سندھ کا 8 کھرب 69 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ
صوبائی حکومت نے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں 15 فیصد اضافہ کردیا۔
حکومت سندھ نے مالی سال 17-2016 کے لئے 8 کھرب 69 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کردیا جس میں سرکاری ملازمین اور تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے مالی سال 17-2016 کے لئے 869 ارب 11 کروڑ 77 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کیا۔ صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سالانہ ترقیاتی بجٹ میں 39 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، ترقیاتی بجٹ میں 50 ارب روپے اضافے کے بعد مجموعی طور 265 ارب 98 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جب کہ بجٹ خسارے کا تخمینہ 14 ارب 61 کروڑ 74 لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے لئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 157 ارب روپے ہے جب کہ ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 166 ارب 3 کروڑ 29 لاکھ لگایا گیا ہے جس میں سے 154 ارب 1 کروڑ 30 لاکھ روپے حاصل ہونے کی توقع ہے، خدمات پر سیلز ٹیکس 14 فیصد سے کم کر کے 13 فیصد کر دیا گیا ہے جب کہ کاسمیٹکس اور پلاسٹک سرجری کے شعبے میں 13 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بجٹ میں نئے شعبوں کو سیلز ٹیکس میں شامل کرنے کے لیے اسٹمپ ڈیوٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے جب کہ نان ٹیکس وصولی کی مد میں 12 ارب 1 کروڑ 99 لاکھ روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے بجٹ کا 28 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا ہے جس میں 160 ارب رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جن میں سے اسکولوں کے لئے 4 ارب 68 کروڑ روپے جب کہ اسکول اور کالجز کی مرمت کے لئے 5 ارب 4 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ صحت کے لیے 14 فیصد اضافے کے ساتھ 65 ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے اسپتالوں کی اپ گریڈیشن کی مد میں 44 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کراچی کے لئے 10 ارب روپے کا خصوصی پیکج رکھا گیا ہے جب کہ پانی کے منصوبے کے فور کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، اس کے علاوہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے بجٹ میں 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سڑکوں کی مرمت کے لئے 4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جب کہ محکمہ زراعت کے لئے 6 ارب 70 کروڑ روپے، محکمہ آبپاشی کے لئے 18 ارب 70 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
صوبائی وزیرخزانہ نے ایوان کو بتایا کہ امسال 50 ہزار ملازمتیں فراہم کی جائیں گی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، بجٹ میں خواتین کی ترقی کے لئے مختص رقم میں 149 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اقلیتوں کی بہبود کے لئے 30 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
دوسری جانب بجٹ پیش ہونے كے دوران اپوزیشن كے اراكین كی ہنگامہ آرائی، شوشرابہ اور نعرے بازی جاری رہی جب کہ ایم کیوایم نے بجٹ کو عوام اور سندھ دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ کی بجٹ تقریر کے دوران متحدہ قومی موومنٹ كے سینئر رہنما محمد حسین نے متعدد بار ایوان میں بات كرنے كی كوشش لیكن اسپیكر نے انہیں یہ كہہ كر اجازت نہیں دی كہ آپ كے نقطہ كو بعد میں دیكھا جائے گا تاہم محمد حسین اس كے باوجود بولنے كی اجازت طلب كرتے رہے اور بعد ازاں بغیر مائیك كے انہوں نے تقریر شروع كی۔ انہوں نے كہا كہ كراچی میں لوگ پانی كے لیے مررہے ہیں اور پانی پر احتجاج كرنے والوں كے خلاف ایف آئی آر درج كی جارہی ہے جو زیادتی ہے، اس پر ایوان میں شیم شیم كی آوازیں بھی لگائی گئیں، اسپیكر محمد حسین كو روكتے رہے تاہم وہ مسلسل بولتے رہے۔
اس دوران ایم كیو ایم كے دیگر اركان بھی دھیمے انداز میں شیم شیم، نو كرپشن نوكے نعروں كے ساتھ ان كا ساتھ دیتے رہے، محمد حسین نے كئی منٹ تك بغیر مائیك اور اسپیكر كی اجازت كے بغیر اپنی تقریر جاری ركھی اور پھر خاموش ہوگئے۔ سینئر صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ كی بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی ایم كیو ایم كے اركان بجٹ دستاویز میں غلطیوں كی نشاندہی كرنا شروع كردی جب كہ نوكرپشن نو ،شیم شیم ،كرپشن فری سندھ كی آوازیں بھی لگاتے رہے۔
ایك موقع پر اپوزیشن كے احتجاج پر اسپیكر نے اركان كو مخاطب كرتے ہوئے كہا كہ یہ ایمپریس ماركیٹ نہیں سندھ اسمبلی ہے، خاموش ہوجائیں لیكن كسی نے ان كی بات نہیں سنی۔ مراد علی شاہ نے جب بجٹ میں كراچی كے منصوبوں كے لیے ركھی رقم اور منصوبوں كا ذكر كرنا شروع كیا تو اپوزیشن اركان نے جھوٹ جھوٹ كے نعرے لگائے جب كہ حكومتی اركان نے ڈیسك بجاكر وزیر خزانہ كو تحسین پیش كیا۔ ایك موقع پر جب ایوان میں مسلسل جھوٹ جھوٹ كے آوازیں آنے لگیں تو سینئر وزیر نے كہا كہ جھوٹ بولنے والا منہ كالا۔
بجٹ اجلاس کے بعد سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے بجٹ کو عوام اور سندھ دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا جب کہ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے كہ سندھ حكومت، وزرا اور افسران نااہل ہیں، نئے ٹیكسز قابل قبول نہیں، نئے ٹیكسز بیرون ملك اور اپنی عیاشی كے لیے لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ كراچی اور حیدر آباد كے لیے اسكیمیں اونٹ كے منہ میں ذیرے كے برابر ہیں ۔
خواجہ اظہار نے کہا کہ حكومت نے 869 ارب روپے كا بجٹ پیش كیا ہے لیكن ان میں اتنی قابلیت نہیں كہ وہ رقم كو خرچ كر سكے، سالانہ ترقیاتی اسكیموں میں 60 فیصد خرچ نہیں كیے گئے جو حكومت كی نااہلی كا ثبوت ہے اور اس میں مزید 40 فیصد كا اضافہ عوام سے مذاق ہے، اس كا مقصد یہ ہے ترقیاتی اسكیموں پر80 فیصد خرچ نہیں ہوگا۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے مالی سال 17-2016 کے لئے 869 ارب 11 کروڑ 77 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کیا۔ صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سالانہ ترقیاتی بجٹ میں 39 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، ترقیاتی بجٹ میں 50 ارب روپے اضافے کے بعد مجموعی طور 265 ارب 98 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جب کہ بجٹ خسارے کا تخمینہ 14 ارب 61 کروڑ 74 لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے لئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 157 ارب روپے ہے جب کہ ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 166 ارب 3 کروڑ 29 لاکھ لگایا گیا ہے جس میں سے 154 ارب 1 کروڑ 30 لاکھ روپے حاصل ہونے کی توقع ہے، خدمات پر سیلز ٹیکس 14 فیصد سے کم کر کے 13 فیصد کر دیا گیا ہے جب کہ کاسمیٹکس اور پلاسٹک سرجری کے شعبے میں 13 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بجٹ میں نئے شعبوں کو سیلز ٹیکس میں شامل کرنے کے لیے اسٹمپ ڈیوٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے جب کہ نان ٹیکس وصولی کی مد میں 12 ارب 1 کروڑ 99 لاکھ روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے بجٹ کا 28 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا ہے جس میں 160 ارب رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جن میں سے اسکولوں کے لئے 4 ارب 68 کروڑ روپے جب کہ اسکول اور کالجز کی مرمت کے لئے 5 ارب 4 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ صحت کے لیے 14 فیصد اضافے کے ساتھ 65 ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے اسپتالوں کی اپ گریڈیشن کی مد میں 44 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کراچی کے لئے 10 ارب روپے کا خصوصی پیکج رکھا گیا ہے جب کہ پانی کے منصوبے کے فور کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، اس کے علاوہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے بجٹ میں 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سڑکوں کی مرمت کے لئے 4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جب کہ محکمہ زراعت کے لئے 6 ارب 70 کروڑ روپے، محکمہ آبپاشی کے لئے 18 ارب 70 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
صوبائی وزیرخزانہ نے ایوان کو بتایا کہ امسال 50 ہزار ملازمتیں فراہم کی جائیں گی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، بجٹ میں خواتین کی ترقی کے لئے مختص رقم میں 149 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اقلیتوں کی بہبود کے لئے 30 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
دوسری جانب بجٹ پیش ہونے كے دوران اپوزیشن كے اراكین كی ہنگامہ آرائی، شوشرابہ اور نعرے بازی جاری رہی جب کہ ایم کیوایم نے بجٹ کو عوام اور سندھ دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ کی بجٹ تقریر کے دوران متحدہ قومی موومنٹ كے سینئر رہنما محمد حسین نے متعدد بار ایوان میں بات كرنے كی كوشش لیكن اسپیكر نے انہیں یہ كہہ كر اجازت نہیں دی كہ آپ كے نقطہ كو بعد میں دیكھا جائے گا تاہم محمد حسین اس كے باوجود بولنے كی اجازت طلب كرتے رہے اور بعد ازاں بغیر مائیك كے انہوں نے تقریر شروع كی۔ انہوں نے كہا كہ كراچی میں لوگ پانی كے لیے مررہے ہیں اور پانی پر احتجاج كرنے والوں كے خلاف ایف آئی آر درج كی جارہی ہے جو زیادتی ہے، اس پر ایوان میں شیم شیم كی آوازیں بھی لگائی گئیں، اسپیكر محمد حسین كو روكتے رہے تاہم وہ مسلسل بولتے رہے۔
اس دوران ایم كیو ایم كے دیگر اركان بھی دھیمے انداز میں شیم شیم، نو كرپشن نوكے نعروں كے ساتھ ان كا ساتھ دیتے رہے، محمد حسین نے كئی منٹ تك بغیر مائیك اور اسپیكر كی اجازت كے بغیر اپنی تقریر جاری ركھی اور پھر خاموش ہوگئے۔ سینئر صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ كی بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی ایم كیو ایم كے اركان بجٹ دستاویز میں غلطیوں كی نشاندہی كرنا شروع كردی جب كہ نوكرپشن نو ،شیم شیم ،كرپشن فری سندھ كی آوازیں بھی لگاتے رہے۔
ایك موقع پر اپوزیشن كے احتجاج پر اسپیكر نے اركان كو مخاطب كرتے ہوئے كہا كہ یہ ایمپریس ماركیٹ نہیں سندھ اسمبلی ہے، خاموش ہوجائیں لیكن كسی نے ان كی بات نہیں سنی۔ مراد علی شاہ نے جب بجٹ میں كراچی كے منصوبوں كے لیے ركھی رقم اور منصوبوں كا ذكر كرنا شروع كیا تو اپوزیشن اركان نے جھوٹ جھوٹ كے نعرے لگائے جب كہ حكومتی اركان نے ڈیسك بجاكر وزیر خزانہ كو تحسین پیش كیا۔ ایك موقع پر جب ایوان میں مسلسل جھوٹ جھوٹ كے آوازیں آنے لگیں تو سینئر وزیر نے كہا كہ جھوٹ بولنے والا منہ كالا۔
بجٹ اجلاس کے بعد سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے بجٹ کو عوام اور سندھ دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا جب کہ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے كہ سندھ حكومت، وزرا اور افسران نااہل ہیں، نئے ٹیكسز قابل قبول نہیں، نئے ٹیكسز بیرون ملك اور اپنی عیاشی كے لیے لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ كراچی اور حیدر آباد كے لیے اسكیمیں اونٹ كے منہ میں ذیرے كے برابر ہیں ۔
خواجہ اظہار نے کہا کہ حكومت نے 869 ارب روپے كا بجٹ پیش كیا ہے لیكن ان میں اتنی قابلیت نہیں كہ وہ رقم كو خرچ كر سكے، سالانہ ترقیاتی اسكیموں میں 60 فیصد خرچ نہیں كیے گئے جو حكومت كی نااہلی كا ثبوت ہے اور اس میں مزید 40 فیصد كا اضافہ عوام سے مذاق ہے، اس كا مقصد یہ ہے ترقیاتی اسكیموں پر80 فیصد خرچ نہیں ہوگا۔