گرین شرٹس فکسنگ کا زخم پھر ہرا نہ کر دینا
جو لوگ 2010کی سیریز کے دوران انگلینڈ گئے تھے وہ یہ طعنے بھولے نہیں ہوں گے۔
ALMATY:
''اوئے جواریوں، کتنے میں بیچا ملک کو، یہ ۔۔۔۔ ان کی تو۔۔۔۔''
جو لوگ 2010کی سیریز کے دوران انگلینڈ گئے تھے وہ یہ طعنے بھولے نہیں ہوں گے، وہاں پاکستان جیسا ماحول نہیں کہ ٹیم کے آتے وقت سڑکیں بلاک کر دیں یا کھلاڑیوں اور شائقین کے درمیان بڑے بڑے جنگلے لگے ہوں، میچ یا پریکٹس کے موقع پر آمنا سامنا ہو ہی جاتا ہے، لارڈز ٹیسٹ میں اسپاٹ فکسنگ کے بعد پاکستانی ٹیم کو برطانیہ میں مقیم ہم وطنوں کی جانب سے ایسے القابات حتیٰ کہ گالیاں تک سننا پڑی تھیں، وہ بیچارے اپنی فرسٹریشن کھلاڑیوں پر نکال رہے تھے کیونکہ ان کے تین کرپٹ ساتھیوں نے پوری کمیونٹی کو '' بے ایمان '' کا لقب دلا دیا تھا، گورے اور بھارتی ان کا خوب مذاق اڑاتے تھے،کہتے ہیں کہ وقت بڑے بڑے زخم بھر دیتا ہے البتہ داغ نہیں جاتے، فکسنگ اسکینڈل ہماری کرکٹ کے چہرے پر ایسی ہی ایک بڑی چوٹ کا بدنما داغ ہے جو شاید اب کبھی نہیں جائے گا، ایک بار پھر مکمل سیریز کیلیے انگلینڈ روانگی قریب آتے ہی ڈر ہے کہ فکسنگ کا زخم کہیں پھرہرا نہ ہوجائے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے ان سے کس قدر سبق سیکھا، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بالکل نہیں، ''شادی شدہ بچے'' عامر کیلیے سوشل میڈیا میں بہت بڑی مہم چلائی گئی۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیںکہ اس کیلیے سرمایہ ان کے ''چاہنے والوں'' نے دیا، عوام کے سامنے انھیں مظلوم بنا کر پیش کیا گیا کہ اس معصوم نے کچھ نہیں کیا سلمان بٹ اور آصف نے پاؤں کھینچ کر کریز سے آگے کرا دیا تو نوبال ہو گئی، اس کیلیے شاید غیرمرئی قوتوں کا سہارا لیا گیا تھا، بورڈ نے جتنا ان کی جلد واپسی کیلیے زور لگایا اگر دیگر کام بھی ویسی ہی تندہی سے کرتا تو کرکٹ کا یہ حال نہ ہوتا،سزا کاٹنے کے بعد عامر ٹیم میں واپس تو آ گئے اب ذرا یہ بتائیں کہ کتنے میچز جتوا دیے ہیں اور اگر جتوا بھی دیے تو کیا اس سے اسپاٹ فکسنگ کی تلافی ہوجائے گی؟ افسوس اس بات کا ہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق عامر کی ٹیسٹ میں واپسی پر پہلی نوبال کی شرطیں لگائی جا رہی ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کی طرح ٹیسٹ میں بھی ایسا ہی ہوگا، ان کی ساکھ ختم ہو چکی لیکن عقل ٹھکانے نہیں آئی،یہی وجہ ہے کہ ساتھی کھلاڑی دور دور ہی رہتے ہیں۔
ابھی چند روز قبل کی ہی بات ہے کاکول میں کیمپ کے دوران ٹرینر نے ان سے کھانے کے معیارکا پوچھ لیا تو اس بیچارے کو گالیاں سنا دیں کہ بورڈ نے کہاں لاکر چھوڑ دیا ہے ڈھنگ کا کھانا بھی نہیں مل رہا، جب واقعہ سینئر کرکٹرز تک پہنچا تو یونس خان نے عامر کو خوب ڈانٹا کہ اب تو سدھر جاؤ، مجھ پر یقین نہیں تو پی سی بی کے کسی اعلیٰ آفیشل سے پوچھ لیں یہ واقعہ سب کے علم میں ہے،پیسر کو اب سنبھل جانا چاہیے، چیئرمین کئی بار انھیں رویہ ٹھیک کرنے کا کہہ چکے اور وہ خود ساختہ عوامی سپورٹ کے بل بوتے پر کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے۔
حکام بھی انھیں بگڑے ہوئے لاڈلے بیٹے کی طرح ٹریٹ کر رہے ہیں جس کا دیگر کھلاڑیوں کو بھی غصہ ہے،حفیظ اور اظہر کو توڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا اگر یونس جیسا کوئی پلیئر دوبارہ عامر سے ناراض ہوا تو کیا ہو گا یہ سوچ لینا چاہیے، ویسے بھی انگلش میڈیا ٹیم کا استقبال کرنے کیلیے تلواریں تیز کر رہا ہے، پی سی بی نے بھی اس سے نمٹنے کیلیے مضحکہ خیزفیصلہ کیاکہ غیرملکی میڈیا منیجرز کو ٹیم کے ساتھ رکھا جائے، کبھی آپ نے سنا کہ انگلینڈ کی ٹیم بھارت آئی تو ہندی بولنے والے کسی لوکل کا تقرر کیا، یقیناً ایسا نہیں ہوا مگر ہمارے اعلیٰ حکام خودکے علاوہ منظور نظر افراد پر ہی بھروسہ کرتے ہیں،غیرملکی اتنا اچھا ہے تو چلیں چیئرمین بھی کوئی باہر سے بلا کر دیکھ لیتے ہیں مگر ایسا کوئی نہیں کرے گا، بورڈ کے دو بڑوں میں انا کی جنگ کا بعض ملازمین کو فائدہ ہوگیا، شہریارخان،آغا اکبر کو بھیجنے پر زور دے رہے ہیںکیونکہ انھیں جی ایم میڈیا کی پوسٹ سے ہٹانے کے بعد تنخواہ اور مراعات برقرار رکھنے کی کوئی توتوجیہ دینی ہے۔
بعض لوگ حیران ہوں گے کہ آغا اکبر تو نجم سیٹھی کی گڈبکس میں نہیں تو کیسے اعتراض نہیں کیا تو ان کو بتاتا چلوں کہ گذشتہ دنوں دونوں کی ملاقات ہو چکی جس کے ''ثمرات''بھی دکھائی دیے، اس کیلیے کراچی میں موجود ایک آفیشل کم پی آر ماہر کی خدمات حاصل کی گئیں ،امجد بھٹی،رضا راشد اور سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ کے عون رضوی بھی انگلینڈ جائیں گے، ویسے آپس کی بات ہے برطانوی میڈیا اسکینڈلز کی تلاش میں رہتا ہے اسے قابو کرنے کیلیے بورڈ کو ہی چند دیگر سخت اقدامات کرنے ہوں گے، انگلینڈ میں صحافی کے روپ میں بھی بعض لوگ کھلاڑیوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں، وہ انٹرویوز کے عوض تھوڑی بہت رقم اور چھوٹے موٹے کنٹریکٹ کرا کے پلیئرز کی قربت حاصل کر لیتے ہیں، انھیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہو گی، بورڈ اپنی موبائل سم دے کر سمجھتا ہے کہ ہمارا کام مکمل ہو گیا، حالانکہ اب واٹس ایپ،ایمو،وائبر و دیگر سافٹ ویئرز کا دور ہے۔
اس کیلیے تو موبائل سم کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، بعض کھلاڑی غیرملکی سمز بھی استعمال کرتے ہیں، ایک اکیلا سیکیورٹی منیجر انھیں کیسے پکڑے گا،کھانا کھلانے کیلیے لے جانا والا بکی یا دوست ہے کیسے جانیں گے؟ مظہر مجید نے بھی تو ایسے ہی گھیرا تھا، حکام کو ایسے واقعات سے نمٹنے کا سوچنا چاہیے، ورنہ پھر کوئی اسکینڈل منتظر ہو گا۔جاتے جاتے اب کچھ بورڈ کے دیگر مسائل کا بھی ذکر کرلیں، جون آ گیا لہٰذا بغیر کام کے تنخواہیں لینے والے ملازمین میں اب بار پھر کھلبلی مچ گئی ہے، ان کے چاہنے والوں نے سفارشوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا،اچھی بات یہ ہے کہ اب حکام نے بھی شاید سبق سیکھ لیا اور ایسے بعض افراد کو فارغ کرنے کا ذہن بنا لیا ہے، مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اب پی سی بی پر بوجھ بعض آفیشلز سے پیچھا چھڑا لینا ہی بہتر ہوگا، ورنہ ایسے ہی رقم لٹاتے رہے تو قارون کا خزانہ بھی ایک دن ختم ہوسکتا ہے۔
''اوئے جواریوں، کتنے میں بیچا ملک کو، یہ ۔۔۔۔ ان کی تو۔۔۔۔''
جو لوگ 2010کی سیریز کے دوران انگلینڈ گئے تھے وہ یہ طعنے بھولے نہیں ہوں گے، وہاں پاکستان جیسا ماحول نہیں کہ ٹیم کے آتے وقت سڑکیں بلاک کر دیں یا کھلاڑیوں اور شائقین کے درمیان بڑے بڑے جنگلے لگے ہوں، میچ یا پریکٹس کے موقع پر آمنا سامنا ہو ہی جاتا ہے، لارڈز ٹیسٹ میں اسپاٹ فکسنگ کے بعد پاکستانی ٹیم کو برطانیہ میں مقیم ہم وطنوں کی جانب سے ایسے القابات حتیٰ کہ گالیاں تک سننا پڑی تھیں، وہ بیچارے اپنی فرسٹریشن کھلاڑیوں پر نکال رہے تھے کیونکہ ان کے تین کرپٹ ساتھیوں نے پوری کمیونٹی کو '' بے ایمان '' کا لقب دلا دیا تھا، گورے اور بھارتی ان کا خوب مذاق اڑاتے تھے،کہتے ہیں کہ وقت بڑے بڑے زخم بھر دیتا ہے البتہ داغ نہیں جاتے، فکسنگ اسکینڈل ہماری کرکٹ کے چہرے پر ایسی ہی ایک بڑی چوٹ کا بدنما داغ ہے جو شاید اب کبھی نہیں جائے گا، ایک بار پھر مکمل سیریز کیلیے انگلینڈ روانگی قریب آتے ہی ڈر ہے کہ فکسنگ کا زخم کہیں پھرہرا نہ ہوجائے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے ان سے کس قدر سبق سیکھا، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بالکل نہیں، ''شادی شدہ بچے'' عامر کیلیے سوشل میڈیا میں بہت بڑی مہم چلائی گئی۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیںکہ اس کیلیے سرمایہ ان کے ''چاہنے والوں'' نے دیا، عوام کے سامنے انھیں مظلوم بنا کر پیش کیا گیا کہ اس معصوم نے کچھ نہیں کیا سلمان بٹ اور آصف نے پاؤں کھینچ کر کریز سے آگے کرا دیا تو نوبال ہو گئی، اس کیلیے شاید غیرمرئی قوتوں کا سہارا لیا گیا تھا، بورڈ نے جتنا ان کی جلد واپسی کیلیے زور لگایا اگر دیگر کام بھی ویسی ہی تندہی سے کرتا تو کرکٹ کا یہ حال نہ ہوتا،سزا کاٹنے کے بعد عامر ٹیم میں واپس تو آ گئے اب ذرا یہ بتائیں کہ کتنے میچز جتوا دیے ہیں اور اگر جتوا بھی دیے تو کیا اس سے اسپاٹ فکسنگ کی تلافی ہوجائے گی؟ افسوس اس بات کا ہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق عامر کی ٹیسٹ میں واپسی پر پہلی نوبال کی شرطیں لگائی جا رہی ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کی طرح ٹیسٹ میں بھی ایسا ہی ہوگا، ان کی ساکھ ختم ہو چکی لیکن عقل ٹھکانے نہیں آئی،یہی وجہ ہے کہ ساتھی کھلاڑی دور دور ہی رہتے ہیں۔
ابھی چند روز قبل کی ہی بات ہے کاکول میں کیمپ کے دوران ٹرینر نے ان سے کھانے کے معیارکا پوچھ لیا تو اس بیچارے کو گالیاں سنا دیں کہ بورڈ نے کہاں لاکر چھوڑ دیا ہے ڈھنگ کا کھانا بھی نہیں مل رہا، جب واقعہ سینئر کرکٹرز تک پہنچا تو یونس خان نے عامر کو خوب ڈانٹا کہ اب تو سدھر جاؤ، مجھ پر یقین نہیں تو پی سی بی کے کسی اعلیٰ آفیشل سے پوچھ لیں یہ واقعہ سب کے علم میں ہے،پیسر کو اب سنبھل جانا چاہیے، چیئرمین کئی بار انھیں رویہ ٹھیک کرنے کا کہہ چکے اور وہ خود ساختہ عوامی سپورٹ کے بل بوتے پر کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے۔
حکام بھی انھیں بگڑے ہوئے لاڈلے بیٹے کی طرح ٹریٹ کر رہے ہیں جس کا دیگر کھلاڑیوں کو بھی غصہ ہے،حفیظ اور اظہر کو توڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا اگر یونس جیسا کوئی پلیئر دوبارہ عامر سے ناراض ہوا تو کیا ہو گا یہ سوچ لینا چاہیے، ویسے بھی انگلش میڈیا ٹیم کا استقبال کرنے کیلیے تلواریں تیز کر رہا ہے، پی سی بی نے بھی اس سے نمٹنے کیلیے مضحکہ خیزفیصلہ کیاکہ غیرملکی میڈیا منیجرز کو ٹیم کے ساتھ رکھا جائے، کبھی آپ نے سنا کہ انگلینڈ کی ٹیم بھارت آئی تو ہندی بولنے والے کسی لوکل کا تقرر کیا، یقیناً ایسا نہیں ہوا مگر ہمارے اعلیٰ حکام خودکے علاوہ منظور نظر افراد پر ہی بھروسہ کرتے ہیں،غیرملکی اتنا اچھا ہے تو چلیں چیئرمین بھی کوئی باہر سے بلا کر دیکھ لیتے ہیں مگر ایسا کوئی نہیں کرے گا، بورڈ کے دو بڑوں میں انا کی جنگ کا بعض ملازمین کو فائدہ ہوگیا، شہریارخان،آغا اکبر کو بھیجنے پر زور دے رہے ہیںکیونکہ انھیں جی ایم میڈیا کی پوسٹ سے ہٹانے کے بعد تنخواہ اور مراعات برقرار رکھنے کی کوئی توتوجیہ دینی ہے۔
بعض لوگ حیران ہوں گے کہ آغا اکبر تو نجم سیٹھی کی گڈبکس میں نہیں تو کیسے اعتراض نہیں کیا تو ان کو بتاتا چلوں کہ گذشتہ دنوں دونوں کی ملاقات ہو چکی جس کے ''ثمرات''بھی دکھائی دیے، اس کیلیے کراچی میں موجود ایک آفیشل کم پی آر ماہر کی خدمات حاصل کی گئیں ،امجد بھٹی،رضا راشد اور سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ کے عون رضوی بھی انگلینڈ جائیں گے، ویسے آپس کی بات ہے برطانوی میڈیا اسکینڈلز کی تلاش میں رہتا ہے اسے قابو کرنے کیلیے بورڈ کو ہی چند دیگر سخت اقدامات کرنے ہوں گے، انگلینڈ میں صحافی کے روپ میں بھی بعض لوگ کھلاڑیوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں، وہ انٹرویوز کے عوض تھوڑی بہت رقم اور چھوٹے موٹے کنٹریکٹ کرا کے پلیئرز کی قربت حاصل کر لیتے ہیں، انھیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہو گی، بورڈ اپنی موبائل سم دے کر سمجھتا ہے کہ ہمارا کام مکمل ہو گیا، حالانکہ اب واٹس ایپ،ایمو،وائبر و دیگر سافٹ ویئرز کا دور ہے۔
اس کیلیے تو موبائل سم کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، بعض کھلاڑی غیرملکی سمز بھی استعمال کرتے ہیں، ایک اکیلا سیکیورٹی منیجر انھیں کیسے پکڑے گا،کھانا کھلانے کیلیے لے جانا والا بکی یا دوست ہے کیسے جانیں گے؟ مظہر مجید نے بھی تو ایسے ہی گھیرا تھا، حکام کو ایسے واقعات سے نمٹنے کا سوچنا چاہیے، ورنہ پھر کوئی اسکینڈل منتظر ہو گا۔جاتے جاتے اب کچھ بورڈ کے دیگر مسائل کا بھی ذکر کرلیں، جون آ گیا لہٰذا بغیر کام کے تنخواہیں لینے والے ملازمین میں اب بار پھر کھلبلی مچ گئی ہے، ان کے چاہنے والوں نے سفارشوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا،اچھی بات یہ ہے کہ اب حکام نے بھی شاید سبق سیکھ لیا اور ایسے بعض افراد کو فارغ کرنے کا ذہن بنا لیا ہے، مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اب پی سی بی پر بوجھ بعض آفیشلز سے پیچھا چھڑا لینا ہی بہتر ہوگا، ورنہ ایسے ہی رقم لٹاتے رہے تو قارون کا خزانہ بھی ایک دن ختم ہوسکتا ہے۔