مشتری تک رسائی کی کوششیں
سیارے تک سفر600 سے 2000دنوں میں طے ہوگا
ہم ہمیشہ پلوٹو، Saturn یعنی زحل یا پھر Mars یعنی مریخ کی باتیں تو کرتے ہیں، لیکن جوپیٹر یا مشتری کی بات کوئی نہیں کرتا۔ ایسا کیوں ہے؟ جوپیٹر یا مشتری ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا اور اہم ترین سیارہ ہے۔ اتنے بڑے اور اہم سیارے پر ہماری توجہ کیوں نہیں ہے؟ ہمیں اسے دیگر سیاروں پر ترجیح دینی چاہیے اور اس کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے، یہ ہماری ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہونا چاہیے، کیوں کہ ماہرین کے اندازوں کے مطابق اس اہم سیارے کا مطالعہ و مشاہدہ ہمیں بہت کچھ دے سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جوپیٹر یا مشتری ایک بہت بڑا گیسی دیو یعنی جائنٹ ہے جو نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے مجموعی وزن سے بھی زیادہ ہے، مگر دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا وزن سورج کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہے۔ کیا یہ حقیقت ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے اور انسان نے ستاروں اور سیاروں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے، اس وقت سے ہی نامعلوم وجوہ کی بنا پر انسان کو جوپیٹر یا مشتری میں بہت زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے، کیوں؟
اس کا جواب ماہرین یہ دیتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ اس زبردست اور بھاری بھرکم سیارے کے چاند ہیں جن کے نام ہیں Europa, Callisto اور Ganymede جنہوں نے ہمیشہ سے ہی انسان کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال بل کہ اندازہ ہے کہ ان چاندوں کی منجمد برفانی تہوں کے اندر مائع پانی کے وسیع و عریض ذخائر پوشیدہ ہوسکتے ہیں۔ ہم سب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہم ہمیشہ سے یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ کرۂ ارض پر جہاں جہاں اور جس جس مقام پر پانی ہوتا ہے، وہاں زندگی بھی ضرور ملتی ہے، اسی لیے انسان کو جوپیٹر یا مشتری سے دل چسپی ہے، کیوں کہ اسے پورے نظام شمسی میں یہیں زندگی ملنے کی زیادہ اور قوی امید ہے۔
اب تک کی تحقیق کے مطابق جوپیٹر یا مشتری یا اس کے چاندوں کی سطح پر کوئی خلائی جہاز دکھائی نہیں دے رہا، جس کا سیدھا اور واضح مطلب یہ ہے کہ ماضی کے گزرے برسوں سے یہاں کوئی نہیں آیا ہے۔ کوئی خلائی جہاز یا آلات و مشینری یہاں تک نہیں پہنچ سکی ہے، یہ 2016کی رپورٹ ہے۔ جوپیٹر یا مشتری پر جو آخری خلائی جہاز گیا تھا، وہ 2007میں ناسا کا New Horizons تھا۔ اس وقت مریخ کی سرزمین orbitersاورrovers کی بھن بھناہٹ سے گونج رہی ہے، یعنی اس انوکھی سرزمین پر خلائی جہازوں کی آمدورفت جاری ہے۔
ہم نے حال ہی میں پلوٹو کی قریب سے لی گئی تصویریں بھی دیکھیں، مگر جوپیٹر یا مشتری کی قریب سے لی گئی تصویریں ہم نے لگ بھگ دس سال سے نہیں دیکھیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جوپیٹر یا مشتری واقعی بہت دور ہے، وہاں تک پہنچنے میں لمبا عرصہ لگ سکتا ہے، مگر کتنا؟ اس کے لیے ہمیں ان تمام خلائی جہازوں کو دیکھنا ہوگا جو خلائی سفر کے لیے تیار کیے گئے تھے۔
زمین سے جوپیٹر یا مشتری کا سفر کرنے والا پہلا خلائی جہاز ناسا کا تیارکردہ Pioneer 10 تھا جو 3مارچ1972کو لانچ کیا گیا تھا، یہ جہاز 3دسمبر1973ء کو اپنی منزل پر پہنچا، یعنی اس نے اپنے اس سائنسی و تحقیقی سفر میں مجموعی طور پر 640 دن لیے تھے۔ Pioneer 10اس سیارے یعنی جوپیٹر یا مشتری سے 130,000 کلومیٹر دور سے گزرا تھا، کیوں کہ اصل میں وہ بیرونی سولر سسٹم کے کھوج میں بھیجا گیا تھا۔
لیکن یہاں سے گزرتے ہوئے اس نے جوپیٹر کے اتنے قریب سے پہلی بار زبردست قسم کی تصاویر لی تھیں جس کے بعد یہ خلائی جہاز یعنیPioneer 10 اپنے لامحدود اور نامعلوم خلائی سفر پر چلا گیا۔ اس کی منزل بھی نامعلوم تھی، اس خلائی جہاز کا گیارہ سال تک ناسا سے رابطہ رہا، پھر یہ رابطہ بھی ٹوٹ گیا تو کچھ پتا نہ چل سکا کہ اس کا کیا ہوا۔
ایک سال بعد ایک اور اہم خلائی جہاز Pioneer 11 روانہ ہوا جو اگلے سال جوپیٹر کے قریب پہنچ گیا۔ اس سفر میں مذکورہ خلائی جہاز کو پورے 606 دن لگے تھے۔ یہ مشتری کے اور بھی قریب یعنی21,000 کے فاصلے سے گزرا۔ اپنے تاریخی اور سائنسی سفر کے دوران یہ زحل کے قریب سے بھی گزرا تھا۔
اس کے بعد خلائی جہاز Voyager آئے۔Voyager 1 نے یہ سفر صرف 546 دن میں طے کیا اور Voyager 2 کو اس سفر میں 688 دن لگانے پڑے۔ اس لیے اگر آپ جوپیٹر یا مشتری کے قریب سے گزرنے کے خواہش مند ہیں تو اس سفر میں 550 سے 650 تک دن تک لگیں گے۔ لیکن اگر آپ واقعی جوپیٹر کے مدار میں جانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے سفر کی رفتار اور بھی کم کرنی ہوگی، اتنی کم کہ آپ جوپیٹر کے مدار میں نہایت آسانی سے داخل ہوجائیں۔ یہاں آپ کی تیز رفتاری کام نہیں آئے گی اور مذکورہ گیسی دیو آپ کی راہ میں مزاحم ہوجائے گا۔
جوپیٹر کے اطراف چکر لگانے والا واحد خلائی جہاز ناسا کا Galileo spacecraft تھا جو 18اکتوبر1989ء لانچ کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے جوپیٹر کا سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے زیادہ رفتار حاصل کرنے کے لیے زمین کے دو تجاذبی معاون flybys کی مدد بھی لی اور وینس یعنی زہرہ کے ایک تجاذبی معاون کی مدد بھی حاصل کی۔ آخرکار 8 دسمبر1995 کو یہ جوپیٹر یا مشتری کے قریب پہنچ گیا، گویا اس خلائی جہاز نے اس تاریخی سفر میں مجموعی طور پر 2,242 دن لیے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Galileo نے جوپیٹر تک پہنچنے میں اتنا زیادہ وقت کیوں لیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سفر کے لیے آپ کو اپنی رفتار کافی کم کرنی پڑتی ہے، جبھی یہ ممکن ہوتا ہے کہ آپ اس سیارے کے گرد اس کے مدار میں داخل ہوسکیں، تیزرفتاری میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
پھر ایک طویل عرصہ ایسے ہی گزر گیا اور جوپیٹر کو دنیا والوں نے فراموش کردیا، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارا ایک اور خلائی جہاز اس عظیم الشان سیارے یعنی جوپیٹر یا مشتری تک پہنچنے والا ہے اور یہ اس کے مدار میں داخل ہوجائے گا۔ ناسا کا تیار کردہ Juno نامی خلائی جہاز 6اگست2011کو لانچ کیا گیا تھا، یہ ہمارے اندرونی شمسی نظام میں مسلسل گردش کررہا ہے، یہ جوپیٹر کے سفر کے لیے مطلوبہ velocity یا رفتار و توانائی جمع کررہا ہے۔ یہ خلائی جہاز Juno اسی سال یعنی 4 جولائی2016کو جوپیٹر تک پہنچ جائے گا۔
اس نے یہ کام 2013میں زمین کے ایک flyby کے ذریعے شروع کیا تھا، اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو Junoیقینی طور پر 4 جولائی2016کو Jovian system کے مدار میں داخل ہوجائے گا۔ اس طرح اس کا مجموعی فلائٹ ٹائم 1,795 دن ہوگا۔ یعنی آخرکار ہمارے پاس ایک ایسا خلائی جہاز ہوگا جو ہمیں بہت قریب سے ہمیں جوپیٹر اور اس کے چاندوں کا مشاہدہ کرنے میں مدد دے سکے گا۔
یہ تو صرف آغاز ہے، جوپیٹر تک جانے کے متعدد منصوبے یا مشن ایسے ہیں جن پر کام مسلسل جاری ہے۔ یورپیئن اسپیس ایجینسی 2022میں Jupiter Icy Moons Mission لانچ کرے گی جسے جوپیٹر تک پہنچنے میں لگ بھگ آٹھ سال لگیں گے، گویا یہ مشن 2030میں تکمیل کو پہنچ سکے گا۔ اس کے علاوہ ناسا کا Europa Multiple-Flyby Missionبھی اسی ٹائم فریم میں لانچ کیا جائے گا۔ یہ اپنا وقت جوپیٹر یا مشتری کے چاند Europa کے گرد چکر لگانے میں صرف کرے گا اور اس جگہ کے ماحول کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کرے گا، مگر یہ Europa پر برف کے نیچے کسی بھی طرح کی زندگی کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، بل کہ یہ تو اس بات کا ٹھیک ٹھیک کھوج لگائے گا کہ سمندر کہاں سے شروع ہوتا ہے۔
چناں چہ انسان کتنی مدت میں جوپیٹر یا مشتری تک پہنچے گا، اس کے بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ یہ سفر لگ بھگ 600دنوں میں بھی طے ہوسکتا ہے بشرطے کہ آپ ایک flyby سے کام لیں اور مسلسل اس سیارے سے چپکے رہنا نہ چاہتے ہوں۔ لیکن اگر آپ جوپیٹر کے مدار میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اس عظیم الشان سیارے تک پہنچنے میں لگ بھگ 2000دن لگ جائیں گے۔
انسان باہمت ہے، اسی لیے تو اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اور اسے ہر طرح کے مروجہ علوم سے بھی نوازا گیا ہے۔ اسی انسان نے یہ طے کرلیا ہے کہ اپنے علم، وجدان، تجربے اور ہمت سے چاہے کتنا ہی وقت لگے، چاہے کتنی ہی مشکلات اس کی راہ میں حائل ہوں، مگر بہرصورت اسے نظام شمسی کے سبھی سیاروں پر قدم رکھنا ہے اور وہاں زندگی کی تلاش کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں کا کھوج بھی لگانا ہے۔ وہ زمین کے چاند پر تو چہل قدمی کرچکا ہے، اب دیگر سیاروں پر بھی بھاگنا دوڑنا چاہتا ہے اور زمین کی طرح ان مقامات پر بھی رہنے کا خواہش مند ہے، وہ ان سیاروں پر موجود معدنیات، پانی، برف اور دیگر اشیا کو تلاش کرنا چاہتا ہے، تاکہ زمین پر ہونے والی مذکورہ بالا اشیا کی قلت پر قابو پاسکے، ویسے بھی علامہ اقبال بہت عرصہ پہلے کہہ گئے تھے: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔۔۔اور آج کا انسان ان ہی جہانوں کی تلاش میں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جوپیٹر یا مشتری ایک بہت بڑا گیسی دیو یعنی جائنٹ ہے جو نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے مجموعی وزن سے بھی زیادہ ہے، مگر دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا وزن سورج کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہے۔ کیا یہ حقیقت ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے اور انسان نے ستاروں اور سیاروں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے، اس وقت سے ہی نامعلوم وجوہ کی بنا پر انسان کو جوپیٹر یا مشتری میں بہت زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے، کیوں؟
اس کا جواب ماہرین یہ دیتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ اس زبردست اور بھاری بھرکم سیارے کے چاند ہیں جن کے نام ہیں Europa, Callisto اور Ganymede جنہوں نے ہمیشہ سے ہی انسان کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال بل کہ اندازہ ہے کہ ان چاندوں کی منجمد برفانی تہوں کے اندر مائع پانی کے وسیع و عریض ذخائر پوشیدہ ہوسکتے ہیں۔ ہم سب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہم ہمیشہ سے یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ کرۂ ارض پر جہاں جہاں اور جس جس مقام پر پانی ہوتا ہے، وہاں زندگی بھی ضرور ملتی ہے، اسی لیے انسان کو جوپیٹر یا مشتری سے دل چسپی ہے، کیوں کہ اسے پورے نظام شمسی میں یہیں زندگی ملنے کی زیادہ اور قوی امید ہے۔
اب تک کی تحقیق کے مطابق جوپیٹر یا مشتری یا اس کے چاندوں کی سطح پر کوئی خلائی جہاز دکھائی نہیں دے رہا، جس کا سیدھا اور واضح مطلب یہ ہے کہ ماضی کے گزرے برسوں سے یہاں کوئی نہیں آیا ہے۔ کوئی خلائی جہاز یا آلات و مشینری یہاں تک نہیں پہنچ سکی ہے، یہ 2016کی رپورٹ ہے۔ جوپیٹر یا مشتری پر جو آخری خلائی جہاز گیا تھا، وہ 2007میں ناسا کا New Horizons تھا۔ اس وقت مریخ کی سرزمین orbitersاورrovers کی بھن بھناہٹ سے گونج رہی ہے، یعنی اس انوکھی سرزمین پر خلائی جہازوں کی آمدورفت جاری ہے۔
ہم نے حال ہی میں پلوٹو کی قریب سے لی گئی تصویریں بھی دیکھیں، مگر جوپیٹر یا مشتری کی قریب سے لی گئی تصویریں ہم نے لگ بھگ دس سال سے نہیں دیکھیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جوپیٹر یا مشتری واقعی بہت دور ہے، وہاں تک پہنچنے میں لمبا عرصہ لگ سکتا ہے، مگر کتنا؟ اس کے لیے ہمیں ان تمام خلائی جہازوں کو دیکھنا ہوگا جو خلائی سفر کے لیے تیار کیے گئے تھے۔
زمین سے جوپیٹر یا مشتری کا سفر کرنے والا پہلا خلائی جہاز ناسا کا تیارکردہ Pioneer 10 تھا جو 3مارچ1972کو لانچ کیا گیا تھا، یہ جہاز 3دسمبر1973ء کو اپنی منزل پر پہنچا، یعنی اس نے اپنے اس سائنسی و تحقیقی سفر میں مجموعی طور پر 640 دن لیے تھے۔ Pioneer 10اس سیارے یعنی جوپیٹر یا مشتری سے 130,000 کلومیٹر دور سے گزرا تھا، کیوں کہ اصل میں وہ بیرونی سولر سسٹم کے کھوج میں بھیجا گیا تھا۔
لیکن یہاں سے گزرتے ہوئے اس نے جوپیٹر کے اتنے قریب سے پہلی بار زبردست قسم کی تصاویر لی تھیں جس کے بعد یہ خلائی جہاز یعنیPioneer 10 اپنے لامحدود اور نامعلوم خلائی سفر پر چلا گیا۔ اس کی منزل بھی نامعلوم تھی، اس خلائی جہاز کا گیارہ سال تک ناسا سے رابطہ رہا، پھر یہ رابطہ بھی ٹوٹ گیا تو کچھ پتا نہ چل سکا کہ اس کا کیا ہوا۔
ایک سال بعد ایک اور اہم خلائی جہاز Pioneer 11 روانہ ہوا جو اگلے سال جوپیٹر کے قریب پہنچ گیا۔ اس سفر میں مذکورہ خلائی جہاز کو پورے 606 دن لگے تھے۔ یہ مشتری کے اور بھی قریب یعنی21,000 کے فاصلے سے گزرا۔ اپنے تاریخی اور سائنسی سفر کے دوران یہ زحل کے قریب سے بھی گزرا تھا۔
اس کے بعد خلائی جہاز Voyager آئے۔Voyager 1 نے یہ سفر صرف 546 دن میں طے کیا اور Voyager 2 کو اس سفر میں 688 دن لگانے پڑے۔ اس لیے اگر آپ جوپیٹر یا مشتری کے قریب سے گزرنے کے خواہش مند ہیں تو اس سفر میں 550 سے 650 تک دن تک لگیں گے۔ لیکن اگر آپ واقعی جوپیٹر کے مدار میں جانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے سفر کی رفتار اور بھی کم کرنی ہوگی، اتنی کم کہ آپ جوپیٹر کے مدار میں نہایت آسانی سے داخل ہوجائیں۔ یہاں آپ کی تیز رفتاری کام نہیں آئے گی اور مذکورہ گیسی دیو آپ کی راہ میں مزاحم ہوجائے گا۔
جوپیٹر کے اطراف چکر لگانے والا واحد خلائی جہاز ناسا کا Galileo spacecraft تھا جو 18اکتوبر1989ء لانچ کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے جوپیٹر کا سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے زیادہ رفتار حاصل کرنے کے لیے زمین کے دو تجاذبی معاون flybys کی مدد بھی لی اور وینس یعنی زہرہ کے ایک تجاذبی معاون کی مدد بھی حاصل کی۔ آخرکار 8 دسمبر1995 کو یہ جوپیٹر یا مشتری کے قریب پہنچ گیا، گویا اس خلائی جہاز نے اس تاریخی سفر میں مجموعی طور پر 2,242 دن لیے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Galileo نے جوپیٹر تک پہنچنے میں اتنا زیادہ وقت کیوں لیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سفر کے لیے آپ کو اپنی رفتار کافی کم کرنی پڑتی ہے، جبھی یہ ممکن ہوتا ہے کہ آپ اس سیارے کے گرد اس کے مدار میں داخل ہوسکیں، تیزرفتاری میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
پھر ایک طویل عرصہ ایسے ہی گزر گیا اور جوپیٹر کو دنیا والوں نے فراموش کردیا، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارا ایک اور خلائی جہاز اس عظیم الشان سیارے یعنی جوپیٹر یا مشتری تک پہنچنے والا ہے اور یہ اس کے مدار میں داخل ہوجائے گا۔ ناسا کا تیار کردہ Juno نامی خلائی جہاز 6اگست2011کو لانچ کیا گیا تھا، یہ ہمارے اندرونی شمسی نظام میں مسلسل گردش کررہا ہے، یہ جوپیٹر کے سفر کے لیے مطلوبہ velocity یا رفتار و توانائی جمع کررہا ہے۔ یہ خلائی جہاز Juno اسی سال یعنی 4 جولائی2016کو جوپیٹر تک پہنچ جائے گا۔
اس نے یہ کام 2013میں زمین کے ایک flyby کے ذریعے شروع کیا تھا، اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو Junoیقینی طور پر 4 جولائی2016کو Jovian system کے مدار میں داخل ہوجائے گا۔ اس طرح اس کا مجموعی فلائٹ ٹائم 1,795 دن ہوگا۔ یعنی آخرکار ہمارے پاس ایک ایسا خلائی جہاز ہوگا جو ہمیں بہت قریب سے ہمیں جوپیٹر اور اس کے چاندوں کا مشاہدہ کرنے میں مدد دے سکے گا۔
یہ تو صرف آغاز ہے، جوپیٹر تک جانے کے متعدد منصوبے یا مشن ایسے ہیں جن پر کام مسلسل جاری ہے۔ یورپیئن اسپیس ایجینسی 2022میں Jupiter Icy Moons Mission لانچ کرے گی جسے جوپیٹر تک پہنچنے میں لگ بھگ آٹھ سال لگیں گے، گویا یہ مشن 2030میں تکمیل کو پہنچ سکے گا۔ اس کے علاوہ ناسا کا Europa Multiple-Flyby Missionبھی اسی ٹائم فریم میں لانچ کیا جائے گا۔ یہ اپنا وقت جوپیٹر یا مشتری کے چاند Europa کے گرد چکر لگانے میں صرف کرے گا اور اس جگہ کے ماحول کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کرے گا، مگر یہ Europa پر برف کے نیچے کسی بھی طرح کی زندگی کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، بل کہ یہ تو اس بات کا ٹھیک ٹھیک کھوج لگائے گا کہ سمندر کہاں سے شروع ہوتا ہے۔
چناں چہ انسان کتنی مدت میں جوپیٹر یا مشتری تک پہنچے گا، اس کے بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ یہ سفر لگ بھگ 600دنوں میں بھی طے ہوسکتا ہے بشرطے کہ آپ ایک flyby سے کام لیں اور مسلسل اس سیارے سے چپکے رہنا نہ چاہتے ہوں۔ لیکن اگر آپ جوپیٹر کے مدار میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اس عظیم الشان سیارے تک پہنچنے میں لگ بھگ 2000دن لگ جائیں گے۔
انسان باہمت ہے، اسی لیے تو اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اور اسے ہر طرح کے مروجہ علوم سے بھی نوازا گیا ہے۔ اسی انسان نے یہ طے کرلیا ہے کہ اپنے علم، وجدان، تجربے اور ہمت سے چاہے کتنا ہی وقت لگے، چاہے کتنی ہی مشکلات اس کی راہ میں حائل ہوں، مگر بہرصورت اسے نظام شمسی کے سبھی سیاروں پر قدم رکھنا ہے اور وہاں زندگی کی تلاش کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں کا کھوج بھی لگانا ہے۔ وہ زمین کے چاند پر تو چہل قدمی کرچکا ہے، اب دیگر سیاروں پر بھی بھاگنا دوڑنا چاہتا ہے اور زمین کی طرح ان مقامات پر بھی رہنے کا خواہش مند ہے، وہ ان سیاروں پر موجود معدنیات، پانی، برف اور دیگر اشیا کو تلاش کرنا چاہتا ہے، تاکہ زمین پر ہونے والی مذکورہ بالا اشیا کی قلت پر قابو پاسکے، ویسے بھی علامہ اقبال بہت عرصہ پہلے کہہ گئے تھے: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔۔۔اور آج کا انسان ان ہی جہانوں کی تلاش میں ہے۔