متناسب نمایندگی
جو ہماری سیاست ہماری جمہوریت اور ہماری حکمرانی میں پائی جاتی ہیں
ISLAMABAD:
پاکستان میں ایلیٹ کلاس نے قانون ساز اداروں، اسمبلیوں اور انتخابی نظام پر 69 سالوں سے جس طرح قبضہ جمایا ہوا ہے، اس ناجائز اور جمہوری قدروں سے متصادم سسٹم کو توڑنے کے لیے ہمارے پڑوسی ملک نیپال میں جو آئینی تبدیلیاں لائی گئیں اس کا ذکر ایک مربوط رپورٹ میں کیا گیا ہے جسے ملک کے بائیں بازو کے دو سیاسی کارکنوں بی ایم کٹی اور کرامت علی خان نے مرتب کیا ہے۔
اس رپورٹ اور تجزیے میں ان خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جو ہماری سیاست ہماری جمہوریت اور ہماری حکمرانی میں پائی جاتی ہیں اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ قانون ساز اداروں میں سوسائٹی کے تمام حصوں کی نمایندگی کے لیے متناسب نمایندگی کے اصول کو اپنایا جائے۔ اس حوالے سے نیپال کی مثال دی گئی ہے، جہاں ایسا نظام نافذ کیا گیا ہے جس میں مزدوروں، کسانوں، خواتین اور اقلیتی کمیونٹیز کی قانون ساز اداروں میں نمایندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ جامع رپورٹ حکومتوں کو بھی ارسال کی گئی ہے لیکن اس قسم کی بامعنی تجاویز حکومتوں کو یا الیکشن کمیشن کو بھیجنا کنوئیں میں ڈالنے کے برابر ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر جوطبقہ 69 سالوں سے ملک پر قابض ہے اور اربوں کھربوں کی لوٹ مار میں مصروف ہے اسے کس طرح سیاست بدر کیا جائے۔ اس کا ایک حل تو متناسب نمایندگی کا اصول ہے جو جمہوری مافیا کو بے دست و پا کر سکتا ہے اور دوسرا طریقہ بلدیاتی نظام کو فعال اور مستحکم بنانا ہے، ہمارے انتخابی نظام میں یہ ممکن ہی نہیں کہ عوام کے حقیقی نمایندے اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔ اس حوالے سے انتخابی اصلاحات کا جو ڈراما کیا جا رہا ہے۔ اول تو اس حوالے سے کوئی پیشرفت ہی نظر نہیں آتی۔ دوم، جن لوگوں کو اس قسم کی ذمے داریاں سونپی جاتی ہیں وہ اسی فراڈ نظام کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کے مفادات 'اسٹیٹس کو' سے وابستہ ہوتے ہیں اس حقیقت کے پیش نظر یہ توقع کرنا بے کار ہے کہ کوئی بامعنی انتخابی اصلاحات ہو سکیں گی۔
جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے اصل مسئلہ اس پورے کرپٹ سسٹم کی تبدیلی ہے جو عملاً اشرافیہ کی بادشاہت بن کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے نمایندوں کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کا واحد طریقہ انتخابات ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا انتخابی نظام ایسی ہوشیاری بلکہ عیاری سے بنایا گیا ہے کہ عوام کے حقیقی نمایندے نہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں نہ قانون ساز اداروں میں پہنچ سکتے ہیں ۔ اس کرپٹ اور امتیازی نظام کو بچانے کے لیے اشرافیہ جمہوریت کی آڑ لیتی ہے، ہمارے ملک میں چونکہ اس مافیائی نظام کو بدلنے میں عوام کو کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا ہے، لہٰذا فوج اس جمہوری مافیا کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے جہاں فوجی مداخلت کے معمولی سے امکانات یا خدشات نظر آتے ہیں ، فوری جمہوریت خطرے میں ہے کا وہ طوفان اٹھایا جاتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
2014ء میں جب اقتدار کی لڑائی زوروں پر تھی تو فوجی مداخلت کے خطرات یا شکوک پیدا ہو گئے تھے اور ان خطرات اور شکوک کو پیدا کرنے کا سہرا بھی ہمارے ان سیاستدانوں کے سر بندھتا ہے جو نیا پاکستان بنانے کے لیے امپائر کی طرف سے انگلی اٹھانے کے اشارے دے رہے تھے۔ حالات بہرحال ایسے ہو گئے تھے کہ تیسری طاقت کے آگے آنے کے خدشات ابھر رہے تھے، ان خدشات نے اقتدار مافیا اور جمہوریت پسندوں کو اس قدر خوفزدہ کر دیا تھا کہ ایک طرف وہ جی ایچ کیو کے طواف کر رہے تھے تو دوسری طرف اس نام نہاد جمہوریت کی پرستار سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں بٹھا دیا تھا۔ 13 جماعتوں کا پارلیمنٹ میں اتحاد اسی خوف کا نتیجہ تھا کہ ان کی من مانی کے راستے بند ہونے والے ہیں۔ یہ وہ جمہوریت پسند تھے جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور اس کڑھائی کو جب بھی کوئی خطرہ لاحق ہو جاتا یہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
اختیارات کلی کی خواہش مند یہ اشرافیہ اس قدر حساس اور چوکنا رہتی ہے کہ اس استحصالی سسٹم کو لاحق کسی خطرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، بلدیاتی نظام جمہوریت کا ایک ناگزیر حصہ ہے یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ 69 سالوں میں کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس کے برخلاف بلدیاتی انتخابات فوجی حکمرانوں کے دور ہی میں ہوتے رہے ۔
فوجی ڈکٹیٹروں کو عذاب قرار دینے والے جمہوریت پسندوں نے عدلیہ اور میڈیا کے شدید دباؤ پر بلدیاتی انتخابات تو لشٹم پشٹم کرا دیے لیکن چھ سات ماہ گزرنے کے باوجود بلدیاتی نظام کو فعال اور فنکشنل بنانے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ بلدیاتی نظام فعال ہوجائے تو اسے مالی اور انتظامی اختیارات دینے پڑتے ہیں اور بادشاہانہ مزاج رکھنے والی اشرافیہ کسی قیمت پر اختیارات کی تقسیم پر تیار نہیں۔ اختیارات کو نچلی سطح تک جانے سے روکنے کے لیے قانون سازی سمیت مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبی ہوئی اشرافیہ کے لیے پانامہ لیکس ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے ۔ آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا پردہ فاش ہونے کے بعد اپوزیشن نے جو شور ڈالا ہے اس نے حکمرانوں کے فرار کے راستے بند کر دیے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیق کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے لیکن یہ کمیٹی اس لیے جمود کا شکار ہے کہ حکومت ٹی او آر پر متفق نہیں کیونکہ اپوزیشن کے ٹی او آر مان لیے جاتے ہیں تو آف شور کمپنیوں کے حوالے سے حکمرانوں کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور شاید حکومتوں سے دست برداری کا خطرہ بھی پیدا ہوجائے۔ یہ ہے ہماری جمہوریت جس کے لیے جبہ و دستار کندھوں پر رومال رکھنے والوں سے لے کر حکومتوں کے ترجمانوں کی بھیڑ پروپیگنڈے کے میدان میں اتر کر جمہوریت کی حفاظت کر رہی ہے۔
پاکستان میں ایلیٹ کلاس نے قانون ساز اداروں، اسمبلیوں اور انتخابی نظام پر 69 سالوں سے جس طرح قبضہ جمایا ہوا ہے، اس ناجائز اور جمہوری قدروں سے متصادم سسٹم کو توڑنے کے لیے ہمارے پڑوسی ملک نیپال میں جو آئینی تبدیلیاں لائی گئیں اس کا ذکر ایک مربوط رپورٹ میں کیا گیا ہے جسے ملک کے بائیں بازو کے دو سیاسی کارکنوں بی ایم کٹی اور کرامت علی خان نے مرتب کیا ہے۔
اس رپورٹ اور تجزیے میں ان خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جو ہماری سیاست ہماری جمہوریت اور ہماری حکمرانی میں پائی جاتی ہیں اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ قانون ساز اداروں میں سوسائٹی کے تمام حصوں کی نمایندگی کے لیے متناسب نمایندگی کے اصول کو اپنایا جائے۔ اس حوالے سے نیپال کی مثال دی گئی ہے، جہاں ایسا نظام نافذ کیا گیا ہے جس میں مزدوروں، کسانوں، خواتین اور اقلیتی کمیونٹیز کی قانون ساز اداروں میں نمایندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ جامع رپورٹ حکومتوں کو بھی ارسال کی گئی ہے لیکن اس قسم کی بامعنی تجاویز حکومتوں کو یا الیکشن کمیشن کو بھیجنا کنوئیں میں ڈالنے کے برابر ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر جوطبقہ 69 سالوں سے ملک پر قابض ہے اور اربوں کھربوں کی لوٹ مار میں مصروف ہے اسے کس طرح سیاست بدر کیا جائے۔ اس کا ایک حل تو متناسب نمایندگی کا اصول ہے جو جمہوری مافیا کو بے دست و پا کر سکتا ہے اور دوسرا طریقہ بلدیاتی نظام کو فعال اور مستحکم بنانا ہے، ہمارے انتخابی نظام میں یہ ممکن ہی نہیں کہ عوام کے حقیقی نمایندے اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔ اس حوالے سے انتخابی اصلاحات کا جو ڈراما کیا جا رہا ہے۔ اول تو اس حوالے سے کوئی پیشرفت ہی نظر نہیں آتی۔ دوم، جن لوگوں کو اس قسم کی ذمے داریاں سونپی جاتی ہیں وہ اسی فراڈ نظام کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کے مفادات 'اسٹیٹس کو' سے وابستہ ہوتے ہیں اس حقیقت کے پیش نظر یہ توقع کرنا بے کار ہے کہ کوئی بامعنی انتخابی اصلاحات ہو سکیں گی۔
جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے اصل مسئلہ اس پورے کرپٹ سسٹم کی تبدیلی ہے جو عملاً اشرافیہ کی بادشاہت بن کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے نمایندوں کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کا واحد طریقہ انتخابات ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا انتخابی نظام ایسی ہوشیاری بلکہ عیاری سے بنایا گیا ہے کہ عوام کے حقیقی نمایندے نہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں نہ قانون ساز اداروں میں پہنچ سکتے ہیں ۔ اس کرپٹ اور امتیازی نظام کو بچانے کے لیے اشرافیہ جمہوریت کی آڑ لیتی ہے، ہمارے ملک میں چونکہ اس مافیائی نظام کو بدلنے میں عوام کو کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا ہے، لہٰذا فوج اس جمہوری مافیا کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے جہاں فوجی مداخلت کے معمولی سے امکانات یا خدشات نظر آتے ہیں ، فوری جمہوریت خطرے میں ہے کا وہ طوفان اٹھایا جاتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
2014ء میں جب اقتدار کی لڑائی زوروں پر تھی تو فوجی مداخلت کے خطرات یا شکوک پیدا ہو گئے تھے اور ان خطرات اور شکوک کو پیدا کرنے کا سہرا بھی ہمارے ان سیاستدانوں کے سر بندھتا ہے جو نیا پاکستان بنانے کے لیے امپائر کی طرف سے انگلی اٹھانے کے اشارے دے رہے تھے۔ حالات بہرحال ایسے ہو گئے تھے کہ تیسری طاقت کے آگے آنے کے خدشات ابھر رہے تھے، ان خدشات نے اقتدار مافیا اور جمہوریت پسندوں کو اس قدر خوفزدہ کر دیا تھا کہ ایک طرف وہ جی ایچ کیو کے طواف کر رہے تھے تو دوسری طرف اس نام نہاد جمہوریت کی پرستار سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں بٹھا دیا تھا۔ 13 جماعتوں کا پارلیمنٹ میں اتحاد اسی خوف کا نتیجہ تھا کہ ان کی من مانی کے راستے بند ہونے والے ہیں۔ یہ وہ جمہوریت پسند تھے جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور اس کڑھائی کو جب بھی کوئی خطرہ لاحق ہو جاتا یہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
اختیارات کلی کی خواہش مند یہ اشرافیہ اس قدر حساس اور چوکنا رہتی ہے کہ اس استحصالی سسٹم کو لاحق کسی خطرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، بلدیاتی نظام جمہوریت کا ایک ناگزیر حصہ ہے یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ 69 سالوں میں کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس کے برخلاف بلدیاتی انتخابات فوجی حکمرانوں کے دور ہی میں ہوتے رہے ۔
فوجی ڈکٹیٹروں کو عذاب قرار دینے والے جمہوریت پسندوں نے عدلیہ اور میڈیا کے شدید دباؤ پر بلدیاتی انتخابات تو لشٹم پشٹم کرا دیے لیکن چھ سات ماہ گزرنے کے باوجود بلدیاتی نظام کو فعال اور فنکشنل بنانے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ بلدیاتی نظام فعال ہوجائے تو اسے مالی اور انتظامی اختیارات دینے پڑتے ہیں اور بادشاہانہ مزاج رکھنے والی اشرافیہ کسی قیمت پر اختیارات کی تقسیم پر تیار نہیں۔ اختیارات کو نچلی سطح تک جانے سے روکنے کے لیے قانون سازی سمیت مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبی ہوئی اشرافیہ کے لیے پانامہ لیکس ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے ۔ آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا پردہ فاش ہونے کے بعد اپوزیشن نے جو شور ڈالا ہے اس نے حکمرانوں کے فرار کے راستے بند کر دیے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیق کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے لیکن یہ کمیٹی اس لیے جمود کا شکار ہے کہ حکومت ٹی او آر پر متفق نہیں کیونکہ اپوزیشن کے ٹی او آر مان لیے جاتے ہیں تو آف شور کمپنیوں کے حوالے سے حکمرانوں کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور شاید حکومتوں سے دست برداری کا خطرہ بھی پیدا ہوجائے۔ یہ ہے ہماری جمہوریت جس کے لیے جبہ و دستار کندھوں پر رومال رکھنے والوں سے لے کر حکومتوں کے ترجمانوں کی بھیڑ پروپیگنڈے کے میدان میں اتر کر جمہوریت کی حفاظت کر رہی ہے۔