جب کرکٹ چھکوں کا کھیل نہ تھا

ایک وقت ایسا بھی تھا، جب کسی ٹیسٹ میچ میں چھکا لگنا غیرمعمولی واقعہ سمجھا جاتا۔


Hassaan Khalid June 11, 2016
ایک وقت ایسا بھی تھا، جب کسی ٹیسٹ میچ میں چھکا لگنا غیرمعمولی واقعہ سمجھا جاتا۔ فوٹو: فائل

لاہور: موجودہ دور کے شائقینِ کرکٹ شاید اس بات کا یقین نہ کریں، لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا، جب کسی ٹیسٹ میچ میں چھکا لگنا غیرمعمولی واقعہ سمجھا جاتا۔ پھر یہ کارنامہ موضوع بحث بن جاتا۔ اگلے دن کے اخبار میں یہ معرکہ انجام دینے والے بلے باز کی تصویر چھپتی اور ایک عرصے تک ملک بھر میں بچے اس شاٹ کی اپنے اپنے انداز میں نقالی کرتے ۔

1973ء میں ہندوستان اور انگلینڈ کے مابین آخری ٹیسٹ میں بھارتی بلے باز،وشواناتھ نے کرس اولڈ کی گیند پر ایک چھکا لگایا تھا۔ اخبار کی خبر کے مطابق زوردار چھکے کے نتیجے میں بال اسٹیڈیم سے ملحقہ ایک تالاب میں جا گری۔ مضبوط کلائیوں اور زوردار شاٹس کے باوجود کسی کو چھوٹے قد کے وشواناتھ سے اونچی شاٹ کھیلنے کی توقع نہ تھی، چہ جائیکہ بال اسٹیڈیم سے ہی باہر چلی جائے۔ حیرت اور خوشی کی جس لہر نے اس وقت ہندوستانی شائقین کرکٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس کی ہلکی سی یاد ابھی تک میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ اگرچہ وشواناتھ نے آگے چل کر 155ٹیسٹ اننگز میں چھ ہزار سے زیادہ رنز بنائے، وہ اس دوران صرف چھ چھکے ہی لگا سکے۔

اس دور میں، خاص طور پر ٹیسٹ میچ میں، چھکا لگانا بہت بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔ بائونڈری ہمیشہ پورے 75 گز دور ہوتی۔ اور اس دور کے بلے آج کے سپرنگوں والے مضبوط بلوں کے کمزور کزن تھے۔ کوئی بھی شاٹ جسے اچھی طرح سے نہ کھیلا گیا ہو، وہ فضا میں بلند ہو کر میدان میں ہی گر جاتی، یا پھر کوئی فیلڈر کیچ تھام لیتا۔ کوچ ہمیشہ کھلاڑیوں کو گرائونڈ شاٹ کھیلنے کی اہمیت باور کراتے۔ پریکٹس کے آخر میں کچھ دیر کے لیے اونچی شاٹس کھیلنے کی اجازت دی جاتی۔ دوسری ٹیموں کے بلے بازوں کے مقابلے میں بھارتی کھلاڑی کم چھکے لگاتے، کیونکہ ان کی کلائیوں سے کھیلے جانے والے اسٹروکس کی بدولت زیادہ تر چوکے ہی لگتے۔

سلیم درانی جب وہ موڈ میں ہوتے، یا منصور علی خان پٹودی جیسے نام البتہ استثنائی مثالیں ہیں۔ مزید برآں جہاں آخری نمبروں پر کھیلنے والے بھارتی کھلاڑی ڈرپوک بلے باز تھے، وہاں دوسری ٹیموں کے سخت جاں فاسٹ بائولر بھارتی اسپنرز یا میڈیم گیند بازوں کو ایک دو چھکے پھڑکا ہی دیا کرتے۔ حتی کہ وہ بھارتی بلے باز جو فرسٹ کلاس کرکٹ میں دھواں دھار شاٹس کھیلنے کے لیے مشہور تھے، وہ بھی ٹیسٹ میچوں میں اس طرح کی کارکردگی نہ دکھا سکے۔

میرے لڑکپن میں دلیپ وینگسارکر طوفانی انداز میں قومی منظرنامے پر نمودار ہوئے جب انہوں نے 1975ء کی رانجی ٹرافی میں بمبئی کے لیے سنچری بنائی تھی۔ انہوں نے بشن بیدی اور اراپالی پرسنا جیسے گیندبازوں کو اننگز میں آٹھ چھکے لگائے تھے۔ لیکن 185اننگز پر مشتمل اپنے طویل ٹیسٹ کریئر میں وہ صرف 17چھکے لگا سکے۔ سنیل گواسکر اپنے کریئر کے آغاز میں ہک شاٹ کھیلنا پسند کرتے تھے، لیکن جلد ہی خطرناک ہونے کی وجہ سے انہوں نے یہ شاٹ کھیلنا ترک کر دی۔ یوں اوپننگ بلے باز کی حیثیت سے انہوں نے چھکے لگانے کے اپنے امکانات کو کافی حد تک کم کر لیا۔ روی شاستری، جنہیں فرسٹ کلاس کرکٹ میں گیری سوبرز کے بعد ایک اوور میں چھ چھکے لگانے کا اعزاز حاصل ہے، وہ بھی ٹیسٹ میں زیادہ تر سنگل ڈبل لینے والے کھلاڑی تھے۔

کچھ چھکے ایسے ہیں جو میرے عہد کے بھارتی شائقین کرکٹ کی یادداشت پر اچھی طرح نقش ہیں۔ 1974ء میں لارڈز کے میدان پر بھارت کی ساری ٹیم 42 کے اسکور پر ڈھیر ہوگئی۔تاہم ایکناتھ سولکر 18رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے، جس میں ایک چھکا بھی شامل تھا۔ میرے خیال میں شاید ہی کوئی دوسری ٹیسٹ اننگز ایسی ہو، جس میں صرف ایک اسٹروک سے بننے والا اسکور پوری اننگز کے رنز کا ساتواں حصہ ہو۔

اسی سال کے آخر میں کلائیو لائیڈ کی زیرقیادت ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے ہندوستان کا دورہ کیا جس میں رے فریڈرکس، گورڈن گرینج، کالی چرن اور ویوین رچررڈز جیسے بلے باز شامل تھے۔ ویسٹ انڈیز نے سیریز میں چھکوں کی برسات کر دی، لیکن ایک چھکا جو مجھے یاد ہے، وہ بھارتی کپتان پٹودی کے کریئر کا آخری چھکا تھا۔ سیریز کے آغاز میں ہی یہ افسوس ناک حقیقت عیاں ہو گئی تھی کہ پٹودی کے کریئر کا اختتام قریب آ چکا۔ وہ اینڈی رابرٹ کی تیزرفتار گیندوں کو کھیل نہیں پا رہے تھے، اور کبھی یہ گمان ہوتا کہ شاید بال انہیں نظر ہی نہیں آئی۔ کلکتہ میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں پٹودی آٹھ رنز بنا کر آئوٹ ہوئے۔ لیکن آئوٹ ہونے سے پہلے انہوں نے اسپنر ولیٹ کی گیند کو آگے بڑھ کر بائولر کے سر سے اوپر چھ رنز کے لیے اچھال دیا۔ یہ اس پٹودی کی ہلکی سی جھلک تھی، جس طرح وہ کبھی ماضی میں کھیلتے تھے۔

اب ذرا بھارتی شائقین کرکٹ کے لیے دو سب سے زیادہ تکلیف دہ چھکوں کا ذکر ہو جائے۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب 23 برس کے وقفے کے بعد بھارت اور پاکستان کے کرکٹ تعلقات بحال ہوئے، اور 1978ء میں بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ بہت زیادہ توقعات اور ناقابل برداشت دبائو میں ہونے والی یہ سیریز جارج اورویل کے اس جملے کی یاد دلاتی ہے: ''کھیل ایک ایسی جنگ ہے جس میں بس گولیاں نہیں چلتیں۔'' تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا مقابلہ ڈرا ہو گیا۔ لاہور میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ کے آخری دن پاکستان نے 126رنز کا ہدف محض دو وکٹوں کے نقصان پر 21ویں اوور میں حاصل کر لیا، جب دن کی روشنی ختم ہو رہی تھی۔ کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میں ہندوستان نے محتاط انداز میں بیٹنگ کی۔ گواسکر نے دونوں اننگز میں سنچریاں بنا کر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

ٹیسٹ کی آخری شام پاکستان کو 164رنز کا مشکل ہدف ملا، جبکہ تقریباً 26 اوورز کرنے کا وقت باقی تھا۔ ہدف کے تعاقب میں جاوید میانداد اور آصف اقبال وکٹوں کے درمیان خوب دوڑے، جس نے ہندوستانی فیلڈرز کو بھی بھگائے رکھا۔ لیکن جب 118 کے مجموعی اسکور پر آصف اقبال آئوٹ ہوئے، افق پر سورج غروب ہونے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان پوری کوشش کے باوجود منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا۔ ایسے میں عمران خان میدان میں اترے، جنہیں ظہیر عباس اور مشتاق محمد جیسے بلے بازوں سے پہلے بھیجا گیا تھا۔

انہوں نے جاوید میانداد کے ساتھ مل کر سکون سے پاکستان کو ہدف کے قریب پہنچا دیا۔ میں اپنے ہاسٹل کے ٹی وی ہال میں یہ میچ براہ راست دیکھ رہا تھا، جو طلبہ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جب عمران خان، بیدی کو کھیلنے کے لیے تیار ہو رہے تھے، وقت تھوڑا تھا جبکہ اسکور زیادہ درکار تھے۔ ہم نے خطرہ محسوس کیا پھر بھی بہترین نتیجے کی امید لگائے بیٹھے رہے۔ 37 برس قبل کی مجھے بیدی کی وہ دو گیندیں یاد ہیں، جو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اوپر سے گھما کر پھینکیں، اور جن پر دو اونچی سیدھی شاٹس کھیلی گئیں یعنی دو بلند و بالا چھکے۔ میچ ختم ہو چکا تھا، اور سرحد کے اس پار کروڑوں دل ٹوٹ چکے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔