بُک شیلف

نازیہ کنول کے ناولوں کے عنوانات طرزتحریر، مکالمے ، واقعات، آغاز، عروج اور کلائمکس ہمیشہ اچھوتے اور منفرد ہوتے ہیں

نازیہ کنول کے ناولوں کے عنوانات، پلاٹ، کہانی کی بنت، ان کے کردار، طرزتحریر، مکالمے ، واقعات، آغاز، عروج اور کلائمکس ہمیشہ اچھوتے اور منفرد ہوتے ہیں:فوٹو:فائل

حج وعمرہ، گھر سے گھر تک
مصنف: سید عبدالماجد،قیمت: درج نہیں
ناشر: قرآن آسان تحریک، 50، لوئرمال نزد ایم اے او کالج ،لاہور

مشاہدہ عام ہے کہ اکثرعازمین حج فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے گھر سے تو بڑے ذوق وشوق سے روانہ ہوتے ہیں لیکن مناسک حج کے بارے میں قطعاً لا علم ہوتے ہیں۔ یہ عدم آگاہی اس فریضہ کی کماحقہ ادائیگی میں نقص کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسے حضرات کو مناسک حج کی تعلیم وتربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

زیرنظرکتاب عازمین حج وعمرہ کی گھر سے روانگی سے لے کر سفرحرمین شریفین اور فریضہ حج وعمرہ کی ادائیگی کے بعد گھر لوٹ آنے تک تمام مراحل کی کتاب اللہ اور سنت نبوی کی روشنی میں قدم بقدم اور لحظہ بہ لحظہ رہنمائی کی گئی ہے۔ اس میں فضائل حج و عمرہ ، آداب سفر، اخلاقی اقدار اور دینی تعلیم کا بھی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ عازمین کو جن امور سے آگاہی اور جو معلومات درکار ہوتی ہیں وہ سب کی سب بالتفصیل مذکور ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب عازمین حج و عمرہ کو مکمل رہنمائی کا سامان فراہم کرے گی۔

میر کی آپ بیتی
مصنف: میر تقی میر،قیمت:480 روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم
میر محمد تقی میر، اردو کے میر مجلس، ناسخ، ذوق اور غالب ، تینوں نے میر کی برتری اور استادی کا اعتراف کیا ہے۔ اردو کے عظیم الشان شاعر نے کہاتھا:
''ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا''
ذوق نے کہا:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
اور بابائے اردو مولوی عبدالحق نے لکھا: '' میر تقی میر سرتاج شعرائے اردو ہیں ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی میں، اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر کا نام اس فہرست میں ضرور داخل ہوگا۔'' یہی حقیقت ہے کہ میرتقی میر نے اردو غزل کو نیا رنگ وآہنگ اور منفرد لب ولہجہ عطاکیا۔

زیرنظرکتاب دراصل میر کے اپنے ہاتھ کے لکھے حالات زندگی''ذکرمیر''(فارسی)کا اردو ترجمہ ہے۔ میر1196 ھ میں دہلی سے لکھنؤ گئے، ان کی پیدائش1136ھ میں ہوئی تھی، گویا سفر لکھنؤ کے زمانے میں ان کی عمر ساٹھ برس کے لگ بھگ ہوگی، یہ 'ذکر میر' یا 'میر کی آپ بیتی' ان ساٹھ برسوں کا احوال ہے۔


والدمحترم کے انتقال سے ان کی زندگی میں رنج و الم کا باب شروع ہوا۔معاشی حالت سدھارنے کے لئے آگرہ سے دہلی اور دہلی سے آگرہ کے سفر میں کئی برس خرچ ہوگئے۔ تاہم سکون کہیں نہ مل سکا۔ دراصل میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف تنگدستی و مشکلات برداشت کرنے کے بعد بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ چاہنے والوں نے ان کے لئے وظائف مقرر کئے لیکن ہرجگہ نازک مزاجی آڑے آئی۔ بہرحال اسی طرح ان کی زندگی تمام ہوئی۔ یہ انتہائی دلچسپ آپ بیتی ہے۔ میر کی زندگی سے واقف ہونے کے لئے اس سے زیادہ مستند کوئی ماخذ نہیں ہوسکتا۔

برف کے آنسو (ناول)
مصنفہ: نازیہ کنول نازی/قیمت:500 روپے
ناشر:القریش پبلی کیشنز، سرکلرروڈ چوک اردوبازار لاہور
نازیہ کنول نازی ڈائجسٹوں کی دنیا میں ایک بڑا مقبول نام ہیں، ان کے ناول، ناولٹ اور انھیں پسند کرنے والے قارئین کی دنیا اس قدروسیع وعریض ہے کہ احاطہ کرنا مشکل ہے۔ ان کے ناولوں کے عنوانات، پلاٹ، کہانی کی بنت، ان کے کردار، طرزتحریر، مکالمے ، واقعات، آغاز، عروج اور کلائمکس ہمیشہ اچھوتے اور منفرد ہوتے ہیں۔ قاری ان کی کہانی کے ساتھ ساتھ چلتا رہتاہے، اسے کہیں بھی الجھن یا اکتاہٹ کا سامنا نہیں کرناپڑتا۔

زیرنظرناول میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے غلط اور گمراہ کن رویوں کی نشاندہی کرتاہے اور اعلیٰ تراخلاقی و معاشرتی اقدار کی طرف رہنمائی بھی کر تاہے۔ آپ ناول پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کے کردار زندہ ہیں، ہمارے اردگرد موجود ہیں، گھوم پھر رہے ہیں۔ جو واقعات ناول میں رونما ہوئے، وہی ہمارے آس پاس دن رات رونما ہورہے ہیں۔ ہم انھیں عام طورسے سرسری اور معمولی نظر سے دیکھ کر ، کوئی اثر لئے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن اس ناول کی حساس قلم کار انھیں نظرانداز نہ کرسکیں، انھوں نے معاشرے کی نباضی کا بیڑہ اٹھالیا۔



میرا مطالعہ
مصنف: محمد عرفان ،قیمت:650روپے،ناشر:ایمل پبلیکیشنز،اسلام آباد

اس منفردکتاب میں مصنف نے معروف اہلِ علم کی مطالعاتی زندگی کو اپنے انٹرویوز کا موضوع بنایا ہے، مکالمے بیانیہ انداز میں مرتب کیے گئے ہیں ۔ بیس شخصیات، جن کا تعلق ادب، تاریخ ،صحافت، صحافت ، مذہب اور فلسفے سے ہے۔ معروف سکالر احمد جاوید کی گفتگو بہت دلچسپ اور معلومات افزاء ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی جیسے اسلامی قانون کے ماہر نے اپنی مطالعاتی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو بیان کیاہے ۔

معروف نقاد انور سدید کا نام تو ادبیات میں حوالہ مانا جاتا ہے ان کی گفتگو سے کئی ایک اہم کتابوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ زاہدہ حنا نے تو کئی درجن کتابیں گنوا ئی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ کون سی کتاب ان کی شخصیت پر کس انداز میں اثرانداز ہوئی۔ ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کی گفتگو اس اعتبار سے اہم ہے کہ انہوں نے کتابوں کے ذکر کے ساتھ مختصراً ان کے مرکزی خیالات کا ذکر بھی کیا ہے۔

معروف اسلامی سکالر مولانا زاہد الراشدی کے ساتھ مکالمہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔ ممتاز مترجم اور ادیب آصف فرخی کے مطالعاتی تجربات اورمصنف و محقق طارق جان کی مطالعہ بیتی بھی خاصے کی چیز ہے ۔ طارق جان کے بعض کالم نگاروں پر دلچسپ تبصرے بھی شامل ہیں۔ ممتاز سکالر و ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے مطالعاتی سفرکی روداد کے ساتھ ساتھ کچھ اہم ادیبوں پر مختصر تبصرے بھی کیے ہیں۔ پاکستانی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے ڈاکٹر صفد ر محمود کی مطالعاتی روداد سے بھی حظ اٹھا سکتے ہیں۔ اوریا مقبول جان کی گفتگو بھی ان کے کالم کی طرح خطیبانہ آہنگ رکھتی ہے اور ہمیں ان کی علمی دلچسپیوں سے آگاہ کرتی ہے۔ معروف کالم نگار اور صحافی عامر ہاشم خاکوانی کے مطالعاتی سفر میں ایک خاص ترتیب محسوس ہو تی ہے۔

انہوں نے اس مکالمے میں ادب ، آرٹ، فلسفہ، مذہب ، تاریخ سمیت کئی موضوعات پر درجنوں کتابیں اور تراجم کاذکر کیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں شامل اہل ِ علم کی اکثریت نے مولانا مودودی اور نسیم حجازی کا ذکر یکساں طور پر کیا ہے۔ ان دونوں کے مخالفین بھی اپنے مطالعاتی سفر میں انہیں نظر انداز نہیں کر سکے۔ کتاب کی منفرد بات یہ ہے کہ اس میں شامل ہر مضمون کے اہم نکات کو صفحے کے اطراف میں نمایاں کیا گیا ہے۔ مضمون کے شروع میں ہر شخصیت کا مختصر تعارف اور علمی خدمات کا بیان بھی شامل ہے۔ آج مارکیٹ میں کتابوں کی بھرمار ہے ۔ نئے قاری کے لیے اچھی کتابوں کا انتخاب بہت مشکل ہوتا ہے ۔ کتاب کے آخر میں ان تمام کتابوں کی فہرست شامل کرکے شائقین کتب کیلئے سہولت پیدا کی گئی ہے۔ کتاب کے سرورق پر ان تمام شخصیات کی تصویریں ہیں۔

ان مکالموں کی تسوید اور ترتیب یقیناایک جاں گسل کام تھا جو مصنف محمد عرفان نے خوبی سے انجام دیا ہے۔ کتاب کے سرورق پر اور Spine پر مصنف کا نام موجود نہ پا کر حیرت ہوئی۔ کتاب کے آخر میں دوسرے ایڈیشن کے لیے مرتب کی گئی فہرست میں کئی اہم شخصیات ہیں اور امید ہے اگلا ایڈیشن اور بھی بھرپور ہوگا۔
Load Next Story