امریکا کی موقع پرستی اور پاکستان

امریکا کو اس خطے میں اب پاکستان کی نہیں بھارت کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اس پر نوازشات کی بارش کر رہا ہے


Editorial June 10, 2016
اب پاکستان کو بھارت امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں روس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے جمعرات کو دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس کے دوران موجودہ حکومت کی تین سالہ خارجہ پالیسی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے امریکا اور بھارت کے بڑھتے دفاعی تعلقات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر امریکا بھارت کے ساتھ اتنے تعلقات بڑھائے گا کہ سیکیورٹی عدم توازن ہو تو اسٹرٹیجک تعلق آگے نہیں چل سکتا، جب بھی امریکا کو ہماری ضرورت ہوتی ہے تو امریکی آجاتے ہیں جب نہیں ہوتی تو ان کا رویہ بدل جاتا ہے، امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔

امریکا پاکستان کی سیکیورٹی کو اتنی اہمیت نہیں دیتا جتنی دینی چاہیے، بلوچستان میں ڈرون حملے سے اعتماد کو نقصان پہنچا، جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے روایتی اور اسٹرٹیجک عدم توازن پر پاکستان خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے جوابی ردعمل پر کسی کا دباؤ قبول نہیں کرے گا اور دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ جاری رکھے گا، عدم توازن پاک امریکا تعلقات پر بھی اثرانداز ہوگا، امریکی سینئر مشیر اور نمایندہ خصوصی کو اپنے تحفظات سے آگاہ کریں گے، جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے اور پاکستان چین، بھارت، وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے، امریکی ڈرون حملے کا معاملہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں اٹھایا جائے گا۔

ادھر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہانگ لی نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر اپنے غیرمعمولی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنا چاہیے' پاکستان نے دہشتگردی سے لڑنے کے لیے قابل ذکر کاوشیں کی ہیں اور افغان مصالحتی عمل کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں، عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرے۔

امریکا اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کے شکار رہے ہیں، سرتاج عزیز کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ جب بھی امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ بھاگا چلا آتا ہے اور جب اسے پاکستان کی ضرورت نہیں ہوتی تو اس کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب بھی امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے بھی حد سے آگے بڑھ کر اس کے ساتھ تعاون کیا اور ہر طرف پاک امریکا دوستی کے گیت گائے جانے لگے اور یوں محسوس ہونے لگا کہ امریکا ہی دنیا میں پاکستان کا سب سے بہترین دوست' ہمدرد اور محافظ ہے اور جب کبھی پاکستان کو اس کی ضرورت پڑے گی تو وہ فوراً حق دوستی ادا کرے گا۔

لیکن ماضی اس تلخ حقیقت کا گواہ ہے کہ مشکل وقت میں امریکا نے پاکستان کا کبھی ساتھ نہیں دیا' 1971 کی پاک بھارت جنگ میں ساتویں امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہوتا رہا مگر وہ بیڑا نہ پہنچ سکا۔ اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ملکوں کے آپس میں تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں' امریکا کی تو تاریخ ہی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ افغانستان پر روسی حملے کے بعد امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو اس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا پھر جب روس کو شکست ہوئی تو اسے پاکستان کی قطعی ضرورت نہ رہی اور یہ دوستی مفادات کے کھیل میں کہیں کھو گئی' نائن الیون کے بعد پاکستان پھر امریکا کا دوست بن گیا۔

اب جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے امریکا کے تعلقات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ امریکا کو اس خطے میں اب پاکستان کی نہیں بھارت کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اس پر نوازشات کی بارش کر رہا ہے جسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا قطعی مشکل نہیں کہ آنے والے وقتوں میں بھارت اس خطے کی ایک بڑی قوت بن جائے گا جو دراصل امریکا کا طاقتور اتحادی ہوگا۔ بھارت امریکا الائنس نے پاکستان اور چین کی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔

ماہرین تو یہاں تک قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ کل کو اگر امریکا نے دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں بھارت کی سرزمین سے آزاد کشمیر یا اسلام آباد کے کسی علاقے پر ڈرون حملہ کیا تو اسے کون روک پائے گا، ایسے میں پاکستان کا کیا ردعمل ہو گا اور اس کی سلامتی اور خودمختاری کو درپیش اس چیلنج کا کیسے جواب دیا جائے گا۔ امریکا نے جن سے دوستی کی ان کا انجام بھی سب کے سامنے ہے صدام حسین کی مثال کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ روس نے جن کے ساتھ دوستی کی اسے وفا بھی کیا' ایران اور شام کی مثال سب کے سامنے ہے۔

اب پاکستان کو بھارت امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں روس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ اگر ایک جانب بھارت امریکا الائنس بنتا ہے تو دوسری جانب خطے کی سلامتی کے لیے پاکستان چین اور روس کا الائنس بھی وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ لہٰذا خارجہ پالیسی پر نظرثانی انتہائی ضروری ہو گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں