کرپشن کی دلدل میں پھنسا افغانستان

امریکی حکومت نےافغان حکمران طبقےکی بےحساب کرپشن افشا کرنےوالی اپنی ہی خصوصی رپورٹ میڈیاسے چھپا لی، حیرت انگیز انکشافات


امریکی حکومت نے افغان حکمران طبقے کی بے حساب کرپشن افشا کرنے والی اپنی ہی خصوصی رپورٹ میڈیا سے چھپا لی…حیرت انگیز انکشافات ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: یہ 2008ء کی بات ہے، امریکی حکومت نے ایک ادارہ ''اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن''(Special Inspector General for Afghanistan Reconstruction) قائم کیا۔ اس نئے ادارے کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ نظر رکھے، افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبوں پر لگنے والی رقم کیسے اور کیونکر خرچ ہورہی ہے۔ دراصل افغانستان سے خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں سرکاری منصوبے بے پناہ کرپشن کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ان خبروں کی چھان بین کے لیے یہ ادارہ بنایا گیا۔اس ادارے سے 197 اہل کار وابستہ ہیں۔ ادارے کا سربراہ ''اسپیشل انسپکٹر جنرل'' کہلاتا ہے۔ 2008ء سے اس پر ایک وکیل، جان ایف سوپکو فائز ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔

پچھلے ماہ مئی 2016ء میں افغانستان کی تعمیر نو کے سلسلے میں جان سوپکو نے دو سو چھتیس صفحات پر مشتمل ایک خصوصی رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں اسپیشل انسپکٹر جنرل نے انکشاف کیا ''افغانستان میں تعمیر نو کی بین الاقوامی کوششیں ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔'' انہوں نے خرابی کا ذمے دار افغان حکومت میں جابجا پھیلی کرپشن کو قرار دیا۔

امریکیوں نے عراق پر بھی یہ کہہ کر حملہ کیا تھا کہ وہ عراقی عوام کو آمر صدام سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ بعدازاں وہ دھوم دھڑکے سے عراق کی تعمیر نو میں مصروف ہوگئے۔ مگر عراق کی تعمیر نو تو کیا ہوتی، الٹا یہ اسلامی ملک خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ و نسلی فساد کا نشانہ بن گیا۔ عراق کی موجودہ تباہ حال صورتحال کا ذمے دار صرف امریکا ہے۔

اب اسپیشل انسپکٹر جنرل، جان سوپکو کی خصوصی رپورٹ نے افشا کیا ہے کہ افغانستان میں بھی امریکیوں اور اس کے حواریوں کا جاری کردہ تعمیر نو پروگرام بری طرح ناکام ہوچکا۔ وہ غریب افغان عوام کی حالت تو نہ سدھار سکا، البتہ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر افغانوں کو ضرور کروڑ پتی اور ارب پتی بنا گیا۔

خصوصی رپورٹ کی رو سے امریکی حکومت اب تک افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں پر ''113.2 ارب ڈالر'' خرچ کرچکی۔ اگر افراط زر کے مطابق حساب لگایا جائے، تو یہ رقم ''مارشل پلان'' کے تحت خرچ کیے گئے ''13 ارب ڈالر'' سے کچھ ہی کم بنتی ہے۔ یاد رہے، بعداز دوسری جنگ عظیم امریکی حکومت نے ''مارشل پلان'' کے ذریعے مغربی یورپ کے تباہ حال ممالک کی تعمیر نو پر تیرہ ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔

امریکی ڈالروں کے سہارے ہی مغربی جرمنی، فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، اٹلی، بلجیم اور آسٹریا نہ صرف تباہ حالی سے نکلے بلکہ معاشی طور پر بڑی طاقت بن گئے۔ یوں امریکی مال کو نئی منڈیاں میسر آئیں اور امریکا کی معیشت مضبوط تر ہوگئی۔ مگر امریکا افغانستان میں ایک سو تیرہ ارب کا زرکثیر خرچ کرنے کے باوجود کسی قسم کے پسندیدہ نتائج حاصل نہیں کرسکا۔ اس کڑوی سچائی کے باعث امریکی حکمران طبقہ بہت پریشان ہے۔

اسی پریشانی کی وجہ سے امریکی حکومت نے اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے تعمیر نو افغانستان کی خصوصی رپورٹ کو امریکا اور یورپ میں نمایاں نہیں ہونے دیا۔ کسی مشہور امریکی ٹی وی نیٹ ورک نے رپورٹ کی تفصیل نہیں دکھائی۔ اسی طرح کسی ممتاز امریکی اخبار نے رپورٹ پر خبر نہ دی۔ صرف نیویارک کے ایک مقامی اخبار نے رپورٹ پر مضمون شائع کیا اور امریکی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ ظاہر ہے کہ امریکی حکومت کے دبائو پر امریکی و یورپی میڈیا نے تعمیر نو افغانستان پر خصوصی رپورٹ کو نمایاں نہیں کیا۔ اس کی وجہ ؟؟... وجہ یہ کہ رپورٹ پڑھ کر امریکی عوام میں غم و غصّے کی لہر دوڑ جاتی۔ وہ اپنی حکومت سے سوال کرنے لگتے کہ ان کے ٹیکسوں کی بھاری بھرکم رقم افغانستان میں کیوں ضائع کردی گئی؟ ریپبلکن امیدوار، ڈونالڈٹرمپ یہی تو کہتا ہے کہ غیر ممالک میں جنگیں چھیڑ کر امریکی عوام کا پیسہ برباد کیا جارہا ہے۔ وہ برسراقتدار آکر یہ جنگیں ختم کرنا چاہتا ہے۔

اگر درج بالاخصوصی رپورٹ کی تشہیر ہوجاتی، تو اس سے امریکی عوام میں ڈونالڈٹرمپ کے موقف کو پذیرائی ملتی۔ حتیٰ کہ اس رپورٹ میں اتنا دم خم ہے کہ وہ امریکی رائے عامہ کو ڈونالڈ ٹرمپ کا حامی بنادیتی۔ موجودہ ڈیموکریٹک امریکی حکومت ایسا ہرگز نہیں چاہتی ۔ اسی لیے افغانستان کی تعمیر نو پر خصوصی رپورٹ کو امریکی عوام کے سامنے نمایاں نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ واقعہ امریکی حکمران طبقے کی چال بازی اور دھوکے بازی عیاں کرتا ہے جو بالعموم خود کو اصول پرست اور دیانت دار دکھاتا ہے۔

ماضی پہ ایک نظر
اسکندر اعظم دنیا کا عظیم فاتح گذرا ہے۔33 قبل مسیح میں اس نے ایران پر حملہ کیا اور چھ ماہ میں سلطنتِ فارس پر قابض ہو گیا۔ وہ پھر افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ تب دنیا کا سب سے طاقتور جرنیل تین سال تک افغان قبائل سے نبرد آزما رہامگر انہیں کامل شکست نہ دے سکا۔ افغانوں کی گوریلا جنگ نے آخر کار اسکندر اعظم کی یونانی فوج کو اتنا تھکا ڈالا کہ ہندوستان میں وہ حوصلہ ہار بیٹھی اور تتر بتر ہو گئی۔

یہ پہلا موقع تھا کہ افغانوں نے اپنے وقت کی ایک سپر طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ پھر انیسویں صدی میں انگریزوںنے افغانوں سے جنگ کی جنہیں بڑا غرور تھا کہ ان کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ انگریز طاقت کو بھی افغانستان میںمنہ کی کھانا پڑی۔بیسویں صدی میں ایک اور سپر پاور ' سویت یونین افغانستان پرحملہ آور ہوئی۔ افغانوں نے اسے بھی شکست فاش دی۔ حتیٰ کہ یہ افغان جنگ ہی ہے جس نے سویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں تیزی پیدا کی۔

اوائل اکیسویں صدی میں چوتھی سپر پاور' امریکا افغانستان آن دھمکی۔ یہ طاقت اس لحاظ سے منفرد تھی کہ بقول امریکی حکمرانوں کے وہ افغان عوام کو تنگ نظر' سخت دل اور جاہل طالبان کے قبضے سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ لیکن ہوا کیا؟ہونا یہ چاہیے تھا کہ امریکی افغان عوام کے پسندیدہ نمائندوں کو حکومت دے دیتے۔ مگر ہوا یہ کہ افغان حکومت شمالی اتحاد کے ظالم و معتصب رہنمائوں اور جنگی سرداروں کو سونپ دی گئی۔ ان میں سے اکثر افغان خانہ جنگی (1989ء تا 1993ء) کے دوران وسیع پیمانے پر عوام کے قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث تھے۔ جبکہ سی آئی اے کے ایجنٹ اور اپنے پٹھو،حامد کرزئی کو افغان صدر بنا دیا گیا تاکہ سب سے بڑے افغان نسلی گروہ، پشتونوں کی نمائندگی ہو سکے۔

بین الاقوامی امداد کی برسات
دسمبر 2001ء میں جیسے ہی افغان عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا' امریکا' یورپی یونین اور دیگر ممالک سے اسے ملکی تعمیر نو کے لیے بھاری مالی امداد ملنے لگی۔ یہ بین الاقوامی امداد اب بھی جاری و ساری ہے۔ تازہ ترین اعدادو شمار کی رو سے عالمی ممالک افغانستان کی تعمیر نو کے لیے پچھلے پندرہ سال میں کم از کم ''130 ارب ڈالر'' افغان حکومتوں کو فراہم کر چکے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم ایک سو تیس کھرب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔

ایک سو تیس کھرب روپے کی خطیر رقم بیٹھے بٹھائے کسی ملک کو مل جائے تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اس کی دگرگوں حالت بدل جانی چاہیے۔مثال کے طور پہ بیشتر لوگ خوشحال اور صاحبِ روزگار ہو جائیں۔ انہیں زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہوں۔مگر افغانستان کی معاشی و سماجی حالت پر نظر ڈالی' تو کچھ اور ہی سنگین تماشا نظر آتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں ''70 فیصد'' عوام غریب کہلاتے ہیں۔ ان میں سے'' 40 فیصد افغان ''خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یعنی وہ انتہائی غریب ہیں اور انہیں دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ عام افغانوں کو ڈاکٹر اور استاد میسّر نہیں ۔ پینے کا پانی بھی بھاگ دوڑ کے بعد ہی میسر آتا ہے۔ اکثر عام افغانوں کا ذریعہ معاش افیون کی کاشت ہے جس سے ہیروئن بنتی ہے۔ دوسری صورت میں انہیں بیروزگاری کا عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے۔

کھربوں روپے کی بین الاقوامی امدادکہاں گئی؟
سوال یہ ہے کہ پچھلے پندرہ برس میں افغان حکومتوں کو جو ایک سو تیس ارب ڈالر کی بے پناہ امداد ملی' وہ کہاں اڑن چھو ہو گئی؟ افغانستان کی افسوس ناک معاشی و سماجی حالت عیاں کرتی ہے کہ یہ رقم اسے سدھارنے پر تو استعمال نہیں ہوئی۔ افغانستان کی برآمدات محض پونے تین ارب ڈالر پر مشتمل ہے۔ جبکہ ملک تقریباً تیرہ ارب ڈالر کی درآمدات منگواتا ہے۔ چناںچہ غیر ملکی تجارت انتہائی غیر متوازن ہے۔ افغان حکومت اپنے بیشتر اخراجات بیرونی امداد کے ذریعے ہی پورے کرتی ہیں جو ہر سال کم ہوتی جا رہی ہے... درحقیقت افغان حکومت طبقے کو اسی بیرونی یا بین الاقوامی امداد کی چاٹ لگ چکی ہے۔

افغان حکومت کو غیر ملکی امداد کے کھربوں روپے اسکول' ہسپتال ' ڈیم ' سڑکیں اور سرکاری عمارتیں تعمیر کرنے کے واسطے موصول ہوئے۔ لیکن روپے پیسے کی فراوانی نے متکبر و مغرورافغان حکمران طبقے کو کرپٹ بنا دیا جس میں سیاست داں' جنگی سردار (وار لارڈز) ' جرنیل ' صوبوں کے گورنر' وزیر مشیر اور سرکاری افسر شامل ہیں۔ چند ہزار افغانوں پر مشتمل یہی ٹولہ کرپشن کے ذریعے 130ارب ڈالر میں سے بڑی رقم ڈکار گیا۔

اس افغان حکمران ٹولے نے کرپشن کے نت نئے طریقے ایجاد کیے اور رشوت خوری میں بڑے بڑوں کو مات دے دی۔ نتیجتاً آج یہ ٹولہ امیر کبیر اور پر آسائش زندگی گزار رہا ہے۔ غیر ملکی بینکوں میں اسی طبقے کے اکاؤنٹس موجود ہیں جن میں کروڑوں ڈالر جمع ہیں۔ بین الاقوامی امداد کے ذریعے ان چند ہزار افغانوں کی تو قسمت بدل گئی، مگر کروڑوں افغان ماضی کی طرح غربت' جہالت اور بیماری کے عفریتوں کے چنگل میں پھنسے ہیں اور ان کی زندگیاں اجیرن ہو چکیں۔

اب اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن کی خصوصی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا نے جو 113 ارب ڈالر افغانستان کی تعمیر نو پر خرچ کیے، اس میں سے بیشتر رقم فراڈ، کرپشن اور بے فائدہ منصوبوں کی نذر ہوگئی۔ سب سے زیادہ رقم سکیورٹی سے وابستہ منصوبوں پر خرچ ہوئی مگر نتیجہ مایوس کن نکلا۔ یہ کل رقم کا ''60 فیصد'' بنتی ہے۔

امریکا افغان فوج و پولیس کھڑی کرنے کے لیے ہر سال تین تا پانچ ارب ڈالر خرچ کرتا رہا ہے... مگر آج بھی کسی کو نہیں معلوم کہ افغان فوج میں فوجیوں کی کل کتنی تعداد ہے۔ وجہ یہ کہ خود اسپیشل انسپکٹر جنرل، جان سوپکو تسلیم کرتا ہے کہ افغان فوج اور پولیس میں ہزارہا فوجی ''بھوت'' ہیں یعنی ان کا کوئی وجود نہیں، البتہ ''بھوت فوجیوں'' کے نام پر تنخواہیں لی جارہی ہیں۔ بہت سے افغان فوجی افسر منشیات کی سمگلنگ میں بھی ملوث ہیں۔

سونے پر سہاگہ افغان سکیورٹی فورسز میں حوصلے اور جذبے کی شدید کمی ہے۔ چنانچہ محاذ جنگ پر مٹھی بھر طالبان بھی افغان فوج کی ایک پوری کمپنی کو بھگادیتے ہیں۔ اوپر سے افغان حکومت اس مسئلے میں گرفتار ہے کہ ہزارہا بھوت فوجی کاغذات پر تو موجود ہیں مگر میدان جنگ میں بھجوانے کی خاطرمیسر نہیں۔ گویا افغان حکمران طبقے کے وزیر، مشیر اور سرکاری افسر مل کر بھوت فوجیوں کی تنخواہیں مالِ مفت سمجھ کر ہضم کررہے ہیں۔

افغان سکیورٹی فورسز میں پھیلی کرپشن کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کے بیشتر علاقوں میں طالبان چھائے ہوئے ہیں۔ بعض فوجی افسر طالبان کے مخبر بن چکے ہیں۔ طالبان ان کی مدد سے افغان سکیورٹی فورسز پر کامیاب حملے کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رفتہ رفتہ پورے افغانستان میں طالبان کا دائرہ اثر بڑھتا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ افغانستان میں داعش کو پسپا کرنے کی خاطر ایرانی حکومت بھی طالبان سے اتحاد کرنے پر مجبور ہوگئی۔

افغانستان میں اب بھی تقریباً گیارہ بارہ ہزار امریکی فوج و ٹھیکے دار موجود ہیں۔ مگر وہ قیدیوں کی طرح سرزمین افغاناں میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان کا بیشتر وقت قلعہ نما امریکی سفارت خانوں میں گزرتا ہے۔ باہر جانا ہو، تو بھاری اسلحے سے لیس قافلہ روانہ ہوتا ہے۔ امریکی ہیلی کاپٹر پر سفر کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ سڑکوں پر چلتے ہوئے کہیں سے بھی ان پہ فائرنگ ہونے لگتی ہے۔

افغان حکومت سرتا پا کرپشن سے لتھڑی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغان سرکاری اہل کار پچھلے پندرہ برس میں ''200 ارب روپے'' کا تیل غائب کرچکے ہیں۔ سرکاری ٹھیکے داروں نے اکثر سرکاری و نجی عمارتیں ناقص اور سستے میٹریل سے تعمیر کیں۔ چناں چہ وہ بارشوں اور طوفانوں کے باعث جلد ہی ڈھے گئیں۔ افغان فضائیہ کو نئے کارگو ہوائی جہاز خریدنے کی خاطر ''پانچ سو ارب روپے'' ملے۔ مگر فضائیہ کے جرنیلوں نے سیکنڈ ہینڈ جہاز خریدے اور بچ جانے والی رقم کھاگئے۔ غرض افغان حکومت کے جس شعبے میں جائیے، وہاں رشوت خوری کی ہوش ربا اور سر چکرا دینے والی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔

اب منشیات کا معاملہ ہی دیکھیے۔ امریکی و یورپی حکومتوں کی بھر پور سعی تھی کہ افغانستان میں افیون کی کاشت ختم ہوجائے۔ اس غرض سے پچھلے پندرہ برس میں ''9 ارب ڈالر'' خرچ کیے گئے۔ مگر افغانستان میں آج بھی ہر سال ''تین ہزار ٹن'' سے زائد افیون پیدا ہوتی ہے۔

اسی طرح امریکا اور یورپی ممالک نے تعلیم کی حالت بہتر بنانے کے لیے تقریباً ''760 ارب روپے'' خرچ کیے۔ مگر اب بھی بیشتر افغان بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ وجہ یہی کہ افغان حکمران طبقہ انسداد منشیات کے منصوبوں کی طرح شعبہ تعلیم کے لیے مختص رقم بھی ہڑپ کرگیا۔انسداد منشیات کے کئی منصوبے صرف کاغذات میں بنائے گئے۔ امریکی انہیں دیکھ کر مطمئن ہوگئے حالانکہ حقیقتاً ان کا کوئی وجود نہ تھا۔ اسی طرح افغانستان میں جابجا ''بھوت اسکول'' کھولے گئے جہاں ''بھوت اساتذہ'' کا تقرر ہوا۔ حقیقت میں ان اسکولوں اور اساتذہ کا نام و نشان نہ تھا۔

افغان حکمران طبقے نے ڈالر اڑانے کے لیے ایک نئی چال بھی اپنائی۔ جن علاقوں میں سکول تعمیر ہوئے، وہاں طلبہ وطالبات اور اساتذہ کی حاضری کی جعلی فہرستیں بنائی جاتیں۔ مگر حقیقت میں وہاں ایک دو استاد اور چند بچے ہی آتے،حاضری لگاتے اور گھر چلے جاتے۔

اشرف غنی کی آمد
افغان صدر حامد کرزئی اپنے دور حکومت (دسمبر 2001ء تا ستمبر 2014ء) میں کرپشن کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاسکا بلکہ اس کے بھائی اور عزیز و اقارب نے کھل کر بے ایمانی کی اور ڈالروں کی بہتی گنگا میں بلا دھڑک ہاتھ دھوئے۔جب اشرف غنی نے اقتدار سنبھالا تو خیال تھا کہ وہ افغان حکومت میں جاری و ساری کرپشن روکنے کی خاطر ٹھوس اقدامات کریں گے۔ مگر وہ بھی افغان کرپٹ مافیا کے سامنے ایک کمزور حکمران ثابت ہوئے۔ اس کرپٹ مافیا کی جرأت دیکھیے کہ نومبر 2015ء میں اس نے کابل بینک اسیکنڈل کے مرکزی مجرم، خلیل اللہ فیروزی کو انوکھے طریقے سے رہا کروالیا۔

نومبر 2015ء میں خلیل اللہ فیروزی نے کابل کے نزدیک اپنی ایک ہائوسنگ سکیم کا اعلان کیا۔ اس اسکیم میں 8800 گھر تعمیر ہونے ہیں۔ افتتاح کے موقع پر افغان وزیر اور سرکاری افسر بھی موجود تھے۔ یہ سارا دھوم دھڑکا دیکھ کر غیر ملکی صحافی بہت حیران ہوئے کیونکہ ان کی اطلاع کے مطابق تو خلیل اللہ پندرہ سال کی جیل کاٹ رہا تھا۔
افغان حکومت نے صحافیوں کو مطلع کیا کہ خلیل اللہ سے ''ڈیل'' ہوگئی ہے۔ وہ ہائوسنگ سکیم بناکر جو رقم کمائے گا، وہ افغان حکومت کو ملے گی۔ یوں خلیل اللہ اپنے ذمے بینک کی رقم ادا کرے گا۔ ''ڈیل'' کی رو سے خلیل اللہ اب صرف رات کو قید کیا جاتا ہے... دن کے وقت اسے ہر کام کرنے کی آزادی ہے۔ آپ نے کبھی سنا یا کہیں پڑھا ہے کہ کسی اور ملک میں ایسی حیرت انگیز ''ڈیل'' انجام پائی ہو؟

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک زرکثیر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان کے حالات بہتر بنانے میں بری طرح ناکام رہے۔ امریکی حکومت تو خاص طور پر یہ تلخ حقائق اپنی عوام سے پوشیدہ رکھنا چاہتی ہے۔ اس نے افغانستان میں جس حکمران طبقے پر انحصار کیا، وہ نہایت کرپٹ، خود غرض اور لالچی نکلا۔ نتیجۃً وہ تو امیر کبیر بن گیا مگر کروڑوں افغان عوام آج بھی غربت، جہالت اور خانہ جنگی کے عفریتوں کی بے رحم گرفت میںہیں اور بے بس و پسماندہ افغانوں کی آہ و زاری کسی کو دکھائی دیتی ہے نہ سنائی!

افغان حکمران ہی امن نہیں چاہتے
امریکا اور یورپی ممالک ہر سال چار تا چھ ارب ڈالر کے درمیان رقم بطور امداد افغان حکومت کو اب بھی فراہم کررہے ہیں۔ لالچی اور ہوس پرست افغان حکمران طبقہ کسی صورت اس زرکثیر سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔چناں چہ اسے یقین ہے، اس نے طالبان سے امن معاہدہ کرلیا، توبین الاقوامی امداد میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے کیونکہ تب عسکری اخراجات بہت کم رہ جائیں گے۔

طالبان سے امن معاہدے کی صورت میں بین الاقوامی امداد کم نہ ہوئی تب بھی افغان حکمران طبقے کو کرپشن کرنے کی مادر پدر آزاد آزادی نہیں ملے گی جیسی اب اسے حاصل ہے۔ پھر اسے اقتدار میں طالبان کو بھی شریک کرنا پڑے گا۔ طالبان کی خامیاں اپنی جگہ، ان کی یہ خوبی قابل ذکر ہے کہ وہ کرپٹ ہرگز نہیں۔ ان کا دور حکومت گواہ ہے کہ طالبان نے سرکاری منصوبوں میں کمیشن نہیں کھایا، بیگوں میں کرنسی نوٹ نہیں بھرے، غیر ملکی اکاؤنٹس نہیں کھولے اور نہ عالی شان محل کھڑے کیے۔ ان کا دور حکومت سادگی اور قانون کی حکمرانی کی بہترین مثال ہے۔

اگر موجودہ افغان حکمران طبقے نے طالبان سے امن معاہدہ کرلیا، تو لامحالہ اسے اربوں ڈالر کی کرپشن ختم یا محدود کرنا ہوگی۔ مگر اسے تو غیر ملکی امداد اڑانے کی دیرینہ چاٹ لگ چکی، جیسے شیر انسان کھانے کے بعد صرف آدمی کا گوشت کھانا ہی پسند کرتا ہے اور کسی دوسری شے کو منہ نہیں لگاتا۔

یہ حقیقت ہے، حریص افغان حکمران طبقہ غیر ملکی امداد کا اتنا ہی نشئی ہوچکا کہ وہ اسے ہر قیمت پر ترک نہیں کرنا چاہتا، چاہے اس کا ملک خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہے۔ ذاتی مفادات کا اسیر یہ حکمران طبقہ قومی مفاد کو پس پشت ڈال چکا۔ اسی لیے وہ طالبان سے امن معاہدہ کرنے کو تیار نہیں۔ یہ معاہدہ نہ کرنے کی خاطر افغان حکمران طبقہ تاویلیں ہی نہیں گھڑتا بلکہ خود دہشت گردی کے واقعات کراتا ہے تاکہ امن معاہدہ نہ کرنے کا جواز پیدا ہوسکے۔اس کا ایک من پسند حربہ پاکستان کی آئی ایس آئی پر دہشت گردی کرانے کا الزام لگا دینا ہے۔ دولت کی ہوس ضمیر اور دل مردہ کردیتی ہے۔ تب لالچی اور حریض اپنے مفادات کی خاطر ہر قسم کا بھیانک قدم بلا کھٹکے اٹھالیتے ہیں۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔

کابل بینک کا اسکینڈل
افغانستان میں حکمران طبقے نے قومی خزانہ جس بے دردی سے لوٹا' اس کی ایک بھیانک مثال ''کابل بینک اسکینڈل'' ہے۔ جب امریکا اور پورپی ممالک افغان حکومت پر ڈالروں کی برسات کرنے لگے' تو حکمران طبقے کو خیال آیا کہ کسی طریقے سے یہ رقم ہڑپ کر لی جائے۔ چناںچہ حامد کرزئی نے اپنے نائب صدر' محمد فہیم اور کاروباری بھائی' محمودکرزئی کے ساتھ مل کر ایک شاطرانہ منصوبہ تیار کیا۔

منصوبہ یہ تھا کہ کابل میں ایک نجی بینک قائم کیا جائے۔ امریکا اور یورپی ممالک تنخواہوں کی مد میں جو بھاری رقم دیتے ہیں، وہ اس بینک کے ذریعے سرکاری ملازمین' افغان فوجیوں اور سپاہیوں میں تقسیم کی جائیں۔ اور جب بینک مستحکم ہو جائے تو اس میں سے کروڑوں ڈالر خرد برد کر لیے جائیں۔ یوں دولت کی ہوس کا شکار بااثر و طاقتور شخصیات نے قومی خزانے سے لوٹ مار کا گھٹیا پروگرام بنا لیا۔



بعدازاں منصوبے سے متعلق بیس پچیس افراد کو بھی اس ''غرض و غایت'' سے آگاہ کیا گیا جسے پانے کے لیے کابل بینک کھولا جا رہا تھا۔ ان میں شہر خان فرنود' خلیل اللہ فیروزی اور سٹیٹ بینک کا گورنر' عبدالقدیر فطرت نمایا ں تھے۔شہر خان فرنود غیر قانونی کام کرنے میں مہارت رکھتا ہے ۔جب افغان جہاد شروع ہوا' تو یہ ازبک باشندہ ماسکو فرار ہو گیا۔وہاں وہ ہنڈی کا کاروبار کرنے لگا۔ افغانستان میں ہیروئن کے تاجر اس کی وساطت سے رقم باہر بھجواتے یا منگواتے تھے۔ ماسکو میں شہر خان جوئے(پوکر) کا بھی مشہور کھلاڑی بن گیا۔اس نے خوب رقم کمائی اور غیر ملکی بینک اکاؤنٹس میں جمع کرا دی۔

خلیل اللہ فیروزی کا ماضی بھی اجلا نہیں تھا۔ یہ تاجیک باشندہ مشہور جنگجو لیڈر احمد شاہ مسعود کا ساتھی تھا۔ احمد شاہ مسعود کے زیر اقتدار علاقے میں قیمتی پتھروں کی کانیں تھیں۔ خلیل اللہ ان کانوں سے پتھر نکلوا کر انہیں فروخت کرتا تھا۔ جو رقم حاصل ہوتی ' وہ ا حمد شاہ مسعود کی جنگی مہمات چلانے میں کام آتی۔ مگر جب احمد شاہ کو معلوم ہوا کہ خلیل اللہ طالبان کے لیے بھی کام کرتا ہے تو اسے تنظیم سے نکال دیا گیا۔ اب نئے افغان طبقے نے اپنے فراڈ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اس کی خدمات حاصل کر لیں۔

کابل بینک 2004ء سے کام کرنے لگا۔ کچھ عرصے بعد افغان صدر حامد کرزئی کے حکم پر اسی بینک کے ذریعے تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دی جانے لگیں۔ جلد ہی افغان باشندے بھی بینک میں اکاؤنٹ کھولنے لگے۔ یہ بینک پانچ سال تک صاف ستھرے اور قانونی طریق کار کے مطابق کام کرتا رہا۔ یوں بین الاقوامی ڈونرز اور افغان عوام اس پر اعتماد کرنے لگے۔

2009ء سے اصل پروگرام یعنی قومی خزانے کی لوٹ مار پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ ڈاکا ڈالنے کی خاطر بنیادی طور پر دو طریقے اپنائے گئے۔ پہلا طریقہ یہ تھا کہ افغانستان کے طول وعرض میں مختلف جعلی کمپنیاں قائم کی گئیں۔ بینک نے ان کمپنیوں کو بھاری بھرکم قرضے دے دیئے۔ دوسرا طریقہ واردات یہ اختیار کیا گیا کہ جعلی شناختی کاغذات کی بنیاد پر رشتے داروں اور دوست احباب کو بھاری قرضے دیئے گئے۔ یوں کابل بینک سے تقریباً 988ملین ڈالر یا 98ارب اسی کروڑ روپے کی بھاری رقم اڑا لی گئی۔

یہ افغانستان ہی نہیں دنیا میں بینکاری کی تاریخ کا ایک بڑا فراڈ تھا۔ جب 2010ء میں اس دھوکے بازی کا انکشاف ہوا' تو امریکا اور یورپی ممالک کے حکمران دم بخود رہ گئے تھے ۔ اُدھر افغان عوام پر بھی کابل بینک اسکینڈل نے منفی اثرات مرتب کیے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ بینکوں کا مغربی مالیاتی نظام ناقابل اعتبار ہے۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کابل بینک سے لوٹے گئے ڈالر سوٹ کیسوں اور بیگوں میں بھر کر افغانستان سے باہر اسمگل ہوئے۔ سوئٹزر لینڈ، لکسمبرگ اور دیگر ممالک میں کھولے گئے غیر ملکی بینک اکاؤنٹس اس زر خطیر کا مسکن بنے۔



بعدازاں تحقیق سے انکشاف ہوا کہ اس فراڈ میں حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے محض 30 افراد ملوث تھے۔ ان تیس افراد نے دن دیہاڑے قومی خزانے سے تقریباً ایک کھرب روپے لوٹ لیے۔ جس ملک میں قانون نام کی کوئی شے نہ ہو' وہاں اسی قسم کے حیران کن غیر قانونی واقعات جنم لیتے ہیں۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ لوٹ مار کا پروگرام بنانے والا ٹولہ بچ نکلا۔ اس میں صدر حامد کرزئی' محمود کرزئی ' محمد فہیم' اس کا بھائی حسن فہیم اور حامد کرزئی کا سوتیلا بھائی احمد ولی کرزئی شامل تھے۔ امریکی ویورپی تفتیش کار بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ البتہ شرمندگی سے بچنے کے لیے تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا کہ درج بالا شخصیات نے ''اپنے حصّے'' کی رقم لوٹا دی ہے۔

شہر یار خان کابل بینک کا چیئرمین تھا اور خلیل اللہ چیف اگزیکٹو ! ان سمیت 23 افراد پر مقدمہ چلا۔ 2013 میں وہ مجرم ثابت ہوئے مگر انہیں محض تین سے پانچ سال قید کی سزائیں دی گئیں۔ امریکیوں اور یورپیوں نے ان سزاؤں کو بہت کم قرار دیا اور واویلا مچایا۔ چناںچہ بعدازں افغان عدالت نے سزا کا عرصہ پندرہ سال تک بڑھا دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں