کوئلے کا بڑھتا ہوااستعمال۔۔۔۔ماحول کے لیے ایک نیا خطرہ
ماحول کو نقصان پہنچا کر کبھی بھی پائے دار ترقی کا حصول ممکن نہیں
کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں کو اب دنیا بھر میں تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور ایسے منصوبوں کی تعمیر کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، جب کہ پاکستان میں اب بھی ایسے منصوبے تیار کیے جارہے ہیں۔
حال ہی میں عالمی بینک کے صدر کا بیان منظر عام پر آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے،''ایشیا میں کوئلے کی توانائی سے چلنے والے منصوبے کرۂ ارض کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔'' ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے دسمبر میں پیرس میں ہونے والی کانفرنسCOP-21 میں طے پانے والے معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔
عالمی بینک کے صدرجم یونگ کنگ کا کہنا ہے کہ ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک نے مزید 100ایسے پاور پلانٹ کی تعمیر کے منصوبے تیار کرلیے ہیں جو کوئلے سے چلیں گے اور یہ منصوبے آئندہ بیس سال میں مکمل ہوں گے۔ اس طرح معاہدۂ پیرس بھی خطرے سے دوچار ہوگا، جس میں 175 حکومتوں نے یہ عہد کیا تھا کہ مضرصحت گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کی جائے گی اور دنیا ایک آلودگی سے پاک صاف ستھرے مستقبل کی طرف گام زن ہوگی۔
ایشیا اور مشرقی ایشیا میں کوئلے کی مانگ بدستور برقرار ہے اور بڑھ رہی ہے۔ ان خطوں میں توانائی کا بحران ہے اور اب بھی اس اکیسویں صدی میں لاکھوں لوگوں کی بجلی تک رسائی نہیں ہے۔ صرف انڈیا میں 300 ملین لوگ بجلی کے بغیر رہتے ہیں۔ چین، انڈیا، انڈونیشیا اور ویت نام کا شمار ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں آئندہ پانچ سالوں میں دنیا بھر میں تعمیر کیے جانے والے پاور پلانٹس کی کل تعداد کے چوتھائی منصوبے ان ممالک میں تعمیر ہوں گے۔ اگر ویت نام اور دنیا بھر کے منصوبے روبہ عمل آجاتے ہیں تو اس کرۂ ارض پر تمام جان داروں کے لیے حیات تنگ ہوجائے گی۔ ہمیں بہتر حال اور مستقبل کے لیے صاف توانائی کوئلے کے بجائے جیسے ہوا اور سورج کی توانائی کی طرف بڑھنا ہوگا۔
چائنا، پاکستان اکنامک کوریڈور(CPEC) جسے چین کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ترقیاتی پیکیج قرار دیا جاتا ہے، جس کے تحت پاکستان میں سڑکوں اور ریل کے لیے انفرا اسٹرکچر توانائی کی پیداوار اور صنعتی سرمایہ کاری کے شعبے شامل ہیں۔ اس پیکیج کی مالیت 45 ارب ڈالر ہے۔ اس کثیر سرمائے کی نصف سرمایہ کاری 2018 تک مکمل ہوجائے گی۔
پاکستان میں چین کا یہ ترقیاتی پیکیج ایک معاشی انقلاب کا آغا ز بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مستقبل میں چین کی خارجہ پالیسی کا لائحہ عمل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ سی پیک کی اہم بات یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں یہ شاہ راہِ ریشم کی توسیع ہے جسے اب ''ون بیلٹ ، ون روڈ'' کی پہل کاری کہا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعے چین کو بحرہند تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور اس کی ستر فی صد درآمدات اسی راستے سے ہوں گی۔
توانائی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو سی پیک کے ذریعے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں مثلاً کاروٹ میں ہائیڈل پاور پروجیکٹ، بہاولپور میں سولر پاور پروجیکٹ اور جھمپیر میں میں 100میگا واٹ کے ونڈ فارم پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ تاہم قابل تجدید کے مقابلے میں کوئلے کی آلودہ توانائی کے منصوبوں میں کہیں زیادہ سرمایہ کاری ہوگی۔ ان میں تھرپارکر میں کوئلے کے دو پاور پروجیکٹ، دو کول مائننگ بلاک تھر میں، کوئلے سے چلنے والا پاور پروجیکٹ پورٹ قاسم کراچی اور نیچرل گیس پائپ لائن کا منصوبہ شامل ہے جو گوادر اور نواب شاہ کو ملائے گا۔
اس ترقیاتی پیکیج میں بہ ظاہر سب کچھ خوش آئند ہے اور اسے پاکستان میں معاشی انقلاب کا آغاز بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے حلقوں کی جانب سے تنقید بھی جاری ہے، کیوںکہ اس میں کوئلے کی توانائی سے چلنے والے منصوبوں کی تعداد زیادہ ہے جسے ماحول کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دس اولین ممالک میں شامل ہیں جو خطرے کی زد میں ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کی پیداوار والے ممالک کی فہرست میں ہمارا شمار 135ویں نمبر پر ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کو بھگتنے والے ممالک میں ہمارا نمبر اوپر ہے۔
چین کے صدر شی چن پنگ نے اپنے دورۂ پاکستان میں 45.6 ارب ڈالرز کے اکیاون منصوبوں پر دست خط کیے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ چین نے پاکستان کو ان منصوبوں کے لیے قرض فراہم نہیں کیا، بل کہ چین کے تین بڑے بینک چائنا ڈیولپمنٹ بینک، انڈسٹریل اینڈ کمرشیل بینک آف چائنا اور چائنا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ بینک نے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی ملکی اور غیرملکی کمپنیوں کو ان منصوبوں کی سیکیوریٹی کے عوض فنانسنگ فراہم کی ہے۔
چین نے اپنی معاشی پالیسی کے چار اہداف مقرر کیے ہیں، جن میں ایشیا پیسیفک اور یورپ سے رابطے میں اضافہ، ون بیلٹ ون روڈ کا قیام، آزادانہ تجارت کا فروغ اور عوام کے باہمی رابطے شامل ہیں۔ خوش قسمتی ہے کہ پاکستان ان چاروں اہداف میں پورا اترتا ہے، جس کی وجہ سے چین دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کو ترجیح دے رہا ہے۔
چین مستقبل میں دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے، تاکہ ملکوں کے پوٹینشل اور مواقع کو استعمال کیا جاسکے، جس کے لیے چین نے پینسٹھ ممالک میں باہمی تجارت کے لیے سڑک، ریلوے اور بندرگاہوں کے موثر نیٹ ورک کا اعلان کیا ہے، جس سے شاہ راہ ریشم کو روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کو چین سے منسلک کیا جاسکے گا۔ اس طرح دو اعشاریہ پانچ کھرب ڈالر کی تجارت حاصل کی جاسکے گی اور اس سے پینسٹھ منتخب ممالک میں تقریباً چار اعشاریہ چار ارب افراد مستفید ہوسکیں گے۔
پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبوں میں گوادر پورٹ کو مغربی چین کے ساتھ ملانے کے لیے سڑکوں اور ریلوے لائنوں کے دو ہزار میل کے جال بچھائے جائیں گے۔ چین سنکیانگ اور مغربی صوبوں میں گوادر کے راستے تیل کی پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے۔ جو خلیج فارس اور ایران سے تیل اور گیس کی درآمد کے لیے آئیڈیل ٹرانزٹ راہ داری ہے، لیکن گوادر پورٹ فعال نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت چین کو شنگھائی پورٹ سے بحری تجارت کے لیے سولہ ہزار کلومیٹر کی ایک سے ڈیڑھ ماہ کی طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ گوادر پورٹ فعال ہونے سے یہ مسافت صرف پندر دن میں طے کی جاسکے گی۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی۔ چین کے تعمیر کردہ سات سو میگاواٹ کے چشمہ نمبر ایک اور چشمہ نمبر دو باقاعدگی سے پاکستان میں بجلی پیدا کررہے ہیں اور اب چین نے اضافی سات سو میگاواٹ کے چشمہ نمبر تین اور چار کے لیے بھی معاہدے کیے ہیں۔
پاکستان کے لیے اقتصادی راہ داری زبردست اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے، لیکن یہ چین کے لیے بہت سے طویل المدت اقدامات میں سے صرف ایک ہے، جو کہ ملک کی عالمی اقتصادی طاقت میں اضافے کے لیے کیے جارہی ہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس اقدام سے دنیا کے معاشی طور پر کم اہم علاقوں میں سے ایک جنوبی ایشیا میں زیادہ اتحاد پیدا ہوگا۔
بھارت پاکستان میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری خاص طور پر چین کے نئے ایٹمی ریکٹروں کو سرمایہ فراہم کرنے کے فیصلے سے فکرمند ہے۔ پاکستان کی2023 تک چین کے مالی تعاون سے چار نئے جوہری پلانٹس کا اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور آنے والے وقت میں مزید چار نئے جوہری پلانٹس کا اضافہ کیا جائے گا جس سے 2030 تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ کر 7,930 میگاواٹ ہوجائے گی۔ یہاں ماہرین تنقید کرتے ہیں کہ چین نیو کلیئر سپلائر گروپ (این اس جی) کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی توانائی فراہم کررہا ہے، کیوںکہ پاکستان نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دست خط نہیں کیے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے اس وقت طے ہوئے تھے جب وہ ایس این جی کا رکن نہیں تھا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہ داری گوادر میں کام یابی کے لیے امن پہلی شرط ہے۔
پاکستان نے پیرس میں ہونے والی کانفرنس COP-21 میں UNFCC میں جو اپنی چار سو پچاس الفاظ پر مشتمل مختصر ترینINDC جمع کروائی تھی، اس میں اس حوالے سے کوئی روڈ میپ موجود نہیں تھا کہ مُضرصحت گیسوں کو کس طرح کم کیاجاسکے گا، جبکہ چین نے اپنی INDC میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی کاربن کے اخراج کو 2005 کی سطح سے ساتھ سے پینسٹھ فی صد کم کردے گا۔ دیکھا جائے تو چین اپنا انحصار کوئلے سے حاصل ہونے والی توانائی سے ہٹا کر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل کر رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے منصوبوں میں اس کی سرمایہ کاری کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کی کٹوتی دراصل معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے، لیکن یہ خیال غلط ہے۔ ماحول کو نقصان پہنچا کر کبھی بھی پائے دار ترقی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ پاکستان اور چین دونوں کو اس پر سوچنا ہوگا۔
حال ہی میں عالمی بینک کے صدر کا بیان منظر عام پر آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے،''ایشیا میں کوئلے کی توانائی سے چلنے والے منصوبے کرۂ ارض کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔'' ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے دسمبر میں پیرس میں ہونے والی کانفرنسCOP-21 میں طے پانے والے معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔
عالمی بینک کے صدرجم یونگ کنگ کا کہنا ہے کہ ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک نے مزید 100ایسے پاور پلانٹ کی تعمیر کے منصوبے تیار کرلیے ہیں جو کوئلے سے چلیں گے اور یہ منصوبے آئندہ بیس سال میں مکمل ہوں گے۔ اس طرح معاہدۂ پیرس بھی خطرے سے دوچار ہوگا، جس میں 175 حکومتوں نے یہ عہد کیا تھا کہ مضرصحت گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کی جائے گی اور دنیا ایک آلودگی سے پاک صاف ستھرے مستقبل کی طرف گام زن ہوگی۔
ایشیا اور مشرقی ایشیا میں کوئلے کی مانگ بدستور برقرار ہے اور بڑھ رہی ہے۔ ان خطوں میں توانائی کا بحران ہے اور اب بھی اس اکیسویں صدی میں لاکھوں لوگوں کی بجلی تک رسائی نہیں ہے۔ صرف انڈیا میں 300 ملین لوگ بجلی کے بغیر رہتے ہیں۔ چین، انڈیا، انڈونیشیا اور ویت نام کا شمار ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں آئندہ پانچ سالوں میں دنیا بھر میں تعمیر کیے جانے والے پاور پلانٹس کی کل تعداد کے چوتھائی منصوبے ان ممالک میں تعمیر ہوں گے۔ اگر ویت نام اور دنیا بھر کے منصوبے روبہ عمل آجاتے ہیں تو اس کرۂ ارض پر تمام جان داروں کے لیے حیات تنگ ہوجائے گی۔ ہمیں بہتر حال اور مستقبل کے لیے صاف توانائی کوئلے کے بجائے جیسے ہوا اور سورج کی توانائی کی طرف بڑھنا ہوگا۔
چائنا، پاکستان اکنامک کوریڈور(CPEC) جسے چین کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ترقیاتی پیکیج قرار دیا جاتا ہے، جس کے تحت پاکستان میں سڑکوں اور ریل کے لیے انفرا اسٹرکچر توانائی کی پیداوار اور صنعتی سرمایہ کاری کے شعبے شامل ہیں۔ اس پیکیج کی مالیت 45 ارب ڈالر ہے۔ اس کثیر سرمائے کی نصف سرمایہ کاری 2018 تک مکمل ہوجائے گی۔
پاکستان میں چین کا یہ ترقیاتی پیکیج ایک معاشی انقلاب کا آغا ز بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مستقبل میں چین کی خارجہ پالیسی کا لائحہ عمل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ سی پیک کی اہم بات یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں یہ شاہ راہِ ریشم کی توسیع ہے جسے اب ''ون بیلٹ ، ون روڈ'' کی پہل کاری کہا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعے چین کو بحرہند تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور اس کی ستر فی صد درآمدات اسی راستے سے ہوں گی۔
توانائی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو سی پیک کے ذریعے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں مثلاً کاروٹ میں ہائیڈل پاور پروجیکٹ، بہاولپور میں سولر پاور پروجیکٹ اور جھمپیر میں میں 100میگا واٹ کے ونڈ فارم پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ تاہم قابل تجدید کے مقابلے میں کوئلے کی آلودہ توانائی کے منصوبوں میں کہیں زیادہ سرمایہ کاری ہوگی۔ ان میں تھرپارکر میں کوئلے کے دو پاور پروجیکٹ، دو کول مائننگ بلاک تھر میں، کوئلے سے چلنے والا پاور پروجیکٹ پورٹ قاسم کراچی اور نیچرل گیس پائپ لائن کا منصوبہ شامل ہے جو گوادر اور نواب شاہ کو ملائے گا۔
اس ترقیاتی پیکیج میں بہ ظاہر سب کچھ خوش آئند ہے اور اسے پاکستان میں معاشی انقلاب کا آغاز بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے حلقوں کی جانب سے تنقید بھی جاری ہے، کیوںکہ اس میں کوئلے کی توانائی سے چلنے والے منصوبوں کی تعداد زیادہ ہے جسے ماحول کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دس اولین ممالک میں شامل ہیں جو خطرے کی زد میں ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کی پیداوار والے ممالک کی فہرست میں ہمارا شمار 135ویں نمبر پر ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کو بھگتنے والے ممالک میں ہمارا نمبر اوپر ہے۔
چین کے صدر شی چن پنگ نے اپنے دورۂ پاکستان میں 45.6 ارب ڈالرز کے اکیاون منصوبوں پر دست خط کیے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ چین نے پاکستان کو ان منصوبوں کے لیے قرض فراہم نہیں کیا، بل کہ چین کے تین بڑے بینک چائنا ڈیولپمنٹ بینک، انڈسٹریل اینڈ کمرشیل بینک آف چائنا اور چائنا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ بینک نے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی ملکی اور غیرملکی کمپنیوں کو ان منصوبوں کی سیکیوریٹی کے عوض فنانسنگ فراہم کی ہے۔
چین نے اپنی معاشی پالیسی کے چار اہداف مقرر کیے ہیں، جن میں ایشیا پیسیفک اور یورپ سے رابطے میں اضافہ، ون بیلٹ ون روڈ کا قیام، آزادانہ تجارت کا فروغ اور عوام کے باہمی رابطے شامل ہیں۔ خوش قسمتی ہے کہ پاکستان ان چاروں اہداف میں پورا اترتا ہے، جس کی وجہ سے چین دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کو ترجیح دے رہا ہے۔
چین مستقبل میں دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے، تاکہ ملکوں کے پوٹینشل اور مواقع کو استعمال کیا جاسکے، جس کے لیے چین نے پینسٹھ ممالک میں باہمی تجارت کے لیے سڑک، ریلوے اور بندرگاہوں کے موثر نیٹ ورک کا اعلان کیا ہے، جس سے شاہ راہ ریشم کو روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کو چین سے منسلک کیا جاسکے گا۔ اس طرح دو اعشاریہ پانچ کھرب ڈالر کی تجارت حاصل کی جاسکے گی اور اس سے پینسٹھ منتخب ممالک میں تقریباً چار اعشاریہ چار ارب افراد مستفید ہوسکیں گے۔
پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبوں میں گوادر پورٹ کو مغربی چین کے ساتھ ملانے کے لیے سڑکوں اور ریلوے لائنوں کے دو ہزار میل کے جال بچھائے جائیں گے۔ چین سنکیانگ اور مغربی صوبوں میں گوادر کے راستے تیل کی پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے۔ جو خلیج فارس اور ایران سے تیل اور گیس کی درآمد کے لیے آئیڈیل ٹرانزٹ راہ داری ہے، لیکن گوادر پورٹ فعال نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت چین کو شنگھائی پورٹ سے بحری تجارت کے لیے سولہ ہزار کلومیٹر کی ایک سے ڈیڑھ ماہ کی طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ گوادر پورٹ فعال ہونے سے یہ مسافت صرف پندر دن میں طے کی جاسکے گی۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی۔ چین کے تعمیر کردہ سات سو میگاواٹ کے چشمہ نمبر ایک اور چشمہ نمبر دو باقاعدگی سے پاکستان میں بجلی پیدا کررہے ہیں اور اب چین نے اضافی سات سو میگاواٹ کے چشمہ نمبر تین اور چار کے لیے بھی معاہدے کیے ہیں۔
پاکستان کے لیے اقتصادی راہ داری زبردست اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے، لیکن یہ چین کے لیے بہت سے طویل المدت اقدامات میں سے صرف ایک ہے، جو کہ ملک کی عالمی اقتصادی طاقت میں اضافے کے لیے کیے جارہی ہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس اقدام سے دنیا کے معاشی طور پر کم اہم علاقوں میں سے ایک جنوبی ایشیا میں زیادہ اتحاد پیدا ہوگا۔
بھارت پاکستان میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری خاص طور پر چین کے نئے ایٹمی ریکٹروں کو سرمایہ فراہم کرنے کے فیصلے سے فکرمند ہے۔ پاکستان کی2023 تک چین کے مالی تعاون سے چار نئے جوہری پلانٹس کا اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور آنے والے وقت میں مزید چار نئے جوہری پلانٹس کا اضافہ کیا جائے گا جس سے 2030 تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ کر 7,930 میگاواٹ ہوجائے گی۔ یہاں ماہرین تنقید کرتے ہیں کہ چین نیو کلیئر سپلائر گروپ (این اس جی) کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی توانائی فراہم کررہا ہے، کیوںکہ پاکستان نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دست خط نہیں کیے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے اس وقت طے ہوئے تھے جب وہ ایس این جی کا رکن نہیں تھا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہ داری گوادر میں کام یابی کے لیے امن پہلی شرط ہے۔
پاکستان نے پیرس میں ہونے والی کانفرنس COP-21 میں UNFCC میں جو اپنی چار سو پچاس الفاظ پر مشتمل مختصر ترینINDC جمع کروائی تھی، اس میں اس حوالے سے کوئی روڈ میپ موجود نہیں تھا کہ مُضرصحت گیسوں کو کس طرح کم کیاجاسکے گا، جبکہ چین نے اپنی INDC میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی کاربن کے اخراج کو 2005 کی سطح سے ساتھ سے پینسٹھ فی صد کم کردے گا۔ دیکھا جائے تو چین اپنا انحصار کوئلے سے حاصل ہونے والی توانائی سے ہٹا کر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل کر رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے منصوبوں میں اس کی سرمایہ کاری کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کی کٹوتی دراصل معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے، لیکن یہ خیال غلط ہے۔ ماحول کو نقصان پہنچا کر کبھی بھی پائے دار ترقی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ پاکستان اور چین دونوں کو اس پر سوچنا ہوگا۔