دوہرا میعار

میں بھی تو جوان ہوں، میں بھی غلطی کرسکتی ہوں۔ اگر بھائی کی غلطی نظر انداز کی جا سکتی ہے تو میری کیوں نہیں؟


محمد عبد اللہ June 11, 2016
تم بھی تو اسی ہوٹل میں تھے، تم وہاں کیا کرنے آئے تھے؟ اپنے نام کے ساتھ ذلیل مرد کیوں نہیں لگاتے؟ اپنی اتنی تذلیل ہوتی دیکھ کر وہ بھی خاموش نہ رہ سکی اور چلا اٹھی۔

KARACHI: تابش ٹیلی ویژن پر فلم دیکھ رہا تھا جب وقفے کے دوران اس نے ایک موبائل نیٹ ورک کمپنی کا اشتہار دیکھا جس میں 'صرف چند سو روپوں میں تمام نمبرز پر پورا مہینہ لاتعداد کالز' کی لالچ دی جارہی تھی۔ اس نے فون اٹھایا اور مطلوبہ نمبر پر پیکج کا کوڈ بھیج دیا، تھوڑی دیر میں ہی کمپنی کی طرف سے پیکج ایکٹیو ہونے کا جوابی میسیج موصول ہوچکا تھا۔

اس نے چند انجان نمبرز پر کالز کیں اور کچھ ہی دیر میں ایک نمبر سے نسوانی آواز ابھری ''ہیلو''، تھوڑی دیر جواب کا انتظار کرنے کے بعد پھر سے ''ہیلو'' کی آواز آئی۔

اب کی بار تابش نے بھی جواب میں ''ہیلو'' کہا۔

جی، کون؟ نسوانی آواز نے پوچھا۔

میں، تابش، اس نے تھوڑے وقفے سے کہا۔

فرمائیے، کس سلسلے میں فون کیا ہے آپ نے؟ دوسری طرف سے جواب آیا۔

آپ سے بات کرنی کیلئے فون کیا ہے۔

کیا میں آپکو جانتی ہوں؟

بات کریں گی تو وقت کے ساتھ جان جائیں گیں، تابش نے معنی خیز انداز میں کہا۔

بدتمیز، بدتہذیب ۔۔۔ خبردار! جو آئندہ کبھی فون کرنے کی کوشش بھی کی، پولیس میں شکایت کردوں گی۔ یہ کہتے ہی اس نے کال کاٹ دی۔

اونہہ، زیادہ ہی شرافت کا دورہ پڑا ہوتا ہے کچھ لوگوں کو، پتا نہیں کس دور میں جیتے ہیں۔ تابش نے ایک اور نمبر پر کال کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہا۔

کچھ دن لگاتار مختلف نمبرز پر کالز کرنے کے بعد آخر تابش نے ایک لڑکی کو بات کرنے کیلئے قائل کر ہی لیا۔ کچھ عرصہ گزرنے پر وہ اس لڑکی کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا۔ ایک دن اس نے لڑکی سے اظہار محبت کردیا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ کچھ تردد کے بعد لڑکی نے بھی ملنے کی حامی بھر لی۔

ملاقاتوں کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلتا رہا، تابش نے اس لڑکی کو پوری طرح اپنے جال میں جکڑ لیا تھا۔ اسے شادی کا جھانسہ دے کروہ کئی بار اس کی عزت سے بھی کھیل چکا تھا اور اب اس سے اکتا چکا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے دوست سے اس بات کا ذکر کیا اور اپنے دوست کو اس لڑکی کی کچھ نازیبا تصاویر بھی دکھائیں جو کہ اعتبار کے جال میں پھنسا کر حاصل کی گئی تھیں۔ وہ ایک خوبصورت اور جوان لڑکی تھی اور اسکی تصاویر دیکھ کر تابش کے دوست نے تابش سے فرمائش کی کہ وہ بھی اس لڑکی تک رسائی چاہتا ہے۔ تابش کو اس لڑکی میں ویسے ہی دلچسپی نہ رہی تھی اور پھر دوستی بھی تو نبھانی تھی اس لئے اُس نے حامی بھر لی۔ سارا پلان مکمل کرتے کرتے اس میں تین لوگ شامل ہوچکے تھے۔

تابش نے اس لڑکی کو اپنے ایک دوست کے خالی پڑے مکان میں ملاقات کیلئے بلایا اور ساتھ ہی اپنے دوستوں کو بھی بلا لیا۔ جب تابش اس لڑکی کو لے کر اس مکان میں داخل ہوا تو اس کے دوست پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔ لڑکی انہیں دیکھ کر گھبرا گئی اور تابش سے یہاں سے چلنے کا کہنے لگی۔

یہ میرے دوست ہیں اور آج سے تمہارے بھی دوست ہیں۔ جو تعلق تمہارا میرے ساتھ تھا آج سے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی تعلق ہوگا اور اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو تمہاری تمام تصاویر انٹرنیٹ پر ڈال دوں گا۔ مجھے یقین ہے تم سمجھداری سے فیصلہ کرو گی۔ یہ کہتے ہوئے تابش نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے دوستوں کی طرف دیکھا جن کے چہروں پر حیوانیت ناچ رہی تھی۔

لڑکی نے تابش کی بہت منّت سماجت کی، اسے اس پیار کے واسطے دیے جو تابش کو کبھی اس سے تھا ہی نہیں۔ لڑکی بہت روئی، گڑگڑائی مگر سب بےسود کیونکہ دستوں کے سامنے تابش کی عزت کا سوال جو تھا اور اب وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور جاتے جاتے دروازہ باہر سے لاک کرگیا۔

اگلی صبح شہر میں ایک مشہور گرلز کالج کے باہر پولیس، میڈیا اور لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ ایک لڑکی نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر کالج کی عمارت سے کود کر خودکشی کرلی تھی۔ لوگوں کیلئے وجوہات نامعلوم تھیں لیکن اسی شہر میں چار لوگ ایسے بھی تھے جو وجوہات جانتے تھے۔

آج تابش آفس سے جلدی نکل آیا تھا، اسے یونیورسٹی سے اپنی نئی دوست کو لینا تھا۔ جب وہ یونیورسٹی کے باہر پہنچا تو وہ پہلے سے ہی اسکا انتظار کر رہی تھی۔

بہت دیر کردی تم نے، میں کب سے یہاں کھڑی تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ وہ لڑکی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولی۔

آفس میں کام بہت تھا، نکلتے نکلتے وقت لگ گیا، تابش نے جواب دیا۔

چلو پہلے کھانا کھانے چلتے ہیں، بہت بھوک لگی ہے، لڑکی نے کہا۔

کھانا کھانے چلے گئے تو بہت وقت لگ جائے گا اور تمہیں گھر جانے میں دیر ہو جائے گی۔

نہیں، تم اس بات کی فکر نہیں کرو، مممی پاپا دونوں اپنی ایکٹیویٹیز میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہماری خبر رکھیں، پھر بھی کچھ پوچھا تو کہہ دوں گی آج اضافی لیکچر تھا، وہ بیزاری سے بولی۔

ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ سے کھانا کھا کر دونوں نکلے تو تابش نے گاڑی اپنے ایک جانے پہچانے راستے پر موڑ دی۔ اس کے لئے یہ سب نیا نہیں تھا، وہ شہرکے بہت سے ایسے ہوٹلز کے بارے میں جانتا تھا جو کے شرفاء کیلئے غیر معروف تھے۔ ایسے ہی ایک ہوٹل کے سامنے گاڑی پارک کرکے وہ دونوں اندر چلے گئے۔ کمرہ وہ پہلے سے ریزرو کروا چکا تھا۔

جب وہ چیک آؤٹ کرنے کیلئے کاؤنٹر پر آیا تو سورج اپنے ڈھلنے کا سفر شروع کرچکا تھا۔ وہ کاؤنٹر چھوڑ کر مڑنے ہی والا تھا کہ ایک اور جوڑا اپنے کمرے سے نکل کر چیک آوٹ کرنے کے لئے اس طرف آیا۔

میں نے گھر کہہ دیا ہے کہ ہر ویک اینڈ یونیورسٹی میں اضافی لیکچرز ہوا کریں گے، اب ہم ہر ویک اینڈ پر مل سکیں گے۔ اس شخص کے ساتھ آئی لڑکی پر مسرت لہجے میں اسے بتا رہی تھی۔

تابش نے یہ سنا تو اس کے ذہن میں کچھ دیر پہلے بتایا گیا ایک فقرہ گونجا ''پھر بھی کچھ پوچھا تو کہہ دوں گی آج اضافی لیکچر تھا'' اور اس کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے گردن گھما کر اس لڑکی کی طرف دیکھا مگر جیسے ہی اسکی نگاہ اس لڑکی پر پڑی اسکے چہرے کی مسکراہٹ وحشت کے نقوش میں بدل گئی۔

سکینہ! تابش زور سے چلایا۔

بھائی آپ، اس لڑکی کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑگیا۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ اور بول پاتی ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر اپنے نشان چھوڑ چکا تھا۔

سکینہ کے ساتھ آئے لڑکے کو جیسے ہی صورت حال کا اندازہ ہوا وہ تیزی سے وہاں سے بھگ نکلا، ہوٹل کے اسٹاف ممبرز کو جمع ہوتا دیکھ تابش بھی سکینہ کو گھسیٹتا ہوا گاڑی تک لے آیا۔ وہ چپ چاپ تابش کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی اور گھر پہنچنے تک دونوں نے کوئی بات نہیں کی۔

تو یہ تھا تمہارا اضافی لیکچر؟ تم نے ہماری عزت خاک میں ملا دی۔ تابش اس پر چلا رہا تھا۔

یہ بدلہ دیا تم نے ہمارے اعتبار کا، کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا، اپنے ساتھ ساتھ ہمارے چہروں پر بھی کالک مل دی۔ اسکا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا۔

وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے، ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ سکینہ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔

بےشرم، بے حیا، بدکردار، ذلیل عورت، تیری اتنی جرات بھی کیسے ہوئی کہ تو یہ بول سکے، یہ کہتے ہی تابش نے اس پر لاتوں اور مکوں کی برسات کردی.

تم بھی تو اسی ہوٹل میں تھے، تم وہاں کیا کرنے آئے تھے؟ اپنے نام کے ساتھ ذلیل مرد کیوں نہیں لگاتے؟ اپنی اتنی تذلیل ہوتی دیکھ کر وہ بھی خاموش نہ رہ سکی اور چلا اٹھی۔

تیرا اور اسکا کیا مقابلہ؟ وہ لڑکا ہے اور لڑکوں سے جوانی میں ایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ اس سے نہ معاشرے میں انکی عزت پر کوئی حرف آتا ہے اورنہ انکے خاندان کو لوگوں کی لعن طعن برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اب کی بار ان کی ماں نے بحث میں حصہ لیا تھا۔

میں بھی تو جوان ہوں، میں بھی غلطی کرسکتی ہوں۔ اگر بھائی کی غلطی نظر انداز کی جا سکتی ہے تو میری کیوں نہیں؟ وہ اپنی ماں کی دلیل پر حیران ہوتے ہوئے بولی۔

تیرے جیسی بیٹیوں کو تو پیدا ہوتے ہی دفنا دینا چاہیے۔ بےغیرت، ہماری عزت کا جنازہ نکل کر بھی ڈھٹائی سے بحث کر رہی ہے۔ اب سکینہ کو پیٹنے میں اسکی ماں بھی شامل ہوچکی تھی۔

وہ لڑکی بھی تو کسی کی عزت تھی جسے بھائی لے کر آیا تھا۔ اگر میرے اس فعل سے آپکی عزت خراب ہوئی تو بھائی بھی تو وہاں کسی کی عزت خراب کر رہا تھا، پھر میں ہی مجرم کیوں؟ اسے کیوں سزا نہیں ملتی؟ سکینہ نے اپنے آپ کو تھپڑوں سے بچانے کی بے سود کوشش کرتے ہوئے کہا۔

اسکی پڑھائی لکھائی بالکل بند، نہ یہ کہیں جائے گی اور نہ اسے کوئی ملنے آئے گا۔ اسکا موبائل بھی چھین لو۔ تابش اپنی ماں کو ہدایت کرتے ہوئے بولا۔

تم لوگ جو مرضی کرلو، میں اس سے پیار کرتی ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گی۔

اور ہم جیسے یہ سب ہونے دیں گے، تابش درشتگی سے بولا۔

تم لوگ مجھے نہیں روک سکتے۔ مجھے اگر اس سے کورٹ میرج بھی کرنا پڑی تو بھی اسی سے شادی کروں گی۔ وہ جسم میں اٹھنے والی درد کی لہروں کو برداشت کرتے ہوئے بولی۔

یہ لڑکی تو ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ یہ تو ہماری عزت نیلام کردے گی۔ اسکی ماں کے لہجے میں پریشانی کا عنصر نمایاں تھا۔

نہیں، یہ ایسا کچھ نہیں کرے گی، میں اسے ایسا کچھ نہیں کرنے دوں گا جس سے ہماری عزت پر حرف آئے۔ میں اسے یہ سب کرنے کیلئے زندہ ہی نہیں چھوڑوں گا۔ تابش نے آگے بڑھ کر اسکا گلا اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑتے ہوئے کہا۔

میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ میں اسے اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کا تماشا لگانے دوں۔ اسے اپنی غلطی کی سزا اپنی زندگی کے ساتھ چکانی پڑے گی۔ وہ اسکی گردن پر لپٹے اپنے ہاتھوں کی گرفت اور مضبوط کرتے ہوئے ہیجانی انداز میں چیخا۔

اسکی ماں نے اپنا رخ دوسری طرف پھیر لیا۔ عزت کے کھو جانے کا خوف ممتا پر بھاری پڑا تھا۔

سکینہ نے خود کو تابش کے آہنی ہاتھوں سے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر وہ تابش کی طاقت کا مقابلہ نہ کرسکی اور کچھ ہی دیر میں اسکا بے جان بدن ڈھیلا پڑگیا۔

سکینہ کے مردہ جسم کی ادھ کھلی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا، جرم تو ہمارا ایک ہی تھا پھر صرف حوا کی بیٹی ہی سزا کی مستحق کیوں؟ آدم کا بیٹا عزت کا حقدار کیوں؟ آخر یہ دوہرا میعار کیوں؟؟؟

[poll id="1142"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |