ہاضمے کے لیے اس میں چار حصے یا چیمبر بنے ہوتے ہیں۔
٭ دودھ دینے والی گائے ایک دن میں ایک سو پچیس پونڈ تھوک یا جھاگ نکالتی ہے۔
٭ فارم ہاؤس میں رہنے والے مویشیوں میں انسان سے سب سے زیادہ انسیت کا اظہار بکری کرتی ہے۔
٭ بعض نسلوں کی بکریاں کھڑی نوکیلی چٹانوں پر توازن برقرار رکھتے ہوئے سفر کرنے میں ماہر ہوتی ہیں۔
٭ بکریاں بہ آسانی درختوں کے پتوں اور شاخوں کے اوپر چڑھ کر خوراک حاصل کرلیتی ہیں۔
٭ بعض بڑے ادارے گوشت کی پیکنگ کاربن مونو آکسائیڈ گیس کے ساتھ کرتے ہیں جس سے گوشت تقریباً ایک سال تک تازہ (گلابی) دکھائی دیتا ہے، لیکن درحقیقت گوشت اس عرصے میں اپنی تازگی کھو دیتا ہے۔
٭ بنیادی طور پر انگریزی لفظ ''لائیو اسٹاک'' گائے، بھیڑ اور مرغی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
٭ مسلم ملک برونائی میں مرغیوں کی تعداد وہاں کی مجموعی آبادی سے چالیس گنا زاید ہے۔

کافی۔۔۔بکری کی دریافت


کہا جاتا ہے کہ کافی کے پودے کی دریافت بکری کی مرہون منت ہوئی۔ جب دسویں صدی عیسوی میں ایتھوپیا میں ایک چرواہے نے دیکھا کہ مخصوص جھاڑی کے کھانے کے بعد اس کے ریوڑ کی بکریوں میں چستی بڑھ جاتی ہے، تو اس نے اس جھاڑی کو خود استعمال کیا، جس کے بعد اس نے حیرت انگیز طور پر خود کو پہلے سے زیادہ تازہ دم محسوس کیا۔ اس طرح چستی اور توانائی کے حصول کے لیے کافی کے بیچوں کا استعمال شروع ہوا۔

مویشیوں کی تعداد کے لحاظ سے دس صف اول کے ممالک
سن دو ہزار تیرہ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مویشی برازیل میں ہیں جن کی تعداد اکیس کروڑ سترہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس کے بعد بالترتیب انڈیا اٹھارہ کروڑ نوے لاکھ، چین گیارہ کروڑ چھتیس لاکھ، امریکا آٹھ کروڑ ترانوے لاکھ، ایتھوپیا پانچ کروڑ چالیس لاکھ، ارجنٹائن پانچ کروڑ گیارہ لاکھ، سوڈان چار کروڑ انیس لاکھ، پاکستان تین کروڑ تیراسی لاکھ، میکسیکو تین کروڑ چوبیس لاکھ اور آسٹریلیا میں دو کروڑ تیرانوے لاکھ مویشی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں