جانے والے تُو ہمیں یاد بہت آئے گا
میں نے نوعمری ہی سے بچوں کے لیے لکھنا شروع کردیا تھا
ISLAMABAD:
میں نے نوعمری ہی سے بچوں کے لیے لکھنا شروع کردیا تھا اوران دنوں بڑوں کے کئی مشہور رسالے میرے زیر مطالعہ رہا کرتے تھے، جن میں اس دورکے خالص ادبی ماہنامے ادب لطیف، نقوش اور افکار کے نام شامل تھے۔
میں عبید اللہ علیم کی شاعری سے انھی رسائل کی وساطت سے روشناس ہوا تھا اس زمانے میں نوجوانوں میں عبیداللہ علیم اور پروین شاکرکی شاعری کو بڑی پذیرائی مل رہی تھی۔ پھر جب میں نے ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام ''بزم طلبا'' میں حصہ لینا شروع کیا تو ریڈیو پر ہی میری پہلی ملاقات عبید اللہ علیم سے ہوئی تھی اور ریڈیو ہی سے ان کی کئی غزلیں سننے کو ملی تھیں۔ پھر ایک ایسا اتفاق بھی ہوا کہ کراچی میں دو فلموں کا آغاز ہوا۔ ایک فلم کا نام تھا ''اندھیرا اجالا'' اور دوسری فلم کا نام تھا ''آجا کہیں دور چلیں''۔ فلم ''اندھیرا اجالا'' میں عبید اللہ علیم کی لکھی ہوئی ایک خوبصورت غزل مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ ہوئی جس کا مطلع تھا:
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تُو ہمیں یاد بہت آئے گا
اور فلم ''آجا کہیں دور چلیں'' میں مہدی حسن کی ہی آواز میں میرا پہلا فلمی گیت ریکارڈ کیا گیا۔ جس کے بول تھے:
لے کے چلی ہو مورا پیار گوری
اور ان دنوں یہ گیت اور غزل ریکارڈ ہوتے ہی ریڈیو سے نشر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مہدی حسن کی جادو بھری آواز نے عبید اللہ علیم کی غزل اور میرے گیت کو بڑی شہرت بخشی تھی مگر بدقسمتی سے مذکورہ دونوں فلمیں صرف ریکارڈنگ تک محدود رہیں بن نہ سکیں۔ لیکن فلم ''اندھیرا اجالا'' کے لیے لکھی گئی، عبید اللہ علیم کی غزل بے مثال تھی اس کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں:
خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو
زندگی بھرکوئی اب خواب ہی دہرائے گا
ٹوٹ جائیں نہ کہیں پیارکے نازک رشتے
وقت ظالم ہے ہر اک موڑ پہ ٹکرائے گا
اگر فلم ''اندھیرا اجالا'' تکمیل کے مراحل طے کرتے ہوئے نمائش پذیر ہوجاتی تو عبید اللہ علیم کو مزید شہرت حاصل ہوتی مگر ایسا نہ ہوسکا اور پھر یہ غزل بھی ناکامی کی دھند میں ڈوب گئی ہاں اسی بحر اور ردیف کے ساتھ احمد فرازکی غزل کو پھر بڑی شہرت ملی۔ احمد فرازکی یہ غزل پہلی بار جگجیت سنگھ نے ایک میوزک کنسرٹ میں گائی تھی اور اس محفل میں احمد فراز خود بھی موجود تھے۔ یہ 1979ء کی بات ہے۔ جگجیت سنگھ نے یہ کہہ کر احمد فراز کی غزل سے محفل کی ابتدا کی تھی کہ اس وقت ہمارے درمیان احمد فراز بھی موجود ہیں اور میں انھی کے کلام سے اس محفل کا آغاز کرتا ہوں۔ غزل کے چند خوبصورت اشعار نذر قارئین ہیں:
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
تو کبھی خودکو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
پھر یہی غزل 1991ء میں جگجیت سنگھ اور لتا منگیشکر کے مشترکہ میوزک البم ''سجدہ'' کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی اور اس غزل نے دھوم مچا دی تھی۔ پھر اسی غزل کو میڈم نور جہاں اور استاد نصرت فتح علی خاں نے بھی اپنے اپنے انداز میں بہت خوب گایا اور یہ ایک ایسی غزل ہے جس کا ایک ایک شعر سننے والوں کے دلوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔ اب میں پھر شاعر عبید اللہ علیم کی طرف آتا ہوں جو جواں سالی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ عبید اللہ علیم جن دنوں پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ تھے ان دنوں انھوں نے موسیقی کے بڑے اچھے اچھے پروگرام بھی پروڈیوس کیے تھے اسی دوران ایک غزل پی ٹی وی کے مشہور پروگرام ''ترنم'' میں میڈم نور جہاں نے گائی اور عبید اللہ علیم کی اس غزل کو بھی بڑا سراہا گیا تھا۔ غزل کا مطلع تھا:
تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ
بعد میں یہی خوبصورت غزل مہدی حسن نے بھی گائی اور سُروں کے رچاؤ اور مہدی حسن کی آواز کے جادو نے اس غزل کا حسن دوبالا کر دیا تھا۔ عبید اللہ علیم سے میری ملاقاتیں ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ عبید اللہ علیم بہت ہی حساس تھا۔ اسے ٹیلی ویژن میں افسر شاہی سے بڑی نفرت تھی اور وہ خوشامدی ٹولوں سے بچ بچ کر چلتا تھا۔ اس کی اپنے افسران سے ہر پل عداوت ہی رہتی تھی۔ وہ بہت ہی بے باک، منہ پھٹ تھا۔ کسی غلط بات کو برداشت کرنے کا وہ بالکل عادی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹیلی ویژن پر اس کے دوست آٹے میں نمک کے برابر بھی مشکل تھے۔
آخر اس نے ٹیلی ویژن کی نوکری کو بھی طوق غلامی سمجھ کر اتار دیا اور صرف شعر و ادب ہی سے اپنے رشتے استوار کر لیے۔ عبید اللہ علیم 1939ء میں بھوپال میں پیدا ہوا تھا۔ پھر اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ گیا۔ کراچی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور پھر ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن سے ناتا تو جوڑا مگر وہ کچا ثابت ہوا۔ عبید اللہ علیم کے تین شعری مجموعے 'چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، ویران سرائے کا دیا اور ''نگار صبح کی امید'' کے نام سے منظر عام پر آئے۔
اور تینوں ہی پسند کیے گئے مگر ''چاند چہرہ ستارہ آنکھیں'' کو بہت زیادہ پذیرائی ملی اور اس کے کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔ عبید اللہ علیم اور جون ایلیا کی دوستی مثال تھی دونوں ایک جان دو قالب تھے۔ جون ایلیا اکثر عبید اللہ علیم کے بارے میں بڑے وثوق سے کہتے تھے عبید اللہ علیم جتنا باہر سے لوگوں کو دشمن نما سا نظر آتا ہے اندر سے اتنا ہی دوست نما ہے۔ زہر اس کی باتوں میں ہے اس کی شخصیت میں نہیں اور یہ چند اشعار اس کی شخصیت کی عکاسی بڑے اچھے انداز میں کرتے ہیں:
نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی
اور یہ بھی سچ ہے کہ عبید اللہ علیم تمام عمر خود کو لوگوں کے شر سے بچاتا رہا اور خود خون جگر پیتے ہوئے دوستوں اور غیر دوستوں میں خوشیاں بانٹتا رہا۔ عبید اللہ علیم سے میری امریکا آنے سے کچھ عرصہ پہلے ایک ملاقات مشفق اور محبت بھری شخصیت اور مشہور زمانہ ''سب رنگ ڈائجسٹ'' کے مالک و مدیر شکیل عادل زادہ کے دفتر میں ہوئی تھی۔یہ دفتر دراصل ادیبوں اور شاعروں کی بیٹھک کا درجہ رکھتا ہے۔ جہاں اب بھی کراچی کے ادیب و شاعر شکیل عادل زادہ کی شفقتیں سمیٹنے کے لیے جوق در جوق آتے ہیں۔ یہی پر میری ملاقاتیں جون ایلیا، حسن اکبر کمال، انور شعور وغیرہ سے بھی ہوتی رہی ہیں۔
بقول جون ایلیا عبید اللہ علیم میرا سب سے قریبی آدمی ہے اب اسے ایک اعزاز سمجھ لیا جائے یا وجہ ذلت اس بات کا ہم دونوں زندگی بھر فیصلہ نہ کر سکے۔ عبید اللہ علیم ایک سرکش اور سرشور انسان تھا جس کی زبان میں زمانے نے زہر بھر دیا تھا۔ وہ ایک سچا شاعر تھا ایک ایسا شاعر جو اپنی ہی شہ رگ سے اپنا ہی خون پیتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ اپنی زندگی سے لڑ پڑا اور 18 مئی 1998ء کو اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گیا۔
میں نے نوعمری ہی سے بچوں کے لیے لکھنا شروع کردیا تھا اوران دنوں بڑوں کے کئی مشہور رسالے میرے زیر مطالعہ رہا کرتے تھے، جن میں اس دورکے خالص ادبی ماہنامے ادب لطیف، نقوش اور افکار کے نام شامل تھے۔
میں عبید اللہ علیم کی شاعری سے انھی رسائل کی وساطت سے روشناس ہوا تھا اس زمانے میں نوجوانوں میں عبیداللہ علیم اور پروین شاکرکی شاعری کو بڑی پذیرائی مل رہی تھی۔ پھر جب میں نے ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام ''بزم طلبا'' میں حصہ لینا شروع کیا تو ریڈیو پر ہی میری پہلی ملاقات عبید اللہ علیم سے ہوئی تھی اور ریڈیو ہی سے ان کی کئی غزلیں سننے کو ملی تھیں۔ پھر ایک ایسا اتفاق بھی ہوا کہ کراچی میں دو فلموں کا آغاز ہوا۔ ایک فلم کا نام تھا ''اندھیرا اجالا'' اور دوسری فلم کا نام تھا ''آجا کہیں دور چلیں''۔ فلم ''اندھیرا اجالا'' میں عبید اللہ علیم کی لکھی ہوئی ایک خوبصورت غزل مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ ہوئی جس کا مطلع تھا:
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تُو ہمیں یاد بہت آئے گا
اور فلم ''آجا کہیں دور چلیں'' میں مہدی حسن کی ہی آواز میں میرا پہلا فلمی گیت ریکارڈ کیا گیا۔ جس کے بول تھے:
لے کے چلی ہو مورا پیار گوری
اور ان دنوں یہ گیت اور غزل ریکارڈ ہوتے ہی ریڈیو سے نشر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مہدی حسن کی جادو بھری آواز نے عبید اللہ علیم کی غزل اور میرے گیت کو بڑی شہرت بخشی تھی مگر بدقسمتی سے مذکورہ دونوں فلمیں صرف ریکارڈنگ تک محدود رہیں بن نہ سکیں۔ لیکن فلم ''اندھیرا اجالا'' کے لیے لکھی گئی، عبید اللہ علیم کی غزل بے مثال تھی اس کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں:
خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو
زندگی بھرکوئی اب خواب ہی دہرائے گا
ٹوٹ جائیں نہ کہیں پیارکے نازک رشتے
وقت ظالم ہے ہر اک موڑ پہ ٹکرائے گا
اگر فلم ''اندھیرا اجالا'' تکمیل کے مراحل طے کرتے ہوئے نمائش پذیر ہوجاتی تو عبید اللہ علیم کو مزید شہرت حاصل ہوتی مگر ایسا نہ ہوسکا اور پھر یہ غزل بھی ناکامی کی دھند میں ڈوب گئی ہاں اسی بحر اور ردیف کے ساتھ احمد فرازکی غزل کو پھر بڑی شہرت ملی۔ احمد فرازکی یہ غزل پہلی بار جگجیت سنگھ نے ایک میوزک کنسرٹ میں گائی تھی اور اس محفل میں احمد فراز خود بھی موجود تھے۔ یہ 1979ء کی بات ہے۔ جگجیت سنگھ نے یہ کہہ کر احمد فراز کی غزل سے محفل کی ابتدا کی تھی کہ اس وقت ہمارے درمیان احمد فراز بھی موجود ہیں اور میں انھی کے کلام سے اس محفل کا آغاز کرتا ہوں۔ غزل کے چند خوبصورت اشعار نذر قارئین ہیں:
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
تو کبھی خودکو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
پھر یہی غزل 1991ء میں جگجیت سنگھ اور لتا منگیشکر کے مشترکہ میوزک البم ''سجدہ'' کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی اور اس غزل نے دھوم مچا دی تھی۔ پھر اسی غزل کو میڈم نور جہاں اور استاد نصرت فتح علی خاں نے بھی اپنے اپنے انداز میں بہت خوب گایا اور یہ ایک ایسی غزل ہے جس کا ایک ایک شعر سننے والوں کے دلوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔ اب میں پھر شاعر عبید اللہ علیم کی طرف آتا ہوں جو جواں سالی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ عبید اللہ علیم جن دنوں پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ تھے ان دنوں انھوں نے موسیقی کے بڑے اچھے اچھے پروگرام بھی پروڈیوس کیے تھے اسی دوران ایک غزل پی ٹی وی کے مشہور پروگرام ''ترنم'' میں میڈم نور جہاں نے گائی اور عبید اللہ علیم کی اس غزل کو بھی بڑا سراہا گیا تھا۔ غزل کا مطلع تھا:
تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ
بعد میں یہی خوبصورت غزل مہدی حسن نے بھی گائی اور سُروں کے رچاؤ اور مہدی حسن کی آواز کے جادو نے اس غزل کا حسن دوبالا کر دیا تھا۔ عبید اللہ علیم سے میری ملاقاتیں ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ عبید اللہ علیم بہت ہی حساس تھا۔ اسے ٹیلی ویژن میں افسر شاہی سے بڑی نفرت تھی اور وہ خوشامدی ٹولوں سے بچ بچ کر چلتا تھا۔ اس کی اپنے افسران سے ہر پل عداوت ہی رہتی تھی۔ وہ بہت ہی بے باک، منہ پھٹ تھا۔ کسی غلط بات کو برداشت کرنے کا وہ بالکل عادی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹیلی ویژن پر اس کے دوست آٹے میں نمک کے برابر بھی مشکل تھے۔
آخر اس نے ٹیلی ویژن کی نوکری کو بھی طوق غلامی سمجھ کر اتار دیا اور صرف شعر و ادب ہی سے اپنے رشتے استوار کر لیے۔ عبید اللہ علیم 1939ء میں بھوپال میں پیدا ہوا تھا۔ پھر اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ گیا۔ کراچی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور پھر ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن سے ناتا تو جوڑا مگر وہ کچا ثابت ہوا۔ عبید اللہ علیم کے تین شعری مجموعے 'چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، ویران سرائے کا دیا اور ''نگار صبح کی امید'' کے نام سے منظر عام پر آئے۔
اور تینوں ہی پسند کیے گئے مگر ''چاند چہرہ ستارہ آنکھیں'' کو بہت زیادہ پذیرائی ملی اور اس کے کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔ عبید اللہ علیم اور جون ایلیا کی دوستی مثال تھی دونوں ایک جان دو قالب تھے۔ جون ایلیا اکثر عبید اللہ علیم کے بارے میں بڑے وثوق سے کہتے تھے عبید اللہ علیم جتنا باہر سے لوگوں کو دشمن نما سا نظر آتا ہے اندر سے اتنا ہی دوست نما ہے۔ زہر اس کی باتوں میں ہے اس کی شخصیت میں نہیں اور یہ چند اشعار اس کی شخصیت کی عکاسی بڑے اچھے انداز میں کرتے ہیں:
نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی
اور یہ بھی سچ ہے کہ عبید اللہ علیم تمام عمر خود کو لوگوں کے شر سے بچاتا رہا اور خود خون جگر پیتے ہوئے دوستوں اور غیر دوستوں میں خوشیاں بانٹتا رہا۔ عبید اللہ علیم سے میری امریکا آنے سے کچھ عرصہ پہلے ایک ملاقات مشفق اور محبت بھری شخصیت اور مشہور زمانہ ''سب رنگ ڈائجسٹ'' کے مالک و مدیر شکیل عادل زادہ کے دفتر میں ہوئی تھی۔یہ دفتر دراصل ادیبوں اور شاعروں کی بیٹھک کا درجہ رکھتا ہے۔ جہاں اب بھی کراچی کے ادیب و شاعر شکیل عادل زادہ کی شفقتیں سمیٹنے کے لیے جوق در جوق آتے ہیں۔ یہی پر میری ملاقاتیں جون ایلیا، حسن اکبر کمال، انور شعور وغیرہ سے بھی ہوتی رہی ہیں۔
بقول جون ایلیا عبید اللہ علیم میرا سب سے قریبی آدمی ہے اب اسے ایک اعزاز سمجھ لیا جائے یا وجہ ذلت اس بات کا ہم دونوں زندگی بھر فیصلہ نہ کر سکے۔ عبید اللہ علیم ایک سرکش اور سرشور انسان تھا جس کی زبان میں زمانے نے زہر بھر دیا تھا۔ وہ ایک سچا شاعر تھا ایک ایسا شاعر جو اپنی ہی شہ رگ سے اپنا ہی خون پیتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ اپنی زندگی سے لڑ پڑا اور 18 مئی 1998ء کو اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گیا۔